۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ـ: اولاد اسی شخص سے منسوب ہوگی, جس کے بستر پر پیدا ہوئی ہو۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: بچہ بستر والے کا ہو گا، جبکہ زانی کے لئے پتھر ہوں گے۔
۔
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس عبد بن زمعہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جھگڑا کیا، عبد بن زمعہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا بھائی ہے، کیونکہ یہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھائی نے جب میں مکہ میں آیا تھا تو کہا تھا کہ جب تو مکہ میں آئے تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھنا وہ میرا بیٹا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بچے کی مشابہت تو عتبہ کے ساتھ دیکھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبد! یہ تیرا بھائی ہے، بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے سودہ! اس سے پردہ کیا کرو۔
۔ آل زبیر کے مولی مجاہد بیان کرتے ہیں زمعہ کی بیٹی یعنی ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور میںنے کہا: میرے باپ زمعہ فوت ہو چکے اور ایک لونڈی ام ولد جس سے بچہ پیداہوا ہے، چھوڑ گئے ہیں، ہم اسے ایک آدمی (عتبہ بن ابی وقاص) کے ساتھ تہمت لگاتے تھے کہ اس نے اس سے زنا کیا ہے، اتفاق ایسا ہے کہ جو بچہ اس نے جنم دیا ہے، وہ اسی عتبہ کے مشابہ ہے، جس کے ساتھ ہم نے تہمت لگائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا: تم اس سے پردہ کیا کرو، وہ تیرا بھائی نہیں ہے، البتہ اسے وراثت ملے گی۔
۔ رباح کہتے ہیں: میرے گھر والوں نے ایک رومی لونڈی کے ساتھ میری شادی کر دی، اس سے ایک سیاہ رنگ کا لڑکا پیدا ہوا جو میری ہی مانند تھا، میں نے اس کا نام عبد اللہ رکھا۔ میں پھر اس سے ملا، اس نے میری مانند ہی ایک اور سیاہ فام لڑکا جنم دیا اس کا نام میں نے عبید اللہ رکھا، ہمارے گھروالوں کا ایک رومی غلام تھا، اس نے اسے ورغلایا، اس کا نام یوحنس تھا، اس غلام نے اس لونڈی سے منہ کالا کیا، اس لونڈی نے بچہ جنم دیا جس طرح کہ چھپکلی ہوتی ہے، یعنی سرخ سفید رنگ کاتھا، میں نے اس لونڈی سے کہا: یہ کیا ہے؟ اس نے صاف بتا دیا کہ یہ یوحنس کا ہے، معاملہ ہم نے امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب اٹھایا، مہدی بن میمون کہتے ہیں: ان دونوں نے اعتراف گناہ کیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمہارے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والا فیصلہ کروں؟ تو تم پسند کروں، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا ہے کہ بچہ بستر والے کے لیے ہے اور زانی کو پتھر ملے گا۔ مہدی کہتے ہیں یہ دونوں چونکہ غلام تھے ان دونوں کو کوڑے لگائے گئے۔
۔ (دوسری سند)رباح سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: انھوں نے وہ لڑکا میرے نسب کے ساتھ ملا دیا تھا اور ان دونوں کوکوڑے لگائے اور رباح کہتے ہیں: اس کے بعد اس لونڈی نے بچہ جنم دیا تھا، وہ بھی سیاہ رنگ کا تھا (جیسا کہ میرا رنگ تھا۔)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فیصلہ جاری فرمایا ہے کہ ایک لڑکا یا لڑکی جس کے نسب کو اس کے باپ کے ساتھ ملایا گیا ہو، جس کے نام پر اسے پکارا جاتا ہے اور ملایا گیا ہو، اس کے باپ کے مرنے کے بعد اور پھر اس مرنے والے باپ کے اس کے بعد اس لڑکے یا لڑکی کے دعویدار بھی ہوں کہ یہ اس کا ہے اور اس لونڈی کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا گیا کہ جس کا وہ اس دن مالک بنا ہو جس دن اس سے جماع کیا تھا اس اولاد کے نسب کو اس کے ساتھ ہی ملایا جائے گا، جس نے اس کے نسب ملانے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اس کے نسب کے ملانے سے پہلے جو اس کے باپ کی وراثت تقسیم ہو چکی ہو، اس میں سے اس ملائے گئے کو کچھ حصہ نہ ملا گا اور جو وارثت ابھی تقسیم نہیں ہوئی اس کو اگر پا لے تو اس میں سے اس ملائے گئے کوحصہ ملے گا اور اس لڑکے یا لڑکی کے ملانے کا اگر وہ شخص جس کے لیے پکارا جاتا ہے انکار کر دے اور اگر وہ اس کی اس لونڈی سے ہو جس کا وہ مالک نہ تھا یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کیا تھا تو اس صورت میں اسے نہ تو اس کے نسب سے ملایا جائے گا اور نہ ہی لڑکا یا لڑکی اس کا وارث ہو گا۔ اور اگر اس لڑکی یا لڑکے کا وہ باپ جس کے لیے اسے پکارا جاتا ہے اس کا دعویٰ کرے تو وہ لونڈی سے ہو یا آزاد سے ہو تو وہ ولد الزنا ہے۔
۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں اجرت پر زنا کاری کا کوئی وجود نہیں،جس نے جاہلیت میں ایسا کیا ہے تو میں اس کا نسب اس کے باپ کے رشتہ داروں سے جوڑتا ہوں اور جو کوئی بغیر نکاح کے کسی کا باپ ہونے کا دعوی کرے تو نہ بچہ اس کا وارث ہوگا اور نہ ہی وہ اس بچے کا وارث ہوگا۔
۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے، آپ کے پاس ایک عورت لائی گئی، جس کے ساتھ ایک طہر میں تین افراد نے جماع کیا تھا، آپ نے ان میں سے دو افراد سے کہا: کیا تم دونوں اس بچے کا تیسرے کے حق میں اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے اقرار نہیں کیا، پھر دو سے سوال کیا کہ کیا تم تیسرے کے لیے اس بچے کا اقرارکرتے ہو، انہوں نے بھی یہ اقرار نہ کیا، پھردو سے پوچھا،لیکن انھوں نے بھی اقرار نہ کیا، پھر انھوں نے ان کے درمیان قرعہ ڈالا اور بچہ اس کے لیے لازم قرار دے دیا، جس کے نام قرعہ نکلا تھا اور اس کے ذمہ دیت کے تین حصوں میں سے دو حصے ادا کرنا لازم کر دیے، یہ معاملہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھیں نمایاں ہو نے لگیں۔
۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت مروی ہے، البتہ اس میں ہے: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے انکار کے بعد ان سے کہا: تم ایسے شریک ہو، جو آپس میں جھگڑنے والے ہو، اب میں تمہارے درمیان قرعہ ڈالوں گا، تم میں سے جس کے نام بھی قرعہ نکلے گا، اسے دیت کے تین میں سے دو حصے ادا کرنے کی چٹی ڈالوں گا اور بچہ بھی لازمی اسے ہی لینا پڑے گا، جب اس فیصلہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو فیصلہ علی نے کیا ہے، وہی سمجھ آتا ہے۔