۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب کسی قوم سے لڑائی کی، پہلے ان کو اسلام کی دعوت دی۔
۔ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر والے دن فرمایا: کل میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ لوگوں نے وہ رات اس حال میں گزاری کہ وہ غور و فکر کرتے رہے کہ کس شخص کو یہ جھنڈا دیا جائے گا، جب صبح ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو ہر ایک کو جھنڈا ملنے کی امید تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہے؟ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی آنکھ خراب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کی طرف پیغام بھیج کر ان کا بلاؤ۔ پس ان کو لایا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں تھوکا اور ان کے لیے دعا کی، وہ یوں شفایاب ہوئے کہ گویا ان کو کوئی تکلیف ہی نہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا کر دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ان سے قتال کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ وہ ہماری طرح ہو جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سلامتی کے ساتھ چل، یہاں تک کہ ان کے صحن میں جا اتر اور ان کو اسلام کی دعوت دے اور ان کو بتلا کہ اللہ تعالیٰ کا کون سا حق ان پر واجب ہے، اللہ کی قسم ہے! اگر اللہ تعالیٰ نے تیری وجہ سے کسی ایک بندے کو بھی ہدایت دے دی تو وہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہو گا۔
۔ سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی شخص کو چھوٹے یا بڑے لشکر کا امیر بنا کر بھیجتے تو خاص طور پر اس کو اللہ سے ڈرتے اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو خیر و بھلائی کی نصیحت کرتے اور فرماتے: اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کر، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے قتال کر، جب تو اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے آئے تو ان کو تین خصلتوں میں سے ایک کی طرف دعوت دے، وہ ان میں سے جس چیز کا مثبت جواب دیں، تو ان سے وہ قبول کر لے اور ان پر حملہ کرنے سے رک جا، سب سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دے، اگر وہ قبول کر لیں تو تو ان سے اس چیز کو قبول کر لے، پھر ان کو دعوت دے کہ وہ اپنے گھروں سے مہاجروں کے گھروں کی طرف ہجرت کریں اور ان کو یہ بتلا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو وہ حقوق ملیں گے، جو مہاجرین کو ملے ہوئے ہیں اور ان پر وہ ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مہاجرین پر ہیں، اگر وہ اس طرح ہجرت کرنے سے انکار کر دیں تو تو ان کو بتلا دے کہ ان کا حکم بدو مسلمانوں کا ہو گا، ان پر اللہ تعالیٰ کا وہی حکم چلے گا، جو اس قسم کے مسلمانوں پر چلتا ہے، ان کے لیے مالِ فے اور مالِ غنیمت میں سے کوئی حصہ نہیں ہو گا، الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو جزیہ دینے کی دعوت دے، اگر وہ مان جائیں تو تو ان سے یہ جزیہ قبول کر لے اور ان سے رک جا اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کر دیں تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر اور ان سے قتال شروع کر دے۔ دوسری سند: اسی قسم کا متن مروی ہے، البتہ اس میں ہے: اور جب تو اہل قلعہ کا محاصرہ کر لے اور وہ تجھ سے یہ چاہیں کہ تو ان کو اللہ کا ذمہ اور اپنے نبی کا ذمہ دے، تو تونے ایسے نہیں کرنا، ان کو اللہ اور اس کے نبی کا ذمہ نہیں دینا،ہاں ان کو اپنا، اپنے باپ کا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دے سکتے ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تم نے اپنے اور اپنے آباء کے ذموں کو توڑ دیا تو یہ فعل اس سے ہلکا ہو گا کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ توڑ دو، اسی طرح اگر تو اہل قلعہ کا محاصرہ کر لے اور وہ یہ ارادہ کریں کہ تو ان کو اللہ کے حکم پر اتارے تو تو نے ان کو اللہ کے حکم پر نہیں اتارنا، بلکہ اپنے حکم پر اتارنا ہے، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو پا لے گا یا نہیں۔
۔ ابو بختری کہتے ہیں: سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فارس کے محلات میں ایک محل کا محاصرہ کر لیا، ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا: اے ابو عبد اللہ! کیا تو ان کی طرف کھڑا ہو کر (ان پر حملہ نہیں) کرتا؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، یہاں تک کہ میں ان کو دعوت دے لوں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوت دیتے تھے، پس وہ ان کے پاس آئے اور ان سے یوں بات کی: میں فارسی آدمی ہوں، میں تم میں سے ہی ہوں، یہ عرب میری اطاعت کرنے والے ہیں، تین امور میں سے ایک کو پسند کر لو، یا اسلام قبول کر لو، یا اپنے ہاتھ سے جزیہ دو، اس حال میں کہ تم ذلیل ہو گے اور تمہیں سراہا نہیں جائے گا، یا پھر ہم تم سے اعلانِ جنگ کر کے قتال شروع کر تے ہیں، انھو ں نے کہا: نہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں اور نہ جزیہ دیتے ہیں، بلکہ ہم تم سے اعلانِ جنگ کرتے ہیں، سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ آئے، انھوں نے کہا: کیا اب آپ ان کی طرف کھڑے نہیں ہوتے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، پس انھوں نے ان کو تین دن دعوت دی، لیکن انھوں نے قبول نہ کی، پھر انھوں نے ان سے لڑائی شروع کر دی اور اس محل کو فتح کر لیا۔
۔ ابو بختری کہتے ہیں: سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے فارس کے محلّات میں سے ایک محل کا محاصرہ کر لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: مجھے چھوڑ دو، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ کیا تھا، وہ کچھ میں کر لوں، پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: میں تم میں سے ایک آدمی ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام عطا کیا ہے اور تم دیکھ رہے ہو کہ عرب لوگ میری اطاعت میں ہیں، اب اگر تم بھی اسلام قبول کر لو اور ہماری طرف ہجرت کرو تو تم ہمارے قائم مقام ہو گے اور ہمارے والے حقوق اور احکام تم کو مل جائیں گے، اور اگر تم اسلام قبول کر لو، لیکن اپنے علاقے میں ہی ٹھہرے رہو تو تم بدوؤں کے قائمقام ہو گے اور تم کو بدوؤں والے حقوق ملیں گے اور تم پر ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو بدوؤں پر عائد ہوتی ہیں، اور اگر تم اسلام کا انکار کر دو اور جزیہ کا اقرار کر لو تو تم کو وہ حقوق ملیں گے، جو اہل جزیہ کو ملتے ہیں اور تم پر وہ ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو اہل جزیہ پر عائد ہوتی ہیں، انھوں یہ باتیں تین دن ان پر پیش کیں، چونکہ وہ نہ مانے، اس لیے انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اب کھڑے ہو جاؤ اور ان پر حملہ کر دو، پس انھوں نے اس کو فتح کر لیا۔
۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے امام نافع سے بذریعہ کتابت یہ سوالات کیے کہ کس چیز نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو غزوے سے یا جہاد کرنے والے لوگوں سے پیچھے بٹھا دیا ہے، دشمنوں کے ساتھ لڑنے سے پہلے سب سے پہلے ان کو کس چیز کی دعوت دی جائے گی اور کیا آدمی امام کی اجازت کے بغیر کسی لشکر پر حمل کر سکتا ہے؟ انھوں نے تحریری جواب دیتے ہوئے لکھا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا جہاد کر رہا ہے اور وہ سواریاں دے رہے ہیں، نیز وہ کہتے ہیں کہ نماز کے بعد سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے، لیکن سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو غزوے سے پیچھے کر دینے والی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وصیتیں، چھوٹے بچے اور مالِ کثیر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو مصطلق پر شب خون مارا تھا، جبکہ وہ غافل تھے اور اونٹوں کو پانی پلا رہے تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے جنگ جوؤں کو قتل کر دیا اور ان کے باقی افراد کو قیدی بنا لیا، اسی جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ جویریہ بنت ِ حارث رضی اللہ عنہا کو بطورِ قیدی حاصل کیا تھا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ اس لشکر میں بھی موجو د تھے، کافروں کو سب سے پہلے اسلام کی دعوت دی جائے گی اور آدمی کو امام کی اجازت کے بغیر لشکر پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔