سورة یُوْنُس نام : اس سورہ کا نام حسب دستور محض علامت کے طور پر آیت ۹۸ سے لیا گیا ہے جس میں اشارۃ حضرت یونس ( علیہ السلام ) کا ذکر آیا ہے ۔ سورہ کا موضوع بحث حضرت یونس ( علیہ السلام ) کا قصہ نہیں ہے ۔ مقام نزول : روایات سے معلوم ہوتا ہے اور نفس مضمون سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ پوری سورۃ مکے میں نازل ہوئی ہے ۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس کی بعض آیتیں مدنی دور کی ہیں ، لیکن یہ محض ایک سطحی قیاس ہے ۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ مختلف تقریروں یا مختلف مواقع پر اتری ہوئی آیتوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ شروع سے آخر تک ایک ہی مربوط تقریر ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہوگی ، اور مضمون کلام اس بات پر صریح دلالت کر رہا ہے کہ یہ مکی دور کا کلام ہے ۔ زمانہ نزول : زمانہ نزول کے متعلق کوئی روایت ہمیں نہیں ملی ۔ لیکن مضمون سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورۃ زمانہ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی ۔ کیونکہ اس کے انداز کلام سے صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ مخالفین دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کر چکی ہے ، وہ نبی اور پیروان نبی کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، ان سے اب یہ امید باقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم و تلقین سے راہ راست پر آجائیں گے ، اور اب انہیں اس انجام سے خبردار کرنے کا موقع آگیا ہے کہ جو نبی کو آخری اور قطعی طور پر رد کر دینے کی صورت میں انہیں لازما دیکھنا ہوگا ۔ مضمون کی یہی خصوصیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کونسی سورتیں مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ لیکن اس سورہ میں ہجرت کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا ، اس لیے اس کا زمانہ ان سورتوں سے پہلے کا سمجھنا چاہیے جن میں کوئی نہ کوئی خفی یا جلی اشارہ ہم کو ہجرت کے متعلق ملتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمانہ کی اس تعیین کے بعد تاریخی پس منظر بیان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، کیونکہ اس دور کا تاریخی پس منظر سورہ انعام اور سورہ اعراف کے دیباچوں میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ موضوع : موضوع تقریر دعوت ، فہمائش اور تنبیہ ہے ۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ: لوگ ایک انسان کے پیغام نبوت پیش کرنے پر حیران ہیں اور اسے خواہ مخواہ ساحری کا الزام دے رہے ہیں ، حالانکہ جو بات وہ پیش کر رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی نہ تو عجیب ہی ہے اور نہ سحر و کہانت ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔ وہ تو دو اہم حقیقتوں سے تم کو آگاہ کر رہا ہے ۔ ایک یہ کہ جو خدا اس کائنات کا خالق ہے اور اس کا انتظام عملا چلا رہا ہے صرف وہی تمہارا مالک و آقا ہے اور تنہا اسی کا یہ حق ہے کہ تم اس کی بندگی کرو ۔ دوسرے یہ کہ موجودہ دنیوی زندگی کے بعد زندگی کا ایک اور دور آنے والا ہے جس میں تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے ، اپنی موجودہ زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دو گے اور ان بنیادی سوال پر جزا یا سزا پاؤ گے کہ تم نے اسی خدا کو اپنا آقا مان کر اس کے منشا کے مطابق نیک رویہ اختیار کیا یا اس کے خلاف عمل کرتے رہے ۔ یہ دونوں حقیقتیں ، جو وہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ، بجائے خود امر واقعی ہیں خواہ تم مانو یا نہ مانو ۔ وہ تمہیں دعوت دیتا ہے کہ تم انہیں مان لو اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بنا لو ۔ اس کی یہ دعوت اگر تم قبول کرو گے تو تمہارا اپنا انجام بہتر ہو گا ورنہ خود ہی برا نتیجہ دیکھو گے ۔ مباحث : اس تمہید کے بعد حسب ذیل مباحث ایک خاص ترتیب کے ساتھ سامنے آتی ہیں: ( ۱ ) وہ دلائل جو توحید ربوبیت اور حیات اخروی کے باب میں ایسے لوگوں کو عقل و ضمیر کا اطمینان بخش سکتے ہیں جو جاہلانہ تعصب میں مبتلا نہ ہوں اور جنہیں بحث کی ہار جیت کے بجائے اصل فکر اس بات کی ہو کہ خود غلط بینی اور اس کے برے نتائج سے بچیں ۔ ( ۲ ) ان غلط فہمیوں کا ازالہ اور ان غفلتوں پر تنبیہ جو لوگوں کو توحید اور آخرت کا عقیدہ تسلیم کرنے میں مانع ہو رہی تھیں ( اور ہمیشہ ہوا کرتی ہیں ) ۔ ( ۳ ) ان شبہات اور اعتراضات کا جواب جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کے بارے میں پیش کیے جاتے تھے ۔ ( ٤ ) دوسری زندگی میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کی پیشگی خبر ، تاکہ انسان اس سے ہوشیار ہو کر اپنے آج کے طرز عمل کو درست کر لے اور بعد میں پچھتانے کی نوبت نہ آئے ۔ ( ۵ ) اس امر پر تنبیہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی زندگی ہے اور اس امتحان کے لیے تمہارے پاس بس اتنی ہی مہلت ہے جب تک تم اس دنیا میں سانس لے رہے ہو ۔ اس وقت کو اگر تم نے ضائع کر دیا اور نبی کی ہدایت قبول کر کے امتحان کی کامیابی کا سامان نہ کیا تو پھر کوئی دوسرا موقع تمہیں ملنا نہیں ہے ۔ اس نبی کا آنا اور اس قرآن کے ذریعہ تم کو علم حقیقت کا بہم پہنچایا جانا وہ بہترین اور ایک ہی موقع ہے جو تمہیں مل رہا ہے ۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو بعد کی ابدی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ پچھتاؤ گے ۔ ( ٦ ) ان کھلی کھلی جہالتوں اور ضلالتوں پر اشارہ جو لوگوں کی زندگی میں صرف اس وجہ سے پائی جا رہی تھیں کہ وہ خدائی ہدایت کے بغیر جی رہے تھے ۔ اس سلسلہ میں نوح علیہ السلام کا قصہ مختصرا اور موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے چار باتیں ذہن نشین کرنی مطلوب ہیں ۔ اول یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو معاملہ تم لوگ کر رہے ہو وہ اس سے ملتا جلتا ہے جو نوح اور موسی ٰ علیہما السلام کے ساتھ تمہارے پیش رو کر چکے ہیں اور یقین رکھو کہ اس طرز عمل کا جو انجام وہ دیکھ چکے ہیں وہی تمہیں بھی دیکھنا پڑے گا ۔ دوم یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو آج جس بے بسی و کمزوری کے حال میں تم دیکھ رہے ہو اس سے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ صورت حال ہمیشہ یہی رہے گی ۔ تمہیں خبر نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پشت پر وہی خدا ہے جو موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی پشت پر تھا اور وہ ایسے طریقہ سے حالات کی بساط الٹ دیتا ہے جس تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی ۔ سوم یہ کہ سنھلنے کے لیے جو مہلت خدا تمہیں دے رہا ہے اسے اگر تم نے ضائع کر دیا اور پھر فرعون کی طرح خدا کی پکڑ میں آجانے کے بعد عین آخری لمحے پر توبہ کی تو معافی نہیں کیے جاؤ گے ۔ چہارم یہ کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے وہ مخالف ماحول کی انتہائی شدت اور اس کے مقابلہ میں اپنی بیچارگی دیکھ کر مایوس نہ ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ ان حالات میں ان کو کس طرح کام کرنا چاہیے ۔ نیز وہ اس امر پر بھی متنبہ ہو جائیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اس حالت سے نکال دے تو کہیں وہ اس روش پر نہ چل پڑیں جو بنی اسرائیل نے مصر سے نجات پا کر اختیار کی ۔ آخر میں اعلان کیا گیا ہے کہ یہ عقیدہ اور یہ مسلک ہے جس پر چلنے کی اللہ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی ہے ۔ اس میں قطعا کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی ، جو اسے قبول کرے گا وہ اپنا بھلا کرے گا اور جو اس کو چھوڑ کر غلط راہوں میں بھٹکے گا وہ اپنا ہی کچھ بگاڑ دے گا ۔
" سورۃ یونس تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ البتہ بعض مفسرین نے اس کو تین آیتوں ( آیت نمبر ٤٠ اور ٩٤ اور ٩٥) کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ مدیننہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن اس کا کوئی یقینی ثبوت موجود نہیں ہے۔ سورت کا نام حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا ہے جن کا حوالہ آیت نمبر ٩٨ میں آیا ہے۔ مکہ مکرمہ میں سب سے اہم مسئلہ اسلام کے بنیادی عقائد کو ثابت کرنا تھا، اس لئے اکثر مکی سورتوں میں بنیادی زور توحید، رسالت اور آخرت کے مضامین پر دیا گیا ہے۔ اس سورت کے بھی مرکزی موضوعات یہی ہیں۔ اس کے ساتھ اسلام پر مشرکین عرب کے اعتراضات کے جواب دیئے گئے ہیں اور ان کے غلط طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے، اور انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی ضد جاری رکھی دنیا اور آخرت دونوں میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف عذاب آسکتا ہے۔ اسی سلسلہ میں پچھلے انبیائے کرام میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کے نتیجے میں فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اور حضرت نوح اور حضرت یونس علیہما السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان میں کافروں کے لئے تو یہ کہ انہوں نے پیغمبر کی مخالفت میں جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے، اس کے نتیجے میں ان کا انجام بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے لیے یہ تسلی کا سامان بھی ہے کہ ان ساری مخالفتوں کے باوجود آخری انجام ان شاء اللہ انہی کے حق میں ہوگا۔ "
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورتوں میں عام طور پر اسلام کے بنیادی عقائد، توحید و رسالت، قیامت اور آخرت کا ذکر فرما کر جزا و سزا پر زور دیا گیا ہے۔ جب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلا نبوت فرما کر مکہ کے کفار و مشرکین کے سامنے اللہ کا کلام پیش کیا تو ابتداء میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر کوئی توجہ دی گئی۔ لیکن جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقناطیسی شخصیت اور دین اسلام کی عظمت وتعلیمات سے ایک خاص طبقہ متاثر ہوتا ہوا نظر آیا تو کفار و مشرکین نے استہزا و مذاق اور طرح طرح کی اذیتوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانثار صحابہ کو ستانا شروع کردیا۔ اعتراضات اور شبہات کی بھرمار کردی یہاں تک کہ اسلام کی سادہ اور پر تاثیر سچائیوں کو جادو کا نام دے کر اس تحریک کو بدنام کرنے کی مہم تیز کردی۔ جس کے قدم بھی اس سچائی کی طرف بڑھتے ان پر مکہ کی سر زمین کو تنگ کرنا شروع کردیتے۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ قیام مکہ کے اس آخری دور میں سورة یونس کو نازل کیا گیا۔ اس سورت میں نہ صرف کفار و مشرکین کے اعتراضات و شبہات کا بھرپور انداز میں جواب دیا گیا ہے بلکہ حضرت نوح، حضرت موسیٰ اور حضرت یونس کے واقعات کو سنا کر صاف صاف اعلان کردیا گیا ہے کہ اللہ نے ہر دور میں انسانوں ہی میں سے پاکیزہ نفس انسانوں کو اپنا پیغام دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پے لے آئیں اور اسلام کی تعلیمات سے دنیا کے اندھیروں کو دور کردیں۔ چناچہ انبیاء کرام نے تمام تر بےسرو سامانی اور غربت و افلاس کے باوجود اللہ کا دین پہنچانے میں دن رات ایک کردیئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے دین اسلام کے دشمنوں کو تہس نہس کردیا اور انبیاء کرام اور ان کے ماننے والوں کو کامیاب و بامراد فرمایا۔ حضرت موسیٰ ٰجو انتہائی بےبسی کے عالم میں پوری قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلا کر مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت فرما رہے تھے اس وقت اللہ نے فرعون کو، اس کی سلطنت کے فخر و غرور کو اور اس کی طاقت و قوت کو سمندر میں غرق کردیا اور قوم بنی اسرائیل کو سلطنت اور ارض فلسطین پر حکمرانی عطا کردی۔ فرعونی قوتیں تباہ و برباد ہوگئیں اور بےبس اور مظلوم بنی اسرائیل کو تمام تر عزت و عظمت سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ کے خلاف مخالفت اور دشمنی شدت اختیار کرچکی تھی اس وقت قیام مکہ کے آخری دور میں یہ سورت نازل ہوئی۔ اسلامی عقائد، اصول دین، توحید و رسالت، قیامت، آخرت، حساب و کتاب جزا و سزا کا اس سورت میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ سورة یونس میں حضرت نوح کا مختصر اور حضرت موسیٰ کا تفصیل سے واقعہ اور حضرت یونس کا واقعہ خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ نواز دیا گیا ۔ دوسری طرف حضرت نوح کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال تک ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا لیکن جب قوم نے نا فرمانیوں کی حد کردی تب اللہ نے حضرت نوح اور ان کے ماننے والوں کو نجات عطا فرما دیا ور بقیہ تمام لوگوں اور ان کی تہذیب و تمدن، مال و دولت اور ان کے فخر و غرور کے نشانات کو پانی کے طوفان میں غرق کردیا۔ ان دو واقعات کے بعد حضرت یونس کا قصہ سنا کر فرمایا کہ قوم موسیٰ و قوم نوح کے برخلاف جب قوم یونس کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ حضرت یونس چلے گئے ہیں اور اب اللہ کا عذاب آنے والا ہے۔ تو پوری قوم نے سچے دل سے توبہ کرلی اور حضرت یونس کی رسالت کو تسلیم کرلیا تب اللہ نے ان پر سے عذاب کو ٹال دیا۔ کفار مکہ کو بتایا جا رہا ہے کہ دونوں راستے سامنے ہیں اگر تم نے حضرت موسیٰ اور حضرت نوح کی نافرمان قوم کا طریقہ اختیار کیا تو تمہیں تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا اور اگر حضر یونس کی قوم کا طریقہ اختیار کر کے کفر و شرک سے توبہ کرلی اور نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن سے وابستگی اختیار کرلی تو نجات مل جائے گی۔
سورة یونس کا تعارف سورۃ کا نام حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا حضرت یونس (علیہ السلام) کا اسم مبارک اس سورة کی آیت ٩٨ میں موجود ہے۔ سورة کے گیارہ رکوع ١٠٩ آیات ہیں۔ چند آیات مدنی ہیں باقی تمام آیات مکی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے رسول کی بشریت کا انکار کرنے والوں کا رد کیا گیا ہے۔ رسول کی بشریت اور نبوت ثابت کرنے کے بعد توحید کے ٹھوس دلائل دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زمین، آسمانوں کا پیدا کرنے والا اور وہی ان کا نظام چلانے والا ہے۔ زمین و آسمانوں کی تخلیق اور کائنات کے نظام چلانے میں اللہ کا کوئی شریک اور معاون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے سورج اور چاند بنائے، ان کی منزلیں مقرر کیں اور وہی رات اور دن کو بنانے والا ہے۔ مشرک کی عادت یہ ہے کہ وہ صرف مصیبت کے وقت اپنے رب کو پکارتا ہے مصیبت ٹل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ مشرک ان سے مدد طلب کرتا اور ان کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتا ہے جو نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ مشرک قرآن مجید کے دلائل کی تاب نہ لاکر مطالبہ کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو بدل دیا جائے۔ دنیا عارضی ہے اور اس کی مثال گھاس پھونس کی مانند ہے۔ آخرت یقینی اور ابدی ہے۔ قرآن مجید کو جھٹلانے والوں کو اس سورة میں ایک سورة بنا لانے کا چیلنج دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول سے کہلوایا گیا ہے کہ میں بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ قرآن مجید بہترین نصیحت اور نسخۂ شفا ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک اور بےنیاز ہے۔ سورۂ یونس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا مختصر بیان ہوا ہے۔ فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا گیا مگر فرعون کی لاش عبرت کے لیے باقی رکھی گئی۔ قوم یونس کی اجتماعی توبہ کی وجہ سے ان کے سروں پر منڈلانے والا عذاب ٹال دیا گیا۔ آخر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے مشرکوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم اللہ کی ذات میں شک کرتے ہو تو کرو میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد کرنا اپنے آپ پر لازم کر رکھا ہے۔
سورة یونس ایک نظر میں ایک بار پھر ہم مکی دور نزول قرآن میں آگئے ہیں۔ مکی دور کی ایک خاص فضا ہے۔ اس کی فضا اور اس کے اثرات اور اشارات بالکل جدا ہیں۔ سورة انفال ، سورة توبہ میں ہم مدنی دور کی فضاؤں میں گھومتے رہے۔ قرآن کریم کا مکی حصہ بھی قرآن کا ہی حصہ ہے اور وہ قرآن کے عمومی خواص میں پورے قرآن کے ساتھ شریک ہے۔ لیکن وہ مدنی قرآن اور تمام انسانی اقوال کے مقابلے میں ایک منفرد اسلوب رکھتا ہے۔ اس کی یہ انفرادیت مضمون اور ادا ہر اعتبار سے ہے البتہ مکی قرآن کی ایک خاص فضا ہے۔ ایک خاص ذوق اور انداز ہے۔ اور ایہ انداز مکی موضوعات کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔ اس سے قبل ہم نے سورة انعام اور سورة اعراف کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ دونوں سورتیں باہم ترتیب میں پیوست بھی تھیں اور مکی تھیں۔ اگرچہ ان کا زمانہ نزول قریب نہ تھا۔ ان کے مضامین اور حالات نزول مدنی تھے اور ان کا بھی ایک خاص مزاج اور اپنے اپنے موضوعات تھے۔ اب سورة یونس اور سورة ہود ترتیب مصحفی میں باہم پیوست مکی سورتیں ہمارے سامنے ہیں ان کا ترتیب نزولی بھی قریب ہے۔ دونوں میں بڑی حد تک ممالثلت پائی جاتی ہے۔ ان کے موضوعات بھی ایک جیسے ہیں اور ان میں اسلوب کلام بھی باہم مماثل اور ہم آہنگ ہے۔ سب سے پہلے اس میں یہ موضوع لیا گیا ہے کہ مشرکین مکہ کو حقیقت وحی کے بارے میں کیا کیا شبہات لاحق ہیں۔ الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ (١) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ مُبِينٌ (ا ل ر ، یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے۔ کیا لوگوں کے یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے خود انہی میں سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لئے ان کے رب کی موجودگی میں سچے قدم ہیں۔ منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے &&۔ ٢) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (١٥) قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ (١٦) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ (١٧) && جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ && اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو &&۔ اے نبی ، ان سے کہو && میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر تبدل کرلوں۔ میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے && اور کہو && اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزارچکا ہوں ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ یقینا مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے &&۔ وَمَا كَانَ هَذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَى مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (٣٧) أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٣٨) && اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی کے بغیر تصنیف کرلیا جائے بلکہ یہ تو جو کچھ آچکا تھا اس کی تصدیق اور کتاب کی تفصیل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اسے خود تصنیف کرلیا ہے ؟ کہو && اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سورت اس جیسی تصنیف کر لاؤ اس ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو ، مدد کے لئے بلا لو &&۔ اب ان کے مطالبہ معجزہ ماسوائے قرآن کا جواب دیا جاتا ہے پھر قرآن کریم کا یہ آغاز اس سورت کے اختتام سے بھی ہم آہنگ ہے ، اختتام یوں ہوا : ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ (١٠٢) ” یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو تم پر وحی کررہے ہیں ، ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسف کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کرکے سازش کی تھی “۔ چناچہ اس قصے کے آغاز اور انتہاء میں یہ ایک ناقابل جدائی ربط ہے ۔ ظاہر ہے کہ قصے کی تمہید اور اس پر آخری سبق اور تبصر کو ایک ساتھ ہی نازل ہونا چاہئے۔ رہی ساتویں آیت تو اگر اسے عبارت سے نکال دیا جائے تو عبارت درست ہی نہیں ہوتی ۔ لہذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اور یہ آیت اس میں نہ ہو اور مدنیہ میں اس کا اضافہ ہوا ہو۔ ذرا پوری عبارت پر غورفرمائیں : لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (٧)إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ (٨) ” حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں ۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ” یہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانکہ ہم پورا اج تھا ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اباجان بالکل بہک گئے ہیں “ ۔ اس پوری عبارت پر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آیات یکبار اتری ہیں اور سیاق کلام اسی طرح مربوط پڑھا جاسکتا ہے۔ پھر پوری سورت ایک ہی ٹکڑا ہے اور اس کا انداز بھی واضح طور ہر مکی ہے۔ موضوع اور مضمون کے اعتبار سے بھی انداز گفتگو کے اعتبار سے بھی اور اپنی فضا اور اثرات کے اعتبار سے بھی۔ بلکہ اس پوری سورت میں ان حالات کی ایک صاف صاف جھلک نظر آتی ہے۔ جن میں یہ سورت نازل ہوئی تھی ۔ تحریک اسلامی کے لئے یہ نہایت ہی مشکل دور تھا۔ اس دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم بہت ہی وحشت ، غربت اور تنہائی محسوس کرتے تھے۔ اہل قریش نے حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم سے بائیکاٹ بھی کر رکھا تھا اور عام الحزن کے بعد کے دور میں جماعت مسلمہ نہایت ہی دشوار وقت سے گزر رہی تھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان حالات میں حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم پر ایک شریف بھائی کا قصہ نازل فرمایا یعنی یوسف ابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) اجمعین کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھی ایسی ہی مشکلات سے دوچار ہوناپڑا اور ان کے خلاف بھی خود ان کے بھائیوں نے ایسی ہی سازشیں کیں ۔ ان کو کنویں میں ڈالا گیا ، اور جب کنویں کے خوف وہراس سے نجات ملی تو مال کی طرح انہیں فروخت کیا گیا اور انہوں نے غلامی کا دور دیکھا اور ہاتھوں ہاتھ بکے آپ والدین ، بھائیوں اور خاندان کی حمایت اور ہمدردی سے محروم رہے ۔ اس کے بعد آپ کے خلاف عزیز مصر کی بیوی اور مصری عورتوں کی سازشیں سامنے آئیں اور اس سے قبل انہوں نے آپ کو ورغلانے کی پوری پوری کوشش بھی کی ۔ پھر عزیز مصر کے گھر کی آرام دہ زندگی کے بعد آپ کو جیل کے شب وروز بھی دیکھنے پڑے۔ اس کے بعد آپ پر وہ عظیم آزمائش بھی آئی کہ آپ کو ہر قسم کا اقتدار عطا کردیا گیا۔ وہ لوگوں کے بارے میں فیصلے کرنے لگے اور پوری مملکت کا معاشی نظام آپ کے ہاتھ میں آگیا اور آپ خزانوں کے مالک اور اطراف کی اقوام کی راشن بندی کردی گئی اور آپ اختیارات کا سرچشمہ بن گئے۔ اب اس کے بعد وہ آزمائش کہ آپ کے سامنے وہ بھائی آتے ہیں جنہوں نے آپ کو اندھے کنویں میں پھینکا تھا۔ اور بظاہر وہی آپ کی ان تمام مشکلات کے ذمہ دار تھے۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان تمام مشکلات کو نہایت ہی صبر سے انگیز کیا۔ اور یوں پوری مشگلات کے درمیان وہ دعوت اسلامی کا کام مسلسل کرتے رہے ۔ اور ان مشکلات اور آزمائشوں سے گزرتے جاتے ہیں اور فتح پاتے ہیں اور پھر جب آپ کا خاندان آپ کے ساتھ اٹھتا ہے اور پھر وہ لمحہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خواب کی تعبیر واضح طور پر سامنے آتی ہے ۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے ہیں اور چاند وسورج ہیں اور انہیں سجدہ کر رہے ہیں ۔ یہ وقت حضرت یوسف کے لئے نہایت ہی مسرت کا وقت ہے۔ اور اس میں وہ اللہ کی طرف پوری طرح رخ کیے ہوئے ہیں اور وہ اس دنیاوی مرتبے اور مقام سے پوری طرح برتر اور بالا ہیں۔ اس مقام پر قرآن کریم نے واقعات کا نقشہ یوں کھنیچا ہے : (:12 ۔ 99 تا 101) ” پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے ، تو اس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے سب کہنے والوں سے ) کہا ، ” چلو اب شہر میں چلو ، اللہ نے چاہا تو امن وچین سے رہو گے “ ۔۔۔۔۔ (شہر میں داخل ہونے کے بعد ) اس نے اپنے والدین کو اٹھاکر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بےاختیار سجدے میں جھک گئے ، یوسف نے کہا ” اباجان یہ تعبیر ہے ، میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ میرے رب نے اسے حقیقت بنادیا ۔ اس کا احسان ہے کہ اسنے مجھے قیدخانے سے نکالا ، اور آپ لوگوں کو صحرا سے بلاکر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیرمحسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوی کرتا ہے ، بیشک وہ علیم و حکیم ہے ، اے میرے رب تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا ۔ زمین و آسمان کے بنانے والے ، تو ہی دنیا وآخرت میں میرا سرپرست ہے ، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کا رمجھے صالحین کے ساتھ ملا “۔ یہ تھی حضرت کی آخری دعا ۔ یہ دعا ان حالات میں وہ کرتے ہیں کہ وہ پوری طرح اقتدار پر فائز ہیں۔ عیش اور آرام کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں اور پورے خاندان میں اطمینان کی زندگی بسر کررہے ہیں دعاہ ہے کہ اللہ ان کو ایک مسلم کی طرح مارے اور مرنے کے بعد صالحین کی رفاقت دے۔ یہ ہے ان کی آخری آرزو ابتلاؤں اور مصیبتوں کے بعد ، طویل صبر اور مشقت جھیلنے کے بعد عظیم کامیابی کے حالات میں۔ جن حالات مین یہ قصہ وارد ہوا ہے اور اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حالات جس تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ، اور جس انداز سے پھر اس قصے کے واقعات پر تبصرے ہوئے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ مسلمانوں کی تسلی اور تشفی کے لئے نازل ہوا ہے ۔ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم اور جماعت مسلمہ اس وقت جن حالات سے گزر رہے تھے وہ ایسے ہی تھے کچھ لوگ ہجرت پر مجبور تھے ، کچھ پر مظالم ہورہے تھے ، ان کو تسلی اور اطمینان اس بات کا دیا جارہا ہے کہ جس طرح یوسف بےبس تھے ، ان کو اقتدار اعلیٰ ملا ، اسی طرح کے حالات تمہارے لئے بھی ہوسکتے ہیں۔ بلکہ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ تم لوگوں کو بھی مکہ سے نکل کر کسی دوسرے علاقے کی طرف منتقل ہوناہو گا ۔ اور پھر اس دوسرے مرکز سے تمہین عروج نصیب ہوگا ، اگرچہ بظاہر یہ خروج اور ہجرت حالات سے مجبور ہوکر عمل میں آئے گی ۔ بعینہ اسی طرح جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے والد کی سرپرستی سے نکالے گئے اور مختلف مشکلات سے دوچار ہوئے اور بعد میں ان کو اللہ کی تائید حاصل ہوئی اور ان کو زمین کے اندر اقتدار اعلیٰ مل گیا۔ (: ١٢۔ ٢١) ” اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے اس زمین میں قدم جماتے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے اک انتظام کیا ، اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں “۔ یہ عمل اس وقت شروع ہوگیا تھا جب انہوں نے مصر میں عزیز مصر کے گھر قدم رکھناشروع کردئیے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ ایک نوجوان تھے اور غلاموں کی طرح فروخت ہورہے تھے۔ اور جو چیز اس وقت میری سوچ پر حاوی ہے ، میں اسے محسوس کررہا ہوں لیکن بیان نہیں کرسکتا ، وہ مخصوص تبصرہ ہے جو اس کے بعد آیا ہے۔ (١٢۔ ١٠٩ تا ١١١) ” اے محمد ، تم پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں۔ ہھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کا نجام انہیں نظر آجاتا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ، یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے تقوی ٰ کی اختیار کی ۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے ۔۔۔ یہاں تک کہ جب پیغمبروں لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا ، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی ۔ جب ایسا موقعہ آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں ۔ بچالیتے ہیں اور مجرموں پر سے ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا۔۔۔۔ اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل وہوش رکھنے والوں کے لئے عبرت ہے ۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے ۔ یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے “۔ اس تبصرے میں اس سنت الٰہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب رسول مایوس ہوجاتے ہیں پھر سنت الٰہیہ اپنا کام کرتی ہے ، جس طرح حضرت یوسف اپنی طویل مشکلات میں مایوس ہوئے ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ مشکلات کے بعد آسانی آجاتی ہے اور انسان پھر اپنا مقصد پالیتا ہے ۔ یہ وہ اشارات ہیں جن تک صرف مومن دل کو رسائی حاصل ہوتی ہے ، جبکہ یہ مومن ایسے ہی مشکل حالات میں زندگی بسر کررہا ہوتا ہے ۔ ایسے حالات سے عملاً دو چار ہوکر نفس مومنہ قرآن کریم کا اصل ذائقہ چکھ سکتا ہے اور اس پر نہایت ہی باریک تلمیحات اور گہرے اشارات لقاء ہوتے ہیں۔ یہ سورت بعض منفرد خصوصیات کی حامل بھی ہے وہ یہ کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ بھی پور موجود ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم میں قصص کا اسلوب یہ ہے کہ موضوع سخن کے لحاظ سے کسی قصے کا جو حصہ موزوں اور مناسب ہوتا ہے ، صرف اس حصے کو لایا جاتا ہے لیکن قصہ یوسف کا معاملہ دیگر قصص کے برعکس ہے ۔ یہاں تک سورت ہود میں جو قصص پورے بھی آئے وہ بھی اجمالاً دیئے گئے ہیں لیکن قصہ یوسف مناسب حدتک طویل بھی ہے ، مکمل بھی اور ایک ہی سورت میں بھی ۔ اور یہ خصوصیت قرآن کے دوسرے قصص سے ممتاز ہے۔ اس قصے کی جو نوعیت تھی اس کے ساتھ مناسب یہی تھا کہ پورا قصہ ہی دے دیا جائے اور پوری طرح اس کی تمام کڑیاں یکجا کرکے لائی جائیں ۔ یوسف (علیہ السلام) کے خواب سے یہ قصہ شروع ہوتا ہے اور اس کی انتہا اس خواب کی تاویل پر ہوتی ہے ۔ کیونکہ قصے کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ ایک ہی جگہ ہونا چاہئے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کے کچھ حصے ایک جگہ ہوں اور کچھ دوسری جگہ دوسرے موضوع گفتگو کے ساتھ ہوں۔ اس مخصوص نوعیت کی وجہ سے اس پورے قصے کو ایک ہی جگہ لایا گیا۔ اور اس طرح وہ مقصد بھی پوری طرح بیان کردیا گیا ہے جس کے لئے یہ قصہ بیان ہوا اور اس سے جو نتائج اخذ کیے جانے تھے وہ بھی اخذ ہوئے ، اس بارے میں ہمیں عنقریب قدرے مفصل بات کرنی ہوگی جس سے معلوم ہوگا کہ قرآن مجید کا ایک منفرد طرز ادا ہے ۔ وباللہ التوفیق ! حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ جس طرح اسے قرآن کریم میں لایا گیا ہے وہ اسلام کے منہاج قصہ گوئی کی ایک خوبصورت مثال ہے ۔ اس قصے میں انسان کے نفسیاتی میلانات ، انسانی نظریات اور اسلام کے طرز تربیت اور اسلامی تحریک کے مقاصد کی وضاحت کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں قصص لانے کا انداز عموماً ایک ہی ہے ، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصے کا ایک مخصوص انداز ہے اپنے طرز ادا کے اعتبار سے بھی اور فنی خوبیوں کے اعتبار سے بھی۔ یہ قصہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار کے ہر پہلو کو سامنے لاتا ہے ، ان کی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کرتا ہے کیونکہ آپ ہی اس قصے کے ہیرو اور اصل کردار ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر ان کا رد عمل پیش کیا جاتا ہے اور پھر ان پر جو ابتلاء آئے ہیں وہ پوری طرح دکھائے جاتے ہیں ۔ ان پر جو ابتلاء آئے ، اپنی نوعیت اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے مختلف تھے۔ مشکلات کا بتلاء بھی اور خوشحالی کا ابتلاء بھی ہے ۔ شہوت کے فتنے کا بھی اور حکومت کے اقتدار کا بھی ابتلاء ہے۔ غرض مختلف مواقف اور مختلف شخصیات کے مقابلے مین ان کی سوچ اور ان کے مأثرات اس قصے میں موجود ہیں۔ یہ ہیرو فی الحقیقت ان تمام ابتلاؤں میں ایک خالص مومن کی طرح سرخرو ہوکر نکلتا ہے اور اللہ کے سامنے دست بدعا ہو کر کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے اس سے قبل کہہ دیا۔ اس قصے مرکزی کردار کے علاوہ دوسرے کرداروں کی تفصیلات بھی اس میں دی گئی ہیں۔ ہر کردار کیے خدوخال ، اس کی اہمیت کے مطابق دیئے گئے ہیں ، دیکھنے والے کے مقام سے کسی کو دور رکھا گیا ہے ، اور کسی پر زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے ۔ یہ قصہ انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو مختلف کرداروں کی صورت میں نہایت ہی حقیقت نگاری کی شکل میں پیش کرتا ہے ۔ اس میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) بطور ایک صابر مطمئن نبی اور ٹوٹ کر اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے والے انسان کی صورت میں نظر آتے ہیں جن کا عالم بالا کے ساتھ ہر وقت رابطہ قائم ہے ۔ دوسرا نمونہ اور کردار حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا ہے جن کے دلوں میں غیرت ، حسد اور کینہ پروری کے جذبات موجزن ہیں ۔ وہ سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور آثار جرم کا سامنا کرتے ہیں اور اس میں وہ کبھی سخت تعجب اور حیرانی میں مبتلا ہوتے ہیں اور کبھی شرمندہ ہوکر ناکام ہوتے ہیں۔ ان میں سے بھی ایک شخص جو ممتاز کردار رکھتا ہے اس کی شخصیت اور امتیازی خصوصیات کو بھی قلم بند کردیا جاتا ہے اور قصے کے مختلف مراحل میں اس کا کردار امتیازی نظر آتا ہے ۔ پھر اس میں عزیز مصر کی بیوی کا بھی ایک کردار سامنے آتا ہے ، یہ اپنی نسوانی خواہشات میں اندھی نظر آتی ہے ۔ مصر معاشرے کے بادشاہوں کے حرم کا یہ ایک اعلیٰ نمونہ ہے اور اس کے ذاتی خدوخال بھی اس کے کردار سے اچھی طرح واضح ہیں۔ یہ مصر کے اعلیٰ طبقے کی خواتین کا نمونہ ہے ۔ اس قصے میں اس وقت کے معاشرے اور اس میں عورتوں کی سرگرمیوں اور سوچ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ورغلانے کی تد ابیر کرتی ہیں اور عزیز مصر کی بیوی سب عورتوں کی موجودگی میں کس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کو برملا دھمکی دیتی ہے اور پھر کس طرح وہ سازشیں کر کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل تک پہنچا دیتی ہے ۔ اس میں ایک کردار بادشاہ کا بھی ہے جو پس پردہ ہے جو عزیز مصر کی طرح اسٹیج سے دور رہی رہتا ہے ۔ غرض اس قصے میں جو کردار بھی سامنے آتے ہیں وہ اپنی سچی اور واقعی تصویر پیش کرتے ہیں ، جو لوگ بھی مختلف مواقف ، مختلف حالات میں اسٹیج پر آتے ہیں وہ اپنے حقیقی اور قدرتی خدوخال کے ساتھ آتے ہیں۔ غرض مختلف حالات ، اور مختلف مناظر میں یہ قصہ اپنے اندر ایک حقیقی واقفیت رکھتا ہے اور یہ اسلام کی فنی طرز ادا کی ایک معیاری اور ممتاز مثال ہے ۔ یعنی کسی واقعہ کے محض حقیقی واقعات پر اکتفاء کرنا ، گہری سچائی کو پیش کرنا اور اس کے ساتھ قصے کو مزین کرنا اور ہر مرحلے میں حقیقی اور واقفیت پسندی سے کام لینا ۔ تمام تاثرات کو ظاہر کرنا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس گندگی سے بچنا جو واقفیت اور حقیقت پسندی کے نام سے آج کل ہمارے لٹریچر میں عام ہے۔ اس قصے میں انسان کی کمزوری کے مراحل بھی آتے ہیں ، مثلاً جنسی کمزوری لیکن ایسے مواقع کو بھی اس قصے میں بغیر لگی لپٹی رکھے بغیر نہایت ہی حقیقت پسندی کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے ، ایسے مواقع پر نفس انسانی کی جو کیفیات ہوتی ہیں ، ان کو نظر انداز نہیں کیا گیا لیکن بیسویں صدی کی جاہلیت جس طرح سفلی جذبات کو ان کیفیات کے ذریعے ابھارتی ہے اور اس کو حقیقت پسندی کا نام دیا جاتا ہے اس سے پوری طرح اجتناب کیا جاتا ہے۔ غرض یہ قصہ طرز ادا کی واقفیت پسندی کے ساتھ ساتھ اور مختلف کرداروں کی موجودگی کے باوجود اپنے ماحول کو مکمل طور پر پاک وصاف رکھتا ہے۔ اس قصے میں جو کردار آتے ہیں مناسب ہے کہ ان پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ۔۔۔ ان کے دلوں میں حسد اور کینے کی آگ آہستہ آہستہ سلگ رہی ہے ۔ یہاں تک کہ ان کے دلوں میں اس ہولناک جرم کے ارتکاب کا کوئی خوف نہیں رہتا۔ یہ جرم ان کے نزدیک اب گھناؤنا ، عظیم اور مکروہ نہیں رہتا ۔ اس کے بعد وہ اس جرم کے ارتکاب کے لئے ایک شرعی جواز بھی ڈھونڈلیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ ایک دینی گھرانے کے فرزند تھے۔ حضرت یعقوت (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے پوتے ، چناچہ یہاں ان کی حقیقی ذہنیت کو قلم بند کیا گیا ہے ۔ ان کا دینی رنگ ، ان کی فکر ، ان کا شعور اور ان کا رسم و رواج ایک ہی فقرے میں قلم بند کردئیے جاتے ہیں۔ وہ جرم کرنا بھی چاہتے ہیں اور نیک رہنا اور اچھا انجام بھی چاہتے ہیں ، ذرا ملاحظہ فرمائیں : لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (٧)إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ (٨) اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ (٩) قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (١٠) قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لا تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ (١١) أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (١٢) قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ (١٣) قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ (١٤) فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لا يَشْعُرُونَ (١٥) وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ (١٦) قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ (١٧) وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ (١٨) ” حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں پوچھنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ” یہ یوسف اور اس کا بھائی ، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانکہ ہم ایک پورا اج تھا ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ابا جان ، بالکل ہی بہک گئے ہیں۔ چلو یوسف (علیہ السلام) کو قتل کردو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہارے ہی طرف ہوجائے ۔ یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن کر رہنا “ اس پر ان میں سے ایک بولا ” یوسف کو قتل نہ کرو ، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو ۔ کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا “۔ اس قرار داد پر انہوں نے اپنے باپ سے کہا ” ابّا جان کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیرخواہ ہیں۔ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ، کچھ چرچگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا ۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں ۔ باپ نے کہا ” تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو “۔ انہوں نے جواب دیا ” اگر ہمارے ہوتے اسے بھیریئے نے کھالیا جبکہ ہم ایک جتھا ہیں تو ہم بڑے نکمے ہوں گے “ اس اصرار کے ساتھ جب وہ اسے لے گئے ، انہوں نے طے کرلیا کہ اسے ایک اندے کنویں میں چھوڑ دیں تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ ” ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا ۔ یہ اپنے فعل کے نتائج سے بیخبر ہیں “۔ شام کو دہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے اور کہا ” اباجان ، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑ یا آکر اسے کھا گیا ۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے اگرچہ ہم سچے ہی ہوں “ ۔ اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کرلے آئے تھے۔ یہ سن کر ان کے باپ نے کہا ” بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لئے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا جو بات تم بتا رہے ہو ، اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے “ اس پورے قصے میں ان کا فردار ایک ہی جیسا ہے ، ان بھائیوں میں سے ایک کا موقف قدرے مختلف ہے اور وہ آغاز قصہ سے آخر تک دوسروں سے مختلف ہے ۔ اب یہ کنعان سے مصر جاتے ہیں اور یوسف کے مطالبے ہر اس کے بھائی کو دوبارہ مصر لے کر جاتے ہیں تاکہ یہ سالہ خشک سالی میں مصر سے گندم خرید کر لائیں ۔ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف کو یہ تدبیر سمجھاتا ہے کہ وہ ان کے سامان میں پیمانہ رکھ کر اپنے بھائی کو روک لیں ۔ اس بہانے سے کہ اس کے سامان سے پیمابہ برآمد ہوا۔ یہ لوگ تو حقیقت سے بیخبر ہیں لیکن اس موقعے پر ان کا پرانا کینہ جاگ اٹھتا ہے ۔ کہتے ہیں : قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَكَانًا وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ (٧٧) ” بھائیوں نے کہا ” یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی ہے ، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسف ) بھی چوری کرچکا ہے “۔ یوسف ان کی یہ بات سن کر پی گیا ، حقیقت ان پر نہ کھولی ، بس اتنا کہہ کر رہ گیا ” بڑے ہی برے ہو تم لوگ جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے “۔ اور جب یہ لوگ اپنے بوڑھے باپ کو ایک دوسرے صدمے سے دوچار کرتے ہیں تو ان لوگوں کا کردار وہی ہے ۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ اس بوڑھے کے دل کے اندر یوسف کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے تو ان کا پرانا کینہ پھٹ پڑتا ہے ، اور وہ اپنے بوڑھے باپ کا لحاظ کیے بغیر یہ ریمارکس پاس کرتے ہیں۔ قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ (٨٥) ” پھر وہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ” ہائے یوسف “۔ وہ دل ہی دل میں غم سے گھٹا جارہا تھا اور اس کی آنکھیں سفید پڑگئی تھیں۔ بیٹوں نے کہا ” خدارا ! آپ تو ابھی یوسف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں ۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھلادیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے “۔ اور جب آخری منظر سامنے آتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی قمیص اپنے باپ کی طرف ارسال کرتے ہیں جب وہ اپنا اور تعارف کرچکتے ہیں تو انہوں نے جب دیکھا کہ ان کے باپ حضرت یوسف کی خوشبو سونگھ رہے ہیں تو انہیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت یوسف کے درمیان پائے جانے والا یہ باطنی تعلق بھی ناگوار گزرتا ہے ۔ اس وقت بھی یہ لوگ اپنے کینہ پر قابو نہیں پاتے اور حضرت یعقوب کو ملامت کرتے ہیں۔ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لأجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلا أَنْ تُفَنِّدُونِ (٩٤) قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ (٩٥) ” جب یہ قافلہ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے کہا ، ” میں یوسف کی خوشبو محسوس کررہا ہوں ، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا۔ گھر کے لوگ بولے ، ” خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اس پرانے خبط پڑے ہوئے ہیں “۔ عزیزمصر کی بیوی : اس کا کاسہ جسم شہوت سے لبریز ہے اور قریب ہے کہ جھلک جائے ، یہ اندھی شہوت ہے ، عورتوں کی قدرتی شرم وحیا کا پردہ اس نے چاک کرلیا ہے۔ ذاتی عزت اور مقام ومرتبے کا خیال بھی اس نے پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اسے نہ اپنے معاشرتی مقام ومرتبے کا خیال ہے اور نہ خاندانی شرمندگی کی کوئی پروا ہے بلکہ اپنے اس ذلیل مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام نسوانی سازشیں بروئے کار لاتی ہے جو عموماًعورتوں کا وطیرہ ہوتی ہیں۔ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے میں مکاری ، اس پر الزام کے لگنے کی وجہ سے خاندان پر جو بدنامی آنی ہے اس سے بچنے کے لئے سازش کرتی ہے اور پھر اپنے آپ کو سزا سے بچا کر ایک بےگناہ شخص کے لئے سزا بھی جلدی سے تجویز کردیتی ہے ۔ یہ دوسری عورتوں کی کمزوریاں سے بی خوب واقف ہے ۔ جس طرح وہ اپنی کمزوریوں سے واقف ہے اس لئے یہ ایک گہری سازش کے ذریعے اپنی ہم محفل عورتون کو بھی ننگا کردیتی ہے ۔ اور جب وہ سب ننگی ہوجاتی ہیں تو یہ برملا اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ اس شخص کو میری خواہش پوری کرنا ہوگی ۔ اب یہ عورت جامہ حیا چاک کردیتی ہے اور اب اس کے لئے نہ شرم وحیا مانع ہے نہ اس کا مقام و مرتبہ کسی چیز سے مانع ہے جبکہ یہ اب محض ایک عورت ہی ہے ۔ باوجود اس کے کہ قرآن مجید اس عور کی واقعی تصویر کھنیچتا ہے ، خصوصاً ایک مخصوص شہوانی حالت میں جس میں ذرا اسی بےاحتیاطی بھی کلام کے معیار کو گرا سکتی ہے۔ لیکن قرآن کا یہ طرز ادا نہایت ہی معیاری اور اسلامی فن وادب کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے ۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ نازک ترین مراحل میں بھی اسلام یہ چاہتا ہے کہ طرز ادا پاک وصاف ہو اور اس میں کوئی فحاشی نہ ہو۔ اگرچہ ایسا مفہوم اور مقام زیر بحث ہو جس میں انسان نفسیاتی اور جسمانی لحاظ سے ننگا ہو اور جسمانی وشہوانی حالت اپنے اعلیٰ درجے میں ہو۔ ایسے مقامات اور حالات کو آج کل جدید اہل فن عریانی اور فحاشی اور گندے انداز میں قلم بند کرتے ہیں اور پھر انہیں واقفیت اور فطرت کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ بہر حال جاہلیت جدیدہ کی یہ گندگی ہے اور اسلام واقفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی پاکیزہ فن پیش کرتا ہے ۔ ذراملاحظہ قرآنی فن۔ وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الأرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الأحَادِيثِ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ (٢١) وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (٢٢) وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (٢٣) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ (٢٤) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلا أَنْ يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (٢٥) قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (٢٦) وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ (٢٧) فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ (٢٨) يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ (٢٩) وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلالٍ مُبِينٍ (٣٠) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلا مَلَكٌ كَرِيمٌ (٣١) قَالَتْ فَذَلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ (٣٢) قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجَاهِلِينَ (٣٣) فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (٣٤) ” مصر کے جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا ” اس کو اچھی طرح رکھنا ، بعید نہیں ہے کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں گے “۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لئے اس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنے کام کرکے رہتا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ، اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا۔ اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔۔۔۔۔ جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی ” آجا “۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ” خدا کی پناہ میرے رب نے مجھے اچھی منزلت بخشی ہے ، ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے “۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طربڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا ۔ ایسا ہوا ، تاکہ ہم اس سے بدی اور بےحیائی کو دور کردیں۔ درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے نبدوں میں سے تھا۔ آخر کار یوسف (علیہ السلام) اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اسنے پیچھے سے یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کے کر پھاڑ دی ۔ دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی ، ” کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیرے گھر والی پر نیت خراب کرے ؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے “۔ یوسف نے کہا ، ” یہی مجھے پھانسی کی کوشش کررہی تھی “۔ اس عورت کے اپنے کنبے والوں میں سے ایک شخص نے شہادت پیش کی کہ ” اگر یوسف (علیہ السلام) کی قمیص اگے سے پھٹی ہو تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ، اگر اس کی قیمص پیچھے سے پھٹی ہو تو عورت جھوٹی اور یہ سچا ا “۔ جب شوہر نے دیکھا کہ یوسف کی قیمص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو اس نے کہا ” یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں۔ واقعی بڑی غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ یوسف اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ تو ہی اصل میں خطار کار ہے “۔۔۔ شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ” عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، محبت نے اسے بو قابو کررکھا ہے ، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کررہی ہے “۔ اس نے جو ان کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو ان بلاوا بھیج دیا اور ان کے لئے تکیہ وار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ایک کے آگے چھری رکھ دی (پھر عین اس وقت جب پھل کاٹ کر کھارہی تھیں) اس نے یوسف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پری تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بےساختہ پکار اٹھیں ، “ ماشاء اللہ یہ شخص انسان نہیں ہے ، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے “۔ عزیز کی بیوی نے کہا ” دیکھ لیا ، یہ ہے شخص جس کے معاملے میں تم مجھ پر باتیں بناتی ہو ، بیشک میں نے اسے رجھانے کی کوشش کی تھی ، مگر یہ بچ نکلا ۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت سے چاہتی ہیں ۔ اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے رفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شمار ہوں گا۔۔۔ اس کے رب نے اس کی دعاقبول کی اور ان عورتوں کی چالیں اس سے رفع کردیں ۔ بیشک وہی ہے جو سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے “۔ اب حضرت یوسف ان عورتوں کی مکاریوں اور عزیز مصر کی بیوی کی وجہ سے جیل میں چلے جاتے ہیں ، ایک بار پھر اس عورت کا کردار سامنے آتا ہے ، بادشاہ ایک خواب دیکھتا ہے ، اس موقع پر وہ شخص جو جیل میں تھا اور رہا ہوگیا تھا ، اسے یاد آجاتا ہے کہ جیل میں خوابوں کی تعبیربتانے والا شخص موجود ہے۔ اس شخص نے بادشاہ کو تفصیلات بتائیں ، بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) کو طلب فرمایا۔ تو انہوں نے رہا ہونے سے اس وقت تک انکار کردیا جب تک اس الزام کی تحقیقات نہیں ہوجاتی جس کی وجہ سے وہ جیل گئے ۔ بادشاہ نے ان عورتوں کو بلایا ۔ ان میں زلیخا بھی موجود ہے ۔ اب عورتیں عمر رسیدہ ہیں اور حوادث زمانہ نے ان کو بالغ نظر اور سنجیدہ کردیا ہے ۔ اور اس عرصے میں یہ عورتیں ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کی ایمانی قوت سے بھی متاثر ہوگئی تھیں۔ وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ (٥٠) قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَالَتِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ الآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (٥١) ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ (٥٢) وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (٥٣) ” اور بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس لاؤ ، مگر جب شاہی فرستادہ یوسف کے پاس پہنچا تو اس نے کہا ” اپنے رب (آقا) کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے کاٹ لیے تھے ؟ میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے “۔ اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا ” تمہارا کیا تجربہ ہے اس وقت کا جب تم نے یوسف کو رجہانے کی کوشش کی تھی “ سب نے یک زبان ہوکر کہا ” حاشا اللہ ہم نے تو اس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا۔ عزیز کی بیوی بول اٹھی ، ” اب حق کھل چکا ہے ، وہ میں ہی تھی جس نے اسے پھسلانے کی کوشش کی تھی ، بیشک وہ بالکل سچا ہے “۔ (یوسف (علیہ السلام) نے کہا) اس سے میری غرض صرف یہ تھی کہ یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی ، اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالون کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں ڈالتا ۔ میں کچھ اپنے نفس کی برأت نہیں کررہا ہوں ، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو ، بیشک میرا رب بڑا غفورورحیم ہے “۔ ” حضرت یوسف (علیہ السلام) :۔ اس قصے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بھی ایک کردار دیا گیا ہے ، یہ ایک انسان ہیں لیکن بندہ صالح ہیں۔ قرآن کریم نے حضرت یوسف کی انسانیت پر ایک لمحے کے لئے بھی کوئی طمع کاری نہیں کی ۔ وہ انسان ہیں مگر ایک نبوت کے گھرانے کے پروردہ ہیں ۔ دینی ماحول کے تربیت یافتہ ، ان سب باتوں کے باوجود ان کی انسانیت کے بیان میں مکمل واقفیت سے کام لیا گیا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ان کی انسانیت معصومیت الٰہیہ کے دھاگے سے بندھی ہوئی تھی ورنہ غلطی کا امکان تھا۔ وہ عورتوں کی مکاریوں کے مقابلے میں اپنی کمزوری کا احساس رکھتے ہیں ، کہ ایک اونچا معاشرہ ہے ، باغ درباغ اور محلات ہیں ، شاہی بیگمات میں گھرے ہوئے ہیں ۔ اس لئے وہ یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں اگرچہ جیل ہو۔ غرض بحیثیت انسان حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قرآن مجید حقیقی تصویر کھینچتا ہے ۔ لیکن اس واقفیت میں مغربی تہذیب کی قصہ گوئی کی گندگی نہیں ہے جسے وہ واقفیت کا نام دیتے ہیں ، بلکہ یہ فطرت سلیمہ کی حقیقت پسندی ہے ؟ عزی