۔ (۹۲۶۲)۔ عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: کُنْتُ اَتَّجِرُ اِلَی الشَّامِ اَوْ اِلٰی مِصْرَ قَالَ: فَتَجَھَّزْتُ اِلَی الْعِرَاقِ، فَدَخَلْتُ عَلٰی عاَئِشَۃَ اُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رضی اللہ عنہا ، فَقُلْتُ: یَا اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ، اِنِّی قَدْ تَجَھَّزْتُ اِلَی الْعِرَاقِ، فَقَالَتْ: مَالَکَ وَلِمَتْجَرِکَ، اِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((اِذَا کَانَ لِاَحِدِکُمْ رِزْقٌ فِی شَیْئٍ فَـلَا یَدَعْہُ حَتّٰییَتَغَیَّرَلَہُ، اَوْ یَتَنَکَّرَ لَہُ۔)) فَاَتَیْتُ الْعِرَاقَ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَیْھَا، فَقُلْتُ: یاَ اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاللّٰہِ ! مَا رَدَدْتُّ رَاْسَ مَالٍ فَاَعَادَتْ عَلَیْہِ الْحَدِیْثَ، اَوْ قَالَتِ: الْحَدِیْثُ کَمَا حَدَّثْتُکَ۔ (مسند احمد: ۲۶۶۲۰)
۔ امام نافع کہتے ہیں: میں تجارت کے لیے شام یا مصر میں جاتا تھا، ایک دفعہ میں عراق کے لیے تیار ہوا اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: اے ام المؤمنین! اس دفعہ میں عراق کے لیے تیار ہوا ہوں، انھوں نے کہا: تیری پہلی تجارت کو کیا ہوا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب ایک چیز کسی کے رزق کا سبب بنا ہوا ہو تو وہ اس کو نہ چھوڑے، یہاں تک کہ وہ چیز خود تبدیل ہو جائے۔ بہرحال میں عراق چلا گیا اور واپس آ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: اے ام المؤمنین! اللہ کی قسم! (نفع تو کجا) میں تو اصل مال بھی واپس لے کر نہ آ سکا، سیدہ نے اس کو دوبارہ وہی حدیث بیان کی،یا کہا: حدیث تو وہی ہے، جو میں نے تجھے بیان کر دی تھی۔