مسنداحمد

Musnad Ahmad

محبت اور صحبت کے مسائل

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرنے کے وجوب اور اس کی ترغیب دلانے کا بیان

۔ (۹۴۲۴)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰییَکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا، وَحَتّٰی ُیقَذَفَ فِی النَّارِ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ اَنْ یَعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ اَنْ نَجَّاہُ اللّٰہُ مِنْہُ، وَلَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّلَدِہِ وَوَالِدِہِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۱۸۳)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک ایسا نہ ہو جائے کہ اللہ اور اس کا رسول اس کو باقی سب چیزوں کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہو جائیں اور وہ کفر سے نجات پانے کے بعد اس کی طرف لوٹنے کی بہ نسبت آگ میں پھینکے جانے کو زیادہ پسند سمجھے اور کوئی آدمی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، والد اور تمام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

۔ (۹۴۲۵)۔ عَنْ زُھْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّہِ قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: وَاللّٰہِ! اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ اِلَّا نَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ عَنْدَہُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ نَفْسِہِ۔)) فَقَالَ عُمَرَ: فَلَاَنْتَ الْآنَ وَاللّٰہِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الآنَ یَا عُمَرُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۲۱۱)

۔ زہرہ کے دادے سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ہر چیز کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہیں، ما سوائے اپنی جان کے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا کوئی ایک اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک مجھے اپنے نفس سے زیادہ محبوب نہیں سمجھے گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اب آپ ہی مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمر! اب ٹھیک ہے۔

۔ (۹۴۲۵)۔ عَنْ زُھْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّہِ قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ: وَاللّٰہِ! اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ اِلَّا نَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ عَنْدَہُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ نَفْسِہِ۔)) فَقَالَ عُمَرَ: فَلَاَنْتَ الْآنَ وَاللّٰہِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الآنَ یَا عُمَرُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۲۱۱)

۔ سیدنا فیروز ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ لوگ اسلام لائے اور وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے، پس انھوں نے اپنی بیعت اور اسلام کے ساتھ اپنے وفد کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو قبول فرمایا، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں، ہم نے اسلام تو قبول کر لیا، اب ہمارا ولی کون ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول۔ انھوں نے کہا: ہمیں یہ کافی ہیں اور ہم اس پر راضی ہیں۔

۔ (۹۴۲۷)۔ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَشَدُّ اُمَّتِیْ لِیْ حُبًّا قَوْمٌ یَکُوْنُونَ اَوْ یَخْرُجُوْنَ بَعْدِیْ،یَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنَّہُ اَعْطٰی اَھْلَہُ وَمَالَہُ وَاَنَّہُ رَآنِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۱۸۲۶)

۔ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے میری امت کے وہ لوگ ہیں، جو میرے بعد آئیں گے اور یہ پسند کریں گے کہ اپنے اہل اور مال کو خرچ کر کے میرا دیدار کر لیں۔

۔ (۹۴۲۸)۔ عَنْ ثَوْبَانٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الْعَبْدَ لَیَلْتَمِسُ مَرْضَاۃَ اللّٰہِ، وَلَا یَزَالُ بِذٰلِکَ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِجِبْرِیْلَ: اِنَّ فُلَانًا عِبْدِیْیَلْتَمِسُ اَنْ یُّرْضِیَنِیْ، اَلَا وَاِنَّ رَحْمَتِیْ عَلَیْہِ، فَیَقُوْلُ جِبْرِیْلُ: رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی فُلَانٍ، وَیَقُوْلُھَا حَمْلَۃُ الْعَرْشِ، وَیَقُوْلُھَا مَنْ حَوْلَھُمْ، حَتّٰییَقُوْلَھَا اَھْلُ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ، ثُمَّ تَھْبِطُ لَہُ اِلَی الْاَرْضِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۷۶۴)

۔ سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک بندہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کو تلاش کرتا ہے اور اس کے لیے لگا رہتا ہے، یہاں تک اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام سے کہتا ہے: بیشک میرا فلاں بندہ مجھے راضی کرنے کے درپے تھا، خبردار! اب اس پر میری رحمت ہو چکی ہے، جبریل علیہ السلام کہتے ہیں: فلاں آدمی پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو چکی ہے، پھر حاملین عرش اس جملے کو دوہراتے ہیں، پھر ان کے ارد گرد والے فرشتے کہتے ہیں،یہاں تک کہ ساتوں آسمانوں والے یہی کلمہ کہتے ہیں، پھر اسی بیان کو زمین پر اتار دیا جاتا ہے۔

۔ (۹۴۲۹)۔ عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کاَنَ یُعْجِبُنَا اَنْ یَّجِيْئَ الرَّجُلُ مِنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ فَیَسْاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ اَعْرَابِیٌّ فَقَالَ: یا رَسُوْلَ اللّٰہِ!، مَتّٰی قِیَامُ السَّاعَۃِ؟ اُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ قَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَۃِ؟)) قَالَ: اَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَمَا اَعْدَدْتَ لَھَا؟)) قَالَ: مَا اَعْدَدْتُ لَھَا مِنْ کَثِیْرِ عَمَلٍ، لَا صَلَاۃٍ وَ لَا صِیَامٍ اِلَّا اَنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَاِنَّکَ مَعَ مَنْ اَحْبَبَتَ وَلَکَ مَا اَحْبَبْتَ) قَالَ اَنَسٌ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فَمَا رَاَیْتُ الْمِسْلِمِیْنَ فَرِحُوْا بَعْدَ الْاِسْلَامِ بِشَیْئٍ مَافَرِحُوْا بِہٖ۔ (مسنداحمد: ۱۲۰۳۶)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ کوئی دیہاتی آدمی آئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کرے، پس ایک بدّو آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ اتنے میں نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز شروع کر دی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا: جی میں ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: اور تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا: میں نے اس کے لیے زیادہ عمل تو نہیں کیے، نہ زیادہ نماز ہے اور نہ زیادہ روزے ہیں، البتہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی اس کے ساتھ ہو گا، جس سے وہ محبت کرے گا۔ ایک روایت میں: پس بیشک تو اسی کے ساتھ ہو گا، جس سے تو محبت کرتا ہے اور تیرے لیے وہی کچھ ہے، جو تو پسند کرتا ہے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے نہیں دیکھا کہ مسلمان قبولیت ِ اسلام کے بعد اتنے زیادہ خوش ہوئے ہوں، جتنے اس دن ہوئے تھے۔

۔ (۹۴۳۰)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ اَنَسٍ بِنَحْوِہِ، وَفِیْہِ قَالَ اَنَسٌ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَمَا فَرِحْنَا بِشَیْئٍ بَعْدَ الْاِسْلَامِ، فَرِحْنَا بِقَوْلِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّکَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ۔)) قَالَ: فَاَنَا اُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَاَنَا اَرْجُوْ اَنْ اَکُوْنَ مَعَھُمْ لِحُبِّیْ اِیَّاھُمْ وَاِنْ کُنْتُ لَا اَعْمَلُ بِعَمَلِھِمْ۔ (مسند احمد: ۱۳۴۰۴)

۔ (دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہمیں جو خوشی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس ارشاد سے ہوئی کہ بیشک تو اس کے ساتھ ہو گا، جس کے ساتھ تجھے محبت ہے قبولیت ِ اسلام کے بعد اتنی خوشی کسی چیز سے نہیں ہوئی تھی، پس میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے محبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں اس محبت کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوں گا، اگرچہ میرے عمل ان کے اعمال جیسے نہیں ہیں۔