مسنداحمد

Musnad Ahmad

ایمان اور اسلام کی کتاب

ایمان، اسلام اور احسان کی وضاحت کا بیان

۔ (۵۵)۔عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؓ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ ذَاتَ یَوْمٍ عِنْدَ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا یُرَی(وَفِی رِوَایَۃٍ لَا نَرَی) عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی نَبِیِّ ا... للّّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِسْلَامِ مَا الْاِسْلَامُ؟ فَقَالَ: (( الْاِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ تُقِیْمَ الصَّلَاۃَ وَ تُؤْتِیَ الزَّکٰوۃَ وَ تَصُوْمَ رَمَضَانَ وَ تَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِِِِِِِِِِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا۔))، قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا لَہُ یَسْأَلُہُ وَ یُصَدِّقُہُ ،قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِیْمَانِ، قَالَ: ((الْإِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَ مَلَائِکَتِہِ وَ کُتُبِہِ وَ رُسُلِہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ الْقَدْرِ کُلِّہِ خَیْرِہِ وَ شَرِّہِ۔))، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِحْسَانِ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ۔))، قَالَ: فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ، قَالَ: ((مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ بِہَا مِنَ السَّائِلِ۔))، قَالَ: فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ أَمَارَاتِہَا، قَالَ: ((أَنْ تَلِدَ الْأَمَۃُ رَبَّتَہَا وَ أَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ رِعَائَ الشَّائِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبِنَائِ۔))، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ، قَالَ: فَلَبِثَ مَلِیًّا، (وَفِی رِوَایَۃٍ فَلَبِثَ ثَلَاثًا) فَقَالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَا عُمَرُ! أَتَدْرِیْ مَنِ السَّائِلُ؟)) قُلْتُ: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَإِنَّہُ جِبْرِیْلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔)) (مسند أحمد: ۳۶۷)   Show more

سیدنا عمر بن خطابؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم ایک دن اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک ہمارے پاس ایک آدمی آیا، اس کے کپڑے بہت زیادہ سفید اور بال بہت زیادہ سیاہ تھے، نہ تو اس پر سفر کی کوئی علامت نظر آ رہی تھی اور نہ ... ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا، بہرحال وہ آیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے گھٹنوں کے ساتھ ملا دیئے اور اپنے ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی رانوں پر رکھ دیئے اور کہا: اے محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتاؤ کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے اور حضرت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے، زکوۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔ اس نے آگے سے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ یہ شخص سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ بہرحال اس نے پھر سوال کیا اور کہا: آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالی، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن اور ساری کی ساری تقدیر، وہ اچھی ہو یا بری، پر ایمان لائے۔ اس نے کہا: جی، آپ نے سچ کہا ہے۔ اس نے تیسرا سوال کرتے ہوئے کہا: اب آپ مجھے احسان کے بارے میں بتائیں، احسان کیا ہوتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اور اگر تو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے پھر سوال کیا: آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: مسئول، قیامت کے بارے میں سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا۔ اس نے کہا: تو پھر آپ مجھے اس کی علامتوں کے بارے میں بتا دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: وہ یہ ہیں: لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی، تو دیکھے گا کہ ننگے پاؤں اور ننگے جسموں والے بکریوں کے چرواہے عمارتوں پر غرور کریں گے۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں: پھر وہ بندہ چلا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کچھ زمانے، ایک روایت کے مطابق تین دنوں تک اس کے بارے میں خاموش رہے اور پھر مجھ سے فرمایا: عمر! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سائل کون تھا؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ حضرت جبریلؑتھے، وہ تم لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے۔  Show more

۔ (۵۶)۔عَنْ أَبِیْ عَامِرِ الْأَشْعَرِیِّ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوِہِ وَ فِیْہِ: ثُمَّ وَلّٰی (أَیْ السَّائِلُ) فَلَمَّا لَمْ نَرَ طَرِیْقَہُ بَعْدُ قَالَ (أَیْ النَّبِیُّ) ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((سُبْحَانَ اللّٰہِ! ثَلَاثًا، ہَذَا جِبْرِیْلُ جَائَ لِیُعَلِّمَ النَّاسَ دِیْنَہُمْ، وَالَّذِی نَ... فْسِیْ بِیَدِہِ مَا جَائَ نِیْ قَطُّ إِلَّا وَ أَنَا أَعْرِفُہُ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ ہَذِہِ الْمَرَّۃَ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۲۹۹)   Show more

سیدنا ابو عامر اشعریؓ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: پھر وہ سوال کرنے والا آدمی چلا گیا، جب ہمیں اس کا کوئی راستہ نظر نہ آیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: سبحان اللہ! سبحا... ن اللہ! سبحان اللہ! (یعنی بڑا تعجب ہے) یہ جبرائیل ؑتھے جو لوگوں کو دین سکھلانے کے لیے آئے تھے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ جب بھی میرے پاس آتے تھے تو میں ان کو پہچانتا ہوتا تھا، ماسوائے اس دفعہ کے۔  Show more

۔ (۵۷)۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ: جَلَسَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَجْلِسًا لَہُ فَجَائَ جِبْرِیْلُؑ فَجَلَسَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاضِعًا کَفَّیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حَدِّثْنِی بِالْاِسْلَامِ، قَالَ...  رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((الْاِسْلَامُ أَنْ تُسْلِمَ وَجْہَکَ لِلّٰہِ وَ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ۔))، قَالَ: إِذَا فَعَلْتُ ذَالِکَ فَأَنَا مُسْلِمٌ؟ قَالَ: ((إِذَا فَعَلْتَ ذَالِکَ فَقَدْ أَسْلَمْتَ۔))، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ! فَحَدِّثْنِی مَا الْاِیْمَانُ؟ قَالَ: ((الْاِیْمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلَائِکَۃِ وَ الْکِتَابِ وَ النَّبِیِّیْنَ وَ تُؤْمِنَ بِالْمَوْتِ وَ بِالْحَیَاۃِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَ تُؤْمِنَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَ الْحِسَابِ وَالْمِیْزَانِ وَ تُوْمِنَ بِالْقَدْرِ کُلِّہِ خَیْرِہِ وَ شَرِّہِ۔))قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَالِکَ فَقَدْ آمَنْتُ؟ قَالَ: ((إِذَا فَعَلْتَ ذَالِکَ فَقَدْ آمَنْتَ۔))، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حَدِّثْنِی مَا الْاِحْسَانُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الْاِحْسَانُ أَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تَرَہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ۔))، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَحَدِّثْنِی مَتَی السَّاعَۃُ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((سُبْحَانَ اللّٰہِ! فِی خَمْسٍ مِنَ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا ہُوَ {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ } وَلٰکِنْ إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُکَ بِمَعَالِمَ لَہَا دُوْنَ ذَالِکَ۔))، قَالَ: أَجَلْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہَ فَحَدِّثْنِیْ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِذَا رَأَیْتَ الْأَمَۃَ وَلَدَتْ رَبَّتَہَا أَوْ رَبَّہَا وَ رَأَیْتَ أَصْحَابَ الشَّائِ تَطَاوَلُوْا بِالْبُنْیَانِ وَ رَأَیْتَ الْحُفَاۃَ الْجِیَاعَ الْعَالَۃَ کَانُوْا رُئُ وْسَ النَّاسِ فَذَالِکَ مِنْ مَعَالِمِ السَّاعَۃِ وَ أَشْرَاطِہَا۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!وَمَنْ أَصْحَابُ الشَّائِ وَالْحُفَاۃُ الْجِیَاعُ الْعَالَۃُ؟ قَالَ: (( الْعَرَبُ۔)) (مسند أحمد: ۲۹۲۴)   Show more

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، اتنے میں جبرائیلؑآ گئے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے سامنے اس طرح بیٹھ گئے کہ اپنی ہتھیلیاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسل... م ‌ کے گھٹنوں پر رکھ دیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں بیان کرو کہ وہ کیا ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع کر دے اور یہ شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ انھوں نے کہا: جب میں یہ امور سرانجام دے دوں گا تو میں مسلمان ہو جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں، جب تو یہ اعمال کرے گا تو تو مسلمان ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتلائیں کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کِتَابُ پر، نبیوں پر، موت اور موت کے بعددوبارہ زندہ ہونے پر، جنت و جہنم پر، حساب اور میزان پر اور ساری کی ساری تقدیر پر، وہ اچھی ہو یا بری۔ انھوں نے کہا: جب میں یہ اعمال کروں گا تو مؤمن ہو جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جی ہاں، جب تو ایسا کرے گا تو مؤمن ہو جائے گا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے یہ تو بتلا د و کہ احسان کیا ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح عمل کرے کہ گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو بیشک وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بیان کرو کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: سبحان اللہ! بڑا تعجب ہے، اس کا تعلق تو غیب والی ان پانچ چیزوں سے ہے، جن کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ } (بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میںمرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔) (سورۂ لقمان: ۳۴)، البتہ اگر تو چاہتا ہے تو میں تجھے اس کی علامتیں بیان کر دیتا ہوں۔ انھوں نے کہا: جی بالکل، اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بیان کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب تو دیکھے گا کہ لونڈی اپنی مالکہ یا آقا کو جنم دے گی اور بکریوں کے چرواہے عمارتوں میں فخر کرنے لگیں گے اور ننگے پاؤں والے بھوکے اور فقیر لوگوں کے سردار بن جائیں گے، یہ قیامت کی علامتیں ہیں۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بکریوں کے چرواہوں اور ننگے پاؤں والے بھوکوں اور فقیروں سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: عرب۔  Show more

۔ (۵۸)۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَؓ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنَحْوِہِ وَ فِیْہِ: ((وَ إِذَا کَانَتِ الْعُرَاۃُ الْحُفَاۃُ الْجُفَاۃُ ،وَ فِیْہِ: وَإِذَا تَطَاوَلَ رُعَاۃُ الْبَہْمِ فِی الْبُنْیَانِ۔)) وَفِیْہِ بَعْدَ ذِکْرِ الْآیَۃِ زِیَادَۃُ: ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ... ‌وسلم : ((رُدُّوْا عَلَیَّ الرَّجُلَ۔))، فَأَخَذُوْا لِیَرُدُّوْہُ فَلَمْ یَرَوْا شَیْئًا فَقَالَ: ((ہٰذَا جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ جَائَ لِیُعَلِّمَ النَّاسَ دِیْنَہُمْ۔)) (مسند أحمد: ۹۴۹۷)   Show more

سیدنا ابوہریرہؓ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: جب ننگے جسموں اور ننگے پاؤں والے اکھڑ مزاج اور سنگ دل لوگ… اس میں مزید یہ الفاظ ہیں: جب چھوٹی چھوٹی بھیڑ بکریوں کے چرواہے عمارتوں میں فخر کریں گے... ۔ آیت کے بعد یہ الفاظ بھی اس روایت میں ہیں: پھر وہ آدمی چلا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس آدمی کو دوبارہ میرے پاس بلاؤ۔ لوگوں نے اسے تلاش کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس لانا چاہا، لیکن وہ سرے سے اسے دیکھ ہی نہ سکے (کہ کہاں گیا ہے)۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ جبرائیلؑ تھے، جو لوگوں کو دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے۔  Show more

۔ (۵۹)۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((الْإِسْلَامُ عَلَانِیَۃٌ وَالْإِیْمَانُ فِی الْقَلْبِ۔)) قَالَ: ثُمَّ یُشِیْرُ بِیَدِہِ إِلٰی صَدْرِہِ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ: ((التَّقْوَی ہٰہُنَا۔)) (مسند أحمد:۱۲۴۰۸)

سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اسلام (اعضاء سے متعلقہ) علانیہ چیز ہے اور ایمان دل سے متعلقہ مخفی چیز ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ کیا اور پھر فرمایا: تقو... ی یہاں ہوتا ہے۔  Show more