مسنداحمد

Musnad Ahmad

زبان کی آفتوں کے مسائل

غیبت اور بہتان سے ترہیب کا بیان

۔ (۹۸۷۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ھَلْ تَدْرُوْنَ مَاالْغِیَابَۃُ۔)) قَالُوْا: اللّٰہُ وَرَسُولُہُ اَعْلَمُ، قَالَ: ((ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا لَیْسَ فِیْہَ۔))، قَالَ: اَرَاَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْ اَخِیْ مَا اَقُوْلُ لَہُ؟ قَالَ: ((اِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ: فقَدِ اغْتَبْتَہُ، وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْہِ فَقَدْ بَھَتَّہُ۔)) (مسند احمد: ۷۱۴۶)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا اپنے بھائی کے وہ عیوب بیان کرنا، جو اس میں ہیں۔ ایک آدمی نے کہا: میں اپنے بھائی کے بارے میں جو کچھ کہوں، اگر وہ عیوب اس کے اندر پائے جاتے ہوں تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کچھ تو کہہ رہا ہے، اگر وہ چیزیں اس میں پائی جاتی ہیں تو تو نے اس کی غیبت کی ہے اور اگر وہ نقائص اس میں نہیں ہیں تو تو نے اس پر بہتان لگایا ہے۔

۔ (۹۸۷۵)۔ عَنْ اَبِیْ بَرْزَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: نَادٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی اَسْمَعَ الْعَوَاتِقَ فَقَالَ:) ((یَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِہِ وَلَمْ یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ قَلْبَہُ، لَا تَغْتَابُوْا الْمُسْلِمِیْنَ وَلَا تَتَّبِعُوْا عَوْرَاتِھِمْ، فَاِنَّہُ مَنْ یَتَّبِعْ عَوْرَاتِھِمْ یَتَّبِِعِ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ، وَمَنْ یَتَّبِِعِ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ یَفْضَحْہُ فِیْ بَیْتِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۰۱۴)

۔ سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس قدر بلند آواز دی کہ جوان عورتوں نے بھی سن لیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ان افراد کی جماعت جو زبان سے ایمان لائے ہو اور ابھی تک ایمان دل میں داخل نہیں ہوا، تم مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو اور ان کے پردے والے امور کی ٹوہ میں نہ لگو، جو ان کے معائب کو تلاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کی تلاش میں پڑ جائے گا اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب کی جستجو میں پڑ جاتا ہے، اس کو اس کے گھر میں رسوا کر دیتا ہے۔

۔ (۹۸۷۶)۔ عَنْ اَبِیْ حُذَیْفَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، حَکَتْ اِمْرَاَۃً عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرَتْ قِصَرَھَا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قَدِ اغْتَبْتِھَا، مَا اُحِبُّ اَنَّیْ حَکَیْتُ اَحَدًا وَاَنَّ لِیْ کَذَا وَکَذَا۔)) (مسند احمد: ۲۶۲۲۷)

۔ سیدنا ابو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک عورت کی نقل اتاری اور اس کے کوتاہ قد کا ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اس کی غیبت کی ہے، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میں کسی کی نقل اتاروں اور اس کے عوض میں مجھے اتنا کچھ عطا کر دیا جائے۔

۔ (۹۸۷۷)۔ (وَمِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ ) عَنْ اَبِیْ حُذَیْفَۃَ اَیْضًا، عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَتْ: حَکَیْتُ لِلنَّبِیِّ رَجُلًا ، فَقَالَ: ((مَایَسُرُّنِیْ اَنِّیْ حَکَیْتُ رَجُلًا وَاَنَّ لِیْ کَذَا وَکَذَا)) قَالَتْ: قُلْتُ: یارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ صَفِیِّۃَ امْرَاَۃٌ وَقَالَ: بِیَدِہِ (یَعْنِیْ الرَّاوِیَ) کَاَنَّہُ یَعْنِیْ قَصِیْرَۃً فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لقَدْ مَزَحْتِ (وَفِیْ لَفْظٍ: تَکَلَّمْتِ) بِکَلِمَۃٍ لَوْ مُزِجَ بِھَا مَائُ الْبَحْرِ مَزَجَتْ۔)) (مسند احمد: ۲۶۰۷۵)

۔ (دوسری سند) عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے ایک مرد کی نقل اتارنے لگی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں پسند نہیں کرتا کہ کسی کی نقالی کروں، اگرچہ اس کے عوض میں مجھے بہت کچھ دیا جائے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک صفیہ تو چھوٹے قد والی خاتون ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سن کر فرمایا: تم نے ایسی بات کی ہے کہ اگر اس کو سمندر کے پانی کے ساتھ ملا دیا جائے تو وہ مل جائے گی (یعنی بات کی گندگی سمندر کے پانی پر غالب آکر اسے خراب کر دے گی)۔

۔ (۹۸۷۸)۔ عَنْ عُبَیْدٍ مَوْلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، اَنَّ امْرَاَتَیْنِ صَامَتَا، وَاِنَّ رَجُلًا ، قَالَ: یارَسُوْلَ اللّٰہ! اِنَّ ھَاھُنَا امْرَاَتَیْنِ قَدْ صَامَتَا، وَاَنَّھُمْا قَدْ کَادَتَا اَنْ تَمُوْتَا مِنَ الْعَطْشِ، فَاَعْرَضَ عَنْہُ، اَوْ سَکَتَ، ثُمَّ عَادَ، (قَالَ الرَّاوِیُّ) وَاُرَاہُ قَالَ: بِالْھَاجِرَۃِ، قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، اِنَّھُمْا وَاللّٰہِ قَدْ مَاتَتَا، اَوْ کَادَتَا اَنْ تَمُوْتَا، قَالَ: ((ادْعُھُمَا۔)) قَالَ: فَجَائَ تَا، قَالَ: فَجِیْئَ بِقَدَحٍ، اَوْ عُسٍّ، فَقَالَ: لِاِحْدَاھُمَا: ((قِیْئِیْ۔)) فَقَائَتْ قَیْحًا اَوْ دَمًا وَصَدِیْدًا وَلَحْمًا، حَتّٰی قَائَتْ نِصْفَ الْقَدَحِ۔ ثُمَّ قَالَ لِلْاُخْرٰی: ((قِیْئِیْ۔)) فَقَائَتْ مِنْ قَیْحٍ، وَدَمٍ، وَصَدِیْدٍ، وَلَحْمٍ عَبِیْطٍ، وَغَیْرِہِ، حَتّٰی مَلَاَتِ الْقَدَحَ۔ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّ ھَاتَیْنِ صَامَتَا عَمَّا اَحَلَّ اللّٰہُ، وَاَفْطَرَتَا عَلٰی مَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْھِمَا، جَلَسَتْ اِحْدَاھُمَا اِلَی الْاُخْرٰی، فَجَعَلَتَا یَاْکْلَانِ لُحُوْمَ النَّاسِ۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۵۳)

۔ مولائے رسول سیدنا عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ دو عورتوں نے روزہ رکھا ہوا تھا، ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہاں دو عورتیں ہیں، انھوں نے روزہ رکھا ہوا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ وہ پیاس کی وجہ سے مرنے لگی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اعراض کیایا خاموش رہے، اس نے پھر اپنی بات کو دوہرایا اور دوپہر کے وقت کا ذکر بھی کیا اور کہا: اللہ کی قسم! وہ تو مرنے لگی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو بلا۔ پس جب وہ دونوں آئیں تو ایک بڑا پیالہ بھی لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان میں سے ایک خاتون سے فرمایا: تو قے کر۔ پس اس نے پیپیا خون، خون ملی پیپ اور گوشت پر مشتمل نصف پیالے کے بقدر قے کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسری خاتون سے فرمایا: اب تو قے کر۔ اس نے پیپ، خون، خون ملی پیپ اور کچے تازہ گوشت پرمشتمل اتنی قے کی کہ پیالہ بھر گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دو عورتوں نے اس کھانے پینے سے تو روزہ رکھا ہوا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز پر روزہ افطار کر رہی ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، یہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر لوگوں کا گوشت کھا رہی تھیں۔

۔ (۹۸۷۹)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَارْتَفَعَتْ رِیْحُ جِیْفَۃٍ مُنْتِنَۃٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَتَدْرُوْنَ مَا ھٰذِہِ الرِّیْحُ؟ ھٰذِہِ رِیْحُ الَّذِیْنََیَغْتَابُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۴۴)

۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے کہ بد بو دار مرداروں کی بو اٹھنے لگی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ بد بو کیسی ہے؟ یہ ان لوگوں کی بد بو ہے، جو مؤمنوں کی غیبت کرتے ہیں۔

۔ (۹۸۸۰)۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ ذَبَّ عَنْ لَحْمِ اَخِیْہِ فِیْ الْغِیْبَۃِ، کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُعْتِقَہُ مِنَ النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۶۲)

۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کا دفاع کیا، تو اللہ تعالیٰ پر حق ہو گا کہ وہ اس کو آگ سے آزاد کر دے۔

۔ (۹۸۸۱)۔ حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسٰی قَالَ حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ حَدَّثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ غَزِیَّۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ رَاشِدٍ قَالَ خَرَجْنَا حُجَّاجًا عَشَرَۃً مِنْ أَہْلِ الشَّامِ حَتّٰی أَتَیْنَا مَکَّۃَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فَأَتَیْنَاہُ فَخَرَجَ إِلَیْنَایَعْنِی ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ ضَادَّ اللّٰہَ فِی أَمْرِہِ وَمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ فَلَیْسَ بِالدِّینَارِ وَلَا بِالدِّرْہَمِ وَلٰکِنَّہَا الْحَسَنَاتُ وَالسَّیِّئَاتُ وَمَنْ خَاصَمَ فِی بَاطِلٍ وَہُوَ یَعْلَمُہُ لَمْ یَزَلْ فِی سَخَطِ اللّٰہِ حَتّٰییَنْزِعَ وَمَنْ قَالَ فِی مُؤْمِنٍ مَا لَیْسَ فِیہِ أَسْکَنَہُ اللّٰہُ رَدْغَۃَ الْخَبَالِ حَتّٰییَخْرُجَ مِمَّا قَالَ۔)) (مسند احمد: ۵۳۸۵)

۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کی سفارش، اللہ تعالیٰ کی کسی حد کے لیے رکاوٹ بن گئی ، اس نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی، جو آدمی مقروض ہو کر مرا، تو (وہ یاد رکھے کہ) روزِ قیامت درہم و دینار کی ریل پیل نہیں ہو گی، وہاں تو نیکیوں اور برائیوں کا تبادلہ ہو گا۔ جس نے دیدۂ دانستہ باطل کے حق میں جھگڑا کیا وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب میں رہے گا جب تک باز نہیں آتا۔ جس نے مومن پر ایسے جرم کا الزام لگایا جو اس میں نہیں پایا جاتا اسے رَدْغَۃُ الْخَبَال (جہنمیوں کے پیپ) میں روک لیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس بات سے نکل آئے، جو اس نے کہی ہو گی۔