۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان۔ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر حج مبرور ہے۔
۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں جہاد کروں پس شہید کیا جاؤں، پھر مجھے زندہ کیا جائے اور پھر شہید کر دیا جائے، پھر زندہ کیا جائے اور پھر شہید کر دیا جائے، پھر زندہ کیا جائے اور پھر شہید کر دیا جائے، اور اگر میں مؤمنوں پر گراں نہ سمجھتا تو میں کسی ایسے لشکر سے پیچھے نہ رہتا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میںجہاد کرتا ہے، لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ان کو سواریاں دوں اور ان کے پاس بھی اتنی وسعت نہیں کہ وہ خود تیاری کر کے میرے ساتھ چلیں اور مجھ سے پیچھے رہ جانا بھی ان کے نفسوں کو گوارا نہیں ہے۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتلائیں جو جہاد کے برابر ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ایسا عمل نہیں پاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بھلا کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ جب مجاہد نکل جائے تو تو مسجد میں داخل ہو جائے اور لگاتار قیام کرتا رہے اور سست نہ پڑے اور لگاتار روزے رکھتا رہے اور کوئی روزہ ترک نہ کرے؟ اس نے کہا: اتنی طاقت تو مجھے نہیں ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مجاہد کا گھوڑا اپنے رسی کے احاطے کے اندر اندر چلتا ہے تو اس کے لیے اس کے چلنے کی بھی نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں ایسے عمل کے بارے میں بتلا دیں جو جہاد کی سبیل اللہ کے برابر ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ دو یا تین بار ایسے ہی فرمایا، لوگوں نے کہا: آپ بتلا تو دیں، شاید ہم میں اس کی طاقت ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجاہد کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو لگاتار روزہ رکھنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مسلسل قیام کرنے والا ہو، نہ وہ روزے سے اکتاتا ہو اور نہ نماز سے، یہاں تک کہ مجاہد اپنے گھر والوںکی طرف لوٹ آئے۔
۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کی رہبانیت ہے اور اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں صبح یا شام کے وقت ایک دفعہ چلنا ان چیزوں سے بہتر ہے، جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں صبح یا شام کے وقت ایک دفعہ چلنا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔
۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام fنے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دی جائیں اور خود اس کا خون بہا دیا جائے۔
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جہاد سے واپسی بھی جہاد کی طرح ہی ہے۔
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان کا مکاتَب اپنی مکاتبت کا بقیہ حصہ لے کر ان کے پاس آیا، انھوں نے کہا: اب کے بعد تو نے مجھے پر داخل نہیں ہونا، تو جہاد فی سبیل اللہ کو لازم پکڑ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس مسلمان کے دل کے ساتھ اللہ کے راستے کا غبار ملے گا، اللہ تعالیٰ اس پر آگ کو حرام قرار دے گا۔