۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام کا کون سا کڑا (یعنی نیک عمل) زیادہ ممتاز اور عالی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی نماز ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز بھی اچھا عمل ہے اور اس کے بعد والا کون سا عمل ہے؟ لوگوں نے کہا: جی زکوۃ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: زکوۃ بھی اچھا ہے اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ انھوں نے کہا: جی رمضان کے روزے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ عمل بھی اچھا ہے، اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ انھوں نے کہا: جی حج ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حج بھی اچھا عمل ہے اور اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی جہاد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جہاد بھی اچھا عمل ہے، اس کے بعد والا عمل کون سا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا: ایمان کا سب سے ممتاز اور اعلی کڑا (یعنی نیک عمل) یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بغض رکھے۔
۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ ایک آدمی نے کہا: نماز اور زکوۃ، اور کسی نے کہا کہ جہاد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کی جائے اور اُسی کے لیے بغض رکھا جائے۔
۔ سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، اس نے سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جوا ب دیا، جب وہ آگے گزر گیا تو ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس آدمی سے بغض رکھتا ہوں، اہلِ مجلس نے کہا: اللہ کی قسم! تو نے بری بات کی ہے، اللہ کی قسم! ہم ضرور ضرور اس کو بتلائیں گے، او فلاں! کھڑا ہو اور اس کو بتلا کے آ، پس ان کے قاصد نے اس کو شخص کو پا لیا اور ساری بات اس کو بتلا دی، وہ آدمی وہاں سے پھرا اور سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا پہنچا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں مسلمانوں کی ایک مجلس سے گزرا، ان میں فلاں آدمی بھی بیٹھا ہوا تھا، میں نے ان کو سلام کہا اور انھوں نے سلام کا جواب دیا، جب میں ان سے تجاوز کر گیا تو ان میں سے ایک آدمی مجھے پیچھے سے آ کر ملا اور کہا کہ فلاں آدمی کہہ رہا ہے کہ اللہ کی قسم ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے لیے تجھ سے بغض رکھتا ہے، اے اللہ کے رسول! اب آپ اس کو بلائیں اور پوچھیں کہ کس وجہ سے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بلایا اور اس آدمی کی بتائی ہوئی بات کے بارے میں پوچھا، اس نے اعتراف کر لیا اور کہا: جی اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتا کہ تو اس سے بغض کیوں رکھتا ہے؟ اس نے کہا: جی میں اس کا ہمسایہ ہوں اور اس کے بارے میں باخبر ہوں، اللہ کی قسم! میں نے اس کو دیکھا ہے، یہ صرف فرضی نماز ادا کرتا ہے، جو ہر نیک و بد پڑھ رہا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے ان نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کیا ہے؟ یا میں نے کبھی وضو میں کمی کی ہے؟ یا میں نے رکوع و سجود کو ناقص ادا کیا ہے؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس سے یہ سوالات کیے تو اس نے منفی میں جواب دیا (یعنی واقعییہ بات تو ہے کہ یہ وقت پر اور مکمل نماز وضو کا اہتمام کرتا ہے)۔ پھر اس اعتراض کرنے والے نے کہا: اللہ کی قسم ہے، میں نے اس کو دیکھا کہ یہ صر ف ماہِ رمضان کے روزے رکھتا ہے، جس کے روزے ہر نیک و بد رکھتا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے رمضان میں کبھی کوئی روزہ چھوڑا ہے، یا روزے کے حق میں کوئی کمی کی ہے؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے منفی میں جواب دیا (یعنییہ بات تو ٹھیک کہ یہ آدمی اچھے انداز میں روزے رکھتا ہے)۔ اعتراض کرنے والے نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں نے اس کو نہیں دیکھا کہ اس نے کسی سائل کو کبھی کوئی چیز دی ہو، یا اللہ کے راستے میں کوئی مال خرچ کیا ہو، ما سوائے اس زکوۃ کے، جو ہر نیک و بد ادا کرتا ہے۔ لیکن اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا میں نے زکوۃ میں سے کبھی کوئی چیز چھپائی ہے، یا زکوۃ لینے والے سے کمی کروائی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اس کے بارے میں پوچھاتو اس نے منفی میں جواب دیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھڑا ہو جا تو، میں نہیں جانتا ہو سکتا ہے کہ وہ تجھ سے بہتر ہو۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روحیں اکٹھے کیے ہوئے لشکر ہیں، جن کی وہاں واقفیت ہو گئی، وہ ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتی ہیں اور جن میں وہاں اجنبیت اور نا واقفیت ہو گئی، وہ مانوس نہیں ہوتیں۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی ایمان کا ذائقہ پسند کرتا ہو یایہ چیز اس کو خوش کرتی ہو، وہ کسی شخص سے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے جلال کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں، آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا، جبکہ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گے، جب تک ایمان نہیں لاؤ گے اور اس وقت تک ایمان نہیں لا سکو گے، جب تک ایک دوسرے سے محبت نہیں کرو گے، کیا میں ایسی چیز کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کر دوں، جو اس محبت کی جڑ اور جوہر ہے؟ آپس میں سلام کو عام کر دو۔ ایک روایت میں ہے: کیا میں ایسی چیز کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کر دوں کہ جب تم اس کو کرو گے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے؟ آپس میں سلام کو عام کرو۔
۔ سیدنا عمرو بن جموع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندہ اس وقت تک صریح ایمان کا حق ادا نہیں کر سکتا، جب تک اللہ تعالیٰ کے لیے محبت نہیں کرتا اور اُسی کے لیے بغض نہیں رکھتا، پس جب وہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتا ہے اور اُسی کے لیے بغض رکھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت اور دوستی کا مستحق قرار پاتا ہے اور بیشک میرے اولیاء میرے بندوں میں سے ہوتے ہیں اور میری مخلوق میں سے وہ لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، جن کو میرے ذکر کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور مجھے ان کے ذکر کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔