سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری کے دوران آپ کے منہ میں دوا ڈالنے کی کوشش کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ کیا کہ مجھے اس طرح دوا نہ دو۔ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام مریض کی طرح دوا کونا پسند کر رہے ہیں، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تم لوگوں کو منع نہیں کیا تھا کہ مجھے دوا نہ ڈالو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب ہر ایک کے منہ میں دوا ڈالی جائے، ما سوائے عباس کے، کیونکہ وہ اس وقت موجود نہیں تھے۔
ہشام بن عروہ سے مروی ہے کہ میرے والد( عروہ) نے مجھے بتلایا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان ( عروہ) سے کہا: میرے بھانجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اپنے چچا (عباس رضی اللہ عنہ ) کی تعظیم کے حوالے سے ایک عجیب بات دیکھی، آپ کو کوکھ میں شدید درد ہوا کرتا تھا، ہم کہتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گردے کی تکلیف ہے، ہم اسے کوکھ کا درد نہیں کہتے تھے، ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھر یہ درد اس قدر شدت سے اٹھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا خطرہ محسوس ہونے لگا، سب لوگ گھبرا کر آپ کی طرف لپکے، ہم نے سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ذات الجنب کی بیماری لاحق ہو گئی ہے، اس لیے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ کے ایک گوشے میں دوا ڈال دی، کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ کیفیت زائل ہو گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو افاقہ ہونے پر احساس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ میں دوا ڈالی گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منہ میں دوا کا اثر بھی محسوس کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیماری کو مجھ پر مسلط کیا ہے، اللہ تعالیٰ ہرگز اسے مجھ پر مسلط نہیں کرے گا، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، گھر میں جس قدر افراد ہیں، میرے چچا یعنی عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے سوا باقی ہر شخص کے منہ میں یہی دوا ڈالی جائے۔ میں نے دیکھا کہ ایک ایک کے منہ میں وہ دوا ڈال رہے تھے، اس روز گھر میں جتنے لوگ موجود تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمام افراد کے نام اور ان کے فضائل بھی ذکر کئے، سب مردوں کے منہ میں دوا ڈالی جا چکی تو ازواج مطہرات کی باری آئی۔ ان میں سے ہر اک کے منہ میں بھی دوا ڈالی گئی۔ ابن ابی لزناد کی روایت کے مطابق سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے حضرات کے بیان کے مطابق ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باری آئی تو انہوں نے کہا: للہ کی قسم میں نے توروزہ رکھا ہوا ہے، لیکن ہم نے کہا: تم نے غلط سمجھا کہ ہم تمہیں چھوڑ دیں گی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو اس بات کی قسم اٹھائی ہوئی ہے۔ دختر زادے! اللہ کی قسم! وہ روزہ سے تھیں اور ہم نے ان کے منہ میں بھی دوا انڈیل دی۔
سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری کا آغاز ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ میں دوا ڈالنے کا مشورہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ میں دوا انڈیل دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا:یہ ارضِ حبشہ سے آئی ہوئی عورتوں کا کام ہے، سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی ان خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے سمجھا کہ آپ کو نمونیا کی شکایت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نمونیا ایسی بیماری ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس میں مبتلا نہیں کرے گا، اب گھر میں جتنے بھی لوگ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے سوا ان سب کے منہ میں یہ دوا انڈیلی جائے۔ راوی کہتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کے پیش نظر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے منہ میں بھی دوا ڈالی گئی حالانکہ وہ روزے سے تھیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونک مارتے، سیدہ کہتی ہیں:جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کی برکت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم پرپھیرتی تھی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار پڑے تو میںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو پکڑکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر پھیرتی اور ان کلمات کے ساتھ دعا کرتی، اَذْھِبِ الْبَاْسِ رَبِّ النَّاسِ (اے لوگوں کے رب! بیماری کو دور کر دے) ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر فرمایا: اَسْاَلُ اللّٰہَ الرَّفِیْقَ الْاَعْلَی الْاسْعَدَ (میں اللہ تعالیٰ سے بلند مرتبہ با سعادت حضرات کی رفاقت کی دعا کرتا ہوں۔)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیمار ہوتے تو میں آپ کو وہ دعا پڑھ کر دم کرتی تھی کہ جس دعا کے ساتھ جبریل علیہ السلام آپ کو دم کرتے اور دعا کیا کرتے تھے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ دعا پڑھنے لگی: أَذْہِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ بِیَدِکَ الشِّفَائُ لَا شَافِیَ إِلَّا أَنْتَ اشْفِ شِفَائً لَا یُغَادِرُ سَقَمًا (لوگوں کے رب! بیماری کو زائل فرما، شفا تیرے ہی ہاتھ میں ہے، تیرے سوا کوئی شفا نہیں دے سکتا، ایسی شفا عطا فرما جو کسی بھی بیماری کو باقی نہیں چھوڑے۔) جب میں مرض الموت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیےیہ دعا کرنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میرے پاس سے اُٹھ جاؤ، یہ دعا مجھے آج سے پہلی بیماریوں میں فائدہ دیتی تھی ( اب اس سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اب موت کا وقت آ چکا ہے اور وہ ٹلنے والا نہیں ہے) ۔
سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرض الموت کے دوران فرمایا: مجھ پر سات ایسی مشکوں کاپانی ڈالو، جن کے منہ کے بندھن کو نہ کھولا گیا ہو، شاید اس طرح مجھے کچھ راحت ہو، اور میں لوگوں سے ہم کلام ہو سکوں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے ایک ٹب میں بٹھا دیا، جو تانبے کا بنا ہوا تھا، اور ہم نے آپ پر ان مشکوں سے پانی ڈالنا شروع کیا، تاآنکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف اشارہ کرنے لگے کہ تم نے کام پورا کر دیا ہے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر( مسجد کی طرف) تشریف لے گئے۔