مسنداحمد

Musnad Ahmad

عذاب قبر کے ابواب

فصل چہارم: قبر کے میت کو سختی کی ساتھ دبوچنے کا بیان

۔ (۳۳۲۹) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، حِیْنَ تُوُفِّیَ قَالَ فَلَمَّا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَوُضِعَ فِی قَبْرِہِ وَسُُوِّیَ عَلَیْہِ سَبَّحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فسَبَحَّنْاَ طَوِیْلًا، ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا، فَقِیْلَ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ لَمْ سَبَّحْتَ، ثُمَّ کَبَّرْتَ؟ قَالَ لَقَدْ تَضَایَقَ عَلٰی ہٰذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُہُ حَتّٰی فَرَّجَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۳۴)

سیّدنا جابر بن عبداللہؓ کا بیان ہے، جب سعد بن معاذؓ کا انتقال ہوا، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، بعد ازاں جب انہیں قبر میں رکھ کر مٹی برابر کر دی گئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کافی دیر تک سُبحان اللّٰہ اور اللّٰہ اکبر پڑھتے رہے۔ ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ سبحان اللّٰہ اور اللّٰہ اکبر کہتے رہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! اس موقع پر سبحان اللّٰہ اور اللّٰہ اکبر کہنے کی کیا وجہ تھی؟ فرمایا: اس صالح بندے پر اس کی قبر تنگ ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فراخ کر دیا۔

۔ (۳۳۳۰) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ لِلْقَبْرِ ضَغْطَۃً، وَلَوْ کَانَ أَحَدٌ نَاجِیًا مِنْہَا نَجَا مِنْہَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۸۷)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک قبر کا دبوچنا ہوتا ہے اور اگر کوئی اس سے نجات پا سکتا ہوتا تو وہ سعد بن معاذ ہوتا۔

۔ (۳۳۳۱) عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی جَنَازَۃٍ، فَلَمَّا انْتَہَیْنَا إِلَی الْقَبْرِ قَعَدَ عَلٰی شَفَتِہِ فَجَعَلَ یَرُدُّ بَصَرَہُ فِیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ((یُضْغَطُ الْمُؤْمِنُ فِیْہِ ضَغْطَۃً تَزُوْلُ مِنْہَا حَمَائِلُہُ وَیُمْلَأُ عَلَی الْکَافِرِ نَارًا۔)) ثُمَّ قَالَ:(( أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِشَرِّ عِبَادِ اللّٰہِ؟ اَلْفَظُّ الْمُسْتَکْبِرُ، الَٔاَ أَخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ عِبَادِ اللّٰہِ؟ الضَّعِیْفُ الْمُسْتَضْعَفُ ذُوْالطِّمْرَیْنِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّ اللّٰہُ قَسَمَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۸۵۰)

سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں شریک تھے، جب ہم قبر کے قریب آئے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبر کے کنارے پر بیٹھ گئے اور قبر کے اندر دیکھنے لگے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن کو قبر میں اس قدر دبایا جاتا ہے کہ اس کے کندھے اور سینے کی ہڈیاں اپنی جگہ سے زائل ہو جاتی ہیں اور کافر کی قبر کو تو آگ سے بھر دیا جاتا ہے۔ کیا میں تمہیں یہ نہ بتلا دوں کہ اللہ کے بندوں میں سے بدترین لوگ کون ہیں؟ وہ ہیں جو بدمزاج اور متکبر ہوتے ہیں۔ اور کیا میں تمہیں یہ بھی نہ بتلا دوں کہ سب سے بہترین بندگانِ خدا کون سے ہیں؟ وہ ہیں جو دو بوسیدہ کپڑے والے ضعیف اور فقیر ہوتے ہیں اور جن کو لوگ بھی کمزور سمجھتے ہیں، لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھا دیں تو وہ بھی ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔

۔ (۳۳۳۲)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ أَتٰی ابْنُہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّکَ إِنْ لَمْ تَأْتِہِ لَمْ نَزَلْ نُعَیَِّرُ بِہٰذَا، فَأَتَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَہُ قَدْ أُدْخِلَ فِی حُفْرَتِہِ، فَقَالَ: ((أَفَلَا قَبْلَ أَنْ تُدْخِلُوْہُ؟)) فَأُخْرِجَ مِنْ حُفْرَتِہِ فَتَفَلَ عَلَیْہِ مِنْ قَرْنِہِ إِلٰی قَدَمِہِ وَأَلْبَسَہُ قَمِیْصَہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۴۹)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب عبداللہ بن ابی (منافق) مرا تو اس کا بیٹا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس نہ آئے تو ہمیں ہمیشہ عار دلائی جاتی رہے گی، پس جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اس کو قبر میں رکھا جا چکا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے اسے قبر میں داخل کرنے سے پہلے مجھے کیوں نہیں بلوا لیا تھا؟ پھر اسے قبر سے نکالا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اس کے سر سے قدم تک اپنا لعاب لگایا اور اسے اپنی قمیص پہنا دی۔

۔ (۳۳۳۳) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اُسْتُشْہِدَ أَبِی بِأُحُدٍ فَأَرْسَلْنَنِی أَخَوَاتِیْ إِلَیْہِ بِنَاضِحٍ لَہُنَّ، فَقُلْنَ: اِذْہَبْ فَاحْتَمِلْ أَبَاکَ عَلٰی ہٰذاَ الْجَمَلِ فَأَدْفِنْہُ فِی مَقْبَرَۃِ بَنِی سَلِمَۃَ، قَالَ: فَجِئْتُہُ وَأَعْوَانٌ لِی، فَبَلَغَ ذَالِکَ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ جَالِسٌ بِِأُحُدٍ فَدَعَانِی وَقَالَ: ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ! لَایُدْفَنُ إِلَّا مَعَ إِخْوَتِہِ۔)) فَدُفِنَ مَعَ أَصْحَابِہِ بِأُحُدٍ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۳۱)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: غزوہ احد میں میرے ابو جان شہید ہو گئے، میری بہنوں نے مجھے ایک اونٹ دے کر بھیجا اور کہا: جاؤ اور اپنے اباجان کی میت کو اس اونٹ پر لاد کر بنوسلمہ کے قبرستان میں دفن کرو۔ پس میں اور میرے مدد گار آ گئے، لیکن جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کویہ بات معلوم ہوئی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم احد میں بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلاکر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ان کو اپنے (شہید) بھائیوں کے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا۔ پس انہیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا گیا۔