مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہنم اور جنت کے متعلقہ مسائل

اہل ِ جہنم کی بدبختی اور اہل جنت کی نعمتوں کا بیان

۔ (۱۳۱۹۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کُلُّ اَھْلِ النَّارِ یَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ: لَوْ اَنَّ اللّٰہَ ھَدَانِیْ، فَیَکُوْنُ عَلَیْہِمْ حَسْرَۃً، قَالَ: وَکُلُّ اَھْلِ الْجَنَّۃِیَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ، فَیَقُوْلُ: لَوْلَا اَنَّ اللّٰہَ ھَدَانِیْ، قَالَ: فَیَکُوْنُ لَہُ شُکْرًا۔)) (مسند احمد: ۱۰۶۶۰)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر جہنمی جنت میں اپنی جگہ کو دیکھے گا اور کہے گا: کاش کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی ہوتی، اس طرح سے یہ چیز اس کے لیے باعث ِ حسرت ہوگی، اور ہر جتنی جہنم میں اپنی جگہ دیکھے گا اور کہے گا: اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں اس مقام میں ہوتا، اس طرح سے یہ چیز اس کے لیے مزید شکر کا باعث بنے گی۔

۔ (۱۳۱۹۷)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُوْتٰی بِالرَّجُلِ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ لَہُ: یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ خَیْرَ مَنْزِلٍ، فَیَقُوْلُ: سَلْ وَتَمَنَّ، فَیَقُوْلُ: مَا اَسْاَلُ وَاَتَمَنّٰی اِلَّا اَنْ تَرُدَّنِیْ اِلَی الدُّنْیَا فَاُقْتَلَ فِیْ سَبِیْلِکَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّہَادَۃِ، وَیُوْتٰی بِالرَّجُلِ مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہُ: اِبْنَ اٰدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! شَرَّ مَنْزِلٍ، فَیَقُوْلُ: اَتَفْتَدِیْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْاَرْضِ ذَھَبًا؟ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ! نَعَمْ، فَیَقُوْلُ:کَذَبْتَ قَدْ سَاَلْتُکَ اَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَاَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ، فَیُرَدُّ اِلَی النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۱۳۱۹۴)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک جنتی آدمی کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: ابن آدم! تم نے اپنے ٹھکانے کو کیسا پایا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! ! بہترین ٹھکانہ، اللہ تعالیٰ کہے گا: مزید سوال کرو اورمزید تمنا کرو۔ وہ کہے گا:میں کوئی سوال نہیں کرتا اور میں کوئی تمنا نہیں کرتا، مگر یہ کہ تو مجھے دنیا میں واپس لوٹا دے تاکہ میں دس دفعہ تیرے راستے میں شہید ہو سکوں، اس کی اس بات کی وجہ شہادت کی فضیلت ہو گی، پھر ایک جہنمی آدمی کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا: آدم کے بیٹے! کیسا پایا تو نے اپنے ٹھکانے کو؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! بدترین جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر روئے زمین کے برابر تیرے پاس سونا ہوتو کیا تو اس جگہ سے بچنے کے لیے وہ دے دے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، میرے ربّ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان بات کامطالبہ کیا تھا لیکن تو نے تو وہ بھی نہیں کیا تھا، پھر اسے جہنم کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔

۔ (۱۳۱۹۸)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُوْتٰی بِاَنْعَمِ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ اَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: یَا ابْنَ آدَمَ! ھَلْ رَاَیْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ ھَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ: لَا، وَاللّٰہِ! یَارَبِّ! وَیَوْتٰی بِاَشَدِّ النَّاسِ فِی الدُّنْیَا مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَیُصْبَغُ فِی الْجَنَّۃِ صَبْغَۃً فَیُقَالُ لَہُ: ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُوْسًا قَطُّ؟ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ: لَا وَاللّٰہِ! یَارَبِّ! مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَاَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ۔)) (مسند احمد: ۱۳۱۴۳)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسو ل اللہ تعالیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ایک جہنمی کو لایا جائے گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ خوش حال تھا، اسے جہنم میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور پھر اس سے کہا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی اچھائی دیکھی ہے؟ کیا کبھی تو نے کوئی نعمت استعمال کی؟ وہ کہے گا: جی نہیں، اللہ کی قسم! اے میرے ربّ! اسی طرح ایک جنتی آدمی کو بلایا جائے گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ دکھوں اور شدتوں والا تھا، اسے جنت میں ایک چکر دیا جائے گا، اس کے بعد اس سے پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی ہے؟ کیا کبھی تجھے کوئی پریشانی آئی ہے؟ وہ کہے گا: جی نہیں، اللہ کی قسم! اے میرے رب! نہ مجھے کوئی تکلیف آئی ہے اور نہ کبھی کوئی پریشانی دیکھی ہے۔

۔ (۱۳۱۹۹)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا اَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ ثَنَا عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیْلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ بَیْنَا نَحْنُ صُفُوْفًا خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الظُّہْرِ اَوِ الْعَصْرِ اِذْ رَاَیْنَاہُیَتَنَاوَلُ شَیْئًا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُوَ فِی الصَّلاَۃِ لِیَاْخُذَہُ ثُمَّ تَنَاوَلَہُ لِیَاْخُذَہُ ثُمَّ حِیْلَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ ثُمَّ تَاَخَّرَ وَتَاَخَّرْنَا ثُمَّ تَاَخَّرَ الثَّانِیَۃَ وَتَاَخَّرْنَا، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ( ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌): یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! رَاَیْنَاکَ الْیَوْمَ تَصْنَعُ فِی صَلَاتِکَ شَیْئًا لَمْ تَکُنْ تَصْنَعُہُ؟ قَالَ: ((اِنَّہُ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ بِمَا فِیْہَا مِنَ الزَّھْرَۃِ فَتَنَاوَلَتُ قِطَفًا مِنْ عِنَبِہَا ِلآتِیَکُمْ بِہٖوَلَوْاَخَذْتُہُلَاَکَلَمِنْہُمَنْبَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ، لَایَنْتَقِصُوْنَہُ فَحِیْلَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ، وَعُرِضَتْ عَلَیَّ النَّارُ فَلَمَّا وَجَدْتُّ حَرَّ شُعَاعِہَا تَاَخَّرْتُ وَاَکْثَرُ مَنْ رَاَیْتُ فِیْہَا النِّسَائُ اللَّاتِیْ اِنِ ائْتُمِنَّ اَفْشَیْنَ وَاِنْ سَاَلْنَ اَحْفَیْنَ۔)) قَالَ اَبِیْ: قَالَ زَکَرِیَّا بْنُ عَدِیٍّ: اَلْحَفْنَ وَاِنْ اُعْطِیْنَ لَمْ یَشْکُرْنَ، وَرَاَیْتُ فِیْہَا لُحَیَّ بْنَ عَمْرٍو یَجُرُّ قُصْبَہُ وَاَشْبَہُ مَنْ رَاَیْتُ بِہٖمَعْبَدُبْنُاَکْثَمَ۔)) قَالَمَعْبَدٌ: اَیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ! یُخْشٰی عَلَیَّ مِنْ شُبْہِہٖفَاِنَّہُوَالِدٌقَالَ: ((لَا،اَنْتَمُوْمِنٌوَھُوَ کَافِرٌ وَھُوَ اَوَّلُ مَنْ جَمَعَ الْعَرَبَ عَلَی الْاَصْنَامِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۷۰)

سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ظہر یا عصر کی نماز کی بات ہے، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا میں صفیں بنائے یہ نماز ادا کر رہے تھے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے دوران اپنے سامنے کسی چیز کو بار بار پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی، پھر آپ پیچھے کو ہٹے اور ہم بھی پیچھے ہٹ گئے، آپ دوبارہ پیچھے کو ہوئے،ہم بھی پیچھے ہوگئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آج ہم نے آپ کو نماز کے دوران ایسا عمل کرتے دیکھا ہے کہ آپ اس سے قبل تو نماز میں ایسا کوئی عمل نہیں کرتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے سامنے جنت اپنی نعمتوں سمیت پیش کی گئی، میں نے اس کے انگوروں کا گچھا توڑنا چاہا تاکہ تمہیں دکھاؤں، اور اگر میںاس کو پکڑ لیتا اورزمین و آسمان کے درمیان موجود تمام مخلوقات اسے کھاتیں، تب بھی اس میں کوئی کمی نہ ہوتی، لیکن پھر میرے اور اس کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی، اسی طرح میرے سامنے جہنم کوپیش کیا گیا، جب میں نے اس کی شعاعوں کی حرارت محسوس کی تومیںپیچھے کو ہٹا، میںنے اس میں زیادہ تعداد ان عورتوں کی دیکھی کہ جنہیں جب کسی چیز کا امین بنایا جاتا ہے تو وہ اسے راز نہیں رکھتیں، اسی طرح جب سوال کرتی ہیں تو خوب اصرار کرتی ہیں، اور جب انہیں کوئی چیز دے دی جاتی ہے تو وہ خیانت کرتی ہیں، اور میںنے جہنم میں لحی بن عمرو کو دیکھا، وہ اپنی انتڑیوں کو گھسیٹ رہا تھا،اس کی شکل معبد بن اکثم کے مشابہ تھی۔ یہ سن کر سیدنا معبد بن اکثم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کی اس مشابہت سے ڈر لگ رہا ہے، کیونکہ آخر وہ نسبی طور پر والد بنتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، (اس کا تجھے کوئی نقصان نہیں ہو گا، کیونکہ) تم مومن ہو اور وہ کافر تھا، بلکہ یہ وہی شخص ہے جو عربوں کو سب سے پہلے بت پرستی کی طرف لے گیا۔