۔ محمد بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں کو ملے، وہ مروان کو مل کر باہر آ رہے تھے، انھوں نے کہا: یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہم مروان امیر کے پاس سے آئے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اور تم نے وہاں جو حق دیکھا، اس کے بارے میں بات کی اور مروان کی مدد کی اور تم نے وہاں جو برائی دیکھی، اس کا انکار کیا اور مروان پر اس کا ردّ کیا؟ انھوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! بلکہ مروان کی قابل انکار باتوں کے بارے میں بھی ہم نے کہا: تو نے درست کیا ہے، اللہ تیری اصلاح کرے، پس جب ہم اس کے پاس سے نکلے تو آپس میں کہا: اللہ اس مروان کو ہلاک کرے، یہ کتنا ظالم اور برا آدمی ہے، سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس قسم کی کاروائی کو نفاق شمار کرتے تھے۔
۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منافق بیچارے کی مثال اس بکری کی طرح ہے، جو دو ریوڑوں کے درمیان کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے میں متردد ہو، شش و پنج کے ساتھ کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے اور کبھی اُس ریوڑ کے ساتھ، وہ یہ نہیں جانتی کہ اس کے پیچھے چلے گییا اُس کے پیچھے۔
۔ عبید کہتے ہیں: میں ایک دن مکہ مکرمہ میں بیٹھا ہوا تھا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ تھے، میرے باپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہو گی، جو بکریوں کے دو باڑوں کے درمیان ہو، اگر اس باڑے میںجائے تو وہ بکریاںاس کو مارتی ہیں اور اگر اُس میں جائے تو اس والی مارتی ہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو غلط کہہ رہا ہے، لیکن لوگوں نے میرے باپ کی تعریف کی، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی تمہارے ساتھی کو خیر والا سمجھتا ہوں، جیسے تم سمجھ رہے ہو، لیکن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کَالشَّاۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ کے الفاظ فرمائے تھے۔ انھوں نے کہا: معنیتو ایک ہی ہے، لیکن سیدنا ابن عمر نے کہا: میں نے تو یہی الفاظ سنے تھے۔
۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: عہد ِ نبوی میں اگر کوئی آدمی اس قسم کی بات کرتا تو وہ اس کی وجہ سے منافق ہو جاتا تھا، اور اب میں تم سے اس قسم کی باتیں ایک ایک مجلس میں دس دس دفعہ سنتا ہوں۔
۔ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: بیشک تم میں منافق موجود ہیں، میں جس جس کا نام لیتا جاؤں، وہ کھڑا ہو تا جائے، او فلاں! تو کھڑا ہو جا، او فلاں! تو بھی کھڑا ہو جا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھتیس مردوں کے نام لیے اور پھر فرمایا: تم میں منافق ہیں، پس اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ۔ سیدنا عمر ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جس کانام لیا گیا تھا، اس نے کپڑا اوڑھا ہوا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو پہچانتے تھے، آپ نے اس سے پوچھا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: دوری ہو تیرے لیے باقی دن۔
۔ سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منافق کو اپنا سردار نہ کہو، کیونکہ اگر وہ تمہارا سردار ہوا تو تم اپنے ربّ کو ناراض کر دو گے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک منافقوں کی کچھ علامتیں ہیں، ان کے ذریعے ان کو پہچانا جاتا ہے، ان کا سلام لعنت ہوتا ہے، ان کا کھانا غصب شدہ ہوتا ہے، ان کی غنیمت چوری کی ہوئی ہوتی ہے، وہ مسجدوں کے قریب نہیں آتے، مگر ان کو چھوڑنے کے لیے، نماز کا وقت فوت ہو جانے کے بعد نماز کے لیے آتے ہیں، وہ تکبر کرنے والے ہوتے ہیں، وہ انس کرتے ہیں نہ ان سے مانوس ہوا جاتا ہے، وہ رات کو لکڑیوں کی طرح پڑے رہتے ہیں اور دن کو شور و غل کرنے والے اور جھگڑا کرنے والے ہوتے ہیں۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منافق کی علامتیں تین ہیں: جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کو امین بنایا جاتا ہے تو وہ خیانت کرتا ہے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو لوگوں میں دو رخے شخص کو سب سے برا پائے گا، جو ایک رخ کے ساتھ اِن کے پاس آتا ہے اور ایک رخ کے ساتھ اُن کے پاس جاتا ہے ۔
۔ (دوسری سند) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو قیامت کے دن لوگوں میں دو رخے شخص کو سب سے برا پائے گا۔ ابن نمیر نے کہا: اس سے مراد وہ آدمی ہے جو اِن کے پاس اُن کی بات کرتا ہے اور اُن کے پاس اِن کی بات کرتا ہے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دو رخے بندے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ امین بھی ہو۔
۔ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگوں یہ خیال بھی کرتے ہیں کہ ہمارے لیے مکہ میں اجر نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اجر ضرور ضرور تمہارے پاس پہنچے گا، اگرچہ تم لومڑ کے بل میں ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک میری طرف جھکایا اور فرمایا: میرے ساتھیوں میںمنافق بھی ہیں۔
۔ ابو عثمان نہدی کہتے ہیں: میں عمر رضی اللہ عنہ کے منبر کے پاس تھا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر اس منافق کا ہے، جوزبان آور ہوتا ہے۔