مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

اس چیز کا بیان کہ اگر حربی قابو میں آنے سے پہلے مسلمان ہو گیا تو اپنے مال کو بچا لے گا، نیز غنیمت والی زمین کا حکم

۔ (۵۱۲۴)۔ عَنْ صَخْرِ بْنِ عَیْلَۃَ، أَنَّ قَوْمًا مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ فَرُّوْا عَنْ أَرْضِہِمْ حِینَ جَائَ الْإِسْلَامُ، فَأَخَذْتُہَا فَأَسْلَمُوا فَخَاصَمُونِی فِیہَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَدَّہَا عَلَیْہِمْ، وَقَالَ: ((إِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ فَہُوَ أَحَقُّ بِأَرْضِہِ وَمَالِہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۸۹۸۵)

۔ سیدنا صخر بن عیلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اسلام آیا تو بنو سلیم کے کچھ لوگ اپنی زمین سے بھاگ گئے، میں نے ان کی زمین پر قبضہ کر لیا، جب وہ مسلمان ہو گئے تو وہ یہ جھگڑا لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ زمین ان کو لوٹا دی اور فرمایا: جب آدمی مسلمان ہو جاتا ہے تو وہی اپنی زمین اور مال کا زیادہ مستحق ہوتاہے۔

۔ (۵۱۲۵)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَہُمْ مَا أَسْلَمُوا عَلَیْہِ مِنْ أَرَضِیہِمْ وَرَقِیقِہِمْ وَمَاشِیَتِہِمْ، وَلَیْسَ عَلَیْہِمْ فِیہِ إِلَّا الصَّدَقَۃُ۔)) (مسند أحمد: ۲۳۴۰۸)

۔ سیدہ بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین، غلام اور مویشی وغیرہ سمیت وہ لوگ جس جس چیز پر ایمان لائے ہیں، وہ ان ہی کی ہو گی، ان کے ان مالوں میں صرف زکوۃ فرض ہو گی۔

۔ (۵۱۲۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَیُّمَا قَرْیَۃٍ أَتَیْتُمُوہَا فَأَقَمْتُمْ فِیہَا فَسَہْمُکُمْ فِیہَا، وَأَیُّمَا قَرْیَۃٍ عَصَتِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ خُمُسَہَا لِلّٰہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ ہِیَ لَکُمْ)) (مسند أحمد: ۸۲۰۰)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’جس بستی میں تم آئے اور (اس بستی والوں سے مال پر مصالحت کر کے) وہاں قیام کیا تو تمہارے لیے تمہارا وہی حصہ ہو گا، لیکن جس بستی والوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی (اور تم نے ان سے لڑائی کر کے فتح حاصل کر لی تو ان کا مال غنیمت ہو گا اور) اس کا خُمس اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گا اور باقی سارا تم کو مل جائے گا۔

۔ (۵۱۲۷)۔ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ: لَئِنْ عِشْتُ إِلٰی ہٰذَا الْعَامِ الْمُقْبِلِ لَا یُفْتَحُ لِلنَّاسِ قَرْیَۃٌ إِلَّا قَسَمْتُہَا بَیْنَہُمْ، کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ۔ (مسند أحمد: ۲۱۳)

۔ اسلم سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو لوگوں کے لیے جو بستی بھی فتح ہو گی، میں اس کو ان کے درمیان تقسیم کر دوں گا، جیسا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا۔

۔ (۵۱۲۸)۔ عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَدْرَکَہُمْ یَذْکُرُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ ظَہَرَ عَلٰی خَیْبَرَ، وَصَارَتْ خَیْبَرُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْمُسْلِمِینَ، ضَعُفُوا عَنْ عَمَلِہَا، فَدَفَعُوہَا إِلَی الْیَہُودِ، یَقُومُونَ عَلَیْہَا وَیُنْفِقُونَ عَلَیْہَا عَلٰی أَنَّ لَہُمْ نِصْفَ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی سِتَّۃٍ وَثَلَاثِینَ سَہْمًا، جَمَعَ کُلُّ سَہْمٍ مِائَۃَ سَہْمٍ، فَجَعَلَ نِصْفَ ذٰلِکَ کُلِّہِ لِلْمُسْلِمِینَ، وَکَانَ فِی ذٰلِکَ النِّصْفِ سِہَامُ الْمُسْلِمِینَ، وَسَہْمُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہَا، وَجَعَلَ النِّصْفَ الْآخَرَ لِمَنْ یَنْزِلُ بِہِ مِنَ الْوُفُودِ وَالْأُمُورِ وَنَوَائِبِ النَّاسِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۵۳۰)

۔ بُشیر بن یسار سے مروی ہے کہ انھوں نے اصحاب ِ رسول میں سے بعض افراد کو اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پایا کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کو فتح کر لیا اور خیبر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مسلمانوں کی ملکیت ہو گیا، جبکہ مسلمان اس سرزمین کا سارا کام کاج کرنے سے عاجز تھے، تو انھوں نے اس کو یہودیوں کے ہی سپرد کر دیا کہ وہی اس کی ذمہ داری ادا کریں گے اور اس پر خرچ کریں گے، اس کے عوض ان کو نصف پیداوار ملے گی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو چھتیس حصوں پر تقسیم کیا، ہر حصہ سو حصوں پر مشتمل تھا، خیبر کی زمین سے جو حصہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملتا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے نصف کو مسلمانوں میں اس طرح تقسیم کر دیتے تھے کہ اس میں مسلمانوں کے حصے بھی ہوتے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حصہ بھی، باقی نصف کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفود، امور اور لوگوں کے دوسرے حوادث و مہمات میں خرچ کرتے تھے۔

۔ (۵۱۲۹)۔ عَنْ سُفْیَانَ بْنَ وَہْبٍ الْخَوْلَانِیَّ، یَقُولُ: لَمَّا افْتَتَحْنَا مِصْرَ بِغَیْرِ عَہْدٍ، قَامَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَقَالَ: یَا عَمْرُو بْنَ الْعَاصِ! اقْسِمْہَا، فَقَالَ عَمْرٌو: لَا أَقْسِمُہَا، فَقَالَ الزُّبَیْرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَاللّٰہِ! لَتَقْسِمَنَّہَا کَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَیْبَرَ، قَالَ عَمْرٌو: وَاللّٰہِ! لَا أَقْسِمُہَا حَتّٰی أَکْتُبَ إِلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، فَکَتَبَ إِلٰی عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ: أَنْ أَقِرَّہَا حَتّٰی یَغْزُوَ مِنْہَا حَبَلُ الْحَبَلَۃِ۔ (مسند أحمد: ۱۴۲۴)

۔ سفیان بن وہب خولانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب ہم بغیر کسی معاہدے کے مصر فتح کر لیا تو سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے عمرو بن عاص! اس کو تقسیم کرو، لیکن انھوں نے کہا: میں اس کو تقسیم نہیںکروں گا، سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! تم ہر صورت میں اس کو ایسے ہی تقسیم کرو گے، جیسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس کو اس وقت تک تقسیم نہیں کروں گا،جب تک اس کی تفصیل لکھ کر امیر المومنین کو نہیں بھیج دوں گا، پھر انھوں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خط لکھا اور امیر المومنین نے جوابی تحریر میں یہ حکم دیا: اس کو ایسے برقرار رکھو، یہاں تک کہ حاملہ خواتین کے حمل کے بچے جہاد کریں۔