مسنداحمد

Musnad Ahmad

نماز کو باطل کرنے والے اور اس میں مکروہ اور جائز امور کا بیان

نماز کو توڑ دینے والے امور کا بیان


۔ (۱۸۹۵) عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَقْطَعُ الصَّلَا ۃَ الْمَرْأَۃُ وَالْکَلْبُ وَالْحِمَارُ۔)) (مسند احمد: ۷۹۷۰)

سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عورت، کتا اور گدھا نماز کو توڑ دیتے ہیں۔

Status: Sahih
حکمِ حدیث: صحیح
Conclusion
تخریج
(۱۸۹۵) تخریج: اسنادہ صحیح۔ أخرجہ الحاکم: ۱/ ۴۹۹، وابونعیم: ۹/ ۲۲۳ (انظر: ۷۹۸۳)
Explanation
شرح و تفصیل
فوائد:… یہ اس موضوع سے متعلقہ مختلف احادیث ِ مبارکہ ہیں،درج ذیل حدیث بھی ذہن نشین کر لیں: سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو تو پالان کی پچھلی لکڑی جتنی اونچی چیز اس کے لیے سترہ بن سکتی ہے، اگر اس کے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کی (اونچائی) جتنی کوئی چیز نہ ہو تو گدھا، عورت اور کالا کتا اس کی نماز کو کاٹ دیں گے۔ (صحیح مسلم: ۵۱۰) اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر مثالوں کی طرح سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے انکار والی روایت کو ان کی لا علمی پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ مثبت کو منفی پر مقدم کیا جاتا ہے اور کئی صحابہ کرام یہ حدیث بیان کرنے والے موجود ہیں کہ گدھا، کتا اور عورت نماز کاٹ دیتے ہیں۔ بہرحال ان احادیث کے مختلف مفاہیم بیان کیے گئے ہیں، غور فرمائیں، پہلے اقوال نقل کرتے ہیں: امام نووی نے الخلاصۃ میں کہا: جمہور نے مختلف احادیث میں جمع وتطبیق کی صورت پیش کرتے ہوئے کہا کہ نماز کو کاٹنے سے مراد اس کے خشوع کو ختم کرنا ہے۔ سیدنا علی ، سیدنا عثمان اور سیدنا ابن عمر کا خیال ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزر جانے والی کوئی چیز اس کی نماز کو نہیں کاٹ سکتی۔ امام مالک، امام شافعی اور اصحاب الرائے کا بھییہی مسلک ہے۔ جبکہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور حسن بصری اس طرف گئے ہیں کہ عورت، گدھا اور کتا واقعی نماز کو کاٹ دیتے ہیں، حسن بصری نے بطور دلیلیہ حدیث پیش کی: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((یَقْطَعُ صَلَاۃَ الرَّجُلِ اِذَا لَمْ یَکُنْ بَیْنَیَدَیْہِ قِیْدُ آخِرَۃِ الرَّحْلِ، اَلْحِمَارُ وَالْکَلْبُ الْاَسْوَدُ وَالْمَرْأَۃُ)) یعنی: اگر نمازی کے سامنے پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز نہ ہو تو گدھا، کالا کتا اور عورت اس کی نماز کو کاٹ دیتے ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ قول مروی ہے کہ حائضہ عورت اور کالا کتا نماز کو قطع کردیتے ہیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور امام احمد اور امام اسحاق کا خیالیہ ہے صرف کالے کتے سے نماز متأثر ہوتی ہے۔ یہ مختلف اقوال ہیں، اس ضمن میں درج ذیل حدیث بھی قابل غور ہے: سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ شَیْئٌ، وَادْرَؤُوْا مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَاِنَّمَا ھُوَ شَیْطَانٌ۔)) یعنی: کوئی چیز نماز کو نہیں کاٹ سکتی اور جتنی طاقت رکھتے ہو، (گزرنے والے کو) ہٹاؤ، کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے۔ (ابوداود: ۷۱۹) اس کی سند میں مجالد بن سعیدسيء الحفظ ہے، لیکن درج ذیل روایات سے اس کو قوت ملتی ہے: (۱) سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ شَيْئٌ۔)) یعنی: کوئی چیز نماز کو نہیں کاٹتی۔ (طبرانی: ۷۶۸۸، دارقطنی:۱/ ۳۶۸) اس کی سند میں عُفَیر بن معدان ضعیف ہے۔ (۲) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَایَقْطَعُ صَلَاۃَ الْمَرْئِ امْرَأَۃٌ، وَلَا کَلْبٌ، وَلَا حِمَارٌ۔)) یعنی: آدمی کی نماز کو نہ عورت کاٹتی ہے، نہ کتا اور نہ گدھا۔ (دارقطنی: ۱/ ۳۶۸) (۳) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ شَیْئٌ۔)) یعنی: کوئی چیز نماز کو قطع نہیں کرتی۔ (دارقطنی: ۱/۳۶۷) ان روایات میں بھی ضعف موجود ہے۔ (۴) سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جو چیز نمازی کے سامنے سے گزرتی ہے، وہ اس کی نماز نہیں کاٹتی۔ (مؤطا امام مالک: ۱/ ۱۵۶، سندہ صحیح علی شرط الشیخین) (۵) سیدنا عثمان اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: کوئی چیز نماز کو قطع نہیں کرتی، البتہ حسب ِ استطاعت (گزرنے والی چیزوں) کو پیچھے ہٹاؤ۔ (ابن ابی شیبہ: ۱/ ۲۸۰، سندہ صحیح) (انظر: ۳۲۴۱، ۷۹۸۳) معلوم ایسے ہوتا ہے کہ حائضہ عورت، کتے اورگدھے کے نماز کاٹ دینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے خشوع اور اجرو ثواب میں کمی آجاتی ہے، اس تاویل کی وجہ درج بالا احادیث کے ساتھ ساتھ درج ذیل حدیث بھی ہے۔ سیدنا سہل بن ابی حثمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((إِذَا صَلّٰی أَحَدُ کُمْ إِلٰی سُتْرَۃٍ فَلْیَدْنُ مِنْھَا لَا یَقْطَعُ الشَّیْطَانُ عَلَیْہِ صَلَاتَہُ۔)) (ابوداود: ۶۹۵،والنسائی: ۲/ ۶۲، مسند احمد ۱۶۰۹۰) یعنی: جب تم میںسے کوئی سُترے کی طرف نماز پڑھے تو وہ اس کے قریب ہوجائے تاکہ شیطان اس پر اس کی نماز قطع نہ کرے۔ اس حدیث میں بھی قطع کرنے سے مراد خشوع وخضوع اور اجر وثواب میں کمی ہے، تو جب خود شیطان کے گزرنے سے نماز قطع نہیں ہوتی تو جن چیزوں کو شیطان کے مشابہ قرار دیا گیا ہے، ان کی وجہ سے بھی نماز منقطع نہیں ہونی چاہیے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نمازی کو سترہ کا اہتمام کرنا چاہیے، ہم باب نمازی کے آگے سترہ رکھنے اور اس کے پیچھے سے گزرنے کا حکم میں اس کی مکمل وضاحت کر چکے ہیں، لیکن اگر نمازی کے سامنے سے حائضہ عورت، گدھا یا کتا گزر جاتا ہے تو اس کے خشوع اور ثواب میں کمی آجاتی ہے۔ مولفِ فوائدn نے خود ذکر کیا ہے کہ چار صحابہ سے مرفوعاً ثابت ہے کہ عورت، کتے اور گدھے کے نمازی کے آگے سے گزر جانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے نماز نہ ٹوٹنے کے حوالہ سے فہم اور استدلال کی مولف نے تردید کی ہے۔ نماز نہ ٹوٹنے کے متعلق جو روایات پیش کی گئی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔ ابن عمر، عثمان اور علی کے اقوال آخر میں ذکر کیے گئے ہیں، وہ اگر سنداً ثابت بھی ہوں تو وہ ہمارے لیے حجت نہیں ہیں۔ پھر یہ اقوال صحیح احادیث کے مخالف ہیں۔ آخر میں سہل بن ابی حثمہ کی حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ جب شیطان کے آگے سے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو شیطان کے مشابہ چیز کے گزرنے سے نماز کیسے ٹوٹے گی۔ حالانکہ اس حدیث مین یہ بیان ہوا ہے کہ نمازی ستر کے قریب ہو کر نماز پڑھے تاکہ وہ آدمی کی نماز توڑ نہ دے۔ (ترجمہ بھی اسی طرح کیا گیا ہے) اس حدیث میں سترہ کے قریب نہ ہونے کی نماز کے قطع ہونے کا اشارہ مل رہا ہے، نہ کہ نماز کے قطع نہ ہونے کی بات۔ بہرحال صحیح صریح مرفوع روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت، کتے اور گدھے کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز قطع ہو جاتی ہے۔ (عبداللہ رفیق)