مسنداحمد

Musnad Ahmad

عدتوں کا بیان

حاملہ خاتون کی عدت وضع حمل ہے، خواہ وہ طلاق یافتہ ہو یا بیوہ، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: اور حاملہ خواتین کی عدت کی مدت یہ ہے کہ وہ حمل وضع کر دیں

۔

۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس اور سیدنا ابوہریرہ سے اس عورت کی عدت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو اوروہ حاملہ ہو، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: دو عدتوں میں سے دور والی عدت ہو گی، جبکہ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب وہ بچے کوجنم دے گی تو اس کی عدت ختم ہو جاتی ہے۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا: جب سیدہ سبیعہ اسلمیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے خاوند کی وفات کے نصف ماہ بعد بچے کو جنم دیا تو اسے دو آدمیوں نے پیغام نکاح بھیجا، ان میں سے ایک نوجوان تھا اور دوسرا ذرا ادھیڑ عمر تھا، اس خاتون کا میلان یہ تھا کہ وہ نوجوان سے نکاح کرے، یہ صورت حال دیکھ کر ادھیڑعمر کہنے لگا کہ یہ تو ابھی عدت سے ہی باہر نہیں ہوئی، دراصل اس عورت کے گھروالے وہاں موجود نہ تھے اور اس بوڑھے کو امید تھی کہ جب اس کے گھروالے آ جائیں گے تو وہ اس ادھیڑ عمر کو ترجیح دیں گے، اس کی بات سن کر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور فتویٰ پوچھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیری عدت ختم ہو چکی ہے،تو جس سے چاہتی ہے، نکاح کر سکتی ہے۔

۔

۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں سیدہ سبیعہ بنت حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے خاوند کی وفات کے پندرہ دن بعد بچے کوجنم دیا، ان کے پاس سیدنا ابو سنابل آئے اور کہا: معلوم ہوتا ہے تمہارے دل میں نکاح کرنے کا خیال گردش کر رہا ہے، تمہیں اس کی اجازت نہیں ہو گی حتیٰ کہ دو عدتوں میں سے دور والی عدت نہ گزار لو، یہ سن کر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور ابوسنابل کی بات کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوبتایا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو سنابل غلط کہہ رہا ہے، تمہاری عدت پوری ہو چکی ہے، جب تمہارے لیے مناسب یا تمہاری پسند کا رشتہ آئے تو میرے پاس آنا اور مجھے اس کی اطلاع دینا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو خبر دی کہ اس کی عدت پوری ہو چکی ہے۔

۔

۔ سیدنا ابو سنابل بن بعکک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ سبیعہ بنت حارث نے اپنے شوہر کی وفات سے تئیس یا پچیس دن بعد بچے کو جنم دیا، جب مدت نفاس گزر چکی تو اس نے نئی شادی میں رغبت کا اظہار کیا، لیکن اس پر اعتراض کیا گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں اس چیز کا تذکرہ کیا گیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ عورت ایسا کرنا چاہے تو وہ کر سکتی ہے کیونکہ اس کی عدت وضع حمل کی وجہ سے پوری ہو چکی ہے۔

۔

۔ سیدنا ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدہ سبیعہ بنت ابی برزہ اسلمیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گیا اور ان سے ان کے معاملہ کے متعلق سوال کیا، انہوں نے کہا: میں سعد بن خولہ کے نکاح میں تھی، وہ فوت ہو گئے اوران کی وفات کے صرف دو ماہ بعد میں نے بچہ جنم دیا، اُدھر بنو عبد داروالے ابو سنابل بن بعکک نے مجھے پیغام نکاح بھیجا، میں نکاح کرنے کے لیے تیار تھی کہ میرا دیور میرے پاس آیا، میں نے مہندی بھی لگا لی اور مکمل تیاری کر لی، اس نے کہا: اے سبیعہ کیا کرنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا: میں شادی کرنا چاہتی ہوں، اس نے کہا: اللہ کی قسم! تو ابھی شادی نہیں کر سکتی، جب تک کہ چار ماہ دس دن عدت نہ گزار لے، سبیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور اس کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو حلال ہو چکی ہے اور شادی کر سکتی ہے۔

۔

۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: قرآن مجید کی آیت {وَاُلاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ} میں مذکور عدت ان عورتوں کی ہے جن کو تین طلاقیں دی جا چکی ہوں یا یہ بیوہ عورت کی عد ت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جوابا فرمایا: دونوں کے لئے۔