مسنداحمد

Musnad Ahmad

محبت اور صحبت کے مسائل

مطلق طور پر مریض کی عیادت کرنے کی ترغیب اور اس عمل کے ثواب کا بیان

۔ (۹۴۶۹)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ لَیْلٰی، قَالَ: جَائَ اَبُوْ مُوْسٰی اِلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّیَعُوْدُہُ، فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: اَعَائِدًا جِئْتَ اَمْ شَامِتًا؟ قَالَ: لَا، بَلْ عَائِدًا، قَالَ: فقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: اِنْ کُنْتَ جِئْتَ عَائِدًا فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِذَا عَادَ الرَّجُلُ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ، مَشٰی فِیْ خِرَافَۃِ الْجَنَّۃِ حَتّٰییَجْلِسَ، فَاِذَا جَلَسَ غَمَرَتْہُ الرَّحْمَۃُ، فَاِنْ کَانَ غُدْوَۃً صَلّٰی عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰییُمْسِیَ، وَاِنْ کَانَ مَسَائً صَلّٰی عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰییُصْبِحَ۔)) (مسند احمد: ۶۱۲)

۔ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: ابو موسی، سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیمارپرسی کرنے کے لیے آئے، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے پوچھا: تیمارداری کرنے کے لیے آئے ہو یا مصیبت پر خوش ہونے کے لیے؟ انھوں نے کہا: تیمار داری کرنے کے لیے۔ یہ سن کر علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر آپ واقعی تیمار داری کرنے کے لیے آئے ہیں تو سنیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی تیمار داری کرنے کے لیے جاتا ہے تو وہ جنت کے چنے ہوئے میووںمیں چل رہا ہوتا ہے اور جب وہ (مریض کے پاس) بیٹھتا ہے تو رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اگر یہ صبح کا وقت ہو تو شام تک اور شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔

۔ (۹۴۷۰)۔ (ومِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَافِعٍ، قَالَ: عَادَ اَبُوْمُوْسَی الْاَشْعَرِیُّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ فقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: اَعَائِدًا جِئْتَ اَمْ زَائِرًا؟ فَقَالَ اَبُوْ مُوْسٰی: بَلْ جِئْتُ عَائِدًا، فَقَالَ عَلِیٌّ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((مَنْ عَادَ مَرِیْضًا بُکَرًا شَیَّعُہُ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ، کُلُّھُمْ یَسْتَغِفِرُ لَہُ حَتّٰییُمْسِیَ، وَکَانَ لَہُ خَرِیْفٌ فِی الْجَنَّۃِ، وَاِنْ عَادَہُ مَسَائَ شَیَّعَہُ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ کُلُّھُمْ یَسْتَغْفِرُ لَہُ حَتّٰییُصْبِحَ وَکَانَ لَہُ خَرِیْفٌ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۹۷۵)

۔ (دوسری سند) عبداللہ بن نافع کہتے ہیں: سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی تیمارداری کرنے کے لیے آئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: عیادت کرنے کے لیے آئے ہو یا محض زیارت کرنے کے لیے؟ سیدنا ابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں عیادت کرنے کے لیے آیا ہوں۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی صبح کے وقت کسی مریض کی تیمارداری کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کو رخصت کرنے کے لیے اس کے ساتھ اس کے مکان تک جاتے ہیں اور یہ سارے فرشتے شام تک اس کے لیے بخشش طلب کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ بن جاتا ہے، اور اگر وہ شام کو عیادت کرتا ہے تو اسی طرح ستر ہزار فرشتے اس کو رخصت کرنے کے لیے جاتے ہیں اور صبح تک اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ بن جاتا ہے۔

۔ (۹۴۷۱)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((مَا مِنْ مُسْلِمٍ عَادَ اَخَاہُ اِلَّا اِبْتَعَثَ اللّٰہُ لَہُ سَبْعِیْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یُصَلُّوْنَ عَلَیْہِ مِنْ اَیِّ سَاعَاتِ النَّھَارِ کَانَ حَتّٰییُمْسِیَ، وَمِنْ اَیِّ سَاعَاتِ اللَّیْلِ کَانَ حَتّٰییُصْبِحَ۔)) (مسند احمد: ۹۵۵)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو مسلمان اپنے بھائی کی تیمار داری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستر ہزار فرشتوں کو بھیجے گا، یہ اس کے لیے دعائے رحمت کریں گے، اگر وہ دن کی کسی گھڑی میں یہ عمل کرے تو دعا کا یہ سلسلہ شام تک اور اگر رات کو عیادت کرے تو یہ سلسلہ صبح تک جاری رہتا ہے۔

۔ (۹۴۷۲)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ عَادَ مَرِیْضًا مَشٰی فِیْ خِرَافِ الجَنَّۃِ، فَاِذَا جَلَسَ عِنْدَہُ اسْتَنْقَعَ فِی الرَّحْمَۃِ، فَاِذَا خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ وُکِّلَ بِہٖسَبْعُوْنَاَلْفَمَلَکٍیَسْتَغْفِرُوْنَ لَہُ ذٰلِکَ الْیَوْمَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۶۶)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کسی مریض کی عیادت کرتا ہے، وہ جنت کے چنے ہوئے میووں میں چلتا ہے اور جب وہ اس کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو وہ رحمت میں ٹھہر جاتا ہے، اور جب اس کے پاس سے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتوں کو اس کے ساتھ مقرر کر دیا جاتا ہے، وہ اس دن اس کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔

۔ (۹۴۷۳)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَنَّہُ قَالَ: ((مَرِضْتُ فَلَمْ یَعُدْنِی ابْنُ آدَمَ، وَظَمِئْتُ فَلَمْ یَسْقِنِی ابْنُ آدَمَ فَقُلْتُ: اَتَمْرَضُ یَا رَبِّ؟ قَالَ: یَمْرَضُ الْعَبْدُ مِنْ عِبَادِیْ مِمَّنْ فِی الْاَرْضِ فَـلَا یُعَادُ، فَلَوْ عَادَہُ کَانَ مَایَعُوْدُہُ لِیْ، وَیَظْمَاُ فِی الْاَرْضِ فَـلَا یُسْقٰی، فَلَوْ سُقِیَ کَانَ مَا سَقَاہُ لِیْ۔)) (مسند احمد: ۹۲۳۱)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں بیمار ہو گیا، لیکن ابن آدم نے میری عیادت نہیں کی اور میں پیاسا ہو گیا، لیکن ابن آدم نے مجھے پانی نہیں پلایا، میں نے کہا: اے میرے ربّ! کیا تو بھی بیمار ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے کہا: زمین میں میرے بندوں میں سے ایک بندہ بیمار ہوا، لیکن اس کی تیمار داری نہیں کی گئی، اگر آدم کا بیٹا اس کی عیادت کرتا تو میرے لیے ہوتی، اسی طرح ایک آدمی کو پیاس لگی، لیکن اس کو پانی نہیں پلایا گیا، اگر اس کو پانی پلایا جاتا تو وہ پلائی ہوئی چیز میرے لیے ہوتی۔

۔ (۹۴۷۴)۔ عَنْ ھَارُوْنَ بْنِ اَبِیْ دَاوٗدَ،حَدَّثَنِیْ اَبِیْ، قَالَ: اَتَیْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ، فَقُلْتُ: یَا اَبَاحَمْزَۃَ، اِنَّ الْمَکَانَ بَعِیْدٌ وَنَحْنُ یُعْجِبُنَا اَنْ نَعُوْدَکَ، فَرَفَعَ رَاْسَہَ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((اَیُّمَا رَجُلٍ یَعُوْدُ مَرِیْضًا فاِنّمَا یَخُوْضُ فِی الرَّحْمَۃِ، فَاِذَا قَعَدَ عِنْدَ الْمَرِیْضِ غَمَرَتْہُ الرَّحْمَۃُ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: یارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھٰذَا لِلصَّحِیْحِ الَّذِیْیَعُوْدُ الْمَرِیْضَ، فَالْمَرِیْضُ مَا لَہُ؟ قَالَ: ((تُحَطُّ عَنْہُ ذُنُوْبُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۸۱۳)

۔ ابو داود کہتے ہیں: میں سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا اور کہا: اے ابو حمزہ! گھر تو دور ہے، لیکن ہمیں یہ بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ ہم تمہاری عیادت کریں، انھوں نے اپنا سر اٹھایا اور کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جو آدمی کسی مریض کی تیمار داری کرنے کے لیے جاتاہے، وہ رحمت میں داخل ہوتاہے، اور جب اس مریض کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ثواب تو عیادت کرنے والے صحت مند کے لیے ہے، مریض کے لیے کیا اجر ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

۔ (۹۴۷۵)۔ عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ عَادَ مَرِیْضًا خَاضَ فِی الرَّحْمَۃِ، فَاِذَا جَلَسَ عِنْدَہُ اسْتَنَقَعَ فِیْھَا وقَدِ اسْتَنْقَعْتُمْ اِنْ شَائَ اللّٰہُ فِی الرَّحْمَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۵۸۹۰)

۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مریض کی تیمار داری کی، وہ رحمت میں داخل ہوا اور جو اس کے پاس بیٹھ گیا، وہ رحمت میں گھس گیا اور تحقیق تم ان شاء اللہ رحمت میں ٹھہر گئے ہو۔

۔ (۹۴۷۶)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((عُوْدُوْا الْمَرِیْضَ وَامْشُوْا فِی الْجَنَائِزِ تُذَکِّرْکُمْ الْآخِرَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۹۸)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مریض کی تیماری داری کیا کرو اور جنازوں کے ساتھ چلا کرو، یہ آخرت کو یاد دلاتے ہیں۔

۔ (۹۴۷۷)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَائِدُ الْمَرِیْضِیَخُوْضُ فِی الرَّحْمَۃِ، وَوَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَہُ عَلٰی وَرِکِہِ ثُمَّ قَالَ: ھٰکَذَا مُقْبِلًا وَمُدْبِرًا، وَاِذَا جَلَسَ عِنْدَہُ غَمَرَتْہُ الرَّحْمَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۶۵)

۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مریض کی عیادت کرنے والا رحمت میں گھس جاتا ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سرین پر رکھا اور فرمایا: آتے ہوئے بھی اور جاتے ہوئے بھی، پھر جب وہ اس کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے۔