مسنداحمد

Musnad Ahmad

زبان کی آفتوں کے مسائل

غیبت اور بہتان سے ترہیب کا بیان


۔ (۹۸۸۱)۔ حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسٰی قَالَ حَدَّثَنَا زُہَیْرٌ حَدَّثَنَا عُمَارَۃُ بْنُ غَزِیَّۃَ عَنْ یَحْیَی بْنِ رَاشِدٍ قَالَ خَرَجْنَا حُجَّاجًا عَشَرَۃً مِنْ أَہْلِ الشَّامِ حَتّٰی أَتَیْنَا مَکَّۃَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ فَأَتَیْنَاہُ فَخَرَجَ إِلَیْنَایَعْنِی ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ ضَادَّ اللّٰہَ فِی أَمْرِہِ وَمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ فَلَیْسَ بِالدِّینَارِ وَلَا بِالدِّرْہَمِ وَلٰکِنَّہَا الْحَسَنَاتُ وَالسَّیِّئَاتُ وَمَنْ خَاصَمَ فِی بَاطِلٍ وَہُوَ یَعْلَمُہُ لَمْ یَزَلْ فِی سَخَطِ اللّٰہِ حَتّٰییَنْزِعَ وَمَنْ قَالَ فِی مُؤْمِنٍ مَا لَیْسَ فِیہِ أَسْکَنَہُ اللّٰہُ رَدْغَۃَ الْخَبَالِ حَتّٰییَخْرُجَ مِمَّا قَالَ۔)) (مسند احمد: ۵۳۸۵)

۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کی سفارش، اللہ تعالیٰ کی کسی حد کے لیے رکاوٹ بن گئی ، اس نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی، جو آدمی مقروض ہو کر مرا، تو (وہ یاد رکھے کہ) روزِ قیامت درہم و دینار کی ریل پیل نہیں ہو گی، وہاں تو نیکیوں اور برائیوں کا تبادلہ ہو گا۔ جس نے دیدۂ دانستہ باطل کے حق میں جھگڑا کیا وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب میں رہے گا جب تک باز نہیں آتا۔ جس نے مومن پر ایسے جرم کا الزام لگایا جو اس میں نہیں پایا جاتا اسے رَدْغَۃُ الْخَبَال (جہنمیوں کے پیپ) میں روک لیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس بات سے نکل آئے، جو اس نے کہی ہو گی۔

Status: Sahih
حکمِ حدیث: صحیح
Conclusion
تخریج
(۹۸۸۱) تخریج: اسنادہ صحیح، أخرجہ الحاکم: ۲/ ۲۷، والبیھقی: ۶/ ۸۲، وأخرجہ ابوداود: ۳۵۹۷ دون قولہ: ومن مات وعلیہ دین… (انظر: ۵۳۸۵)
Explanation
شرح و تفصیل
فوائد:… اگر غیبت کا معنی و مفہوم سمجھنا مقصود ہو تو درج ذیل مثالوں پر غور کریں: سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: أنَّھُمْ ذَکَرُوْا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلاً فَقَالُوْا: لَایَأکُلُ حَتّٰییُطْعَمَ، وَلَا یَرْْْحَلُ حَتّٰییُرْحَلَ لَہُ فَقَالَ النَّبِیُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اغْتَبْتُمُوْہُ۔)) فَقَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إنَّمَا حَدَّثْنَا بِمَا فِیْہِ۔ قَالَ: ((حَسْبُکَ إذَا ذَکَرْتَ أخَاکَ بِمَا فِیْہِ۔)) … وہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکرکرتے ہوئے کہا:وہ اس وقت تک نہیں کھاتا جب تک اسے کھلایا نہ جائے اور جب تک اُسے سوار نہ کیاجائے وہ سوار بھی نہیں ہوتا۔نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اُس کی غیبت کی ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے وہی (عیب) بیان کیا ہے جو اس میں موجود ہے۔ آپ نے فرمایا: (کسی کی غیبت کے لیے) تجھے یہی کافی ہے کہ تو اپنے بھائی کے اس (عیب) کا ذکر کرے جو اس میں ہے۔ (شعب الایمان: ۲/ ۳۰۴) غور فرمائیں کہ صحابہ کرام نے ایک آدمی کی طبعی سستی اور کاہلی کا ذکر کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بھی غیبت قرار دیا، معلوم ہوا کہ ہمیں کسی کی عدم موجودگی میں اس کی کسی قسم کی عیب جوئی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: کَانَتِ الْعَرَبُ تَخْدِمُ بَعْضُھَا بَعْضًا فِی الأسْفَارِ، وَکَانَ مَعَ أبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ رَجُلٌ یَخْدِمُھُمَا، فَنَامَا، فَاسْتَیْقَظَا، وَلَمْ یُھَیِّئْ لَھُمَا طَعَامًا، فَقَالَ أحَدُھُمَا لِصَاحِبِہِ: إنَّ ھٰذا لَیُوَائِمُ نَوْمَ نَبِیِّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: لَیُوَائِمُ نَوْمَ بَیْتِکُمْ) فَأیْقَظَاہُ فَقَالَا: ائْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْ لَہُ: إنَّ أبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ یُقْرِئَانِکَ السَّلَامُ، وَھُمَاَ یَسْتَأدِمَانِکَ، فَقَالَ: ((أقْرِئْھُمَا السَّلَامَ، وَأخْبِرْھُمَاأنَّھُمَا قَدِ ائْتَدَمَا)) فَفَزِعَا، فَجَائَ ا إلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! بَعَثْنَا إلْیکَ َنَسْتَأدِمُکَ، فَقُلْتَ: قَدِ ائْتَدَمَا۔ فَبِأیِّ شَیْئٍ ائْتَدَمْنَا؟ قَالَ: ((بِلَحْمِ أخِیْکُمَا، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ إنِّی لَأرٰی لَحْمَہُ بَیْنَ أنْیَابِکُمَا۔)) قَالَا: فَاسْتَغْفِرْلَنَا، قَالَ: ((ھُوَ فَلْیَسْتَغْفِرْلَکُمَا۔)) … عرب کے لوگ سفر میں ایک دوسرے کی خدمت کیا کرتے تھے۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ و سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ایک آدمی تھا جو ان دونوں کی خدمت کیاکرتا تھا۔ (ایک دن) وہ دونوں سو کر بیدار ہوئے تو خادم نے اُن کے لیے کھانا تیار نہیں کیا تھا۔ اُن میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: یہ خادم تمہارے نبی کی نیند کی موافقت کرتاہے۔ اور ایک روایت میں ہے: تمہارے گھر کی نیند کی موافقت کرتا ہے۔ دونوں نے اُسے جگایا اور کہا: تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا اور آپ کو کہہ کہ ابوبکر اور عمر آپ کو سلام کہتے ہیں اور وہ آپ سے سالن طلب کر رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری طرف سے اُن دونوں کو سلام کہنا اوران کو بتلانا کہ تم دونوں نے سالن کھا لیاہے۔ پس ابوبکر وعمریہ سن کر گھبرا گئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے اور کہا: اے اللہ کے رسول!ہم نے (فلاں آدمی کو) آپ کی طرف سالن لینے کے لیے بھیجا تھا اور آپ نے فرمایا کہ تم دونوں سالن کھا چکے ہو، (بھلا) ہم نے کس چیز کا سالن کھا لیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کے گوشت کا، قسم ہے مجھے اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اُس کا گوشت تمہاری کچلیوں کے درمیان دیکھ رہا ہوں۔ سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا : ہمارے لیے بخشش طلب فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس خادم کو ہی تمہارے لیے بخشش طلب کرنا چاہئے۔ (مساویء الأخلاق للخرائطی: ۱۸۶،صحیحہ:۲۶۰۸) اس حدیث میں سیدنا ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر فاروق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے خادم کے بارے میں ، جبکہ وہ سویا ہوا تھا، یہ کہا کہ یہ تو سفر میں بھی گھر والی نیند ہی سوتا ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ یہ پہلے بیدار ہوتا اور ہمارے لیے کھانا تیار کر کے رکھتا ۔ لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس تبصرے کو بھی غیبت شمار کیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جو یہ فرمایا کہ مجھے تمھارے دانتوں میں تمھارے بھائی کا گوشت نظر آ رہا ہے۔ یہ درج ذیل آیت کے مفہوم کی طرف اشارہ کیا:{وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ} (سورۂ حجرات: ۱۲) … اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتاہے، (بلکہ) تم کو تو اس سے گھن ہو گی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص کی غیبت کی گئی، وہی غیبت کرنے والوں کے لیے بخشش طلب کرے، تاکہ ان کا جرم بے اثر ہو جائے۔