مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

شہداء کی فضیلت

۔ (۴۸۷۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلشُّہَدَائُ عَلٰی بَارِقِ نَہْرٍ بِبَابِ الْجَنَّۃِ فِیْ قُبَّۃٍ خضْرَائَ، یَخْرُجُ عَلَیْہِمْ رِزْقُہَم مِنَ الْجَنَّۃِ بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا۔)) (مسند أحمد: ۲۳۹۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہداء جنت کے دروازے پر سبز قبے میں نہر کی ایک طرف ہوتے ہیں، صبح و شام ان کا رزق جنت سے آتا ہے۔

۔ (۴۸۷۷)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: وَعَدَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ الْہِنْدِ، فَإِنْ اسْتُشْہِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَیْرِ الشُّہَدَائِ، وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُو ہُرَیْرَۃَ الْمُحَرَّرُ۔ (مسند أحمد: ۷۱۲۸)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ کیا، اگر میں اس میں شہید ہو گیا تو میں بہترین شہید ہوں گا اور اگر میں اس سے واپس آ گیا تو ابو ہریرہ (آگ سے) آزاد ہو کر واپس آئے گا۔

۔ (۴۸۷۹)۔ (وَعَنْہٗ أَیْضًا) قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کُلُّ کَلْمٍ یُکْلَمُہُ الْمُسْلِمُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، ثُمَّ یَکُونُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَہَیْئَتِہَا إِذَا طُعِنَتْ تَنْفَجِرُ دَمًا اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالْعَرْفُ عَرْفُ الْمِسْکِ۔)) قَالَ أَبِی: یَعْنِی الْعَرْفَ الرِّیحَ۔ (مسند أحمد: ۸۱۹۰)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر زخم جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مسلمان کو لگتا ہے، یہ قیامت کے دن اسی ہیئت پر ہو گا، جب وہ زخم لگا گیا لیکن اس سے خون بہہ رہا ہو گا کہ اس کا رنگ تو خون والا ہو گا، لیکن خوشبو کستوری کی ہو گی۔

۔ (۴۸۸۰)۔ (وَعَنْہٗ أَیْضًا) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَضْحَکُ اللّٰہُ لِرَجُلَیْنِ، یَقْتُلُ أَحَدُہُمَا الْآخَرَ کِلَاہُمَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ۔)) قَالُوْا کَیْفَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((یَقْتُلُ ہٰذَا فَیَلِجُ الْجَنَّۃَ، ثُمَّ یَتُوبُ اللّٰہُ عَلَی الْآخَرِ فَیَہْدِیہِ إِلَی الْإِسْلَامِ، ثُمَّ یُجَاہِدُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَیُسْتَشْہَدُ۔)) (مسند أحمد: ۸۲۰۸)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ دو آدمیوں کی طرف ہنستے ہیں، حالانکہ ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، لیکن وہ دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ دوسرے یعنی قاتل پر رجوع کرتا ہے اور اس کو اسلام کی طرف ہدایت دے دیتا ہے، پھر وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے۔

۔ (۴۸۸۱)۔ عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أَشْرَفْنَا عَلٰی حَرَّۃِ وَاقِمٍ قَالَ: فَدَنَوْنَا مِنْہَا فَإِذَا قُبُورٌ بِمَحْنِیَّۃٍ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قُبُورُ إِخْوَانِنَا ہٰذِہِ، قَالَ: ((قُبُورُ أَصْحَابِنَا۔)) ثُمَّ خَرَجْنَا حَتّٰی إِذَا جِئْنَا قُبُورَ الشُّہَدَائِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہٰذِہِ قُبُورُ إِخْوَانِنَا۔)) (مسند أحمد: ۱۳۸۷)

۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ (مدینہ کے) واقم ٹیلے کے پاس موجود حرّہ ہمیں نظر آنے لگا، جب ہم اس کے قریب پہنچے تو نظر آیا کہ وہاں وادی کے پست مقام پر چند قبریں تھیں، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ہمارے ساتھیوں کی قبریں ہیں۔ پھر ہم آگے بڑھے، یہاں تک کہ شہداء کی قبروں کے پاس پہنچ گئے، وہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں۔

۔ (۴۸۸۲)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَائَ یَقُولُ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْأَنْصَارِ مُقَنَّعٌ فِی الْحَدِیدِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُسْلِمُ أَوْ أُقَاتِلُ، قَالَ: ((لَا بَلْ أَسْلِمْ، ثُمَّ قَاتِلْ۔)) فَأَسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہٰذَا عَمِلَ قَلِیلًا وَأُجِرَ کَثِیرًا۔)) (مسند أحمد: ۱۸۷۹۳)

۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، وہ لوہے کے ہتھیاروں سے لدا ہوا تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اسلام قبول کروں یا قتال کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تو پہلے اسلام قبول کر اور پھر قتال کر۔ پس وہ مسلمان ہو گیا اور پھر لڑا، یہاں تک کہ شہید ہو گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس شخص نے عمل تو تھوڑا کیا ہے، لیکن اس کو بہت زیادہ اجر دیا گیا ہے۔

۔ (۴۸۸۳)۔ عَنْ نُعَیْمِ بْنِ ہَمَّارٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیُّ الشُّہَدَاء ِ أَفْضَلُ قَالَ: ((اَلَّذِینَ إِنْ یُلْقَوْا فِی الصَّفِّ یَلْفِتُونَ وُجُوہَہُمْ حَتّٰی یُقْتَلُوا أُولَئِکَ یَنْطَلِقُونَ فِی الْغُرَفِ الْعُلٰی مِنَ الْجَنَّۃِ وَیَضْحَکُ إِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ وَإِذَا ضَحِکَ رَبُّکَ إِلٰی عَبْدٍ فِی الدُّنْیَا فَلَا حِسَابَ عَلَیْہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۴۳)

۔ سیدنا نُعیم بن ہمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سوال کیا کہ کون سے شہداء زیادہ فضیلت والے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ لو گ ہیں کہ جب صف میں دشمن سے ان کا مقابلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے چہروں کو اُن ہی کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں، یہاں تک کہ شہید ہو جاتے ہیں، یہ وہ لوگ جو جنت کے بلند بالا خانوں میں چلتے ہیں اور ان کا ربّ ان کی طرف ہنستا ہے، اور جب تیرا ربّ دنیا میں ہی کسی کی طرف ہنس پڑتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا۔

۔ (۴۸۸۴)۔ عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ الْکِنْدِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ لِلشَّہِیدِ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ الْحَکَمُ: سِتَّ خِصَالٍ أَنْ یُغْفَرَ لَہُ فِی أَوَّلِ دَفْعَۃٍ مِنْ دَمِہِ وَیَرٰی۔)) قَالَ الْحَکَمُ: ((وَیُرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَیُحَلّٰی حُلَّۃَ الْإِیمَانِ، وَیُزَوَّجَ مِنْ الْحُورِ الْعِینِ، وَیُجَارَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَیَأْمَنَ مِنَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ۔)) قَالَ الْحَکَمُ: ((یَوْمَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ، وَیُوضَعَ عَلٰی رَأْسِہِ تَاجُ الْوَقَارِ، الْیَاقُوتَۃُ مِنْہُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا، وَیُزَوَّجَ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ زَوْجَۃً مِنْ الْحُورِ الْعِینِ، وَیُشَفَّعَ فِی سَبْعِینَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِہ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۳۱۴)

۔ سیدنا مقدام بن معدی کرب کندی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کے لیے چھ خصلتیں ہیں: اس کو خون گرتے ہی اس کو بخش دیا جاتا ہے، اسی وقت وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے، اس کو ایمان کی پوشاک پہنا دی جاتے ہے، آہو چشم حور سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے، اس کو عذابِ قبر سے پناہ دے دی جاتی ہے، وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتاہے، اس کے سر پر وقار کا ایسا تاج رکھا جاتا ہے کہ اس کا ایک موتی دنیا و ما فیہا سے بہتر ہوتا ہے، بہتر آہو چشم حوروں سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے اور اس کے ستر رشتہ داروں کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔

۔ (۴۸۸۵)۔ عَنْ قَیْسٍ الْجُذَامِیِّ رَجُلٍ کَانَتْ لَہُ صُحْبَۃٌ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یُعْطَی الشَّہِیدُ سِتَّ خِصَالٍ، عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَۃٍ مِنْ دَمِہِ یُکَفَّرُ عَنْہُ کُلُّ خَطِیئَۃٍ، وَیُرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَیُزَوَّجُ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ، وَیُؤْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَیُحَلَّی حُلَّۃَ الْإِیمَانِ۔)) (مسند أحمد: ۱۷۹۳۶)

۔ سیدنا قیس جذامی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ ایسے آدمی تھے جن کو صحبت کا شرف حاصل تھا، سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شہید کو چھ خصلتیں عطا کی جاتی ہیں: اس کے خون کے پہلے قطرے میں ہی اس کا ہر قسم کا گناہ معاف کر دیا جاتا ہے، اس کو اس کا جنت میں سے ٹھکانہ دکھا دیا جاتا ہے، انتہائی سفید سیاہ رنگ والی سوتی آنکھوں والی عورتوں سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے، اس کو بڑی گھبراہٹ سے اور عذاب ِ قبر سے امن میں رکھا جاتا ہے اور اس کو ایمان کی پوشاک پہنا دی جاتی ہے۔

۔ (۴۸۸۶)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ وَلَہَا عِنْدَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی خَیْرٌ، تُحِبُّ أَنْ تَرْجِعَ إِلَیْکُمْ إِلَّا الْمَقْتُولُ، (وَقَالَ رَوْحٌ إِلَّا الْقَتِیلُ) فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، فَإِنَّہُ یُحِبُّ أَنْ یَرْجِعَ فَیُقْتَلَ مَرَّۃً أُخْرٰی۔)) (مسند أحمد: ۲۳۰۸۶)

۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین پر کوئی ایسا نفس نہیں ہے، جو وفات پائے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں خیر ہو اور وہ پھر بھی دنیا کی طرف لوٹنے کو پسند کرے، ما سوائے شہید فی سبیل اللہ کے، پس بیشک وہ یہ پسند کرتا ہے کہ وہ واپس لوٹے اور اس کو دوبارہ شہید کر دیا جائے۔

۔ (۴۸۸۷)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُ قَالَ: ذُکِرَ الشَّہِیدُ عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((لَا تَجِفُّ الْأَرْضُ مِنْ دَمِ الشَّہِیدِ حَتّٰی یَبْتَدِرَہُ زَوْجَتَاہُ کَأَنَّہُمَا ظِئْرَانِ أَظَلَّتَا أَوْ أَضَلَّتَا فَصِیلَیْہِمَا بِبَرَاحٍ مِنَ الْأَرْضِ بِیَدِ کُلِّ وَاحِدَۃٍ مِنْہُمَا حُلَّۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔)) (مسند أحمد: ۷۹۴۲)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس شہید کا ذکر کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی تک زمین شہید کے خون سے خشک نہیں ہو پاتی کہ اس کی دو بیویاں اس کی طرف لپکتے ہوئے آتی ہیں، گویا کہ وہ دو دایاں ہیں، جوبے آب و گیاہ زمین میں اپنے بچے پر سایہ کر رہی ہوں یا غائب ہونے والے بچے کو پا لینے پر اس پر سایہ کر رہی ہوں، ان میں ہر ایک کے ہاتھ میں ایک پوشاک ہوتی ہے، اس کی قیمت دنیا وما فیہا سے زیادہ ہوتی ہے۔