۔ سعد بن عبیدہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، پھر میں ایک کندی باشندے کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چھوڑ کر سعید بن مسیب کے پاس چلا گیا، وہ کندی آدمی گھبرا کر وہاں پہنچ گیا، میں نے اس سے کہا: تیرے پیچھے کون لگا ہوا ہے؟ انھوں نے کہا: ابھی ایک آدمی، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور اس نے کہا: میں کعبہ کی قسم اٹھاتا ہوں، انھوں نے کہا: تو کعبہ کے ربّ کی قسم اٹھا، کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے باپ کی قسم اٹھاتے تھے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: اپنے باپ کی قسم مت اٹھاؤ، کیونکہ جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی، اس نے شرک کیا۔
۔ قُتیلہ بنت صیفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے ربّ کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم اللہ کیلئے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی مَا شَائَ اللّٰہُ کہے تو وہ فاصلہ کرے اور ثُمَّ شِئْتَ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔