مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

اس قیدی کا بیان جو قید سے پہلے قبولیت ِ اسلام کا دعوی کر دے، نیز اسلام قبول کرنے والے قیدی کی فضیلت کا بیان

۔ (۵۱۱۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ (یَعْنِیْ وَجِیْئَ بِالْاُسٰارٰی) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَلَا یَنْفَلِتَنَّ مِنْہُمْ أَحَدٌ إِلَّا بِفِدَائٍ أَوْ ضَرْبَۃِ عُنُقٍ۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِلَّا سُہَیْلُ بْنُ بَیْضَائَ، فَإِنِّی قَدْ سَمِعْتُہُ یَذْکُرُ الْإِسْلَامَ، قَالَ: فَسَکَتَ، قَالَ: فَمَا رَأَیْتُنِی فِی یَوْمٍ أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَیَّ حِجَارَۃٌ مِنَ السَّمَائِ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ حَتّٰی قَالَ: ((إِلَّا سُہَیْلُ بْنُ بَیْضَائَ)) (مسند أحمد: ۳۶۳۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب غزوۂ بدر والے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے کوئی شخص بھاگنے نہ پائے، مگر فدیہ دے کر، یا گردن اتروا کر۔ میں (عبد اللہ) نے کہہ دیا: اے اللہ کے رسول! مگر سہیل بن بیضا، کیونکہ میں نے اس کو قبولیت ِ اسلام کی بات کرتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات سن کر خاموش ہو گئے، میں نے اس دن اپنے آپ کو دیکھا کہ مجھے اس چیز سے سب سے زیادہ ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر آسمان سے پتھر گرنے لگ جائیں، (بس اسی کیفیت میں تھا کہ) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ما سوائے سہیل بن بیضاء کے۔

۔ (۵۱۱۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا الْقَاسِمِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ قَوْمٍ یُقَادُوْنُ اِلَی الْجَنَّۃِ فِی السَّلَاسِلِ۔)) (مسند أحمد: ۸۰۰۰)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارے ربّ کو ان لوگوں سے تعجب ہوا ہے، جن کو زنجیروں میںجکڑ کر جنت کی طرف لایا جا رہا ہے۔

۔ (۵۱۱۲)۔ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اسْتَضْحَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَوْمًا فَقِیْلَ لَہٗ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا یُضْحِکُکَ؟ قَالَ: ((قَوْمٌ یُسَاقُوْنَ اِلَی الْجَنَّۃِ مُقَرَّنِیْنَ فِی السَّلَاسِلِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۵۵۶)

۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس پڑے، کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز نے آپ کو ہنسا دیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کچھ لوگوں کو اس حال میں جنت کی طرف لایا جا رہا ہے کہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

۔ (۵۱۱۳)۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدِنِ السَّاعَدِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْخَنْدَقِ فَأَخَذَ الْکُرْزِیْنَ فَحَفَرَ بِہِ فَصَادَفَ حَجَرًا فَضَحِکَ، قِیْلَ: مَا یُضْحِکُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: ((ضَحِکْتُ مِنْ نَاسٍ یُؤْتٰی بِھِمْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ فِی النَّکُوْلِ یُسَاقُوْنَ اِلَی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۲۴۹)

۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں خندق کھودنے کے موقع پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کلہاڑا پکڑا اور اس سے کھدائی شروع کی، اچانک سامنے پتھر آ گیا، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس پڑے، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز نے آپ کو ہنسا دیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان لوگوں کی وجہ سے ہنسا ہوں، جن کو بیڑیاں ڈال کر مشرق سے لایا جا رہا ہے اور ان کو جنت کی طرف چلایا جا رہا ہے۔