مسنداحمد

Musnad Ahmad

قسم اور نذر کے مسائل

جھوٹی قسم کے بارے میں سختی کا اور منبر نبوی پر اس قسم کے بڑا جرم ہونے کا بیان


۔ (۵۳۲۱)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) بِنَحْوِہِ وَزَادَ قَالَ: فَخَرَجَ الْأَشْعَثُ وَہُوَ یَقْرَؤُہَا، قَالَ: فِیَّ أُنْزِلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ، إِنَّ رَجُلًا ادَّعٰی رَکِیًّا لِی فَاخْتَصَمْنَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((شَاہِدَاکَ أَوْ یَمِینُہُ؟)) فَقُلْتُ: أَمَا إِنَّہُ إِنْ حَلَفَ حَلَفَ فَاجِرًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ حَلَفَ عَلٰی یَمِینٍ صَبْرًا یَسْتَحِقُّ بِہَا مَالًا لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۱۸۵)

۔ (دوسری سند) اسی طرح کی روایت ہے، البتہ یہ الفاظ زائد ہیں: سیدنا اشعث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے نکلے اور کہا: یہ آیت میرے بارے میںنازل ہوئی ہے اور وہ اس طرح کہ ایک آدمی نے میرے کنویں کا دعوی کر دیا، پس ہم جھگڑا لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تیرے دو گواہ ، یا اس کی قسم؟ میں نے کہا: اگر اس نے قسم اٹھائی تو یہ جھوٹی قسم اٹھائے گا، پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے اپنے آپ کو کسی کے مال کا مستحق ثابت کرنے کے لیے حاکم کے پاس قسم اٹھائی، وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔

Status: Sahih
حکمِ حدیث: صحیح
Conclusion
تخریج
(۵۳۲۱) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الأول۔
Explanation
شرح و تفصیل
فوائد:… یَمِیْنُ الصَّبْر : اس جھوٹی قسم کو کہتے ہیں، جو آدمی جان بوجھ کر اٹھاتا ہے اور اس کا ارادہ مسلمان کا مال ہتھیا لینا ہوتا ہے۔اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو اس قسم پر پابند کرتا ہے یا حاکم، قاضی کے پاس اسے روکا جاتا ہے کیونکہ صبر کا اصل معنی روکنا ہے۔