مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہنم اور جنت کے متعلقہ مسائل

اہل جنت ،ان کی صفات ،دیگر امتوں کے مقابلے میں امت ِ محمدیہ کی تعداد اوران کے کھانے پینے ، نکاح اور لباس کا تذکرہ

۔ (۱۳۳۱۶)۔ عَنْ عِیَاضِ بْنِ حِمَارٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَھْلُ الْجَنَّۃِ ثَلَاثَۃٌ ذُوْ سُلْطَانٍٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ، وَرَجُلٌ رَحِیْمٌ رَقِیْقُ الْقَلْبِ بِکُلِّ ذِیْ قُرْبٰی وَمُسْلِمٍ ، وَرَجُلٌ عَفِیْفٌ فَقِیْرٌ مُتَصَدِّقٌ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۲۳)

سیدنا عیاض بن حمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگ جتنی ہیں: (۱) وہ بادشاہ جو عادل ہو، صدقہ کرتا ہو اور اسے خاص توفیق سے نوازا گیا ہو،(۲) وہ آدمی جو مہربان اور ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے حق میں نرم دل والا ہو اور(۳) وہ پاکدامن آدمی جو فقیر ہو، لیکن پھر بھی صدقہ کرتا ہو۔

۔ (۱۳۳۱۷)۔ وَعَنْ حَسْنَائَ ابْنَۃِ مُعَاوِیَۃَ الصَّرِیْمِیَّۃِ عَنْ عَمِّہَا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَنْ فِی الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: ((اَلنَّبِیُّ فِی الْجَنَّۃِ، وَالشَّہِیْدُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالْمَوْلُوْدُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالْمَوْؤُدَۃُ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۸۵۹)

بنو صریم کی خاتون حسناء بنت معاویہ اپنے چچا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کرتی ہے، وہ کہتے ہیں:میںنے کہا: اے اللہ کے رسول! کون لوگ جنتی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی جنتی ہے، شہید جنتی ہے، بچہ جنتی ہے اور زندہ در گور کی گئی لڑکی جنتی ہے۔

۔ (۱۳۳۱۸)۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اَقْوَامٌ اَفْئِدَتُہُمْ مِثْلُ اَفْئِدَۃِ الطَّیْرِ۔)) (مسند احمد: ۸۳۶۴)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں وہ لوگ داخل ہوں گے، جن کے دل پرندوں کے دلوں جیسے نرم ہوںگے۔

۔ (۱۳۳۲۰)۔ وَعَنْْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَدْخُلُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ جُرْدًا مُرْدًا بِیْضًا جُعَادًا مُکْحَلِیْنَ اَبْنَائُ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِیْنَ عَلٰی خَلْقِ آدَمَ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا فِیْ عَرْضِ سَبْعَۃِ اَذْرُعٍ۔)) (مسند احمد: ۷۹۲۰)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل جنت، جنت میں جائیں گے تو ان کے جسموں پر بال نہیں ہوں گے، اور وہ بے ریش نوجوان ، سفید رنگ، گھنگریالے بالوں والے اور سر مگیں آنکھوں والے ہوں گے، ان کی عمریں تینتیس برس کی اور قد آدم علیہ السلام کے قد کے برابر سا ٹھ ہاتھ اور جسم کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی۔

۔ (۱۳۳۲۱)۔ وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُبْعَثُ الْمُوْمِنُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ جُرْدًا مُرْدًا مُکْحَلِیْنَ بَنِیْ ثَلَاثِیْنَ سَنَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۳۱)

سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اہل ایمان کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ بے ریش ہوں گے، جسم پر بھی بال نہیں ہوں گے، آنکھیں سرمگیں ہوں گی اور عمریں تیس سال کی ہوں گی۔

۔ (۱۳۳۲۲)۔ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَھْلُ الْجَنَّۃِیَاْکُلُوْنَ فِیْہَا وَیَشْرَبُوْنَ وَلَایَتَغَوَّطُوْنَ وَلَایَبُوْلُوْنَ وَلَایَتَمَخَّطُوْنَ وَلَایَبْزُقُوْنَ، طَعَامُہُمْ جُشَائٌ وَرَشْحٌ کَرَشْحِ الْمِسْکِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۵۴)

سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل جنت، جنت میں کھائیں گے اور پئیں گے، لیکن وہ پائخانہ کریں گے نہ پیشاب اور ان کے ناک سے فضلہ آئے گا نہ منہ سے تھوک، ان کا کھانا تو ایک ڈکار سے ہضم ہو جائے گا اور ان کا پسینہ کستوری کی خوشبو جیسا ہوگا۔

۔ (۱۳۳۲۳)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : اَیَاْکُلُ اَھْلُ الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: ((نَعَمْ وَیَشْرَبُوْنَ وَلَایَبُوْلُوْنَ فِیْہَا وَلَایَتَغَوَّطُوْنَ وَلَا یَتَنَخَّمُوْنَ، اِنَّمَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ جُشَائً وَرَشْحًا کَرَشْحِ الْمِسْکِ وَیُلْہَمُوْنَ التَّسْبِیْحَ وَالتَّحْمِیْدَ کَمَا تُلْہَمُوْنَ النَّفَسَ۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۷۵)

۔ (دوسری سند) سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ پوچھا گیا کہ آیا جنتی لوگ کچھ کھایا کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، وہ کھائیں گے اورپئیں گے، لیکن نہ وہ پیشاب کریں گے، نہ پائخانہ کریں گے اور نہ ان کو بلغم آئے گی، ایک ڈکار سے ان کا کھانا ہضم ہوجائے گا، ان کا پسینہ کستوری کی طرح عمدہ اور خوش بو دار ہوگا اوراللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرنے لیے ان کے دل میں یوں خیال ڈال دیا جائے گا، جیسے تمہارے دل میں سانس لینے کا خیال ڈالا گیا ہے۔

۔ (۱۳۳۲۴)۔ وَعَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلٌ مِنَ الْیَہُوْدِ فَقَالَ: یَااَبَاالْقَاسِمِ! اَلَسْتَ تَزْعُمُ اَنَّ اَھْلَ الْجَنَّۃِیَاْکُلُوْنَ فِیْہَا وَیَشْرَبُوْنَ؟ وَقَالَ لِاَصْحَابِہٖ: اِنْاَقَرَّلِیْ بِہٰذِہٖخَصَمْتُہُ،قَالَ: فَقَالَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَلٰی وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّ اَحَدَھُمْ لَیُعْطٰی قُوَّۃَ مِائَۃِ رَجُلٍ فِی الْمَطْعَمِ وَالْمَشْرَبِ وَالشَّہْوَۃِ وَالْجِمَاعِ۔)) قَالَ: فَقَالَ لَہُ الْیَہُوْدِیُّ: فَاِنَّ الَّذِیْیَاْکُلُ وَیَشْرَبُ تَکُوْنُ لَہُ الْحَاجَۃُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((حَاجَۃُ اَحَدِھِمْ عِرْقٌ یَفِیْضُ مِنْ جُلُوْدِھِمْ مِثْلَ رِیْحِ الْمِسْکِ، فَاِذَا الْبَطْنُ قَدْ ضُمِّرَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۴۸۴)

سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں خدمت میں آیا اور اس نے پوچھا: اے ابوالقاسم! آپ یہ کہتے ہیں ناں کہ جنتی جنت میں کھائیں گے اور پئیں گے؟ وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ چکا تھا کہ اگر محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دو باتوں کا اقرار کر لیا تو میں ان پر غالب آ جاؤں گا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ہاں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ایک ایک جنتی کو کھانے پینے اور شہوت و جماع کے سلسلے میں سو سو آدمیوں کے برابر قوت دی جائے گی۔ یہ سن کر یہودی نے کہا: تو پھرجو آدمی کھاتا پیتا ہے، اسے بول و براز کی حاجت بھی پیش آتی ہے؟رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی یہ حاجت اس طرح پوری ہو جائے گی کہ ان کے جسموں سے پسینہ خارج ہوگا، جس کی خوشبو کستوری جیسی ہوگی، اسی سے ان کے پیٹ ہلکے ہو جایا کریں گے۔

۔ (۱۳۳۲۵)۔ وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَرَاَیْتَ ثِیَابَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ اُتُنْسَجُ نَسْجًا اَمْ تُشَقَّقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّۃِ؟ قَالَ: فَکَاَنَّ الْقَوْمَ تَعَجَّبُوْا مِنْ مَسْاَلَۃِ الْاَعْرَابِیِّ فَقَالَ: ((مَا تَعَجَّبُوْنَ مِنْ جَاھِلٍ یَسْاَلُ عَالِمًا!)) قَالَ: فَسَکَتَ ھُنَیَّۃً، ثُمَّ قَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ عَنْ ثِیَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ؟)) قَالَ: اَنَا، قَالَ: ((لَا، بَلْ تُشَقَّقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۶۸۹۰)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر یہ سوال کیا: اے اللہ کے رسول! اہل ِ جنت کے لباس کے بارے میں فرمائیے کہ وہ بُنا جائے گا یا وہ جنت کے پھلوں سے ہی بنا لیا جائے گا؟ اس بدّو کے سوال سے یوں محسوس ہوا کہ لوگوں کو حیرت ہوئی ہے؟ یہ دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس بات سے تعجب ہو رہا ہے کہ ایک بے علم،علم والے سے ایک سوال کر رہا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر کے لیے خاموش رہے اور پھر فرمایا: وہ سائل کہاں ہے، جو اہل ِ جنت کے لباس کے بارے میں دریافت کر رہا تھا؟ وہ بولا: جی میں ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ـ اس لباس کو بُنا نہیں جائے گا، بلکہ وہ جنت کے پھلوں سے نکلے گا۔

۔ (۱۳۳۲۶)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَائَ اَعْرَابِیٌّ عُلْوِیٌّ جَرِیْئٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخْبِرْنَا عَنِ الْھِجْرَۃِ اِلَیْکَ اَیْنَمَا کُنْتَ اَوْ لِقَوْمٍ خَاصَّۃٍ اَمْ اِلٰی اَرْضٍ مَعْلُوْمَۃٍ اَمْ اِذَا مِتَّ اِنْقَطَعَتْ؟ قَالَ: فَسَکَتَ عَنْہُ یَسِیْرًا، ثُمَّ قَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ۔)) قَالَ: ھَا ھُوَ ذَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اَلْھِجْرَۃُ اَنْ تَہْْجُرَ الْفَوَاحِشَ مَاظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَتُقِیْمَ الصَّلاَۃَ وَتُوْتِیَ الزَّکَاۃَ ثُمَّ اَنْتَ مُہَاجِرٌ وَاِنْ مُتَّ بِالْحَضْرِ۔)) ثُمَّ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، اِبْتِدَائً مِنْ نَفْسِہٖ: جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخْبِرْنَا عَنْ ثِیَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ خَلْقًا تُخْلُقُ اَمْ نَسْجًا تُنْسَجُ، فَضِحَکَ بَعْضُ الْقَوْمِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مِمَّ تَضْحَکُوْنَ مِنْ جَاھِلٍ یَسْاَلُ عَالِمًا!)) ثُمَّ اَکَبَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ؟)) قَالَ: ھُوَ اَنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لَا بَلْ تَشَقَّقُ عَنْہَا ثَمَرُ الْجَنَّۃِ۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ (مسند احمد: ۷۰۹۵)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک علوی اور جرأت مند بدّو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں اپنی طرف ہجرت کے متعلق بتلائیں کہ آیا ہجرت اُدھر ہی کی جاسکتی ہے، جہاں آپ تشریف فرما ہوں یا ہجرت کا کسی مخصوص قوم کے ساتھ ہی تعلق ہے کہ وہی قوم ہجرت کر سکتی ہے یا ہجرت کا تعلق کسی مخصوص زمین کے ساتھ ہے یا جب آپ وفات پا جائیں گے تو کیا ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا؟ یہ بات سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: وہ سائل کہاں ہے؟ وہ بولا: جی میں ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اصل ہجرت تو یہی ہے کہ تو ظاہری اور باطنی گناہ کو اور برائی کو ترک کر دے، اور نماز قائم کر اور زکوٰۃ ادا کر، بس پھر تو صحیح معنوں میں مہاجر ہوگا، خواہ تجھے تیرے اپنے شہر میں ہی موت آ جائے۔ بعد ازاں سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی طرف سے شروع کرتے ہوئے کہا: ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں اہل ِ جنت کے لباس کے بارے میں آگاہ فرمائیں کہ اسے الگ سے پیدا کیا جائے گا یا اس کو بُنا جائے گا؟ اس کا سوال سن کر بعض لوگ ہنس پڑے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس سے کیوں ہنس رہے ہوکہ ایک بے علم نے ایک علم والے سے ایک مسئلہ پوچھا ہے؟ اس کے بعد اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر جھکا لیا اور پھر فرمایا: وہ سائل کہاں ہے؟ وہ بولا: جی یہ میں موجود ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار فرمایا: نہیں، بلکہ اس سے جنت کے پھل نکلتے ہیں۔