۔ سیدنا زیدبن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے غازی کو تیار کیا یا اس کے اہل میں اس کا جانشیں بنا، اس کو غازی کے اجر جتنا ثواب ملے گا، جبکہ غازی کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔
۔ سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے غازی کوتیار کیا، اس نے جہاد کیا اور جو مجاہد کے اہل میں خیر و بھلائی کے ساتھ اس کا جانشیں بنا، اس نے بھی یقینا جہاد کیا۔
۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجاہد کو تیار کیا، یا اس کے اہل کا خیر و بھلائی کے ساتھ جانشیں بنا، پس بیشک وہ ہمارے ساتھ ہے۔
۔ (دوسری سند) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے ہر مال میں سے ایک ایک جوڑا خرچ کیا، جنت کے دربان اس کا استقبال کریں گے اور ان میں سے ہر ایک اس کو اپنے پاس والی چیز کی طرف بلائے گا۔ میں نے کہا: (یہ جوڑا جوڑا) کیسے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ سواریاں ہیں تو دو سواریاں، اگر وہ اونٹ ہیں تو دو اونٹ اور اگر وہ گائیں ہیں تو دو گائیں۔
۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجاہد کے سر پر سایہ کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جس نے مجاہد کو تیار کیا، یہاں تک کہ وہ مستقل بالذات اور خود مختار ہو گیا، اس کے لیے اس کے اجر جتنا اجر ہو گا اور جس نے ایسی مسجد بنائی، جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔
۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری نوجوان نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک میں جہاد تو کرنا چاہتا ہوں، لیکن میرے پاس مال نہیں ہے کہ میں تیار کر سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم فلاں انصاری کے پاس جاؤ، اس نے جہاد کی تیاری کر رکھی تھی، لیکن وہ بیمار پڑ گیا ہے اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسول تم کو سلام کہہ رہے ہیں اور تم سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو تم نے تیاری کر رکھی ہے، وہ مجھے دے دو۔ اس نے جا کر یہی پیغام دیا، اس نے جواباً اپنی بیوی سے کہا: اے فلاں خاتون! تونے میرے لیے جو کچھ تیاری کی تھی، وہ سارا کچھ اس آدمی کو دے دے، اور کوئی چیز مت روک، اللہ کی قسم! اگر تو نے کوئی چیز روکی تو اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت نہیں ڈالے گا۔ عفان راوی نے کہا: یہ نوجوان بنو اسلم قبیلے سے تھا۔
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو لحیان کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ ہر دو آدمیوں میں ایک آدمی نکلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے رہنے والے آدمیوں سے فرمایا: تم میں جو آدمی نکلنے والے مجاہد کے اہل و مال میں خیر و بھلائی کے ساتھ جانشیں بنے گا، اس کے لیے نکلنے والے کے نصف اجر کے برابر ثواب ہو گا۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو یہ بات مجھے خوش کرے گی کہ میں اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دوں اور اس حال میں مجھ پر تیسرا دن نہ آئے کہ میرے پاس ااس میں سے کوئی دینار اور درہم ہو، ما سوائے اس چیز کے، جس کو میں قرضہ کی ادائیگی کے لیے روک لوں۔
۔ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے لگام زدہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: تو قیامت کے روز سات سو لگام زدہ اونٹنیوں کے ساتھ آئے گا۔
۔ سیدنا ابن حظلیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کے راستے میں موجود جماعت پر خرچ کرنے والا ایسے ہے، جیسے اس نے دونوں ہاتھ صدقہ کے ساتھ پھیلا رکھے ہوں اور وہ ان کو بند نہیں کرتا۔
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک غزوے کا ارادہ کیا اور فرمایا: اے مہاجروں اور انصاریوں کی جماعت! بیشک تمہارے بعض بھائی ایسے بھی ہیں، جن کے پاس نہ کوئی مال ہے، نہ ان کا کوئی رشتہ دار ہے، اس لیے ہر آدمی اپنے ساتھ دو یا تین افراد کو ملا لے۔ پس ہم میں سے ہر آدمی کی ان دو یا تین افراد کی وجہ سے اپنے اونٹ پر سواری کرنے کی باری ہوتی تھی، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے بھی اپنے ساتھ دو یا تین افراد ملا لیے اور میری بھی ان کی طرح سواری کرنے کی ایک باری ہوتی تھی۔
۔ سیدنا رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ کیا اور کہا: ہم میں سے ایک آدمی حاصل ہونے والی غنیمت کے نصف پر اونٹنی لیتا تھا، یہاں تک (بسااوقات ایسے ہوتا کہ) ہم میں سے ایک آدمی کو تیر کی لکڑی ملتی اور دوسرے کو پھلکا اور پر ملتے۔