نماز میں سبحان اللہ کہنے ، تالی بجانے اور اشارہ کے جواز کا بیان
(نماز میں سلام کا جواب دینے کی بحث)
۔ (۱۹۳۸) عَنْ جَابِرٍ (بْنِ عَبْدِاللّٰہِ) رضی اللہ عنہ قَالَ: أَرْسَلَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَھُوَ مُنْطَلِقٌ إِلٰی بَنِی الْمُصْطَلِقِ فَأَتَیْتُہُ وَھُوَ یُصَلِّیْ عَلٰی بَعِیْرِہ فَکَلَّمْتُہُ فَقَالَ بِیَدِہِ ھٰکَذَا، ثُمَّ کَلَّمْتُہُ فَقَالَ بِیَدِہِ ھَکَذَا، وَأَنَا أَسْمَعُہُ یَقْرَأُ وَیُومِیئُ بِرَأْسِہِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: ((مَا فَعَلْتَ فِی الَّذِی أَرْسَلْتُکَ؟ فَإِنَّہُ لَمْ یَمْنَعْنِی إِلاَّ أَنِّی کُنْتُ أُصَلِّیْ۔)) (زَادَ فِی رِوَایَۃٍ) وَھُوَ مُوَجِّہٌ حِیْنَئِذٍ إِلَی الْمَشْرِقِ۔ (مسند احمد: ۱۴۶۹۷)
سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے (کسی کے لئے کام) بھیجا، جبکہ آپ خود بنو مصطلق کی طرف جارہے تھے، جب میں آپ کے پاس واپس آیا جبکہ آپ اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے، میں نے اسی حالت میں آپ سے بات کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، میں نے پھر بات کرنا چاہی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کر دیا، جبکہ میں سن رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلاوت کررہے تھے اور سر سے اشارہ کر رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: جس کام کیلئے میں نے تجھے بھیجا تھا، اس کا کیا بنا؟ مجھے بولنے سے روکنے والی چیز صرف یہ تھی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرق کی طرف متوجہ تھے۔
(۱۹۳۸) تخریج: أخرجہ مسلم: ۵۴۰ (انظر: ۱۴۳۴۵)
فوائد:… اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں اشارہ کرکے بات کرنے والے کو بات کرنے سے روکنا چاہا، پھر بعد میں وضاحت بھی کر دی کہ نماز کی وجہ سے بات تو نہیں کی جا سکتی تھی۔ سبحان اللہ! جہاں اس حقیقت پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ دانستہ طور پر کلام کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ نے نماز میں صبر و تحمل، خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری کو برقرار رکھنے کے لئے جن امور کی اجازت دی ہے، ان میں ایک کا بیان ان احادیث ِ مبارکہ میں ہے کہ ضرورت کے وقت کسی کو کوئی اشارہ کیا جا سکتا ہے۔یہ اسلام کی کمال حکمت ِ عملی ہے کہ اس نے اشارہ کرنے کی رخصت دے کر نمازیوں کو کئی قسم کی بے چینیوں اور خشوع و خضوع کے منافی امور سے محفوظ کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی دورانِ نماز کسی کو روکنا چاہتا ہو یا اس حالت میں کوئی فرد اس سے اجازت طلب کرتا ہے، تو بجائے اس کے کہ وہ جلدی جلدی اور انتہائی بے سکون انداز میں نماز کی تکمیل کرے، اسے چاہیے کہ وہ شریعت کی رخصتوں پر عمل کرتے ہوئے اشارہ کر کے یا سبحان اللہ کہہ کر اپنے مقصود کی طرف اشارہ کر دے۔ امام البانی رحمہ اللہ نے ایک حدیث سے استنباط کرتے ہوئے لکھا ہے: اس حدیث سے بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ دورانِ نماز مردوں کا سبحان اللہ کہہ کر اور عورتوں کا تالی بجا کر اجازت کا جواب دینا جائز ہے۔ ہاتھ اور سر سے اشارہ کرنا تو بالاولی جائز ہو گا اور اس کا جواز کئی احادیث سے ثابت ہوتا ہے، میں نے بعض کی تخریج صحیح ابوداود میں ان نمبروں (۸۵۸، ۸۵۹، ۸۶۰، ۸۷۰) کے تحت کی ہے۔ احناف نے اس موضوع پر یہ حدیث پیش کی ہے: ((مَنْ اَشَارَ فِیْ صَلَاتِہٖاِشَارَۃً تُفْہَمُ عَنْہُ فَلْیُعِدْ لَھَا۔)) یعنی: جس نے نماز میں ایسا اشارہ کیا، جس سے کوئی بات سمجھی جا سکتی ہے، تو وہ اپنی نماز دوبارہ ادا کرے۔ میں نے اس حدیث کے ضعف کی حقیقت کی وضاحت (ضعیف ابی داود: ۱۶۹) اور (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ۱۱۰۴)میں کی ہے۔ (صحیحہ: ۴۹۷) ہم قارئین کے استفادہ کے لیے مذکورہ بالا حدیث پر کی گئی بحث نقل کر دیتے ہیں، امام البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ((مَنْ اَشَارَ فِیْ صَلَاتِہٖاِشَارَۃً تُفْہَمُ عَنْہُ فَلْیُعِدْ لَھَا۔))یَعْنِیْ الصَّلَاۃَ۔ یعنی: جس نے نماز میں ایسا اشارہ کیا، جس سے کوئی بات سمجھی جا سکتی ہے، تو وہ اپنی نماز دوبارہ ادا کرے۔ یہ حدیث منکر ہے، اس کو امام ابوداود (۹۴۴)، امام طحاوی (۱/ ۲۶۳) اور امام دارقطنی (۱۹۵۔ ۱۹۶)نے روایت کیا ہے، اس حدیث کے ضعف کی وجہ ابن اسحق ہے، جو مدلس ہے اور اس نے یہ روایت عن کے ساتھ بیان کی ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ جناب زیلعی حنفی نے اس حدیث کو (نصب الرایۃ: ۲/ ۹۰) میں حدیثجیّد کہا، حالانکہ وہ ابن جوزی سے یہ بیان کر چکے ہیں کہ انھوں نے اس کو اسی علت کی بنا پر التحقیق میں معلول کہا۔ فقہ حنفی کی کتاب (الھدایۃ) میں حنفی مسلک کے حق میں اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا: نمازی زبان سے سلام کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ ہاتھ سے اشارہ کر کے دے سکتا ہے، کیونکہیہ معنوی طور پر کلام ہو گی۔ اگر کوئی نمازی سلام کی نیت سے کسی سے مصافحہ کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو گی۔ اس مسلک کی دلیلیہی حدیث ہے، جس کا ضعف واضح ہو چکا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث دوسری احادیث ِ صحیحہ کے مخالف بھی ہے، جن کے مطابق نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نماز میں اشارہ کرنا ثابت ہے۔ اسی لیے ہم نے اس حدیث کو منکر کہا، ابن ابو داود کے سابقہ کلام مین یہ اشارہ موجود ہے، اسی لیے عبد الحق اشبیلی نے اپنی کتاب احکام (۱۳۷۰) میں اس حدیث کے بعد کہا: صحیح بات یہ ہے کہ صحیح مسلم وغیرہ کی احادیث کی روشنی میں اشارہ کرنا جائز ہے۔ ان کی مراد سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے،جس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ کے ذریعے سلام کا جواب دیا تھا، میں نے اس کی تخریج (صحیح ابی داود: ۸۵۹) میں کی ہے، اور سیدنا انس (صحیح ابی داود: ۸۷۱)کی حدیث سے بھی اشارے کا ثبوت ملتا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ۱۱۰۴)
نماز کے دوران ضرورت کے پیش نظر اشارہ کرنے کے مزید دلائل
(۱) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: سورج گرہن کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ کسوف پڑھا رہے تھے، خواتین و حضرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے ان سے کہا: لوگوں کو کیا ہوا (کہ وہ اب نماز پڑھ رہے ہیں)؟ انھوں نے نماز ہی میں آسمان (یعنی سورج) کی طرف اشارہ کیا اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا: یہ کوئی نشانی ہے؟ انھوں نے جی ہاں کا اشارہ کیا۔ (بخاری: ۱۰۵۳) یہ واقعہ نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کا ہے، بلکہ آپ کی اقتدا میں کھڑے ہونے والی عورتوں کا ہے، اس میں دو دفعہ اشارے اور ایک دفعہ سبحان اللہ کہنے کا ذکر ہے۔
(۲) سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ صلح کرانے کے لیے بنو عمرو کی طرف گئے، مسجد نبوی میں نماز کا وقت ہو گیا، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امامت کے فرائض ادا کرنا شروع کیے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور صف میں کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے ابو بکر صدیق کو متنبہ کرنے کے لیے تالیاں بجائیں، چونکہ وہ نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، اس لیے لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجانا شروع کر دیں، بالآخر انھوں نے پیچھے دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صف میں کھڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اپنے مقام پر ٹھہرے رہو اور(نماز کی امامت جاری رکھو)۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی صورتحال میں مردوں کو سبحان اللہ کہنے اور عورتوں کو تالی بجانے کا حکم دیا۔ (بخاری: ۶۸۴)
(۳) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیمار ہونے کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی، جبکہ آپ کی اقتدا کرنے والے لوگ کھڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر امام کی اقتدا کے مسئلہ کی وضاحت کی۔ (بخاری: ۶۸۸)
(۴) سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز کے بعد ظہر کے بعد والی دو رکعتیں ادا کر رہے تھے، تو اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال کرنے والی لونڈی کی طرف اشارہ کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹ گئی تھی۔ (بخاری: ۱۲۳۳)
(۵) سیدنا عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے، جب سجدہ کرتے تو حسن اور حسین اچھل کر آپ کی پیٹھ پر چڑھ جاتے۔ جب صحابہ ارادہ کرتے کہ انھیں روکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشارہ کرتے کہ ان کو (اپنے حال پر) چھوڑ دو۔ جب نماز پوری کرتے تو انھیں اپنی گودی میں بٹھا لیتے اور فرماتے: جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ ان دونوں سے محبت کرے۔ (صحیح ابن خزیمہ: ۸۸۷، مسند ابو یعلی: ۶۰/ ۲، صحیحہ: ۳۱۲)
(۶) سیدنا عبد اللہ بن زید اور حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو ایک دن وادیٔ بطحا میں نماز پڑھا رہے تھے، ایک عورت نے سامنے سے گزرنا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ ٹھہر جا۔ پس وہ پیچھے ہٹ گئی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو وہ سامنے سے گزر گئی۔ (مسندأحمد: ۵/۲۱۶، صحیحہ: ۳۰۴۲) ان اور اس موضوع پر دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے دورانِ نماز کسی کی طرف اشارہ کرنے کی رخصت برقرار رکھی ہے۔