مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

اللہ تعالیٰ کی راہ میں رباط اور پہرے کی فضیلت کا بیان

۔ (۴۸۰۱)۔ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ: قَالَ (عُثْمَانُ) بْنُ عَفَّانَ وَ ھُوَ یَخْطُبُ عَلٰی مِنْبَرِہِ: إِنِّيْ مُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا کَانَ یَمْنَعُنِيْ أَنْ أُحَدِّثَکُمْ إِلاَّ الضِّنُّ عَلَیْکُمْ، وَ إِنِيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((حَرَسُ لَیْلَۃٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ لَیْلَۃٍ یُقَامُ لَیْلُھَا، وَ یُصَامُ نَھَارُھَا۔)) (مسند أحمد: ۴۳۳)

۔ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ انھوں نے کہا: میں تم کو ایک حدیث بیان کرنے والا ہوں، میں نے خود وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے، پہلے مجھے وہ حدیث بیان کرنے سے روکنے والی چیز تم پر بخل تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک رات کا پہرہ ہزار راتوں کے قیام اور ان کے دنوں کے روزوں سے افضل ہے۔

۔ (۴۸۰۲)۔ عَنْ أَبِيْ صَالِحٍ مَوْلٰی (عُثْمَانَ)، أَنَّ (عُثْمَانَ) قَالَ: أَیُّھَا النَّاسُ ھَجِّرُوْا فَإِنِّيْ مُھَجِّرٌ فَھَجَّرَ النَّاسُ،ثُمَّ قَالَ: أَیُّھَا النَّاسُ، إِنِِّيْ مُحَدِّثُکُمْ بِحَدِیْثٍ مَا تَکَلَّمْتُ بِہِ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی یَوْمِيْ ھٰذَا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ رِبَاطَ یَوْمٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ یَوْمٍ مِمَّا سِوَاہُ، فَلْیُرَابِطِ امْرُؤٌ حَیْثُ شَائَ، ھَلْ بَلِّغْتُکُمْ؟)) قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ۔)) (مسند أحمد: ۴۷۷)

۔ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: لوگو! جلدی آ جاؤ، میں بھی جلدی کرنے والا ہوں، پس لوگ پہلے وقت میں جمع ہو گئے، پھر انھوں نے کہا: اے لوگو! میں تم کو ایک ایسی حدیث بیان کرنے والا ہوں کہ جب سے میں نے وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی، اس وقت سے آج تک میں نے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن کے لیے پہرہ دینا ایک ہزار دنوں کی عبادت سے بہتر ہے، پس آدمی جہاں چاہے، یہ پہرہ دے، کیا میں نے تم کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! گواہ ہو جاؤ۔

۔ (۴۸۰۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((رِبَاطُ یَوْمٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَ قِیَامِہِ)) (مسند أحمد: ۶۶۵۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دن کے لیے پہرہ دینا ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے۔

۔ (۴۸۰۴)۔ عَنِ ابْنِ أَبِيْ زَکَرِیَّا الْخُزَاعِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْخَیْرِ، أَنَّہُ سَمِعَہُ وَ ھُوَ یُحَدِّثُ شُرَحْبِیْلَ بْنَ السِّمْطِ، وَھُوَ مُرَابِطٌ عَلَی السَّاحِلِ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ رَابَطَ یَوْمًا أَوْ لَیْلَۃٌ، کَانَ لَہُ کَصِیَامِ شَھْرِ لِلْقَاعِدِ، وَ مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَجْرَی اللّٰہ لَہُ أَجْرَہُ، وَ الَّذِيْ کَانَ یَعْمَلُ أَجْرَ صَلاتِہِ وَ صِیَامِہِ وَ نَفَقَتِہِ، وَ وُقِيَ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ، وَ أَمِنَ مِنَ الْفَزَعِ الأکْبَرِ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۱۲۸)

۔ سیدنا سلیمان خیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدنا شرحبیل بن سمط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بیان کیا، جبکہ وہ ساحل کی سرحدی چوکی پر مقیم تھے، انھو ں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے ایک دن یا ایک رات کے لیے سرحد پر قیام کیا، اس کے لیے پیچھے بیٹھنے والے کے ایک ماہ کے روزوں کے برابر اجر ہو گا اور جو اسی رباط کے دوران فوت ہو گیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے عمل کا اجر جاری کر دے گا، یعنی اس کی نماز، روزے اور مال خرچ کرنے کا اجر، اس کو قبر کے فتنے سے بچایا جائے گا اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔

۔ (۴۸۰۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانِ) عَنْ سَلْمَانَ، أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَصِیَامِ شَھْرٍ وَ قِیَامِہِ (زَادَ فِيْ روایۃٍ: صَائِمًا لا یُفْطِرُ، وَقَائِمًا لا یَفْتُرُ)، إِنْ مَاتَ جَرَی عَلَیْہِ أَجْرُ الْمُرَابِطِ حَتّٰی یُبْعَثَ، وَ یُؤْمَنَ الْفَتَّانَ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۱۲۹، ۲۴۱۳۶)

۔ (دوسری سند) سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں سرحد پر ایک دن اور رات کا پہرہ دینا ایک ماہ کے روزوں اور قیام کی طرح ہے، ایک روایت میں یہ زیادہ الفاظ ہیں: اس روزے دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا اور اس قیام کرنے والے کی طرح ہے، جو سست نہیں پڑتا، اور وہ اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے تو دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے تک اس کا اجر اس پر جاری کر دیا جائے گا اور وہ قبر کے فتنے سے امن میں رہے گا۔

۔ (۴۸۰۶)۔ عَنْ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ مَاتَ عَلٰی مَرْتَبَۃٍ مِنْ ھٰذِہِ الْمَرَاتِبِ بُعِثَ عَلَیْھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) قَالَ حَیْوَۃُ: یَقُوْلُ: رِبَاطٌ، أَوْ حَجٍّ، أَوْ نَحْوُ ذٰلِکَ۔ (مسند أحمد: ۲۴۴۴۹)

۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو ان مراتب میں سے کسی مرتبہ پر فوت ہو گیا تو وہ قیامت کے روز اسی پر اٹھایا جائے گا۔ حیوہ راوی نے کہا: مرتبے سے آپ کی مراد سرحدی چوکی پر قیام اور حج وغیرہ تھا۔

۔ (۴۸۰۷)۔ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ۔ تَرْفَعُ الْحَدِیْثَ۔ قَالَتْ: ((مَنْ رَابَطَ فِيْ شَيْئٍ مِنْ سَوَاحِلِ الْمُسْلِمِیْنَ، ثَلاثَۃَ أَیَّامٍ، أَجْزَأَتْ عَنْہُ رِبَاطَ سَنَۃٍ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۵۸۰)

۔ سیدہ ام درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے مسلمانوں کے کسی سرحدی علاقوں میں سے کسی علاقے پر تین دن کا پہرہ دیا تو یہ اس کو ایک سال کے رباط سے کفایت کرے گا۔

۔ (۴۸۰۸)۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ مَاتَ مُرَابِطًا وُقِيَ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ، وَ أُومِنَ مِنَ الْفَزَعِ الأکْبَرِ، وَغُدِيَ عَلَیْہِ وَ رِیحَ بِرِزْقِہِ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَ کُتِبَ لَہُ أَجْرُ الْمُرَابِطِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) (مسند أحمد: ۹۲۳۳)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو رباط کی حالت میں فوت ہو گیا، اس کو قبر کے فتنے سے بچا لیا جائے گا، بڑی گھبراہٹ سے امن دے دیا جائے گا،جنت سے صبح و شام اس کو رزق دیا جائے گا اور اس کے لیے قیامت کے دن تک رباط والے آدمی کا اجر لکھ دیا جائے گا۔

۔ (۴۸۰۹)۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَنَّہُ قَالَ: ((مَنْ حَرَسَ مِںْ وَرَائِ الْمُسْلِمِیْنَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی مُتَطَوِّعًا لا یَأْخُذُہُ سُلْطَانٌ، لَمْ یَرَ النَّارَ بِعَیْنَیْہِ إِلاَّ تَحِلَّۃَ الْقَسَمِ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی یَقُوْلُ: {وَ إِنْ مِنْکُمْ إِلاَّ وَارِدُھَا} [مریم: ۷۱])) (مسند أحمد: ۱۵۶۹۷)

۔ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں مسلمانوں کی حفاظت کرنے کے لیے پہرہ دیا اور اس کا یہ عمل نفلی طور پر ہو، نہ کہ سلطان کی طرف سے مجبوری کی بنا پر تو وہ اپنے آنکھوں سے آگ کو نہیں دیکھ سکے گا، ما سوائے قسم کو پورا کرنے کے لیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور نہیں ہے تم میں سے کوئی بھی، مگر اس آگ میں وارد ہونے والا ہے۔

۔ (۴۸۱۰)۔ عَنْ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((کُلُّ مَیِّتٍ یُخْتَمُ عَلٰی عَمَلِہِ إِلاَّ الَّذِيْ مَاتَ مُرَابِطًا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَإِنَّہُ یَنْمُوْا عَمَلُہُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَ یَأْمَنُ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۵۰)

۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر میت کے عمل کو ختم کر دیا جاتا ہے، ما سوائے اس آدمی کے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں رباط کی حالت میں مرتا ہے، اس کا عمل تو قیامت کے دن تک بڑھتا رہتا ہے اور وہ قبر کے فتنے سے مامون رہتا ہے۔

۔ (۴۸۱۱)۔ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : مِثْلُہُ۔ (مسند أحمد: ۱۷۴۹۲)

۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اسی قسم کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے۔

۔ (۴۸۱۲)۔ عَنْ أَبِيْ رَیْحَانَۃَ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِيْ غَزْوَۃٍ فَأَتَیْنَا ذَاتَ لَیْلَۃٍ إِلٰی شَرَفٍ فَبِتْنَا عَلَیْہِ فَأَصَابَنَا بَرْدٌ شَدِیْدٌ حَتّٰی رَأَیْتُ مَنْ یَحْفِرُ فِي الأرْضِ حُفْرَۃً یَدْخُلُ فِیْھَا یُلْقِي عَلَیْہِ الْحَجَفَۃَ،۔ یَعْنِي التُّرْسَ۔ فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ النَّاسِ، نَادٰی: ((مَنْ یَحْرُسُنَا فِي ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ وَ أَدْعُوْ لَہُ بِدُعَائٍ یَکُوْنُ فِیْہِ فَضْلا؟)) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأنْصَارِ: أَنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! فَقَال: ((اُدْنُہْ۔)) فَدَنَا، فَقَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) فَتَسَمّٰی لَہُ الأنْصَارِيُّ، فَفَتَحَ رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالدُّعَائِ فَأَکْثَرَ مِنْہُ۔ قَالَ أَبُو رَیْحَانَۃَ: فَلَمَّا سَمِعْتُ مَا دَعَا بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: أَنَا رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ((اُدْنُہْ۔)) فَدَنَوْتُ، فَقَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: فَقُلْتُ: أَنَا أَبُوْ رَیْحَانَۃَ، فَدَعَا بِدُعَائٍ ھُوَ دُوْنَ مَا دَعَا لِلأنْصَارِيِّ ثُمَّ قَالَ: ((حُرِّمَتِ النَّارُ عَلٰی عَیْنٍ دَمَعَتْ، أَوْ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ، وَ حُرِّمَتِ النَّارُ عَلٰی عَیْنٍ سَھِرَتْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔)) ((وَقَالَ)): حُرِّمَتِ النَّارُ عَلٰی عَیْنٍ أُخْرٰی ثَالِثَۃٍ لَمْ یَسْمَعْھَا مُحَمَّدُ بْنُ سُمَیْرٍ۔ قَالَ عَبْدُ اللّٰہ: قَالَ أَبِيْ: وَ قَالَ غَیْرُہُ یَعْنِيْ غَیْرَ زَیْدٍ: أَبُوْ عَلِيِّ نِ الْجَنَبِيُّ۔ (مسند أحمد: ۱۷۳۴۵)

۔ سیدنا ابو ریحانہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے، ہم ایک رات ایک ٹیلے پر آئے اور وہاں رات گزاری، لیکن وہاں اتنی سخت سردی تھی کہ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا وہ زمین میں گڑھا کھودتے اور اس میں داخل ہو کر اوپر ڈھال ڈال دیتے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ صورتحال دیکھی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آواز دی: اس رات کو ہمارا پہرہ کون دے گا، اس کے عوض میں اس کے لیے ایسی دعائیں کروں گا کہ ان میں فضیلت ہو گی؟ ایک انصاری نے کہا: جی میں پہرہ دوں گا اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: ذرا قریب ہو جا۔ پس وہ قریب ہو گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو کون ہے؟ انصاری نے اپنا نام بتایا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے دعائیں کرنا شروع کیں اور بہت زیادہ کیں، جب میں ابو ریحانہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ دعائیں سنیں تو میں نے کہا: میں پہرہ دینے کے لیے دوسرا آدمی ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ذرا قریب ہو جا۔ پس میں قریب ہو گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو کون ہے؟ میں نے کہا: میں ابو ریحانہ ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے بھی دعائیں تو دیں مگر وہ انصاری والی دعاؤں سے کم تھیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس آنکھ پر آگ کو حرام قرار دیا گیا ہے، جو اللہ کے ڈر کی وجہ سے روتی ہے اور اس آنکھ پر بھی آگ حرام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جاگتی ہے۔ راوی کہتا ہے: ایک اور آنکھ پر بھی آگ حرام تھی، لیکن محمد بن سمیر نے وہ حصہ نہیں سنا۔