مسنداحمد

Musnad Ahmad

قسم اور نذر کے مسائل

جو آدمی کسی چیز پر قسم اٹھائے، لیکن جب دیکھے کہ زیادہ بہتری دوسری چیز میں ہے تو وہ بہتر چیز کو اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے


۔ (۵۳۵۱)۔ (وَعَنْہٗ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَاللّٰہِ! لَأَنْ یَلَجَّ أَحَدُکُمْ بِیَمِینِہِ فِی أَہْلِہِ آثَمُ لَہُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ أَنْ یُعْطِیَ کَفَّارَتَہُ الَّتِی فَرَضَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔)) (مسند أحمد: ۸۱۹۳)

۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب کوئی آدمی اپنے اہل کے معاملہ میں کوئی قسم اٹھاتا ہے اور (اس قسم کے بہانے اڑا رہتا ہے) تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس سے زیادہ گنہگار ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فرض کیا ہوا کفارہ ادا کر دے۔

Status: Sahih
حکمِ حدیث: صحیح
Conclusion
تخریج
(۵۳۵۱) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الأول
Explanation
شرح و تفصیل
فوائد:حافظ ابن حجر نے کہا: آثَم کا معنی اشدّ تأثیما ہے …۔ اس حدیث کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ جو آدمی اپنے اہل و عیال سے متعلقہ ایسی قسم اٹھاتا ہے کہ اس کو پورا کرنے کی صورت میں ان کو تکلیف ہوتی ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اس قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کر دے۔ اگر وہ کہے کہ وہ گناہ سے بچنے کے لیے قسم نہیں توڑے گا، تو وہ گنہگار ہو گا، بلکہ اس کا ایسی قسم پر برقرار رہنے اور اپنے اہل کے لیے تکلیف کا باعث بننے کا گناہ قسم توڑنے سے زیادہ ہو گا … بیضاوی نے کہا: اس حدیث کا مرادی معنی یہ ہے کہ جب آدمی اپنے اہل سے متعلقہ امور میں قسم اٹھاتا ہے اور پھر اس پر ڈٹ جاتا ہے (اور یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے اہل کو اس قسم کی وجہ سے کتنی تکلیف ہو رہی ہے تو) اس کا یہ گناہ قسم توڑنے کے گناہ سے زیادہ ہو گا، کیونکہ اس نے اپنی قسم کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نام کو حیلہ بنا لیا ہے، حالانکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔(فتح الباری: ۱۱/۶۳۷)