۔ یعلی بن شداد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہمارے سردار شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے مجھے بیان کی، جبکہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اور ان کی تصدیق کر رہے تھے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں کوئی اجنبی آدمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد اہل کتاب تھی، ہم نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دروازے کو بند کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: اپنے ہاتھوں کو بلند کر لو اور کہو: لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔ پس ہم نے کچھ دیر تک اپنے ہاتھ بلند کیے رکھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ نیچے رکھ دیا اور فرمایا: اللہ کا شکر ہے، اے اللہ! تو نے مجھے اس کلمہ کے ساتھ بھیجا، تو نے مجھے اس کلمہ کا حکم دیا اور مجھ سے اس پر جنت کا وعدہ کیا اور بیشک تو وعدے کی مخالفت نہیں کرتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خوش ہو جاؤ، بیشک اللہ تعالیٰ نے تم کو بخش دیا ہے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے ایمان کی تجدید کیا کرو۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کیسے اپنے ایمان کی تجدید کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کثرت سے لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہا کرو۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: روزِ قیامت کون لوگ آپ کی سفارش کے زیادہ مستحق ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! میرا خیال تھا کہ کوئی آدمی تجھ سے پہلے مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال نہیں کرے گا، کیونکہ میں نے تیرے اندر حدیث کی حرص پائی ہے، قیامت کے دن میری سفارش کا سب سے زیادہ مستحق وہ شخص ہو گا، جو اپنی طرف سے اور خلوص کے ساتھ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہے گا۔