مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

اس امت کے فرعون ابوجہل ملعون کے قتل اور اس پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خوشی کا بیان

۔ (۱۰۷۰۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّہُ قَالَ: إِنِّی لَوَاقِفٌ یَوْمَ بَدْرٍ فِی الصَّفِّ، نَظَرْتُ عَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی، فَإِذَا أَنَا بَیْنَ غُلَامَیْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِیثَۃٍ أَسْنَانُہُمَا، تَمَنَّیْتُ لَوْ کُنْتُ بَیْنَ أَضْلَعَ مِنْہُمَا فَغَمَزَنِی أَحَدُہُمَا، فَقَالَ: یَا عَمِّ! ہَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَہْلٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُکَ؟ یَا ابْنَ أَخِی؟ قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّہُ سَبَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ رَأَیْتُہُ لَمْ یُفَارِقْ سَوَادِی سَوَادَہُ حَتَّییَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا، قَالَ: فَغَمَزَنِی الْآخَرُ، فَقَالَ لِی مِثْلَہَا، قَالَ: فَتَعَجَّبْتُ لِذٰلِکَ، قَالَ: فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلٰی أَبِی جَہْلٍ یَجُولُ فِی النَّاسِ، فَقُلْتُ لَہُمَا: أَلَا تَرَیَانِ ہٰذَا صَاحِبُکُمَا الَّذِی تَسْأَلَانِ عَنْہُ، فَابْتَدَرَاہُ فَاسْتَقْبَلَہُمَا فَضَرَبَاہُ حَتّٰی قَتَلَاہُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَاہُ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمَا قَتَلَہُ؟)) فَقَالَ: کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا أَنَا قَتَلْتُہُ، قَالَ: ((ہَلْ مَسَحْتُمَا سَیْفَیْکُمَا؟)) قَالَا: لَا فَنَظَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السَّیْفَیْنِ، فَقَالَ: ((کِلَاکُمَا قَتَلَہُ۔)) وَقَضٰی بِسَلَبِہِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَہُمَا مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ وَمُعَاذُ بْنُ عَفْرَائَ۔ (مسند احمد: ۱۶۷۳)

سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن میں صف میں کھڑا تھا، میں نے دائیں بائیں دیکھا تو میں نے اپنے آپ کو دو نو عمر انصاری بچوں کے درمیان کھڑا ہوا پایا، میں نے سو چا کہ کاش میرے قریب ان نو عمر بچوں کی بجائے کوئی طاقت ور آدمی ہوتا، اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے متوجہ کر کے پوچھا چچا جان!کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! لیکن بھتیجے! یہ تو بتلاؤ تمہیں اس سے کیا غرض ہے؟ وہ بولا: میں نے سنا ہے کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گالیاں دی ہوئی ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں اس سے اس وقت تک جدانہ ہوں گا، جب تک کہ ہم میں سے جس نے پہلے مرنا ہے وہ مرنہ جائے، اس کے ساتھ ہی دوسرے نوجوان لڑکے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، اس نے بھی مجھ سے ویسی ہی بات کی، مجھے ان دونوں کی باتوں پر تعجب ہوا۔ اتنے میں میں نے ابوجہل کو دیکھا، وہ کافر لوگوں کے درمیان چکر لگا رہا تھا، میں نے ان دونوں سے کہا: کیا تم اس آدمی کو دیکھ رہے ہو؟ یہیوہ آدمی ہے جس کی بابت تم دریافت کر رہے ہو، وہ یہ سنتے ہی اس کی طرف لپکے، ابوجہل کا ان دونوں سے سامنا ہوا تو انہوں نے وار کر کے اسے قتل کر ڈالا، اور اس کے بعد وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، اور سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کیا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے دریافت فرمایا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ اسی نے قتل کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی تلواروں کو صاف کر لیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں تلواروں کو دیکھا تو فرمایا: تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوجہل کا حاصل شدہ سامان کا فیصلہ سیدنا معاذ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں کیا، ان دونوں نوجوانوں کے نام سیدنا معاذ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا معاذ بن عفراء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔

۔ (۱۰۷۰۵)۔ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ بَدْرٍ: ((مَنْ یَنْظُرُ مَا فَعَلَ اَبُوْ جَہْلٍ؟)) فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ فَوَجَدَ اِبْنَیْ عَفْرَائَ قَدْ ضَرَبَاہُ حَتّٰی بَرَدَ، (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: حَتّٰی بَرَکَ) فَاَخَذَ بِلِحْیَتِہِ فَقَالَ: اَنْتَ اَبُوْ جَہْلٍ! فَقَالَ: وَھَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوْہُ اَوْ قَتَلَہُ اَھْلُہُ۔ (مسند احمد: ۱۲۱۶۷)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بدر کے دن فرمایا: کون ہے جو جا کر دیکھے کہ ابوجہل کیا کر رہا ہے؟ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے، انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے دو بیٹوں نے ابوجہل کو مار گرایا ہوا ہے تاآنکہ وہ ٹھنڈا ہونے یعنی مرنے کے قریب تھا، تو ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے اس کی ڈاڑھی سے پکڑ کر کہا: تو ہی ابوجہل ہے؟ ابوجہل نے کہا: تم نے جن جن لوگوں کو قتل کیا، کیا مجھ سے بڑھ کر بھی ان میں سے کوئی ہے؟ یایوں کہا: کیا مجھ سے بڑھ کر بھی کوئی آدمی ایسا ہے، جسے اس کے خاندان والوں نے قتل کیا ہو؟

۔ (۱۰۷۰۶)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: انْتَہَیْتُ إِلَی أَبِی جَہْلٍ یَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُہُ، وَہُوَ صَرِیعٌ وَہُوَ یَذُبُّ النَّاسَ عَنْہُ بِسَیْفٍ لَہُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْزَاکَ،یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! فَقَالَ: ہَلْ ہُوَ إِلَّا رَجُلٌ قَتَلَہُ قَوْمُہُ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَتَنَاوَلُہُ بِسَیْفٍ لِی غَیْرِ طَائِلٍ، فَأَصَبْتُ یَدَہُ فَنَدَرَ سَیْفُہُ فَأَخَذْتُہُ فَضَرَبْتُہُ بِہِ حَتّٰی قَتَلْتُہُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ حَتّٰی أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَأَنَّمَا أُقَلُّ مِنَ الْأَرْضِ فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: ((آللَّہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ۔)) قَالَ: فَرَدَّدَہَا ثَلَاثًا قَالَ: قُلْتُ: آللَّہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، قَالَ فَخَرَجَ یَمْشِی مَعِی حَتّٰی قَامَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیأَخْزَاکَ، یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! ہٰذَا کَانَ فِرْعَوْنَ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ۔)) قَالَ: وَزَادَ فِیہِ أَبِی عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَنَفَّلَنِی سَیْفَہُ۔ (مسند احمد: ۴۲۴۶)

سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن میں ابوجہل کے پاس پہنچا، اس کی ٹانگ پر ضرب آئی ہوئی تھی اور وہ گرا پڑا تھا اور اس حال میں بھی اپنی تلوار سے لوگوں کو اپنے آپ سے دور بھگا رہا تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن! اُس اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے رسوا کیا، وہ بولا: میں وہی ہوں جسے اس کی اپنی قوم نے قتل کیا ہے۔سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ اس کی اس بات پر میں نے بلاتا خیر اپنی تلوار چلا کر اس کے ہاتھ پر ماری اور اس کی تلوار گر گئی۔ پھر میں نے اسے اچھی طرح پکڑ کر اسے مارا اور قتل کر ڈالا۔ پھر میں گرمی میں، خوشی خوشی چلتا ہوا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، خوشی کے مارے میرے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے، میں نے آپ کو ساری بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا واقعی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات کو تین بار دہرایا، میں نے عرض کیا: واقعی، اُس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ساتھ چلتے ہوئے گئے یہاں تک کہ اس کی میت پر جا کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے دشمن! اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے ذلیل ورسوا کیا،یہ اس امت کا فرعون تھا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوجہل کی تلوار مجھے عنایت فرمائی۔

۔ (۱۰۷۰۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اَبِیْ عُبَیْدَۃَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ: اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ اللّٰہَ قَدْ قَتَلَ اَبَا جَہْلٍ، فَقَالَ: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ نَصَرَ عَبْدَہُ وَاَعَزَّ دِیْنَہُ۔)) وَقَال مَرَّۃًیَعْنِیْ اُمَیَّۃَ: ((صَدَقَ عَبْدَہُ وَاَعَزَّ دِیْنَہُ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ آخَرَ: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہُ۔)) (مسند احمد: ۳۸۵۶)

۔(دوسری سند) سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کو ہلاک کر دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اپنے دین کو عزت دی۔ امیہ بن خالد راوی کے الفاظ یہ ہیں: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے اپنے بندے کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو پورا کیا اور اپنے دین کو عزت دی۔ ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ پوراکیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کفار کے تمام لشکروں کو شکست دی۔