مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

لڑائی میں دھوکہ دینے، توریہ کرنے، بات کو چھپانے اور جاسوسوں کو بھیجنے کے جواز کا بیان

۔ (۴۹۴۱)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ سَمَّی الْحَرْبَ خُدْعَۃً۔ (مسند أحمد: ۸۰۹۷)

۔ سیدنا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لڑائی کو دھوکے کا نام دیا ہے۔

۔ (۴۹۴۲)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((الْحَرْبُ خُدْعَۃٌ)) (مسند أحمد: ۱۳۳۷۵)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لڑائی دھوکہ ہے۔

۔ (۴۹۴۳)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْحَرْبُ خُدْعَۃٌ(مسند أحمد: ۱۴۲۲۶)

۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لڑائی دھوکہ ہے۔

۔ (۴۹۴۴)۔ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَلَّمَا یُرِیدُ غَزْوَۃً یَغْزُوہَا إِلَّا وَرّٰی بِغَیْرِہَا حَتّٰی کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ، فَغَزَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَرٍّ شَدِیدٍ، اسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِیدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ غَزْوَ عَدُوٍّ کَثِیرٍ، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِینَ أَمَرَہُمْ، لِیَتَأَہَّبُوا أُہْبَۃَ عَدُوِّہِمْ، أَخْبَرَہُمْ بِوَجْہِہِ الَّذِی یُرِیدُ۔ (مسند أحمد: ۱۵۸۸۲)

۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب بھی غزوے کا ارادہ کرتے تو توریہ کرتے ہوئے کسی اور چیز کا اظہار کرتے، یہاں تک کہ غزوۂ تبوک کا موقع آ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شدید گرمی میں یہ جنگ لڑی تھی، دور کا سفر کرنا تھا، ہلاکت گاہوں سے گزرنا تھا اور دشمنوں کی کثیر تعداد سے مقابلہ کرنا تھا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں پر ان کا معاملہ واضح کر دیا، تاکہ دشمن کے مطابق تیاری کر لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس طرف جانا تھا، اس کی واضح طور پر خبر دے دی۔

۔ (۴۹۴۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اشْتَدَّ الْأَمْرُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَلَا رَجُلٌ یَأْتِینَا بِخَبَرِ بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَانْطَلَقَ الزُّبَیْرُ فَجَائَ بِخَبَرِہِمْ، ثُمَّ اشْتَدَّ الْأَمْرُ أَیْضًا فَذَکَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیًّا وَاِنَّ الزُّبَیْرَ حَوَارِیَّ۔)) (مسند أحمد: ۱۴۴۲۸)

۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب غزوۂ خندق کے موقع پر معاملے میں شدت آئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے، جو ہمیں بنوقریظہ کے حالات سے مطلع کرے؟ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ چلے اور ان کے حالات سے آگاہ کیا، پھر جب معاملے میں مزید سختی پیدا ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار یہی بات ارشاد فرمائی، (آگے سے سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہی جواب دیا)، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔

۔ (۴۹۴۶)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُسَیْسَۃَ عَیْنًا یَنْظُرُ مَا فَعَلَتْ عِیرُ أَبِی سُفْیَانَ، فَجَائَ وَمَا فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: لَا أَدْرِی مَا اسْتَثْنَی بَعْضَ نِسَائِہِ، فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَکَلَّمَ فَقَالَ: ((إِنَّ لَنَا طَلِبَۃً فَمَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا فَلْیَرْکَبْ مَعَنَا۔)) فَجَعَلَ رِجَالٌ یَسْتَأْذِنُونَہُ فِی ظَہْرٍ لَہُمْ فِی عُلُوِّ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: ((لَا، إِلَّا مَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا۔)) فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ حَتّٰی سَبَقُوا الْمُشْرِکِینَ إِلٰی بَدْرٍ۔ (مسند أحمد: ۱۲۴۲۵)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بُسیسہ کو بطورِ جاسوس بھیجا، تاکہ وہ دیکھیں کہ ابو سفیان کے قافلے کا کیا بنا ہے، پس جب وہ لوٹے تو گھر میں میرے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے علاوہ کوئی نہیں تھا، ثابت راوی کہتے ہیں: مجھے اس چیز کا علم نہ ہو سکا کہ راوی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعض بیویوں کا استثنا کیا تھا یا نہیں، بہرحال سیدنا بُسیسہ نے حالات سے آگاہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: ہم نے کوئی چیز تلاش کرنی ہے، جس کے پاس سواری موجود ہے، وہ ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی کہ ان کی سواریاں مدینہ منورہ کے بالائی حصے میں ہے (جبکہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، لہذا ان کا انتظار کیا جائے)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، صرف وہی آ جائیں، جن کے پاس سواریاں موجود ہیں۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ چل پڑے اور مشرکوں سے پہلے بدر میں پہنچ گئے۔