مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

اس چیز کا بیان کہ امام لشکر کے سپہ سالاروں سے مشورہ کرے، ان کی خیرخواہی کرے، ان کے ساتھ نرمی برتے اور ان سے ان کی ذمہ داریاں نبھانے کا عہد لے

۔ (۴۹۲۵)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا سَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی بَدْرٍ، خَرَجَ فَاسْتَشَارَ النَّاسَ، فَأَشَارَ عَلَیْہِ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، ثُمَّ اسْتَشَارَہُمْ، فَأَشَارَ عَلَیْہِ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَسَکَتَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: إِنَّمَا یُرِیدُکُمْ، فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَاللّٰہِ، لَا نَکُونُ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَام: {اذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ} وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَوْ ضَرَبْتَ أَکْبَادَ الْإِبِلِ حَتّٰی تَبْلُغَ بَرْکَ الْغِمَادِ لَکُنَّا مَعَکَََََ۔ (مسند أحمد: ۱۲۰۴۵)

۔ سیدنا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بدر کی طرف جانے لگے تو باہر تشریف لائے اور لوگوں سے مشورہ کیا، پہلے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مشورہ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر مشورہ کیا، اس بار سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مشورہ دیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، پھر ایک انصاری آدمی بولا اور اس نے کہا: انصاریو! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تم سے جواب چاہتے ہیں، پس انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم ہے! ہم آپ کو وہ بات نہیں کہیں گے، جو بنو اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ تو جا اور تیرا ربّ جائے اور تم دونوں جا کرلڑو، بیشک ہم تو یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اور لیکن ہم، اللہ کی قسم! اگر آپ اونٹوں کی سواری کرتے کرتے برک الغماد تک پہنچ جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہی رہیں گے۔

۔ (۴۹۲۶)۔ عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: مَرِضَ مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ مَرَضًا ثَقُلَ فِیہِ، فَأَتَاہُ ابْنُ زِیَادٍ یَعُودُہُ، فَقَالَ: إِنِّی مُحَدِّثُکَ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((مَنْ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً، فَلَمْ یُحِطْہُمْ بِنَصِیحَۃٍ، لَمْ یَجِدْ رِیحَ الْجَنَّۃِ، وَرِیحُہَا یُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ مِائَۃِ عَامٍ۔)) قَالَ ابْنُ زِیَادٍ: أَلَا کُنْتَ حَدَّثْتَنِی بِہٰذَا قَبْلَ الْآنَ، قَالَ: وَالْآنَ لَوْلَا الَّذِی أَنْتَ عَلَیْہِ لَمْ أُحَدِّثْکَ بِہِ۔ وَفِیْ لَفْظٍ: ((لَا یَسْتَرْعِی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عَبْدًا رَعِیَّۃِ فَیَمُوتُ یَوْمَ یَمُوتُ وَہُوَ لَہَا غَاشٌّ إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ۔)) وَفِیْ لَفْظٍ مِنْ رِوَایَۃٍ أَبِی الْأَسْوَدِ، عَنِ أَبِیہِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَیُّمَا رَاعٍ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَغَشَّہَا فَہُوَ فِی النَّارِ۔))وَفِیْ لَفْظٍ: عَنْ ابْنَۃِ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَبِیہَا مَعْقِلٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَیْسَ مِنْ وَالِی أُمَّۃٍ قَلَّتْ أَوْ کَثُرَتْ لَا یَعْدِلُ فِیہَا إِلَّا کَبَّہُ عَلٰی وَجْھِہِ فِی النَّارِ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۵۵۵، ۲۰۵۵۶، ۲۰۵۸۱)

۔ امام حسن بصری کہتے ہیں: سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیمار پڑ گئے اور وہ بیماری ان پر کافی گراں گزری، ان کی عیادت کرنے کے لیے ابن زیاد ان کے پاس آیا، انھوں نے کہا: میں تجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث بیان کرتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس کو عوام الناس کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بنایا گیا، لیکن اس نے ان کی خیرخواہی نہ کی تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا، جبکہ جنت کی خوشبو سو سال کی مسافت پر پائی جاتی ہے۔ ابن زیاد نے کہا: تم نے یہ حدیث مجھے اس وقت سے پہلے بیان کیوں نہیں کی تھی؟ انھوں نے کہا: اور ابھی بھی اگر وہ کچھ نہ ہوتا، جس پر تو اترا ہوا ہے تو میں تجھے بیان نہ کرتا۔ ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کو عوام الناس کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بناتا ے، لیکن وہ اپنی موت والے دن اس حال میں مرتا ہے کہ وہ ان سے دھوکہ کرنے والا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے : سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رعایا کی دیکھ بھال جس نگہبان کے سپرد کی گئی، لیکن اس نے ان سے دھوکہ کیا تو وہ آگ میں ہو گا۔ ایک روایت میں ہے: سیدنا معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: امت تھوڑی ہو یا زیادہ، جو اس کا والی بنے گا اور پھر اس میں انصاف نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو چہرے کے بل جہنم میں گرائے گا۔

۔ (۴۹۲۷)۔ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُہَنِیِّ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: نَزَلْنَا عَلَی حِصْنِ سِنَانٍ بِأَرْضِ الرُّومِ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ، فَضَیَّقَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، وَقَطَعُوا الطَّرِیقَ، فَقَالَ مُعَاذٌ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃَ کَذَا وَکَذَا، فَضَیَّقَ النَّاسُ الطَّرِیقَ، فَبَعَثَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُنَادِیًا، فَنَادٰی مَنْ ضَیَّقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِیقًا فَلَا جِہَادَ لَہُ۔ (مسند أحمد: ۱۵۷۳۳)

۔ سیدنا معاذ جہنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم عبد اللہ بن عبد الملک کے ساتھ روم کی سرزمین میں سِنان کے قلعہ کے پاس اترے، لوگوں نے پڑاؤ کے مقامات کو تنگ کردیا اور راستہ منقطع ہو گیا، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ فلاں فلاں غزوہ کیا، ایک دفعہ لوگوں نے راستے کو تنگ کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف مُنادِی بھیجا، اس نے یہ اعلان کیا کہ جس آدمی نے منزل کو تنگ کیا یا راستے کو منقطع کیا، اس کا کوئی جہاد نہیں ہو گا۔