مسنداحمد

Musnad Ahmad

نماز کو باطل کرنے والے اور اس میں مکروہ اور جائز امور کا بیان

نماز میں دو سیاہ جانوروں(بچھو اور سانپ) کو قتل کرنے ، معمولی مقدار میں چلنے اور اس سلسلے میں کسی ضرورت کی وجہ سے اِدھر اُدھر متوجہ ہونے کے جواز کا بیان

۔ (۱۹۵۰) عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَیْنِ فِی الصَّلَاۃِ، اَلْعَقْرَبِ وَالْحَیَّۃِ۔ (مسند احمد: ۷۳۷۳)

سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو سیاہ چیزوںیعنی بچھو اور اور سانپ کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔

۔ (۱۹۵۱) عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّیْ فِی الْبَیْتِ وَالْبَابُ عَلَیْہِ مُغْلَقٌ فَجِئْتُ فَمَشٰی حَتّٰی فَتَحَ لِیْ ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی مَقَامِہِ، وَوَصَفَتْ أَنَّ الْبَابَ فِی الْقِبْلَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۲۸)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر میں نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور دروازہ بند ہوتا تھا، پھر جب میں آتی تھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (آگے) چلتے اور میرے لیے دروازہ کھول کر اپنے مقام پر واپس آ جاتے تھے۔ پھر انھوں نے بیان کیا کہ وہ دروازہ قبلہ کی سمت میں تھا۔

۔ (۱۹۵۲) (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: اِسْتَفْتَحْتُ الْبَابَ وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَائِمٌ یُصَلِّی فَمَشٰی فِی الْقِبْلَۃِ إِمَّا عَنْ یَمِیْنِہِ وَاِمَّا عَنْ یَسَارِہٖ حَتَّی فَتَحَ لِیْ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی مُصَلاَّہُ۔ (مسند احمد: ۲۶۴۹۹)

۔ (دوسری سند)وہ کہتی ہیں: میں نے دروازے پر دستک دی، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز پڑھ رہے تھے، پس آپ دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے قبلہ کی طرف چلے، یہاں تک کہ میرے لیے دروازہ کھول دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی جائے نماز پر لوٹ گئے۔

۔ (۱۹۵۳) عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ: کَانَ أَبُوْبَرْزَۃَ الْأَسْلَمِیُّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ بَالْأَھْوَازِ عَلٰی حَرْفِ نَہْرٍ وَقَدْ جَعَلَ اللِّجَامَ فِیْیَدِہِ وَجَعَلَ یُصَلِّیْ، فَجَعَلَتِ الدَّابَّۃُ تَنْکُصُ وَجَعَلَ یَتَأَخَّرُ مَعَھَا، فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنَ الْخَوَارِجِ یَقُولُ: اَللّٰہُمَّ اخْزِ ھٰذَا الشَّیْخَ کَیْفَیُصَلِّیْ؟ قَالَ: فَلَمَّا صَلّٰی قَالَ: قَدْ سَمِعْتُ مَقَالَتَکُمْ، غَزَوْتُ مَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِتًّا أَوْسَبْعًا أَوْثَمَا نِیًا فَشَہِدْتُّ أَمْرَہُ وَتَیْسِیْرَہُ، فَکَانَ رُجُوْعِیْ مَعَ دَابَّتِی أَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ تَرْکِھَا فَتَنْزِعُ إِلٰی مَأْلَفِہَا فَیَشُقُّ عَلَیَّ، وَصَلّٰی أَبُو بَرْزَۃَ الْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۰۸)

ازرق بن قیس کہتے ہیں: سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اہواز مقام میں دریا کے ایک کنارے پر تھے، انھوں نے سواری کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ کر نماز شروع کر دی، اتنے میں سواری پیچھے ہٹنے لگ گئی اور وہ بھی اس کے ساتھ پیچھے ہونے لگ گئے، ایک خارجی آدمی نے یہ منظر دیکھ کر کہا: اے اللہ! اس شیخ کو ذلیل کر، یہ کیسے نماز پڑھ رہا ہے۔جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: میں نے تمہاری بات سنی ہے، (حقیقتیہ ہے کہ) میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چھ یا سات یا آٹھ غزوے کیے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے معاملات اور آسانی کا مشاہدہ کیا،(جن سے میں نے یہ استدلال کیا کہ) میرا نماز کے اندر سواری کے ساتھ پیچھے ہٹ جانا، یہ اس سے ہلکا تھا کہ میں اس کو چھوڑ دیتا اور وہ اپنی چراگاہ کی طرف چلی جاتی اور یہ میرے لیے مشقت کا باعث بنتی۔ سیدنا ابو برزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دو رکعت عصر کی نماز پڑھی تھی۔

۔ (۱۹۵۴) عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُصَلِّییَلْتَفِتُیَمِیْنًا وَشِمَالاً وَلاً یَلْوِی عُنُقَہُ خَلْفَ ظَہْرِہِ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۵)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کی حالت میں دائیں بائیں جھانک لیتے تھے، لیکن اپنی گردن کو اپنے پیٹھ کی طرف نہیں مروڑتے تھے۔

۔ (۱۹۵۶) عَنْ أَنَسِ بْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ: رَأَیْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَسْتَشْرِفُ لِشَیْئٍ وَھُوَ فِی الصَّلاَۃِ،یَنْظُرُ إِلَیْہِ۔ (مسند احمد: ۴۰۸۳)

انس بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا وہ کسی چیز کے لئے نظر اٹھاتے، جبکہ وہ نماز میں ہوتے اور اس کی طرف دیکھ لیتے تھے۔