۔ حضین بن منذر سے روایت ہے کہ ولید بن عقبہ نے لوگوں کو نماز فجر پڑھائی، جب وہ فارغ ہوا تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: کیا میں تم کو مزید نماز پڑھاؤں؟ یہ معاملہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کیا گیا، انھوںنے اس کو کوڑے مارنے کا حکم دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے کہااے حسن! کھڑے ہو جائو اور اس کو کوڑے مارو، انہوں نے کہا: آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم عاجز آ گئے ہو اور کمزور پڑ گئے ہو، پھر انھوں نے کہا: اے عبد اللہ بن جعفر! کھڑے ہو جاؤ اور اس کو کوڑے لگاؤ، پس سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اس کو کوڑے مارے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شمار کرنا شروع کر دیا۔ جب وہ چالیس تک پہنچ گئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رک جائو۔ پھر کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب پینے کی وجہ سے چالیس کوڑے لگائے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے پورے دور میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے شروع میں چالیس چالیس کوڑے لگائے، پھر سیدنا عمر نے شراب کی سزا اسی (۸۰) کوڑے پورے کر دیئے۔
۔ (دوسری سند) اہل کوفہ سے کچھ لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ولید کے بارے میں شراب پینے کی اطلاعات دیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے اس موضوع پر بات کی، انھوں نے کہا: تم خود اپنے چچے کے بیٹے کو پکڑو اور اس پر حدّ قائم کرو، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے حسن! کھڑے ہو جاؤ اور اس کو کوڑے لگاؤ، انھوں نے کہا: آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے، یہ معاملہ کسی اور کے سپرد کر دو، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: بلکہ تم کمزور پڑ گئے ہو اوربزدل ہو گئے ہو، …۔ پھر پہلی روایت کی طرح کی روایت بیان کی۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا، اس نے شراب پی ہوئی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے مارو۔ پھر ہم میں سے کسی نے اس کو اپنے ہاتھ سے مارا، کسی نے جوتے سے مارا اور کسی نے کپڑے سے مارا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے تو ایک آدمی نے کہا: اللہ تجھے رسوا کرے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس طرح نہ کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو، بلکہ تم یہ کہو : اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے۔
۔ سیدنا ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا،اس نے شراب پی ہوئی تھی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دو جوتوں سے مارتے ہوئے چالیس جوتے مارے۔
۔ (دوسری سند) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں دو جوتوں سے شراب کی حد لگاتے ہوئے چالیس جوتے مارے جاتے تھے، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانۂ خلافت تھا تو انھوں نے ہر جوتے کے عوض ایک کوڑا مارا۔
۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ٹہنیوں اور جوتوں سے شراب کی لگائی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھییہی حد لگائی،یحییٰ کی حدیث کے مطابق چالیس ضربیں لگائی جاتی تھیں، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت شروع ہوئی تو لوگ فتوحات کی کثرت سے خوش حال ہوئے تو شراب نوشی میں اضافہ ہوا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور کہا: اب اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ سب سے ہلکی حد مقرر کر دیں، پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شرابی کی حد اسی کوڑے مقرر کر دیئے۔
۔ (دوسری سند) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا، اس نے شراب پی ہوئی تھی، آپ نے اسے کھجور کی دو ٹہنیوں سے چالیس ضربیں لگائیں، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھییہی سنت جاری رکھی، لیکن جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انھوں نے لوگوں سے مشورہ کیا،سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ سب سے ہلکی حد اسی (۸۰) کوڑے ہے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شرابی کو اسی کوڑے لگانے کا حکم دے دیا۔
۔ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں شرابی کو لاتے اور اس کے قریب کھڑے ہو کر اس کو ہاتھوں، جوتوں اور کپڑوں سے مارتے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے شروع میںشرابی کی حد چالیس کوڑے کر دی گئی، لیکن جب شرابیوں نے سرکشی کی اور انھوں نے فسق اختیار کر لیا تو شرابی کی سزا اسی کوڑے کر دی گئی۔
۔ سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نعیمانیا ابن نعمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لایا گیا، وہ نشے میں مست تھے، یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گراں گزری، ایک روایت میں ہے: اس صورتحال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بڑی مشقت ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر میںموجود افراد کو حکم دیا کہ وہ اس کو ماریں، سیدنا عقبہ کہتے ہیں؟ میں بھی اس کو مارنے والوں میں تھا، ہم نے اس کو ہاتھوں اور کھجور کی ٹہنیوں سے مارا تھا۔
۔ سیدنا عبد الرحمن بن ازہر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مکہ والے دن دیکھا ، جبکہ میں نوخیز جوان تھا،آپ لوگوں کے بیچوں بیچ سے آ رہے تھے اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے گھر کے متعلق دریافت کر رہے تھے، اسی اثناء میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شرابی کو لایاگیا، آپ نے لوگوں کو حکم دیا اور ان کے ہاتھوں میں جو چیز بھی تھی، انھوں نے اس کو اس سے مارنا شروع کر دیا، کسی نے لاٹھی سے مارا اور کسی نے کوڑے سے مارا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر چلو بھر مٹی پھینکی۔
۔ (دوسری سند) سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ حنین والے دن لوگوں کے درمیان سے گزرتے آ رہے تھے اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے گھر کے بارے میں دریافت کر رہے تھے، اسی اثناء میں آپ کے پاس ایک شرابی لایا گیا،پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھ والے لوگوں کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے، وہ اس کے ساتھ اس کو ماریں۔
۔ ابو وداک سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اس وقت سے نبیذ نہیں پی، جب سے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی، وہ کہتے ہیں: ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لایا گیا، لوگوں نے بتایا کہ اس نے نشہ کر رکھا ہے، اس نے کہا: میں نے تو کدو کے برتن میں منقّی اور کھجور ڈال کر پی ہے، بہرحال جوتوں سے اس کی پٹائی کی گئی اور ہاتھوں سے اس کو دھکے دئیے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کدو والے برتن اور منقّی اور کھجور ملا کر پینے سے منع فرما دیا۔
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا س ایک نشہ میں مست آدمی لایا گیا، آپ نے اس پر حد لگائی اور اس سے پوچھا : تیری شراب کس چیز سے تیار کی گئی ہے؟ اس نے کہا: منقّی اور کھجور سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے ہر ایک چیز دوسری سے کفایت کرتی ہے۔
۔ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں کسی آدمی پر حد قائم کروں اور وہ مرجائے تو مجھے کوئی غم نہیں ہوگا، ما سوائے شراب کی حد لگاتے ہوئے، اگر کوئی اس حد کے دوران مر جائے گا تو میں اس کی دیت ادا کروں گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی حدّ کو متعین نہیں کیا۔