مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

حرقہ کی طرف سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مہم

۔ (۱۰۹۲۳)۔ عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْحُرَقَۃِ مِنْ جُہَیْنَۃَ قَالَ: فَصَبَّحْنَاہُمْ فَقَاتَلْنَاہُمْ، فَکَانَ مِنْہُمْ رَجُلٌ، إِذَا أَقْبَلَ الْقَوْمُ کَانَ مِنْ أَشَدِّہِمْ عَلَیْنَا، وَإِذَا أَدْبَرُوا کَانَ حَامِیَتَہُمْ، قَالَ: فَغَشِیتُہُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَلَمَّا غَشِینَاہُ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ، فَکَفَّ عَنْہُ الْأَنْصَارِیُّ وَقَتَلْتُہُ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا أُسَامَۃُ! أَقَتَلْتَہُ بَعْدَ مَا قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا مِنَ الْقَتْلِ، فَکَرَّرَہَا عَلَیَّ حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ إِلَّا یَوْمَئِذٍ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۸۸)

سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بنو جہینہ کے قبیلہ حرقہ کی طرف روانہ فرمایا، ہم صبح سویرے ان کے ہاں جا پہنچے اور ان سے قتال کیا، ان میں ایک آدمی ایسا تھا کہ جب وہ لوگ مقابلے کے لیے سامنے آتے تو وہ بے جگری سے لڑتا اور جب وہ لوگ کسی وقت پیٹھ دے کر بھاگتے تو وہ ان کی طرف سے دفاع کرتا، میں اور ایک انصاری اس پر غالب آگئے۔ جب ہم نے اسے قابو میں کر لیا تو اس نے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ پڑھ لیا۔ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تو اسے قتل کرنے سے اپنے ہاتھ روک لیے، مگر میں نے اسے قتل کر ڈالا، جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اسامہ! کیااس کے کلمہ پڑھ لینے کے بعد بھی تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اس نے دلی طور پر کلمہ نہیں پڑھا تھا، وہ تو صرف جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا تھا، لیکن (میرا ردّ کرنے کے لیے) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات اس قدر تکرار سے فرمائی کہ میں نے یہ پسند کیا کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا، بلکہ آج مسلمان ہوا ہوتا ( اور مجھ سے یہ خطا سرزد نہیں ہوئی ہوتییا قبولیت ِ اسلام کی وجہ سے یہ معاف ہو جاتی)۔

۔ (۱۰۹۲۴)۔ (وَعَنْہٗعَنْطَرِیْقٍ ثَانٍ بِنَحْوِہِ) وَفِیْہِ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّمَا قَالَھَا مَخَافَۃَ الْمَلَامِ وَالْقَتْلِ، فَقَالَ: ((اَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَبْلِہٖ؟حَتّٰی تَعْلَمَ مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ اَمْ لَا؟ مَنْ لَکَ بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟)) فَمَازَالَ یَقُوْلُ ذٰلِکَ حَتّٰی وَدِدْتُ اَنِّی لَمْ اُسْلِمْ اِلَّا یَوْمَئِذٍ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۴۵)

۔( دوسری سند) سیدنا اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس نے تو محض ملامت یا قتل سے بچنے کی خاطر یہ کلمہ پڑھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے اس وجہ سے کلمہ پڑھا یا کسی دوسری وجہ سے ؟ قیامت کے دن لَا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ کا سامنا کرنے کے لیے تمہارے ساتھ کون ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی بات کو اس حد تک دہراتے رہے کہ میں نے پسند کیا کہ کاش میںآج ہی مسلمان ہوا ہوتا ( اور مجھ سے یہ غلطی سرزد نہ ہوئی ہوتی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ملامت سے بچ جاتا)۔