۔ عکرمہ سے مروی ہے کہ مولائے رسول سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، اسلام ہمارے اندر داخل ہو چکا تھا، میں بھی مسلمان ہو گیا تھا، سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا بھی مسلمان ہو گئی تھیں اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بھی مشرف باسلام ہو چکے تھے، البتہ وہ اپنی قوم سے ڈرتے تھے، اس لیے وہ اپنے اسلام کو چھپاتے تھے، اللہ کا دشمن ابو لہب غزوۂ بدر سے پیچھے رہ گیا تھا اور اس نے اپنی جگہ پر عاص بن ہشام بن مغیرہ کو بھیجا تھا، انھوں نے ایسے ہی کیا تھا کہ جو آدمی خود حاضر نہ ہو سکا، اس نے اپنی جگہ پر ایک جنگجو دیا، جب ہمارے پاس خیر والی بات پہنچی (کہ بدر کی لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح حاصل کی ہے) اور اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ذلیل اور رسوا کیا تو ہم نے اپنے اندر محسوس کیا کہ ہم قوی ہو گئے ہیں …، پھر انھوں نے پوری حدیث ذکر کی…، اسی موضوع کی کچھ باتیں یعقوب کی کتاب میں ہیں، لیکن وہ مرسل ہیں اور ان کی کوئی سند نہیں ہے، بہرحال بنو سالم کے بھائی نے کہا: قیدیوں میں ابو وداعہ بن صبیرہ سہمی بھی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: اس کا مکہ میں ایک عقل مند تاجر بیٹا ہے، وہ بڑا مال دار ہے، لگتا ہے کہ وہ اپنے باپ کا فدیہ لے کر میرے پاس آئے گا۔ جبکہ اُدھر قریشیوں نے کہا: اپنے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنے میں جلدی نہ کرو، تاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کے ساتھی تم سے فدیہ لینے میںزیادتی نہ کریں، اسی تاجر مطلب بن ابو وداعہ نے کہا: تم لوگ سچ کہہ رہے ہو، اسی طرح کرو، لیکن وہ خود چپکے سے رات کو نکل پڑا اور مدینہ منورہ پہنچ گیا اور چار ہزار درہم کا فدیہ دے کر اپنے باپ کو رہا کرا لیا، پھر وہ اس کو لے کر چلا گیا اور مکرز بن حفص ،سہیل بن عمرو کا فدیہ لے کر پہنچ گیا، بنو مالک بن عوف کے ایک بھائی مالک بن دخشن نے اس کو قید کیا تھا۔
۔ رعیہ سحمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرخ چمڑے کے ٹکڑے پر میری طرف خط لکھا، میں نے وہ خط لیا اور اس کے ساتھ اپنے ڈول کو مرمت کر لیا، اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر روانہ کیا، اس لشکر نے نہ میرے اونٹ چھوڑے، نہ مویشی، نہ اہل اور نہ مال، بلکہ سب کچھ لے لیا، میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ننگی حالت میں بھاگ گیا، مجھ پر کوئی کپڑا نہیں تھا، یہاں تک کہ میں اپنی بیٹی کے پاس پہنچ گیا، بنو ہلال میں اس کی شادی ہوئی ہوئی تھی، وہ اور اس کے گھر والے مسلمان ہو چکے تھے اور لوگ اسی کے گھر کے صحن میں مجلس لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، پس میں گھوما اور گھر کے پیچھے سے اپنی بیٹی پر داخل ہوا، جب اس نے مجھے دیکھا تو مجھ پر کپڑے ڈالے اور کہا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: ہر قسم کا شرّ تیرے باپ پر ٹوٹ پڑا ہے، نہ اونٹ بچے ہیں، نہ مویشی، نہ اہل اور نہ مال، بلکہ ہر چیز چھین لی گئی ہے، بیٹی نے کہا: آپ کو اسلام کی دعوت تو نہیں دی گئی؟ میں نے آگے سے کہا: تیرا خاوند کہاں ہے؟ اس نے کہا: اونٹوں میں ہے، پس میں ا س کے پاس پہنچا اور اس نے مجھ سے کہا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: ہر قسم کا شرّ مجھ پر ٹوٹ پڑا ہے، میرے اونٹ، مویشی، اہل اور مال، بس سب کچھ مجھ سے چھین لیا گیا ہے اور میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے پاس جلدی جلدی پہنچنا چاہتا ہوں، تاکہ وہ میرے پہنچنے سے پہلے میرے اہل و مال کو تقسیم نہ کر دیں، اس نے کہا: یہ میرے اونٹنی کجاوے سمیت ہے، تم یہ لے لو، میں نے کہا: اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے، پھر اس نے چرواہے کا اونٹ لیا اور چمڑے کے چھوٹے مشکیزے میں پانی ڈال کر بطورِ زادِ راہ دیا۔ مجھ پر اتنا کپڑا تھا کہ اگر اس سے سر ڈھانپتا تو سرین ننگے ہو جاتے اور اگر سرین پر پردہ کرتا تو چہرہ ننگا ہو جاتا، جبکہ میںچاہتا یہ تھا کہ کوئی آدمی مجھے پہچان نہ سکے، بہرحال میںمدینہ منورہ پہنچ گیا، سواری کو باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا س گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آ کر ٹھہر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ہاتھ پھیلائیں، میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ پھیلایا، لیکن جب میں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ بند کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار ایسے ہی کیا، پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہے کون؟ میں نے کہا: جی میں رعیہ سحیمی ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا بازو پکڑ ا اور اس کو بلند کر کے فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت! یہ رعیہ سحیمی ہے، یہ وہی ہے، جس کی طرف میں نے خط لکھا تھا اور اس نے اس خط کے ساتھ اپنا ڈول مرمت کیا تھا۔ پھر منت سماجت کرنے لگا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میرا اہل و مال، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرا مال تو تقسیم ہو چکا ہے، البتہ اپنے اہل میں سے جو افراد لے سکتا ہے، وہ لے لے۔ پس میں وہاں سے نکلا اور میرے بیٹے نے میری سواری کو پہنچان لیا اور وہ اس کے پاس ہی کھڑا تھا، پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹا اور کہا: یہ میرا بیٹا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! تم جاؤ اور اس بچے سے پوچھو کہ کیا اس کا باپ یہی ہے، اگر وہ مثبت جواب دے تو اس کو اس کے حوالے کر دینا۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اس بچے کی طرف گئے اور اس سے پوچھا: یہ تیرا باپ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس باپ اور بیٹے میںکسی کو نہیں دیکھا کہ اس نے دوسرے کو ملتے وقت آنسو بہائے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بدوؤںکی اکھڑ مزاجی اور سختی ہے۔