مسنداحمد

Musnad Ahmad

تفسیر و اسباب نزول کا بیان

{فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ بِہٖاَذًی مِنْ رَاْسِہٖ…} کی تفسیر

۔ (۸۵۰۲)۔ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَ بِی لَیْلٰی عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْحُدَیْبِیَۃِ، وَنَحْنُ مُحْرِمُوْنَ وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِکُوْنَ وَکَانَتْ لِی وَفْرَۃٌ فَجَعَلَتِ الْہَوَامُّ تَسَاقَطُ عَلٰی وَجْہِی، فَمَرَّ بِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَیُؤْذِیْکَ ہَوَامُّ رَأْسِکَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَمَرَہُ أَ نْ یَحْلِقَ، قَالَ: وَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا أَ وْ بِہٖٓأَذًی مِّنْ رَأْسِہِ فَفِدْیَۃٌ مِنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ} [البقرۃ: ۱۹۶]۔ (مسند احمد: ۱۸۲۸۰)

۔ سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر احرام کی حالت میں تھے، مشرکین مکہ نے ہمیں آگے جانے سے روک دیا، میرے لمبے لمبے بال تھے اورجوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے سر منڈانے کا حکم دیا اور یہ آیت نازل ہوئی: {فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا أَ وْ بِہٖٓأَذًی مِّنْ رَأْسِہِ فَفِدْیَۃٌ مِنْ صِیَامٍ أَ وْ صَدَقَۃٍ أَ وْ نُسُکٍ} (تم میں سے جو آدمی مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو، تو وہ بال منڈوا لے اور روزوں کا، یا صدقہ کا یا قربانی کا فدیہ دے)

۔ (۸۵۰۲م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَعْقِلٍ الْمُزَنِّیِّ قَالَ: قَعَدْتُّ إِلٰی کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ وَہُوَ فِیْ الْمَسْجِدِ (وَفِیْ لَفْظٍ: یَعْنِی مَسْجِدَ الْکُوْفَۃِ) فَسَأَ لْتُہُ عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ} قَالَ: فَقَالَ کَعْبٌ: نَزَلَتْ فِیَّ، کَانَ بِیْ أَ ذًی مِنْ رَأْسِیْ فَحُمِلْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْقَمْلُ یَتَنَاثَرُ عَلٰی وَجْہِیِ، فَقَالَ: ((مَا کُنْتُ أَرٰی أَنَّ الْجَہْدَ بَلَغَ مِنْکَ مَا أَرٰی، أَتَجِدُ شَاۃً؟)) فَقُلْتُ: لَا، فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍِ} قَالَ: صَوْمُ ثَلَاثَۃِ أَ یَّامٍ أَوْ إِطْعَامُ سِتَّۃِ مَسَاکِیْنَ، نِصْفَ صَاعٍ طَعَامٍ لِکُلِّ مِسْکِیْنٍ، قَالَ: فَنَزَلَتْ فِیَّ خَاصَّۃً وَہِیَ لَکُمْ عَامَّۃً۔ (مسند احمد: ۱۸۲۸۹)

۔ (دوسری سند) عبد اللہ بن معقل مزنی کہتے ہیں: میں کوفہ کی مسجد میں سیدنا کعب بن عجرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہواتھا، میں نے ان سے اس آیت {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَ وْ صَدَقَۃٍ أَ وْ نُسُکٍ} (سورۂ بقرہ: ۱۹۶) کی بابت پوچھا، انہوں نے کہا: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی تھی، میرے سر میں جوئیں تھیں، جب مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لایا گیا تو جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا خیالیہ تو نہیں تھا کہ تجھے اس قدر تکلیف اور مشقت ہو گی، کیا تم بکری ذبح کرنے کی استطاعت رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی نہیں، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ أَ وْ صَدَقَۃٍ أَ وْ نُسُکٍ} (سورۂ بقرہ: ۱۹۶) (روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں فدیہ دینا ہے)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین دنوں کے روزے ہیںیا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اور ہر مسکین کے لیے نصف صاع کھانا ہے۔ یہ آیت خاص طور پر میرے لیے نازل ہوئی، لیکن اس کا حکم تم سب کے لیے عام ہے۔