مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

مسلمان ہونے والے قیدی کا مسلمانوں کی ملکیت میں ہی رہنے کا اور عربوں کو غلام بنانے کے جواز کا بیان

۔ (۵۱۱۴)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: کَانَتْ ثَقِیفٌ حُلَفَائَ لِبَنِی عُقَیْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِیفُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلًا مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ وَأُصِیبَتْ مَعَہُ الْعَضْبَائُ، فَأَتٰی عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی الْوَثَاقِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! یَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟۔)) فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِی بِمَ أَخَذْتَ سَابِقَۃَ الْحَاجِّ؟ إِعْظَامًا لِذٰلِکَ، فَقَالَ: ((أَخَذْتُکَ بِجَرِیرَۃِ حُلَفَائِکَ ثَقِیفٍ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! یَا مُحَمَّدُ!، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَحِیمًا رَفِیقًا، فَأَتَاہُ فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) قَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ، قَالَ: ((لَوْ قُلْتَہَا وَأَنْتَ تَمْلِکُ أَمْرَکَ أَفْلَحْتَ کُلَّ الْفَلَاحِ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ فَنَادَاہُ یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ فَأَتَاہُ، فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) فَقَالَ: إِنِّی جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِی وَظَمْآنُ فَاسْقِنِی، قَالَ: ((ہٰذِہِ حَاجَتُکَ۔)) قَالَ: فَفُدِیَ بِالرَّجُلَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۲۰۱۳۶)

۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بنو ثقیف، بنو عُقیل کے حلیف تھے، بنو ثقیف نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دو صحابہ کو قید کر لیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ نے بنو عقیل کا ایک آدمی گرفتار کر لیا، اس کے ساتھ عَضْبَاء نامی اونٹنی بھی پکڑی گئی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اس قیدی کے پاس آئے، جبکہ وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا تو اس نے کہا: اے محمد! اے محمد! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا: آپ نے مجھے کیوں پکڑا ہے، آپ نے اس اونٹنی کو کیوں پکڑ لیا، جو حاجیوں کے قافلے سے آگے گزر جاتی تھی؟ وہ اس گرفتاری کو بڑا خیال کر رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے تیر حلیف بنو ثقیف کے جرم میں پکڑا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے پھر گئے، لیکن اس نے پھر کہا: اے محمد! اے محمد! چونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رحم دل اور نرم تھے، اس لیے اس کے پاس آ گئے اور اس سے پوچھا: تجھے کیا ہو گیا ہے ؟ اس نے کہا: میں مسلمان ہو گیا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو یہ بات اس وقت کرتا، جب تو اپنے معاملے کامالک اور آزاد تھا تو تو مکمل طور پر کامیاب ہو جاتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلے گئے، اس نے پھر آواز دی: اے محمد! اے محمد! پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: کیا ہو گیا ہے تجھے؟ اس نے کہا: جی میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائیے اور میں پیاسا ہوں، مجھے پانی پلائیے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیری ضرورت ابھی پوری کر دی جاتی ہے۔ اس قیدی کے فدیے میں دو آدمی لیے گئے تھے۔

۔ (۵۱۱۵)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَقَعَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ وَکَاتَبَتْہُ عَلٰی نَفْسِہَا، وَکَانَتْ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُلَاحَۃً لَا یَرَاہَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِہِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَسْتَعِینُہُ فِی کِتَابَتِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُہَا عَلٰی بَابِ حُجْرَتِی فَکَرِہْتُہَا، وَعَرَفْتُ أَنَّہُ سَیَرٰی مِنْہَا مَا رَأَیْتُ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ضِرَارٍ سَیِّدِ قَوْمِہِ، وَقَدْ أَصَابَنِی مِنَ الْبَلَائِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ، فَوَقَعْتُ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ فَکَاتَبْتُہُ عَلٰی نَفْسِی، فَجِئْتُکَ أَسْتَعِینُکَ عَلٰی کِتَابَتِی، قَالَ: ((فَہَلْ لَکِ فِی خَیْرٍ مِنْ ذٰلِکَ؟)) قَالَتْ: وَمَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَقْضِی کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((قَدْ فَعَلْتُ۔)) قَالَتْ: وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَی النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، فَقَالَ النَّاسُ: أَصْہَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَرْسَلُوْا مَا بِأَیْدِیہِمْ، قَالَتْ: فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِیجِہِ إِیَّاہَا مِائَۃَ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَمَا أَعْلَمُ امْرَأَۃً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلَی قَوْمِہَا مِنْہَا۔ (مسند أحمد: ۲۶۸۹۷)

۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق کے قیدی تقسیم کیے تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی اور پھر اس نے ان سے مکاتبت بھی کر لی، یہ بڑی ہی خوب رو خاتون تھی، کوئی بھی اسے دیکھتا تو وہ اسے اپنی طرف مائل کر لیتی، پس وہ اپنی مکاتبت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مدد لینے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پاس آئی، اللہ کی قسم! جب میں (عائشہ) نے اس کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا تو میں نے اس کے آنے کو ناپسند کیا اور میں جان گئی کہ جو چیز میں دیکھ رہی ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نظر بھی اسی چیز پر پڑے گی، پس جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار ہوں، میرے باپ اپنی قوم کے سردار ہیں اور میں ایسی آزمائش میں پھنس گئی ہوں کہ اس کا معاملہ آپ پر بھی واضح ہے، میں سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی حصے میں آئی ہوں اور میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اب میں آپ کے پاس آئی ہوں، تاکہ آپ مکاتبت پر میرا تعاون کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ اس نے کہا: جی وہ کیا؟ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مکاتبت کی قیمت ادا کر کے تم سے شادی کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تحقیق میں نے ایسے ہی کر دیا ہے۔ اتنے میں لوگوں تک یہ خبر پہنچ گئی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کر لی ہے، لوگوں نے کہا: بنو مصطلق، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرال بن گئے ہیں، پس اس وجہ سے انھوں نے وہ غلام اور لونڈیاں آزاد کر دیں، جو ان کے ہاتھ میں تھے، سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی اس شادی کی وجہ سے بنو مصطلق کے سو گھرانوں کے افراد کو آزاد کیا گیا، میں ایسی کوئی خاتون نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لیے سب سے زیادہ برکت والی ثابت ہوئی ہو، ما سوائے سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے۔

۔ (۵۱۱۶)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، کَانَ مُسْتَنِدًا إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعِنْدَہُ ابْنُ عُمَرَ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنِّی لَمْ أَقُلْ فِی الْکَلَالَۃِ شَیْئًا، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِی أَحَدًا، وَأَنَّہُ مَنْ أَدْرَکَ وَفَاتِی مِنْ سَبْیِ الْعَرَبِ، فَہُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، اَلْحَدِیْثَ۔ (مسند أحمد: ۱۲۹)

۔ سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (زخمی ہونے کے بعد) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی اور ان کے پاس سیدنا ابن عمر اور سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم سب لوگ جان لو کہ میں نے کلالہ کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی، اپنے بعد کسی ایک کو خلیفہ مقرر نہیں کیا اور عرب کے جو قیدی میری ملکیت میں میری وفات پا لیں، وہ اللہ تعالیٰ کے لیے آزاد ہوں گے۔