مسنداحمد

Musnad Ahmad

مساقات، مزارعت اور زمین کو کرائے پر دینے کا بیان

زمین کو اس کی بعض پیداوار کے عوض کرائے پر دینے سے منع کرنے والوں اور سونے اور چاندی کے عوض جائز سمجھنے والوں کی دلیل کا بیان

۔ (۶۱۲۲)۔ عَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ قَیْسٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ کِرَائِ الْمَزَارِعِ، قَالَ: قُلْتُ: بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ؟ قَالَ: لَا، اِنَّمَا نَہٰی عَنْہُ بِبَعْضِ مَا یَخْرُجُ مِنْہَا، فَأَمَّا بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ فَـلَا بَأْسَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۳۹۰)

۔ سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھیتیوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، میں حنظلہ نے کہا: اگر سونے اور چاندی کے عوض میں دے تو؟ انہوںنے کہا: جی نہیں، صرف زمین کو اس کی پیداوار کے بعض حصے کے عوض میں دینے سے منع کیا گیا ہے، سونے اور چاندی کے عوض زمین کو کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۔ (۶۱۲۳)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: ثَنَا شُعْبَۃُ قَالَ الْحَکْمُ اَخْبَرَنِیْ عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ: نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْحَقْلِ، قُلْتُ: وَمَا الْحَقْلُ؟ قَالَ: الثُّلُثُ وَالرُّبْعُ، فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ اِبْرَاہِیْمُ کَرِہَ الثُّلُثَ وَالرُّبْعَ وَ لَمْ یَرَ بَأْسًا بِالْأَرْضِ الْبَیْضَائِیَأْخُذُھَا بِالدَّرَاھِمِ۔ (مسند احمد: ۱۵۹۰۴)

۔ سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ امام شعبہ کہتے ہیں: میں نے حکم سے دریافت کیا کہ محاقلہ کیا ہے؟ انہوںنے کہا: زمین کو تہائییاچوتھائی حصہ پر کاشت کرنا، جب ابراہیم نے یہ بات سنی تو وہ تہائی اور چوتھائی حصے پر زمین کاشت کرنے کو ناپسند کرتے تھے، البتہ اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے کہ کوری زمین درہموں کے عوض لی جائے۔

۔ (۶۱۲۴)۔ عَنِ ابْنِ طَاؤُوْسٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَأَنْ یَمْنَحَ اَحَدُکُمْ أَخَاہُ أَرْضَہُ خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَأْخُذَ عَلَیْہَا کَذَا وَکَذَا لِشَیْئٍ مَعْلُوْمٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَھُوَ الْحَقْلُ بِلِسَانِ الْأَنْصَارِ الْمُحَاقَلَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۸۶۲)

۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پر زمین دے دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کے عوض کوئی متعین چیز لے۔ پھر سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ حقل ہے اور انصار کی زبان میں اس کو محاقلہ کہتے ہیں۔

۔ (۶۱۲۵)۔ عَنْ حَنْظَلَۃَ الزُّرَقِیِّ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا یُکْرُوْنَ الْمَزَارِعَ فِیْ زَمَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَاذِیَانَاتِ وَمَا سَقَی الرَّبِیْعُ وَشَیْئٍ مِنَ التِّبْنِ، فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کِرَائَ الْمَزَارِعِ بِہٰذَا وَنَہٰی عَنْہَا، وَقَالَ رَافِعٌ: وَلَا بَأْسَ بِکِرَائِہَا بِالدَّرَاھِمِ وَالدَّنَانِیْرِ۔ (مسند احمد: ۱۵۹۰۲)

۔ سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں بڑی نہروں کے پاس والی فصل، چھوٹی نہروں سے سیراب ہونے والی فصل اور کچھ چارے یا بھوسے کے عوض کھیتوں کو کرائے پر دیتے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس طریقے سے کھیتوں کو کرائے پر دینے کو ناپسند کیا اور اس سے منع فرما دیا، پھر سیدنا رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: البتہ درہم و دینار کے عوض کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۔ (۶۱۲۶)۔ (وَعَنْہ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ أَنَّہُ قَالَ: حَدَّثَنِیْ عَمِّیْ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُکْرُوْنَ الْأَرْضَ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا یَنْبُتُ عَلٰی الْاَرْبِعَائِ وَشَیْئٍ مِنَ الزَّرْعِ یَسْتَثْنِیْہِ صَاحِبُ الزَّرْعِ فنَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ ذٰلِکَ، فَقُلْتُ لِرَافِعٍ: کَیْفَ کِرَاؤُھَا؟ أَ بِالدِّیْنَارِ وَالدِّرْھَمِ؟ فَقَالَ رَافِعٌ: لَیْسَ بِہَا بَأْسٌ بِالدِّیْنَارِ وَالدِّرْھَمِ۔ (مسند احمد: ۱۷۴۱۰)

۔ (دوسری سند) سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے چچا نے مجھے بیان کیا کہ وہ لوگ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں چھوٹی نہروں کے آس پاس اگنے والی فصل اور کچھ کھیتی، جس کو مالک مستثنی کرتا تھا، کے عوض زمین کو کرائے پر دیتے تھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ میں حنظلہ نے سیدنا رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا:تو پھر زمین کو کس طرح کرائے پر دیا جائے؟ کیا درہم و دینار کے عوض؟ انھوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کھیتی کو درہم و دینار کے عوض کرائے پر دیا جائے۔

۔ (۶۱۲۷)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ أَنَّ أَصْحَابَ الْمَزَارِعِ فِیْ زَمَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانُوْا یُکْرُوْنَ مَزَارِعَہُمْ بِمَا یَکُوْنُ عَلٰی السَّوَاقِی مِنَ الزَّرْعِ وَمَا سَعِدَ بِالْمَائِ مِمَّا حَوْلَ البِئْرِ فَجَائُ وْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاخْتَصَمُوْا فِیْ بَعْضِ ذٰلِکَ فَنَہَاھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُکْرُوْا بِذٰلِکَ، وَقَالَ: ((اَکْرُوْا بِالذَّھَبِ وَالفِّضَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۵۴۲)

۔ سیدنا سعدبن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ کھیتیوں کے مالکان عہد ِ نبوی میں اپنی کھیتیاں اس قطعۂ زمین کے عوض کرائے پردیتے تھے، جہاں پانی والی نالیاں بہتی تھیںیا کنویں کے ارد گرد جہاں پانی خود بخود چڑھ آتاتھا، لیکن جب وہ بعض معاملات میں جھگڑا لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اس طرح زمین کرائے پر دینے سے منع کر دیا اور فرمایا: سونے اورچاندی کے عوض زمین کرائے پردیاکرو۔