۔ سیدنا عتبہ بن عبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قتال کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی کو تیر لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: اس نے جنت کو واجب کر لیا ہے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو قتال کا حکم دیا تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر تو ہم وہ بات نہیں کریں گے، جو بنو اسرائیل نے کی تھی، انھوں نے کہا تھا: اے موسی! تو جا اور تیرا ربّ جائے، تم دونوں جا کر لڑو، بیشک ہم تو یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اے اللہ کے رسول! آپ اور آپ کا ربّ چلے، بیشک ہم وہ جنگجو ہیں، جو آپ کے ساتھ چلیں گے۔
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک سفر کے دوران فرمایا: بیشک آج ہم ساری رات سفر کرنے والے ہیں، لہذا کوئی سرکش اور کمزور اونٹ والا آدمی رات کا یہ سفر نہ چلے۔ لیکن ایک آدمی اپنے سرکش اونٹ پر اس سفر میں چل دیا، لیکن وہ گر پڑا اور اس کی ران ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تو اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم دیا، لیکن پھر ایک مُنادِی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں یہ اعلان کرے: بیشک جنت نافرمان کے لیے حلال نہیں ہے، بیشک جنت نافرمان کے لیے حلال نہیں ہے۔ یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔
۔ سیدنا ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے اور رات انتہائی تاریک ہو جاتی تو صحابۂ کرام گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: ان گھاٹیوں میں تم لوگوں کا اس طرح بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے۔ اس فرمان کے بعد جب صحابہ کسی مقام پر اترتے تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ یوں مل جاتے کہ تو کہہ سکتا ہے کہ اگر میں ان پر ایک چادر ڈالوں، تووہ ان کو سما لے گی۔
۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک لشکر روانہ کیا اور ایک انصاری آدمی کو ان کا امیر بنایا، جب وہ لشکر روانہ ہو گیا تو کسی وجہ سے ان کا امیر ان سے ناراض ہو گیا، پس اس نے ان سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم کو یہ حکم دیا تھا کہ تم نے میری اطاعت کرنی ہے؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، اس نے کہا: تو پھر لکڑیاں جمع کرو، پھر اس نے آگ منگوا کر ان کو جلایا اور ان سے کہا: میں تم سے پر زور کہتا ہوں کہ تم ضرور ضرور اس آگ میں داخل ہو جاؤ، لوگوں نے تو اس میں گھس جانے کا ارادہ کر لیا، لیکن ان میں سے ایک نوجوان نے کہا: (ذرا ہوش تو کرو) تم لوگ آگ سے بچنے کے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے، پس اس معاملے میںجلدی نہ کرو، یہاں تک کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مل لو (اور اس بارے میںپوچھ لو)، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم کو اس آگ میں داخل ہونے کا حکم دیا تو داخل ہو جانا، پس جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واقعہ کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم لوگ اس میں داخل ہو جاتے تو پھر کبھی بھی اس سے نہ نکل سکتے، صرف اور صرف امیر کی اطاعت تو نیکی والے امور میں ہے۔ ایک روایت میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آگ میں گھس جانے کا ارادہ کرنے والوں سے فرمایا: اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو پھر روزِ قیامت تک اسی میں رہتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے لوگوں کے حق میں اچھی بات کی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے، اطاعت تو صرف نیک امور میں ہے۔ ایک روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ کی معصیت میں کسی بشر کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا علقمہ بن مجزز رضی اللہ عنہ کو ایک جہادی لشکر کا امیر بنا کر روانہ کیا، میں بھی اس لشکر میں تھا، جب ہم اپنے غزوے کے مقام تک پہنچ گئے، یا راستے میں تھے، اس امیر نے ایک گروہ کو علیحدہ کیا اور سیدنا عبد اللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا، یہ بدری صحابی تھے اور ان کے مزاج میں مذاق کا عنصر پایا جاتا تھا، جو لوگ ان کے ساتھ لوٹے تھے، میں بھی ان میں تھا، جب ہم نے راستے میں پڑاؤ ڈالا اور لوگوں نے کھانا بنانے کے لیے یا آگ سے حرارت حاصل کرنے کے لیے آگ جلائی تو سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم لوگوں پر فرض نہیں ہے کہ تم میری بات سنو اور اطاعت کرو؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، اس نے کہا: تو پھر میں تم اپنے اور اپنی اطاعت کے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود پڑو، لوگ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اپنی کمر پر کپڑا باندھا، جب اس امیر نے دیکھا کہ یہ تو واقعی آگ میں کودنے لگے ہیں تو اس نے کہا: رک جاؤ، میں تمہارے ساتھ مذاق کر رہا تھا، جب ان لوگوں نے واپس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ماجرا سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان امراء میں سے جو آدمی تم کو نافرمانی کا حکم دے، تو اس کی اطاعت نہ کیا کرو۔
۔ بشر بن عاصم لیثی کہتے ہیں: سیدنا عقبہ بن مالک رضی اللہ عنہ ، جو کہ میں بشر کی قوم میں سے تھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا، میں نے ایک آدمی کو تلوار دی، جب وہ لوٹا تو اس نے کہا: اس بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ملامت کی ہے، میں نے پہلے اس کی مثال نہیں دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ایک آدمی کو بھیجتا ہوں اور وہ میرے حکم کو نافذ نہیں کرتا تو کیا تم اس چیز سے عاجز آ گئے کہ اس کی جگہ ایسے آدمی کا تقرر کر دو، جو میرا حکم نافذ کرے۔