مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

اس آدمی کا بیان جو جہاد کا ارادہ کرے اور اس کے والدین زندہ ہوں

۔ (۴۹۱۸)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: ہَاجَرَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْیَمَنِ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہَجَرْتَ الشِّرْکَ وَلٰکِنَّہُ الْجِہَادُ، ہَلْ بِالْیَمَنِ أَبَوَاکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((أَذِنَا لَکَ؟)) قَالَ: لَا، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ارْجِعْ إِلَی أَبَوَیْکَ فَاسْتَأْذِنْہُمَا فَإِنْ فَعَلَا وَإِلَّا فَبَرَّہُمَا۔)) (مسند أحمد: ۱۱۷۴۴)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے یمن سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف ہجرت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تو نے شرک کو چھوڑ دیا ہے، لیکن اب جہاد باقی ہے، اچھا یہ بتا کہ کیا تیرے والدین یمن میں زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا انھوں نے تجھے اجازت دی ہے؟ اس نے کہا: جی نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو اپنے والدین کی طرف لوٹ جا اور ان سے اجازت طلب کر، اگر انھوں نے اجازت دے دی تو ٹھیک، وگرنہ ان ہی کے ساتھ نیکی کرتے رہنا۔

۔ (۴۹۱۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَحْتَ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ، إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ ہٰذَا الشِّعْبِ، فَسَلَّمَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ أَرَدْتُ الْجِہَادَ مَعَکَ أَبْتَغِی بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ، قَالَ: ((ہَلْ مِنْ أَبَوَیْکَ أَحَدٌ حَیٌّ؟)) قَالَ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کِلَاہُمَا، قَالَ: ((فَارْجِعْ ابْرَرْ أَبَوَیْکَ۔)) (وَفِیْ لَفْظٍ: فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ) قَالَ: فَوَلّٰی رَاجِعًا مِنْ حَیْثُ جَائََ۔ (مسند أحمد: ۶۵۲۵)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کو اس درخت کے نیچے دیکھا ، اس گھاٹی میں سے ایک آدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام دیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ کیا ہے، میں اس عمل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور آخرت کے گھر کو تلاش کرنا چاہتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! دونوں زندہ ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو لوٹ جا اور ان کے ساتھ نیکی کر۔ ایک روایت میں ہے: ان میں جہاد کر۔ پس وہ جہاں سے آیا تھا، اسی جہت کی طرف لوٹ گیا۔

۔ (۴۹۲۰)۔ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ جَاہِمَۃَ، جَائَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَرَدْتُ الْغَزْوَ وَجِئْتُکَ أَسْتَشِیرُکَ، فَقَالَ: ((ہَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ؟)) قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: ((الْزَمْہَا فَإِنَّ الْجَنَّۃَ عِنْدَ رِجْلِہَا۔)) ثُمَّ الثَّانِیَۃَ ثُمَّ الثَّالِثَۃَ فِی مَقَاعِدَ شَتّٰی کَمِثْلِ ہٰذَا الْقَوْلِ۔ (مسند أحمد: ۱۵۶۲۳)

۔ سیدنا معاویہ بن جاہمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مشورہ کرنے کے لیے آیا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تیری ماں موجود ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی خدمت میں لگ جا، پس بیشک اس کے پاؤں کے پاس جنت ہے۔ پھر اس نے مختلف مجلسوں میں دوسری بار اور پھر تیسری بار یہی بات دوہرائی۔

۔ (۴۹۲۱)۔ حَدَّثَنَا خُبَیْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُرِیدُ غَزْوًا أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ قَوْمِی وَلَمْ نُسْلِمْ، فَقُلْنَا: إِنَّا نَسْتَحْیِی أَنْ یَشْہَدَ قَوْمُنَا مَشْہَدًا لَا نَشْہَدُہُ مَعَہُمْ، قَالَ: ((أَوَ أَسْلَمْتُمَا؟)) قُلْنَا: لَا، قَالَ: ((فَإِنَّا لَا نَسْتَعِینُ بِالْمُشْرِکِینَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ۔)) قَالَ: فَأَسْلَمْنَا وَشَہِدْنَا مَعَہُ، فَقَتَلْتُ رَجُلًا، وَضَرَبَنِی ضَرْبَۃً، وَتَزَوَّجْتُ بِابْنَتِہِ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَکَانَتْ تَقُولُ: لَا عَدِمْتَ رَجُلًا وَشَّحَکَ ہَذَا الْوِشَاحَ، فَأَقُولُ: لَا عَدِمْتِ رَجُلًا عَجَّلَ أَبَاکِ النَّارَ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۵۵)

۔ سیدنا خبیب بن یساف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میری قوم کا ایک آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک غزوے کے لیے جانا چاہ رہے تھے، ابھی تک ہم مسلمان نہیں ہوئے تھے، پس ہم نے کہا: بیشک ہم اس چیز سے شرم محسوس کرتے ہیں کہ ہماری قوم ایک لڑائی میں شریک ہو اور ہم ان کے ساتھ شامل نہ ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟ انھوں نے کہا: نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ہم مشرکوںکی مخالفت میں مشرکوں سے مدد طلب نہیں کرتے۔ یہ ارشاد سن کر ہم مسلمان ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس غزوے میں حاضر ہوئے، میں نے ایک آدمی کو قتل کیا اور اس نے بھی مجھے ایک ضرب لگائی تھی، پھر میں نے اس کی بیٹی سے شادی کر لی تھی، وہ کہا کرتی تھی: تو اس آدمی کو گم نہ پائے، جس نے تجھے کندھے اور پہلو کے درمیان ضرب لگائی تھی، اور میں اس کو کہتا تھا: تو اس آدمی کو گم نہ پائے، جس نے تیری باپ کو جلدی جلدی آگ میں بھیج دیا۔

۔ (۴۹۲۲)۔ عَـنْ عُـرْوَۃَ، عَـنْ عَـائِشَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ إِلَی بَدْرٍ، فَتَبِعَہُ رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ، فَلَحِقَہُ عِنْدَ الْجَمْرَۃِ، فَقَالَ: إِنِّی أَرَدْتُ أَنْ أَتْبَعَکَ وَأُصِیبَ مَعَکَ، قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِہِ؟)) قَالَ: لَا، قَالَ: ((ارْجِعْ فَلَنْ نَسْتَعِینَ بِمُشْرِکٍ۔)) قَالَ: ثُمَّ لَحِقَہُ عِنْدَ الشَّجَرَۃِ، فَفَرِحَ بِذَاکَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ لَہُ قُوَّۃٌ وَجَلَدٌ، فَقَالَ: جِئْتُ لِأَتْبَعَکَ وَأُصِیبَ مَعَکَ، قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔)) قَالَ: لَا، قَالَ: ((ارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِینَ بِمُشْرِکٍ۔)) قَالَ: ثُمَّ لَحِقَہُ حِینَ ظَہَرَ عَلَی الْبَیْدَائِ، فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذٰلِکَ، قَالَ: ((تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَخَرَجَ بِہِ۔ (مسند أحمد: ۲۵۶۷۳)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کی طرف نکلے، ایک مشرک آدمی بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے چلا اور جمرہ کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پا لیا اور اس نے کہا: میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ مل کر لڑوں اور مالِ غنیمت حاصل کروں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو لوٹ جا، پس بیشک ہم کسی مشرک مدد طلب نہیں کرتے۔ لیکن پھر وہ درخت کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جا ملا، صحابۂ کرام کو اس سے بڑی خوشی ہوئی، کیونکہ یہ بڑا مضبوط اور سخت آدمی تھا، اس نے کہا: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر لڑنے اور مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے آیا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر لوٹ جا، پس بیشک میں ہرگز مشرک سے مدد طلب نہیں کرتا۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیداء مقام پر چڑھے تو وہی آدمی پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آ ملا اور وہی بات کہی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس اس بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو لے کر آگے بڑھے۔

۔ (۴۹۲۳)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا تَسْتَضِیئُوْا بِنَارِ الْمُشْرِکِینَ، وَلَا تَنْقُشُوا خَوَاتِیمَکُمْ عَرَبِیًّا۔)) (مسند أحمد: ۱۱۹۷۶)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشرکوں کی آگ سے روشنی حاصل نہ کرو اور اپنی انگوٹھیوں پر عربی نقش نہ بنواؤ۔

۔ (۴۹۲۴)۔ عَنْ ذِی مِخْمَرٍ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((سَیُصَالِحُکُمْ الرُّومُ صُلْحًا آمِنًا، ثُمَّ تَغْزُونَ وَہُمْ عَدُوًّا، فَتُنْصَرُونَ وَتَسْلَمُونَ وَتَغْنَمُونَ۔)) الحدیث (مسند أحمد: ۱۶۹۵۰)

۔ صحابی ٔ رسول سیدنا ذی مخمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم عنقریب رومیوں سے امن والی صلح کرو گے، پھر تم اور وہ مل کر ایک دشمن سے لڑو گے، اور تمہاری مدد کی جائے گی اور تم سالم رہو گے اور مالِ غنیمت بھی حاصل کرو گے۔