۔ سیدنا عتبہ بن عبد سُلَمی رضی اللہ عنہ ، جو کہ صحابۂ رسول میں سے تھے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قتل کی تین اقسام ہیں: (۱) وہ مؤمن آدمی جو اپنے جان و مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرتا ہے، جب دشمن سے اس کی ٹکر ہوتی ہے تو وہ اس سے لڑائی کرتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، یہ وہ شہید ہے، جو اللہ کے عرش کے نیچے خیمۃ اللہ میں فخر کرنے والا ہو گا، انبیاء صرف نبوت کے درجے کی وجہ سے ایسے شہید سے فضیلت رکھتے ہوں گے، (۲) وہ مؤمن آدمی، جس نے اپنی جان پر گناہ کیے ہوتے ہیں اور وہ اپنے مال وجان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے، جب وہ دشمنوں سے ملتا ہے تو ان سے قتال کرتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، ایسے شہید کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، بیشک تلوار گناہوں کو مٹا دینے والی ہے، ایسا شہید جنت کے جس دروازے سے چاہے گا، داخل ہو جائے گا، جنت کے آٹھ دروازے ہیں، جن میں سے بعض دروزے بعض سے افضل ہیں اور جہنم کے سات دروازے ہیں، اور (۳) وہ منافق آدمی جو اپنے جان ومال سے قتال کرتا ہے، جب دشمن سے اس کی ٹکر ہوتی ہے تو وہ راہِ خدا میں لڑتا ہے، یہاں تک کہ قتل کر دیا جاتا ہے، یہ شخص جہنم میں ہو گا، کیونکہ تلوار نفاق جیسے گناہ کو نہیں مٹا سکتی۔
۔ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شہداء تین قسم کے ہوتے ہیں: (۱) وہ مؤمن آدمی جو عمدہ ایمان والا ہوتا ہے، جب دشمن سے اس کا مقابلہ ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے لڑتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، یہ وہ شہید ہے کہ قیامت کے دن لوگ جس کی طرف اپنی گردنیں اٹھائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اوپر کو بلند کیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ٹوپی گر گئی، (۲) وہ مؤمن آدمی، جس کا ایمان عمدہ ہوتا ہے، لیکن جب وہ دشمن سے مقابلے میں آتا ہے تو اس پرایسا خوف طاری ہوتا ہے کہ گویا کیکر کے درخت کا کانٹا اس کی جِلد میں چبھو دیا گیا ہے، پھر اچانک ایک اجنبی تیر اس کو لگتا ہے اور وہ شہید ہو جاتا ہے، ایسا شخص دوسرے درجے میں ہو گا، اور (۳) وہ مؤمن آدمی ، جس کا ایمان تو عمدہ ہوتا ہے، لیکن اس نے نیک اور برے، دونوں قسم کے اعمال کیے ہوتے ہیں، جب اس کا دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے لڑتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، یہ شہید تیسرے درجہ میں ہو گا۔
۔ (دوسری سند) اس کے الفاظ یہ ہیں: شہدا چار قسم کے ہوتے ہیں … پھر سابق حدیث میں مذکورہ تین اقسام ذکر کیں اور پھر فرمایا: … (۴) وہ مؤمن آدمی جس نے گناہوں کے سلسلے میں اپنے آپ پر بہت زیادتی کی ہوتی ہے، جب وہ دشمن سے ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرتے ہوئے لڑتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، یہ چوتھے درجے کا شہید ہے۔
۔ ابو محمد، جو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اس کو بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شہداء کا ذکر کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے اکثر شہداء بستروں والے ہوں گے اور دو صفوں کے درمیان قتل ہونے والے کئی افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کی نیتوں کو بہتر جاننے والا ہے۔
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اس طرح کہنے سے بچا کرو کہ فلاں کی وفات شہادت ہے، یا فلاں شہید ہو گیا ہے، کیونکہ کوئی آدمی غنیمت کی خاطر لڑتا ہے، کوئی شہرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے اور کوئی اس لیے قتال کرتا ہے کہ اس کے مرتبے کا پتہ چل جائے، اگر تم نے لامحالہ طور پر گواہی دینی ہی ہے تو ان لوگوں کے لیے شہادت کی گواہی دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن کو ایک سریّہ میں بھیجا تھا اور ان کو قتل کر دیا گیا تھا، انھوں نے قتل ہونے سے پہلے کہا تھا: اے اللہ! ہمارے نبی کو ہماری طرف سے یہ پیغام پہنچا دے کہ ہم تجھ کو مل چکے ہیں اور ہم تجھ سے راضی ہو گئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہو گیا ہے۔
۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: جو آدمی تمہاری ان جنگوں میں مارا جاتا ہے تو تم اس کے بارے میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہو گیا ہے، جبکہ ممکن ہے کہ اس نے تجارت کی خاطر اپنے چوپائے کی کمر پر یا سواری کے پہلوؤں پر سونا اور چاندی لاد رکھا ہو، لہذا کسی کے بارے میں یہ شہادت والی بات نہ کیا کرو، ہاں وہ بات کر سکتے ہو، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی ہے کہ جو آدمی اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا، وہ جنت میں جائے گا۔