مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کے آغاز سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات تک کی تفصیل کے بارے میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی جامع حدیث

۔ (۱۰۹۷۷)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ بَابَنُوسَ قَالَ: ذَہَبْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِی إِلٰی عَائِشَۃَ، فَاسْتَأْذَنَّا عَلَیْہَا، فَأَلْقَتْ لَنَا وِسَادَۃً، وَجَذَبَتْ إِلَیْہَا الْحِجَابَ، فَقَالَ صَاحِبِی: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ! مَا تَقُولِینَ فِی الْعِرَاکِ؟ قَالَتْ: وَمَا الْعِرَاکُ؟ وَضَرَبْتُ مَنْکِبَ صَاحِبِی، فَقَالَتْ: مَہْ آذَیْتَ أَخَاکَ، ثُمَّ قَالَتْ: مَا الْعِرَاکُ الْمَحِیضُ، قُولُوا: مَا قَالَ اللّٰہُ الْمَحِیضُ، ثُمَّ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَوَشَّحُنِی وَیَنَالُ مِنْ رَأْسِی وَبَیْنِی وَبَیْنَہُ ثَوْبٌ وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا مَرَّ بِبَابِی مِمَّا یُلْقِی الْکَلِمَۃَیَنْفَعُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا، فَمَرَّ ذَاتَیَوْمٍ فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا، ثُمَّ مَرَّ أَیْضًا فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قُلْتُ: یَا جَارِیَۃُ! ضَعِی لِی وِسَادَۃً عَلَی الْبَابِ وَعَصَبْتُ رَأْسِی فَمَرَّ بِی فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! مَا شَأْنُکِ؟)) فَقُلْتُ: أَشْتَکِی رَأْسِی، فَقَالَ: ((أَنَا وَا رَأْسَاہْ۔)) فَذَہَبَ فَلَمْ یَلْبَثْ إِلَّا یَسِیرًا حَتّٰی جِیئَ بِہِ مَحْمُولًا فِی کِسَائٍ، فَدَخَلَ عَلَیَّ وَبَعَثَ إِلَی النِّسَائِ، فَقَالَ: ((إِنِّی قَدِ اشْتَکَیْتُ وَإِنِّی لَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَدُورَ بَیْنَکُنَّ، فَأْذَنَّ لِی فَلْأَکُنْ عِنْدَ عَائِشَۃَ أَوْ صَفِیَّۃَ۔)) وَلَمْ أُمَرِّضْ أَحَدًا قَبْلَہُ، فَبَیْنَمَا رَأْسُہُ ذَاتَ یَوْمٍ عَلَی مَنْکِبَیَّ، إِذْ مَالَ رَأْسُہُ نَحْوَ رَأْسِی، فَظَنَنْتُ أَنَّہُ یُرِیدُ مِنْ رَأْسِی حَاجَۃً فَخَرَجَتْ مِنْ فِیہِ نُطْفَۃٌ بَارِدَۃٌ فَوَقَعَتْ عَلَی ثُغْرَۃِ نَحْرِی، فَاقْشَعَرَّ لَہَا جِلْدِی، فَظَنَنْتُ أَنَّہُ غُشِیَ عَلَیْہِ، فَسَجَّیْتُہُ ثَوْبًا، فَجَائَ عُمَرُ وَالْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ فَاسْتَأْذَنَا فَأَذِنْتُ لَہُمَا، وَجَذَبْتُ إِلَیَّ الْحِجَابَ، فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَیْہِ فَقَالَ وَا غَشْیَاہْ مَا أَشَدَّ غَشْیَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَامَا فَلَمَّا دَنَوَا مِنَ الْبَابِ، قَالَ الْمُغِیرَۃُ: یَا عُمَرُ! مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: کَذَبْتَ بَلْ أَنْتَ رَجُلٌ تَحُوسُکَ فِتْنَۃٌ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَمُوتُ حَتّٰییُفْنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِینَ، ثُمَّ جَائَ أَبُو بَکْرٍ فَرَفَعْتُ الْحِجَابَ فَنَظَرَ إِلَیْہِ، فَقَالَ: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِوَسَلَّمَ،ثُمَّ أَتَاہُ مِنْ قِبَلِ رَأْسِہِ فَحَدَرَ فَاہُ وَقَبَّلَ جَبْہَتَہُ، ثُمَّ قَالَ: وَا نَبِیَّاہْ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ حَدَرَ فَاہُ وَقَبَّلَ جَبْہَتَہُ، ثُمَّ قَالَ: وَا صَفِیَّاہْ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ وَحَدَرَ فَاہُ وَقَبَّلَ جَبْہَتَہُ، وَقَالَ: وَا خَلِیلَاہْ، مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ، وَعُمَرُ یَخْطُبُ النَّاسَ وَیَتَکَلَّمُ وَیَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یَمُوتُ حَتّٰییُفْنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِینَ، فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: {إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ} حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ: {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أَعْقَابِکُمْ} حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الْآیَۃِ، فَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ، وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، فَقَالَ عُمَرُ: وَإِنَّہَا لَفِی کِتَابِ اللّٰہِ مَا شَعَرْتُ أَنَّہَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! ہٰذَا أَبُو بَکْرٍ وَہُوَ ذُو شَیْبَۃِ الْمُسْلِمِینَ فَبَایِعُوہُ فَبَایَعُوہُ۔ (مسند احمد: ۲۶۳۶۵)

یزید بن بابنوس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میرا ایک ساتھی ہم دونوں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گئے، ہم نے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، انہوں نے ہمارے لیے تکیہ رکھ دیا اور اپنے سامنے پردہ کھینچ لیا، میرے ساتھی نے کہا: ام المؤمنین! آپ عراک کے متعلق کیا فرماتی ہیں؟ انہوں نے پوچھا: عراک سے کیا مراد ہے؟ یہ سن کر میں نے اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ مارا تو انہوں نے یعنی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: یہ کیا؟ تم نے اپنے بھائی کو ایذاء پہنچائی ہے؟ پھر خود ہی فرمایا: کیا عراک سے مراد حیض لے رہے ہو؟ تم وہی لفظ کہو جو اللہ نے کہا ہے یعنی المحیض ، پھر کہا: میں حیض کی حالت میں ہوتی اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھ سے لپٹ جاتے اور میرے سر کو چھو لیتے، میر ے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان ایککپڑا حائل ہوتا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب میرے دروازے کے پاس سے گزرتے تو کوئی مفید بات ارشاد فرما جاتے، ایک دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گزرے تو آپ نے کوئی لفظ ادا نہیں کیا، پھر گزرے تب بھی کوئی لفظ ارشاد نہیں فرمایا، دو یا تین مرتبہ ایسے ہی ہوا، میں نے خادمہ سے کہا: تم میرے لیے دروازے کے قریب تکیہ لگا دو اور میں نے اپنے سر پر کپڑا باندھ لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: عائشہ ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: میرا سر دکھتا ہے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہائے میرا سر۔ اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے گئے، کچھ دن گزرے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اٹھا کر لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک چادر زیب تن کئے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لے آئے اور دوسری ازواج کو پیغام بھجوایا کہ میں بیمار ہوں، میں تم سب کے پاس باری باری آنے کی استطاعت نہیں رکھتا، تم سب مجھے اجازت دے دو کہ میں عائشہ یا صفیہ کے پاس رہ لوں، مجھے اس سے قبل کسی مریض کی تیمار داری کرنے کا موقع نہیں ملا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر میرے سر کی طرف جھکا ہوا تھا کہ اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک میرے کندھے سے آلگا، میں نے سمجھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے سر کا آسرا لینا چاہتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منہ مبارک سے تھوڑا سا ٹھنڈا پانی سا نکل کر میری گردن پر آپڑا۔ یہ حالت دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں سمجھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی طاری ہوئی ہے۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوکپڑے سے ڈھانپ دیا، اتنے میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور مغیرہ بن شعبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے۔ انہوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، میں نے انہیں داخلے کی اجازت دے دی اور میں نے پردہ اپنی طرف کھینچ لیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو کہا: ہائے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر کس قدر شدید غشی طاری ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں اُٹھے، دروازے کے قریب پہنچے تو سیدنا مغیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے عمر! اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو گیا ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو غلط کہہ رہا ہے، تجھے تو غلط باتیں ہی سوجھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب تک منافقین کو نیست ونابود نہیں کر دے گا، تب تک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال نہیں ہو گا، پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، میں نے پردہ اُٹھایا، انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھ کر إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ پڑھا اور کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتقال فرما گئے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر مبارک کی طرف آکر انہوں نے اپنا منہ جھکا یا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی پر بوسہ دیا اور بے اختیار کہہ اُٹھے، ہائے اللہ کے نبی ! پھر اپنا سر اوپر کو اٹھایا پھر اپنا منہ جھکا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی کو دوبارہ بوسہ دیا، اور کہا: ہائے اللہ کے رسول! پھر اپنا سر اوپر کو اُٹھایا، اور اپنا منہ جھکا کر سہ بارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: ہائے اللہ کے خلیل! اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو انتقال فرما گئے ہیں۔ اس کے بعد وہ مسجد کی طرف چلے گئے، وہاں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے کہ جب تک اللہ تعالیٰ منافقین کا خاتمہ نہیں کرد ے گا، تب تک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال نہیں ہو گا، پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بات شروع کی، اللہ کی حمدوثناء بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: {إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ…} … بے شک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہ آیت تلاوت کی {وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ}… اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) تو اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول ہو گزرے ہیں، اگر یہ رسول فوت ہو جائے یا قتل ہو جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر کر مرتد ہو جاؤ گے؟ اور جو کوئی مرتد ہو گا وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا اور جو لوگ شکر گزار ہیں اللہ ان کو اجر عظیم سے نوازے گا۔ نیز سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو یاد رکھے اللہ تو ابد سے زندہ ہے ازل تک زندہ رہے گا، اسے کبھی موت نہیں آئے گی، اور جو کوئی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ آیت اگرچہ اللہ کی کتاب میں تھی، لیکن مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا کہ یہ اللہ کی کتاب میں ہے، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! یہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، جو تمام مسلمانوں میں سے بزرگ ترین اور معززہیں، تم ان کی بیعت کر لو، چنانچہ لوگوں نے ان کی بیعت کر لی۔

۔ (۱۰۹۷۸)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْیَوْمِ الَّذِی بُدِئَ فِیہِ، فَقُلْتُ: وَا رَأْسَاہْ، فَقَالَ: ((وَدِدْتُ أَنَّ ذٰلِکَ کَانَ وَأَنَا حَیٌّ فَہَیَّأْتُکِ وَدَفَنْتُکِ۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ غَیْرٰی: کَأَنِّی بِکَ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ عَرُوسًا بِبَعْضِ نِسَائِکَ، قَالَ: ((وَأَنَا وَا رَأْسَاہْ ادْعُوا إِلَیَّ أَبَاکِ وَأَخَاکِ حَتّٰی أَکْتُبَ لِأَبِی بَکْرٍ کِتَابًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَقُولَ قَائِلٌ وَیَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ أَنَا أَوْلٰی، وَیَأْبَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ۔)) (مسند احمد: ۲۵۶۲۶)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جس روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیماری کا آغاز ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تشریف لائے: میں نے کہا:ہائے میرا سر، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ساتھ یہ کام میری زندگی میں ہو تو میں تمہاری آخرت کی تیاری کر کے خود تمہیں دفن کروں۔ تو میں نے غیرت کے انداز سے کہا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں محسوس کر رہی ہوں، گویا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی دن اپنی دوسری کسی بیوی کے ساتھ شب باشی میں مصروف ہو جائیں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہائے میرا سر، تم اپنے والد اور بھائی کو میرے پاس بلواؤ۔ میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں ایک تحریر لکھ دوں، مجھے ڈر ہے کہ کوئی دوسرا کہنے والا کہے یا تمنا کرنے والا تمنا کرے کہ میں ( خلافتِ نبوت) کا زیادہ حق دار ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور مومنین ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کسی دوسرے پر راصی نہیں ہوں گے۔

۔ (۱۰۹۷۹)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ رَجَعَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ مِنْ جَنَازَۃٍ بِالْبَقِیعِ وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِی رَأْسِی وَأَنَا أَقُولُ: وَا رَأْسَاہْ! قَالَ: ((بَلْ أَنَا وَا رَأْسَاہْ۔)) قَالَ: ((مَا ضَرَّکِ لَوْ مِتِّ قَبْلِی فَغَسَّلْتُکِ وَکَفَّنْتُکِ ثُمَّ صَلَّیْتُ عَلَیْکِ وَدَفَنْتُکِ۔)) قُلْتُ: لٰکِنِّی أَوْ لَکَأَنِّی بِکَ وَاللّٰہِ! لَوْ فَعَلْتَ ذٰلِکَ لَقَدْ رَجَعْتَ إِلٰی بَیْتِی فَأَعْرَسْتَ فِیہِ بِبَعْضِ نِسَائِکَ، قَالَتْ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ بُدِئَ بِوَجَعِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۳۳)

۔( دوسری سند) سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دن البقیع قبرستان میں نماز جنازہ پڑھا کر واپس میرے ہاں تشریف لائے، میرے سر میں درد تھا اور میںیوں کہہ رہی تھی: ہائے میرا سر، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نہ کہو، بلکہ( میں کہتا ہوں) ہائے میرا سر۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہو جاؤ تو تمہیں کوئی ضرر نہیں، میں خود تمہیں غسل دے کر کفن پہنا کر، تمہاری نماز جنازہ پڑھا کر تمہیں دفن کروں گا۔ میں نے کہہ دیا: اللہ کی قسم! آپ یہ سارے کام کرنے کے بعد میرے ہی گھر آکر اسی گھر میں اپنی کسی بھی زوجہ کے ساتھ شب باشی کریں گے، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا دئیے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مرض الموت کا آغاز ہو گیا۔