Surat Younus
Surah: 10
Verse: 1
سورة يونس
الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾
Alif, Lam, Ra. These are the verses of the wise Book
الر یہ پرحکمت کتاب کی آیتیں ہیں ۔
الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾
Alif, Lam, Ra. These are the verses of the wise Book
الر یہ پرحکمت کتاب کی آیتیں ہیں ۔
Allah says; الر ... Alif-Lam-Ra. The isolated letters in the beginning of this Surah, as well as in others, have been previously discussed at the beginning of Surah Al-Baqarah. Allah said: ... تِلْكَ ايَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ These are the verses of the Book (the Qur'an) Al-Hakim. This indicates that these are verses of the Qur'an, in which the wisdom of judgment is clear. The Messenger cannot be but a Human Being Allah rebukes the attitude of the disbelievers with the words;
عقل زدہ کافر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کو اس پر بڑا تعجب ہوتا تھا کہ ایک انسان اللہ کا رسول بن جائے ۔ کہتے تھے کہ کیا بشر ہمارا ہادی ہوگا ؟ حضرت ہود اور حضرت صالح نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ کیا تمہیں یہ کوئی انوکھی بات لگتی ہے کہ تم میں سے ہی ایک شخص پر تمہارے رب کی وحی نازل ہوئی ۔ کفار قریش نے بھی کہا تھا کہ کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بجائے ایک ہی اللہ مقرر کر دیا ؟ یہ تو بڑے ہی تعجب کی بات ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے بھی انہوں نے صاف انکار کر دیا اور انکار کی وجہ یہی پیش کی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جیسے ایک انسان پر اللہ کی وحی کا آنا ہی نہیں مان سکتے ۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ سچے پائے سے مراد سعادت اور نیکی کا ذکر ہے ۔ بھلائیوں کا اجر ہے ۔ ان کے نیک کام ہیں ۔ مثلاً نماز روزہ صدقہ تسبیح ۔ اور ان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت الغرض ان کی سچائی کا ثبوت اللہ کو پہنچ چکا ہے ۔ ان کے نیک اعمال وہاں جمع ہیں ۔ یہ سابق لوگ ہیں ۔ عرب کے شعروں میں بھی قدیم کا لفظ ان معنوں میں بولا گیا ہے ۔ جو رسول ان میں ہے وہ بشیر بھی ہے ، نذیر بھی ہے ، لیکن کافروں نے اسے جادوگر کہہ کر اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی ۔
1۔ 1 اَلْحَکِیْمِ ، کتاب یعنی قرآن مجید کی صفت ہے۔ اس کے ایک تو وہی معنی ہیں جو ترجمے میں اختیار کئے گئے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی معنی کئے گئے ہیں مثلاً اَلْمُحْکَمْ ، یعنی حلال و حرام اور حدود و احکام میں محکم (مضبوط) ہے۔ حکیم بمعنی حاکم۔ یعنی اختلافات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے ہیں۔
[١] یہ سورة مکی ہے اور اس کے مخاطب وہ قریش مکہ ہیں جو اللہ کے متعلق بھی غلط قسم کا تصور رکھتے تھے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیم اور قرآنی آیات پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کر رہے تھے اور عملاً مسلمانوں پر اتنی سختیاں اور مظالم ڈھا رہے تھے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔
الۗرٰ : یہ حروف مقطعات ہیں، تشریح کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ : ” تِلْكَ “ اسم اشارہ ہے، مشار الیہ ” اَلْآیَاتُ “ مقدر ہے۔ مراد قرآن مجید کی تمام آیات ہیں جن میں ہماری یہ سورت بھی شامل ہے، یعنی یہ عظیم الشان آیات کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ ” الْحَكِيْمِ “ (کمال حکمت والی) کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ دانائی اور حکمت سے بھری ہوئی ہے، اس کی کوئی بات نہ خطا ہے، نہ عقل کے خلاف اور نہ کمتر درجہ کی، بلکہ ہر بات ہی کمال عقل و دانش پر مبنی ہے اور ایک معنی یہ ہے کہ یہ کتاب انتہائی محکم اور مضبوط ہے، اس کی آیات میں کوئی باہمی اختلاف نہیں، نہ ہی اس کے حلال و حرام اور حدود و احکام کبھی منسوخ ہوں گے، یعنی حکیم بمعنی محکم ہے۔
Commentary Surah Yunus is among the Makki Surahs. Three of its verses re¬vealed after the Hijrah to Madinah have been called Madani. In this Surah too, the proof of the basic objectives of Qur&an, and Islam, such as the Oneness of Allah, the mission of His Messenger and the inevitability of the Hereafter, has been provided. Since it has been presented in the background of the universe of our experience and observation, it becomes easy to comprehend. Along with it, some lesson-oriented historical accounts and stories have been introduced to warn people who do not pay heed to the open signs of Allah Ta` ala. As a cor¬ollary, the text refutes shirk whereby heedless people start ascribing partners to the pristine divinity of Allah - and also answers some re¬lated doubts. This is a gist of the subjects taken up in the Surah. A careful look at these will help us understand the interconnection be¬tween the previous Surah, At-Taubah, and the present one. Surah At-Taubah was making a strong statement when it opted for breaking through the powerful cordon of kufr and shirk to achieve the same ob¬jectives through material means by waging Jihad against deniers and disbelievers. And since the present Surah was revealed in Makkah before the injunctions of Jihad came, these objectives have been ex¬plained and proved only by arguments and evidences very much in ac¬cordance with the law of the Makkan period. The Surah opens with the letters: Alif, Lam, Ra الر). Known as ` isolated letters.& Many Surahs of the Qur&an begin with these. Debates on investigations made into the meaning of letter combinations like الم (Alif, Lam, Mim), حٰمٓ(Ha, Mim) and عٓسٓقٓ(Ain, Sin, Qaf) by commentators are lengthy. But, we also have the authentic verdict of the Sahabah, the Tabi&in and the righteous elders of the community (salaf سَلَف) about these ` isolated letters.& According to them, these are secret symbols or signs. In all likelihood, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was confided with their meaning but he elected to disclose to his community only those areas of knowledge and insight which their minds could bear by and which, if remained unknown, would impede the normal living of his people. Nothing that Muslims must do is dependent upon knowing the secrets of such &isolated letters,& nor do they have to miss anything by not knowing them. Therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) too did not tell his com¬munity about their meaning as being unnecessary for them. Therefore, we too should not go about digging into it - because, it is certain that had the knowing of their meaning been expedient for us, our master, who was mercy personified for the whole world, would have never hesitated in telling us about it. In the first verse: تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ (These are verses of the Wise Book), the word: تِلکَ (tilka: these) points out to the &ay at of this Surah which follow. &The Book& refers to the Qur&an. To describe its attribute, the Qur&an has used the word: حَکِیم (hakim) at this place. It means the Book of Wisdom.
خلاصہ تفسیر ( الر کا مطلب تو اللہ کو معلوم ہے) یہ ( جو آگے آتی ہیں) پر حکمت کتاب ( یعنی قرآن) کی آیتیں ہیں ( جو بوجہ حق ہونے کے قابل جاننے کے اور ماننے کے ہیں اور چونکہ جن پر اس کا نزول ہوا ہے ان کی نبوت کا کفار انکار کرتے تھے اس لئے جواب فرماتے ہیں کہ (کیا ان مکہ کے) لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس ( جو کہ مثل ان کے بشر ہے) وحی بھیج دی ( جس کا خلاصہ یہ ہے) کہ ( عام طور پر) سب آدمیوں کو ( احکام خداوندی کے خلاف کرنے پر) ڈرایئے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنایئے کہ ان کے رب کے پاس ( پہنچ کر) ان کو پورا مرتبہ ملے گا ( یعنی اگر ایسا مضمون کسی بشر پر وحی کے ذریعہ سے نازل ہوجاوے تو کوئی تعجب کی وجہ نہیں مگر) کافر ( اس قدر متعجب ہوئے کہ آپ کی نسبت کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے (نبی نہیں ہے کیونکہ نبوت بشر کے لئے نہیں ہوسکتی) بلاشبہ تمہارا رب ( حقیقی) اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ روز ( کی مقدار) میں پیدا کردیا ( پس اعلی درجہ کا قادر ہے) پھر عرش پر ( جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم ( اور جلوہ فرما) ہوا ( کہ جو اس کی شان کے لائق ہے تاکہ عرش سے زمین و آسمان میں احکام جاری فرمائے، جیسا آگے ارشاد ہے کہ) وہ ہر کام کی ( مناسب) تدبیر کرتا ہے، ( پس حکیم بھی ہے، اس کے سامنے) کوئی سفارش کرنے والا ( سفارش) نہیں ( کرسکتا ہے) بدون اس کی اجازت کے ( پس عظیم بھی ہوا، پس) ایسا اللہ تمہارا رب ( حقیقی) ہے سو تم اس کی عبادت کرو ( اور شرک مت کرو) کیا تم ( ان دلائل کے سننے کے بعد) پھر بھی نہیں سمجھتے، تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے اللہ نے ( اس کا) سچا وعدہ کر رکھا ہے، بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی (قیامت کو) پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے انصاف کے ساتھ ( پوری پوری) جزا دے ( اور اس میں ذرا کمی نہ کرے بلکہ بہت کچھ زیادہ دے دے) اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے ( آخرت میں) کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا، اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے۔ معارف و مسائل سورة یونس مکی سورتوں میں سے ہے، بعض حضرات نے اس کی صرف تین آیتوں کو مدنی کہا ہے جو ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ اس سورت میں بھی قرآن اور اسلام کے بنیادی مقاصد توحید، رسالت، آخرت وغیرہ کو کائنات عالم اور اس میں ہونے والے تغیرات و مشاہدات سے استدلال کرکے ذہن نشین کیا گیا ہے، اس کے ساتھ کچھ عبرت خیز تاریخی واقعات و قصص کے ذریعہ ان لوگوں کو ڈرایا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان کھلی نشانیوں پر نظر نہیں کرتے اور اس کے ضمن میں شرک کا ابطال اور اس سے متعلق بعض شبہات کا جواب ارشاد ہوا ہے، یہ خلاصہ ہے مضامین سورت کا، یعنی توبہ اور اس سورت میں باہمی کیا ربط ہے، سورة توبہ میں انہی مقاصد کے لئے منکرین و کفار کے ساتھ جہاد اور کفر و شرک کی طاقت کو مادی اسباب کے ذریعہ توڑنے کا بیان تھا، اور یہ سورت چونکہ احکام جہاد کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی اس میں مذکورہ مقاصد کو مکی دور کے قانون کے مطابق صرف دلائل و براھین کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہے۔ الر، یہ حروف مقطعہ کہلاتے ہیں جو قرآن مجید کی بہت سی سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، الم، حم، عسق، وغیرہ ان کے معانی کی تحیقق میں مفسرین کی بحثیں طویل ہیں، صحابہ وتابعین اور جمہور سلف کی تحقیق اس قسم کے تمام حروف مقطعہ کے متعلق یہ ہے کہ یہ خاص رموز ہیں ان کے معنی غالباً رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلائے گئے ہیں مگر آپ نے عام امت کو صرف ان علوم و معارف سے آگاہ فرمایا جن کو ان کے ذہن برداشت کرسکیں اور جن کے معلوم نہ ہونے سے امت کے کاموں میں کوئی حرج واقع ہوتا ہے، حروف مقطعہ کے رموز ایسے نہیں جن پر امت کا کوئی کام موقوف ہو یا ان کے نہ جاننے سے ان کا کوئی حرج ہو، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کے معانی کو امت کے لئے غیر ضروری سمجھ کر بیان نہیں فرمایا اس لئے ہمیں بھی اس کی تفتیش میں نہ پڑنا چاہئے، کیونکہ یہ امر یقینی ہے کہ اگر ان کے معانی جاننے میں ہماری مصلحت ہوتی تو رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بیان کرنے میں کوتاہی نہ فرماتے۔ (آیت) تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ، میں لفظ تلک سے اشارہ اس سورت کی آیات کی طرف ہے جن کا ذکر آگے آتا ہے اور کتاب سے مراد قرآن ہے اس کی صفت اس جگہ حکیم کے لفظ سے بیان فرمائی ہے جس کے معنی اس جگہ حکمت والی کتاب کے ہیں۔
الۗرٰ ٠ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ١ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
(١) یعنی میں اللہ تعالیٰ ہوں سب کو دیکھ رہا ہوں یا یہ کہ یہ قسم ہے یہ سورت قرآن کریم کی محکم آیات ہیں جو حلال و حرام کو بیان کررہی ہیں۔
یہ حروف مقطعات ہیں۔ یہاں پر ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے سورة البقرۃ ‘ سورة آل عمران اور سورة الاعراف تین سورتوں کا آغاز حروف مقطعات (اآآّ ‘ ا آمآآ) سے ہوتا ہے اور ان تینوں مقامات پر حروف مقطعات پر آیت مکمل ہوجاتی ہے ‘ مگر یہاں ان حروف پر آیت مکمل نہیں ہورہی ہے ‘ بلکہ یہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ بہر حال یہ توقیفی امور (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے پر موقوف) ہیں۔ گرائمر ‘ منطق ‘ نحو ‘ بیان وغیرہ کے کسی اصول یا قاعدے کو یہاں دخل نہیں ہے۔ (تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ) ” یہ بڑی حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔ “
1. This introductory statement carries a subtle note of warning. For the unbelievers, out of their sheer stupidity looked upon the Qur'an which was presented to them by the Prophet (peace be on him) as merely a literary masterpiece, an embodiment of spellbinding poetic imagination, a fascinating discourse on a very sublime, illusive plane in the manner of soothsayers. The unbelievers are told that such notions are pure misconceptions. On the contrary, the Qur'anic verses are part of a Book which abounds in wisdom. Hence, if they disregard the Qur'an, they are merely depriving themselves of a treasure-house of wisdom.
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :1 اس تمہیدی فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مضمر ہے ، نادان لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیغمبر قرآن کے نام سے جو کلام ان کو سنا رہا ہے وہ محض زبان کی جادوگری ہے ، شاعرانہ پرواز تخیل ہے اور کچھ کاہنوں کی طرح عالم بالا کی گفتگو ہے ۔ اس پر انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جو کچھ تم گمان کر رہے ہو یہ وہ چیز نہیں ہے ۔ یہ تو کتاب حکیم کی آیات ہیں ۔ ان کی طرف توجہ نہ کرو گے تو حکمت سے محروم ہو جاؤ گے ۔
1: جیسا کے سورۂ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا، یہ الگ الگ حروف جو سورتوں کے شروع میں آئے ہیں‘‘ حروف مقطعات ’’ کہلاتے ہیں، ان کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔
١۔ ٢۔ تفسیر ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی کیا تو اہل عرب پہلے تو یہ تعجب کرتے تھے کہ خدا کی طرف سے انسان نبی کیوں کر ہوسکتا ہے کوئی فرشتہ نبی ہو کر کیوں نہیں آیا جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اور اسی قسم کی آیتیں نازل فرمائیں ١ ؎ اور ان مشرکوں کی تسکین اہل کتاب کے بیان سے بھی ہوگئی کہ پہلے انبیاء بھی سب انسان ہی تھے تو پھر یہ کہنے لگے کہ { لو لآ انزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم (٤٣، ٢)} جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ مکہ میں جیسا ولید بن مغیرہ اور طائف میں مسعود بن عمرو ثقفی ہیں اسی طرح کے کسی مالدار اور شاندار آدمی پر قرآن کیوں نہیں اتارا جس پر اللہ تعالیٰ نے { اھم یقسمون رحمت ربک (٤٣: ٣٣)} نازل فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت ایک رحمت الٰہی ہے۔ اللہ نے اپنی مصلحت میں جس کسی کو اس رحمت کا مستحق جانا اس کو وہ رحمت مل گئی۔ رحمت الٰہی کے حصہ بانٹنے والے یہ لوگ کون ہیں اور ان کو اس حصہ بانٹنے کا حق کس نے دیا ہے۔ حروف مقطعات کی تفسیر تو سورة بقر ہمیں گذر چکی ہے۔ ٢ ؎ باقی حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قرآن فصاحت و بلاغت اخبار غیب اور ہر طرح کی نصیحت میں ایسا پختہ ہے کہ اس کے ان اوصاف میں کہیں کچھ خامی نہیں ہے اسی واسطے یہ مشرکین مکہ باوجود دعوے فصاحت کے اس کے مانند کچھ کلام بنا کر پیش کرنے سے عاجز ہیں اس پر بھی جو ان لوگوں کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر یہاں تک تعجب ہے کہ یہ لوگ قرآن کو جادو اور اللہ کے رسول کو جادوگر بتلاتے ہیں یہ ان لوگوں کی نادانی ہے کیونکہ قرآن کے نازل ہونے سے چالیس برس پہلے یہ اللہ کے رسول ان لوگوں میں رہے کیا ان لوگوں نے کبھی یہ دیکھا ہے کہ اللہ کے رسول نے کسی جادوگر سے جادو سیکھا ہے جس کے سبب سے یہ لوگ اللہ کے کلام کو جادو اور اللہ کے رسول کو جادوگر بتلاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول کے موافق (ان لھم قدم صدق عند ربھم) کی تفسیر یہ ہے کہ قرآن شریف کی نصیحت پر عمل کرنے والے ایماندار لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے مرتبے عقبے میں رکھے ہیں جن کا حال قیامت کے دن ان ایماندار لوگوں کو معلوم ہوگا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ایک حدیث قدسی ابوہریرہ (رض) سے اوپر گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایماندار لوگوں کے لئے جنت میں جو سامان تیار کئے گئے ہیں وہ نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھے نہ کانوں سے سنے نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزر سکتا ہے۔ ٣ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے حوالہ سے { ان لھم قدم صدق عند ربھم } کی جو تفسیر اوپر بیان کی گئی اس حدیث سے اس کی پوری تائید ہوتی ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٦، ٤ ج ٢ ٢ ؎ تفسیر احسن التفاسیر جلد اول ص ٦٩۔ ٧٠۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص۔ ٤٦ ج ١۔
(10:1) الٓرٓا۔ الف۔ لام۔ را۔ حروف مقطعات ہیں۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو (2:1) تلک ایت الکتب الحکیم۔ تلک اسم اشارہ بعید۔ مفرد۔ مؤنث ایتٍ مضاف الکتب الحکیم موصوف و صفت مل کر مضاف الیہ۔ مضاف مجاف الیہ مل کر مشار الیہ۔ یہ براز حکمت کتاب کی آیاتیں ہیں۔ آیات سے مراد وہ آیات بھی ہوسکتی ہیں جو اس سورة میں ہیں اس سورة میں الکتاب سے مراد السورۃ یعنی سورة ہذا ہے۔ یا آیات سے مراد آیات قرآنی ہیں اور الکتاب سے مراد القرآن ہے۔ یعنی یہ آیات قرآن کی آیات ہیں جو حکمت سے پر ہیں۔ اسم اشارہ بعید آیات کی عظمت شان کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
ف 11۔ یہ حروف مقطعات ہیں۔ تشریح کے لئے دیکھئے سورة بقرہ آیت ا۔ اقرطبی) ۔ 12۔ محکم کتاب (قرآن پاک) یعنی جس کے حلال و حرام اور حدود و احکام کبھی منسوخ نہ ہوں گے یا جس میں حکمت و دانش بھری ہے یا جو غلطیوں اور اختلاف سے پاک ہے۔ لفظ ” حلیم “ کے یہ سب ہی معنی کئے جاسکتے ہیں۔ (قرطبی) ۔
آیات ١ تا ١٠ اسرار و معارف الٓرٰ ۔ حروف مقطعات ہیں جن کے متعلق پہلے لکھا جاچکا ہے کہ ان کا علم اللہ کو یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے یا پھر ان اللہ کے بندوں کو جو راسخین فی المعلم کے درجہ کو پالیتے ہیں کسی قدرعطا فرمایا جاتا ہے ۔ عامتہ المسلمین کے لئے تلاوت ہی کافی ہے اور معانی میں اندازے اور قیاس سے رائے قائم کرنا مناسب نہیں ۔ فرمایا ، یہ آیات ایسی عالیشان کتاب کی ہیں جو حکمت سے بھر اخزانہ ہے اور اس قدرعام فہم ہیں کسی ان پڑھ گڈریا اور چرواہاکو بھی بتانے پر انکے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی عقل سلامت ہو کہ بات عقلمندی کی ہومگرسننے والا عقل سے محروم ہو تو سمجھ نہیں پاتا ۔ یہی دیکھ لیں کہ لوگوں کو اسی بات پہ حیرت ہے کہ ہم نے ان میں سے یعنی اولاد آدم (علیہ السلام) میں سے ایک ہستی پر وحی نازل فرمادی تاکہ وہ اولاد آدم کو پیش آنے والے خطرات سے آگاہ فرمائے اور یہ بات عین عقلی تقاضوں کے مطابق ہے اس لئے کہ اگر کسی اور جنس میں سے رسول مبعوث کئے جاتے تو غیرجنس سے استفادہ ممکن نہ ہوتا مثلا جن یا فرشتہ اگر بحیثیت رسول مبعوث ہوتا تو پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانوں کو دکھائی ہی نہ دیتا اور اگر دکھائی دیتا تو اسے انسانی شکل اختیار کرنا پڑتی پھر اس کے فرشتہ ہونے کا کیا فائدہ دوسرے یہ کہ اس کی ضروریات اور عادات مختلف انسانی ضروریات و عادات الگ تو یہ کسی طرح مناسب نہ تھا بلکہ یہ بات خلاف عقل ہوتی اور انسانوں میں سے ہی ان کے لئے رسول کا مبعوث کیا جانا ہی عقلا بھی درست ترین بات ہے مگر انھیں یہ آسان سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی ۔ آپ ان لوگوں کو جو ایمان لائے خوشخبری دیجئے کہ انھوں نے راستبازی پر اور نہایت مضبوط جگہ پر قدم جمائے ہیں اور یہ کوئی ایسامقام نہیں جس کے ٹوٹ جانے یاچھوٹ جانے کا اندیشہ ہو بلکہ یہ ان کے رب کی طرف سے ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے ۔ چونکہ اعمال پر اجرمرتب کرنا بھی صفت ربوبیت سے متعلق ہے لہٰذایہاں صفاتی نام رب ہی استعمال ہوا ہے ۔ مگر کفار کی عقل پر ایسے پتھرپڑے ہیں کہ وہ کہتے ہیں یہ کوئی بہت بڑاجادوگر ہے جو دور نزدیک کی خبریں دیتا ہے یاواقعات کے بارے صحیح پیشگوئی فرمادیتا ہے اور اس جادو کے سہارے اپنی بات منوانا چاہتا ہے نعوذ باللہ من ذالک الھفوات۔ یہ ان کی جہالت کا کرشمہ ہے کہ وہ ایسا اعتراض کر رہے ہیں ۔ نہیں جانتے کہ تمہارے رب کی عظمت کیا ہے ۔ وہ ایسابلند مرتبہ ہے کہ انسان کی خاطر اس نے ساری کائنات بنائی اور اس کے ایک اشارے پہ سب کچھ دجاتا ہے مگر اس نے تخلیق کائنات میں ترتیب رکھی کہ ٦ چھ دنوں میں آسمان اور زمین بنادیئے ۔ نہ یہ کہ انھیں وجودبخشابل کہ ان میں تمام خصوصیات سمودیں جن میں کا بہت کم علم انسان کو ہوسکاہی اور ہنوزصرف زمین کی بیشمار خصوصیات تک عقل انسانی کی رسائی نہیں ہوسکی آسمان کی بات تو بعد کی ہے پھر عرش کو تخت سلطنت قرار دیا یعنی زمین وآسمان کے جملہ نظام کو اس سے متعلق کردیا جس پر وہ اپنی شان کے مطابق جلوہ افروز ہوا۔ معتزلہ کا خیال معتزلہ کا خیال استوی علی العرش کے بارے یہ ہے کہ اللہ ذاتی طور پر تو وہاں تشریف فرما ہے مگر اپنے علم کے ذریعے ہر جگہ موجود ہے یعنی خود توعرش پر بیٹھا ہے مگر اس کا علم ہر شے کے ساتھ ہے مگر علماء تفسیر نے بہت مدلل طریقے سے اور صحیح احادیث سے اس کا جواب دیا ہے اور رد فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو ذات بھی کسی جگہ مقید ہوگی اس کی حدود ہوں گی اور جس ذات کی حدود ہوں وہ فنا ہونے والی ہے ۔ اللہ کی ذات حدود وقیود سے بالا تر ہے لہٰذایہاں فرمانا کہ وہ عرش پر قائم ہوا کی تفسیر یدبرالامر سے ہوگئی کہ عرش پر سوائے اس کے کسی کا حکم نہ چلتا ہے نہ اختیار ۔ اور ساری کائنات کی تدبیر عرش سے ہی کی جاتی ہے ۔ سلطنت کائنات کا سیکریڑیٹ وہی ہے اور نہ صرف یہ کہ تمام فیصلے کرنے کا اختیار اس کے دست قدرت میں ہے ۔ یہ بھی یقینی ہے کہ کوئی بھی اس کے ہاں سفارش کرنے کی بھی جرأت نہیں رکھتا کہ امید کی جاسکے کہ اگر اسی نے کرنا ہے تو کسی سے کہلوالیں گے بلکہ اس کے ہاں سفارش بھی اس کی اجازت سے ہوگی ۔ جن کو اجازت دے گا کرسکیں گے اور جن کے لئے اجازت دے گا ان کے لئے کرسکیں گے تو کافر کے لئے تو اس نے سفارش سے بھی روک دیا ہے ۔ تمہارا پروردگار اتناہی عظیم اور بےنیاز ہے لہٰذا اس کی رضا کو پانے کا راستہ اس کی اطاعت اور بندگی ہے اور بس۔ اور یہ سب بات محض عقل سے سمجھ میں آنے والی ہے اس میں کوئی پیچیدہ بات نہیں کیا تم اتنی عقل بھی نہیں رکھتے ۔ تمھیں آخراسی کی بارگاہ میں لوٹ کرجانا ہے کہ انسان ایسی تخلیق نہیں جو ختم کردی جائے گی۔ اسے تو پیدا کرنے والے نے بہت سی خصوصیات عطافرماکردار دنیا میں بھی بھیجا ہے ۔ پھر سب اولاد آدم اس کے حضور پیش ہو کر اپنا حساب دے گی اور ہمیشہ کے گھروں میں منتقل ہوگی ۔ اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں اسلئے کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو یقینا سچا ہے اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ کائنات فنا ہوگئی انسان مرکھپ گئے تو بھلا کیونکہ زندہ ہوں گے تو تمہیں یہ دیکھ لیناکافی ہے کہ اس نے ساری کائنات کو عدم سے پیدا فرمایا کچھ نہ تھا تو سب کچھ بنایا لہٰذافناکے بعد دوبارہ بنالینا اس ذات کے لئے نہ مشکل ہے اور نہ ناممکن بلکہ یقینا وہ ایسا ہی کرے گا ورنہ تو بھلائی نیکی اور برائی اور ظلم میں تمیز ہی مٹ جائے گی ۔ اگر آخرت کا حساب وکتاب نہ ہو تو نیکی دبدی کا تصورہی بیکار ہے لہٰذاضرورسب اس کی بارگاہ میں جمع کئے جائیں گے تاکہ ایمان لاکر نیک عمل کرنے والوں کو پوراپورا انعام دیاجائے اور جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا نھیں بطور سزاپینے کو کھولتا ہواپانی اور طرح طرح کے درد ناک عذاب جو ان کے کردار کا پھل ہوں گے دیئے جائیں گے۔ اس کے مظاہر قدرت میں شمس وقمر کو دیکھ تو کتنی بیشمار تخلیقات کے پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے کے لئے سورج کی تمازت اور چاند کی روشنی کو کام پر لگا دیا اور ہر جگہ ان کے اثر پر ایک حدمقرر کردی ۔ سورج کی تیز روشنی سے سمندر کھول اٹھتا ہے مگر دوسری طرف چیونٹی بھی زندہ رہتی ہے اور اس سے اپنے انڈے سینک رہی ہوتی ہے ہاتھی کو اس کی ضرورت کے مطابق اور مچھر کو اس کی ضرورت کے مطابق گرمی مل جاتی ہے کہ حدبندی اسی ذات عظیم نے کردی ہے جو کائنات کا خالق ہے اور جو پھر سے سب کو زندہ کرے گا ۔ اس نے سورج کی روشنی اور چاند ٹھنڈک سے حیوانات نباتات اور جمادات سب پر کس قدر اثرمرتب دیئے ہیں حتی کہ ایک ادنی ترین ذرے میں بھی ایمی طاقت سمودی ہے ۔ بیچ کے اگنے سے لے کر پھلوں کے پکنے تک کہیں تمازت آفتاب کام کر رہی ہے تو دوسری جگہ چاند کی ٹھنڈی چاندنی اس میں شیرینی بھر رہی ہے اگر سورج سمندروں سے بخارات اٹھا کر ساری زمین کی حیات کا بنیا دی سبب فراہم کرتا ہے تو چاندسمندروں میں مدوجزرپیدا کرکے سمندری مخلوق کیلئے حیات مہیا کرنے کا فریضہ ادا کرتا ہے ۔ دونوں موسموں کے آنے جانے رات اور دن کے بنانے سال ماہ دن اور لمحوں تک کے حساب کو قائم رکھنے کا سبب ہیں ایک عام آدمی بھی دن تاریخ اور وقت کی تعین سے آگاہ ہوسکتا ہے ۔ ان کا اس قدرپابندی سے سفر کرنا اور مسلسل سرگرم عمل رہنا اللہ ہی کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہے ۔ سورج اور چانددونوں کو وقت کے شمار کا سبب بتایا گیا ہے ۔ لہٰذادونوں طرح کی تاریخ شمار کرنے میں حرج نہیں چونکہ چاند کے طلوع و غروب سے مہینہ اور دن کا شمار بہت آسان ہے لہٰذا عبادات اسلامی کا مدارقمری تاریخوں پہ رکھا گیا ہے اور عام زندگی میں بھی قمری تاریخ کا استعمال سنت ہے مگر عام کاروبار میں شمسی حساب منع نہیں ۔ یہ سارانظام کیا فضول اور بےمقصد ہوسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ یہ سب ہی حق وصداقت پہ استوار ہے اور اسی مقصد کو واضح کرنے کے لئے رب جلیل واضح اور روشن دلائل بیان فرماتا ہے کہ سمجھ بوجھ سے کام لینے والے لوگ بات کو جان سکیں ۔ یہ شب وروز کی آمدوشدیہ زمانے کے انقلابات بظاہر بکھری ہوئی کائنات میں ایک ایک ذرے کا حسن ترتیب زمینوں اور آسمانوں میں ساری مخلوق اسی کی عظمت اور قدرت کاملہ پہ گواہی دے رہی ہے مگر یہ سب باتیں جاننے کے لئے بھی اسی کے ساتھ تعلق اور ایمان و اطاعت کی ضرورت ہے اگرچہ یہ عقلی دلائل بہت عام ہیں مگر کفر اور گناہ عقل کو اندھا کردیتے ہیں لہٰذایہ بھی اطاعت شعارہی سمجھ سکتے ہیں ۔ جو لوگ حیات دنیاہی کو مقصد اور منزل سمجھ بیٹھے ہیں اسی پر خوش بھی ہیں وہ بھی تو انقلابات زمانہ دیکھ رہے ہیں مگر عبرت حاصل نہیں کرتے بلکہ انھیں ہماری بارگاہ میں حاضری اور جوابدہی کی کوئی امید ہی نہیں رہی اور بےشماردلائل سے بھی انھیں کوئی اثر نہیں ہوتا نہ ہی کتاب اللہ یا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ان پر اثرکوتی ہے ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے کہ ان کرتوتوں کا نتیجہ یہی مناسب ہے اور جو خوش نصیب نور ایمان حاصل کرلیتے ہیں اور دنیا میں ان کا ایمان اور آخرت پہ یقین انھیں عمل صالح یعنی اللہ کی اطاعت پہ مجبور کرتا ہے تو آخرت میں رب کریم اسی ایمان کے ذریعے مقامات قرب کی طرف رہنمائی فرمائیں گے یعنی ایمان کا وصف دنیا میں یہ ہے کہ اعمال صالح کی طرف لے جانے اور آخرت میں اللہ کی رضا اور اس کی جنت کی طرف جہاں ہمیشہ شادابی وسرسبزی ہے اور باغ اور پھل ہیں بےمثالبھی اور ابدی اور دائمی بھی جہاں ان کی گفتگو بھی یہی ہوگی کہ اللہ کی پاکی بیان کرتے رہیں ، ہر آن اتنی نعمتیں نچھا ورہوں گی کہ ہر طرف سے سبحان اللہ ہی کی صدائیں گونجیں گی اور کبھی کسی سے رنجیدہ ہونے کا بھی کوئی موقع نہ آئے گا بلکہ ہر ایک کو پیار و محبت نصیب ہوں گے اور سلام اور سلامتی ہی کے تحفے ایک دوسرے پر نچھ اور کریں گے ۔ ان کی مجالس اور باتوں کا خاتمہ بھی اللہ ہی تعریف کرنے پہ ہوگا جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔ دنیا ہو یا آخرت سب جہانوں کی ہر نعمت ولذت اسی کی عطاکردہ ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 2 الحکیم (وہ پکی چیز جس کے اندر ایسی پختگی ہو جس میں کبھی بدل جانے کا خوف نہ ہو یعنی علم، عقل اور سمجھ ۔ عجب (تعجب، حیرت) ۔ اوحینا (ہم نے وحی کی، وحی کے معنی اشارے کے بھی آتے ہیں) ۔ انذر (ڈرادے۔ کسی برے انجام سے ڈرانا) بشر (خوش خبری دے دیجیے) قدم صدق۔ صدق یعنی ٹھوس سچائی، قدم صدق، مرتبہ، کامیابی اور ترقی سحر (جادو کرنے والا، جادوگر) مبین (کھلی ہوئی واضح بات) تشریح : آیت نمبر 1 تا 2 سورئہ یونس قرآن کریم کی دسویں سورت ہے۔ مکہ مکرمہ میں اس زمانہ میں نازل ہوئی جب نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ کی مخالفتا ور دشمنی میں کفار و مشرکین شرافت اور انسانیت کی حدود سے بہت دور نکل چکے تھے۔ یہ بہت نازک وقت تھا جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام کے زعم و ہمت کو سہارے کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ جو بھی حالات پیش آ رہے ہیں کوئی ایسے نئے حالات نہیں ہیں بلکہ تمام انبیاء کرم (علیہ السلام) کے ساتھ یہی سب کچھ ہوتا رہا ہے اور قیامت تک جب بھی دین کی سچائیوں کی طرف بلایا جائے گا تو یہی مشکلات پیش آئیں گی۔ ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ باطل کے خلاف ڈٹ کر عظیم جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی راستے سے دین و دنیا کی تمام بھلائیاں نصیب ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا مختصر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذرا تفصیل سے اور حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کر کے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہر نبی کے ساتھ دو باتیں ضرور پیش آئی ہیں۔ (1) اللہ کا دین پہنچانے میں مشکلات، صہبتیں اور پریشانیاں اور (2) دوسری بات یہ کہ کفار و مشرکین کی بربادی اور اہل ایمان کی کامیابی و کامران۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو انبیاء کرام علیہم الاسلام کے راستے پر چل کردیں و دنیا کی کامیابی عطا فرمائے۔ (آمین) سورئہ یونس کی ابتدائی دو آیتوں میں چار باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1) سورة بقرہ اور سورة آل عمران کی طرح سورة یونس کی ابتدا بھی حروف مقطعات سے کی گئی ہے جس کی وضاحت سورة بقرہ و آل عمران کی سورتوں کے آغاز میں کردی گئی ہے تاہم اس جگہ صرف اتنی بات کو سمجھ لنیا کافی ہے کہق رآن کریم کی انتیس سورتوں کی ابتداء حروف مقطعات سے کی گئی ہے۔ ان تمام حروف کے معنی نہیں کئے جاتے۔ کوٓنکہ ان حروف سے متعلق نہ تو صحابہ کرام نے سوال کیا ہے نہ مخالفین نے ان حروف پر کسی حیرت اور تعجب کا اظہار کیا ہے اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا اسی لئے مفسرین عام طور پر یہ فرماتے ہیں کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے … کوئی خاص روایت تو نہیں ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے معنی بتا دیئے ہوں۔ بعض اکابر نے سورتوں کے مفہوم کو سامنے رکھ کر ان حروف کے معنی متعین کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے لیکن آخر میں ان کے نوک قلم پر یہی بات آگئی کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان حروف سے کیا مراد ہے ؟ ان حروف کے کیا معنی ہیں ؟ ہمیں ان پر غور کرنے کے بجائے اس بات پر ایمان رکھنا چاہئے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہی ان حروف کے معنی و مراد کی وضاحت نہیں فرمائی اور صحابہ کرام نے بھی نہیں پوچھا تو یہ حروف اللہ ہی کو طرف سے ہیں اور وہی ان کے معنی اور مراد سے واقف ہے۔ 2) دوسری بات یہ ہے کہ اس سورت کی ابتدا ” تلک ایت الکتاب الحکیم “ سے کی گئی ہے۔ یعنی یہ آیتیں کتاب حکیم کی آیتیں ہیں … جس طرح قرآن کے لئے بہت سے الفاظ آئے ہیں اسی طرح یہ بھی قرآن کریم کا ایک نام ہے۔ ” کتاب حکیم “ یعنی وہ کتاب جس میں تمام انسانوں کی رہنمائی کیلئے وہ پر حمکت اصول بیان فرمائے گئے ہیں جو انتہائی مضبوط، مستحکم اور حکمت و دانش سے بھرپور ہیں۔ یہ کتاب کوئی معمولی کتاب نہیں ہے بلکہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے دین و دنیا کی تمام عظمتیں، نعمتیں اور سربلندیاں پوشیدہ ہیں۔ تہذیب و تمدن، معاشرت اور معیشت، عقائد، عبادات ، معاملات اور سیاسیات عالم کے رہبر و رہنما اصول ارشاد فرما دیئے گئے ہیں۔ 3) تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ کفار و مشرکین انبیاء کرام کی بشریت کا یہ کہہ کر انکار کرتے رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا آدمی جو ان ہی کی طرح گوشت پوست کا انسان ہے، نو مہینے ماں کے پیٹ میں رہ کر اس دنیا میں آیا ہے۔ جو ان ہی میں پلا بڑھا ہے جو کھاتا پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، روتا بھی ہے اور ہنستا بھی ہے۔ جو بیوی بچے بھی رکھتا ہے … اللہ کا نبی اور رسول کیسے ہو سکتا ہے ؟ اگر اللہ کو نبی اور رسول بنا کر بھیجنا ہی تھا تو کسے فرشتے کو بھیج دیا ہوتا یا آسمان سے اچانک کوئی شخصیت نمودار ہوتی اور ہم اس پر ایمان لاتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کی بشریت کا انکار کفر کا مزاج ہوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اس کا بہت سادہ اور پر حکمت ایک ہی جواب دیا ہے کہ اس میں تعجب اور حیرت کی کو سنی بات ہے کہ ہم نے اپنا کلام ایک انسان کے ذریعہ پہنچایا ہے جو تمہیں برے اعمال کے خراب نتائج سے ڈراتا ہے اور نیک اعمال کے نتیجے اور جنت اور اس کی راحتوں کی خوش خبری سناتا ہے۔ جس طرح پہلی امتوں نے نبیوں کی بشریت کا انکار کیا اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی یہی اعتراض کیا گیا۔ اللہ نے متعدد مقامات پر خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ کہلوا دیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیجیے کہ میں بھی تم جیسا ایک بشر ہوں۔ میری خصوصیت یہ ہے کہ میری طرف اللہ کی وحی آتی ہو جس کی میں خود بھی اتابع و پیروی کرتا ہوں اور دوسروں کو بھی اسی وحی کی طرف بلاتا ہوں اور اس کی پیروی پر آمادہ کرتا ہوں۔ 4) ان آیات میں چوتھی بات یہ فرمائی گی ہے کہ کفار و مشرکین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب بھی اللہ کے پیغمبروں نے اللہ کا کلام پیش کیا تو اس کو جادو کا نام دیا اور اس کو پہنچانے والوں کو جادوگر کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ارشاد فرمادیا ہے کہ جادو کرنا، جادو ساکھنر اور سکھانا سب کفر کی باتیں ہیں … جادو کیا ہے ؟ محض وقتی طور پر نظر بندی، نظروں کا فریب … اسکے برخلاف اللہ کا کلام ایک سچائی ہے، روشنی ہے۔ جادو کا اثر محض تھوڑی دیر تک رہتا ہے۔ جب جادو ختم ہوجاتا ہے تو وہی چیزیں جو سانپ اور اژدھے نظر آتے ہیں معمولی رسیاں اور لکڑیاں رہ جاتی ہیں ۔ اس کے برخلاف اللہ کا کلام وہ ہے کہ جب ایک دفعہ دلوں میں آجاتا ہے اور اس کا رنگ دلوں پر چڑھ جاتا ہے تو پھر وہ رنگ کبھی نہیں اترتا۔ فرعون کے دربار میں جب جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک کر ان کو نظر بندی کے ذریعہ سانپ اور اژدھوں کی شکل میں دکھایا … تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا کو پھینکا اور وہ اصلی پھنکارتا ہوا اژدھا نظر آنے لگا تو سارے جادو گر ڈر گئے اور سمجھ گئے کہ یہ محض نظروں کا دھوکہ نہیں ہے بلکہ معجزہ ہے۔ وہی جادوگر جو انعام و اکرام کے لالچ میں اپنے ادو کا کمال دکھا رہے تھے اللہ کے سامنے سجدہ میں گر گئے اور رب موسیٰ اور رب ہارون پر ایمان لے آئے … جب ان جادوگروں کے دلوں میں ایمان موجزن ہوگیا تو فرعون کی ہر دھمکی کے سامنے وہ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ … یہی اللہ کا رنگ ہے جب یہ دلوں پر چڑھ جاتا ہے تو پھر اس کا رنگ نکھرتا تو ہے مٹتا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے کفار و مشرکین کو صاف صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ جادو ایک بےحقیقت چیز ہے۔ وقتی دھوکہ، فریب اور نظر بندی ہے اس کا مقابلہ اللہ کے کالم سے کرنا اور اس کلام سے کرنا جو کلام سراسر سچائی ہے، حقیقت ہے، نور ہے … اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ جو لوگ اس کلام رباین پر ایمان لائیں گے ان کو دنیا و آخرت میں عزت کا مقام نصیب ہوگا۔
فہم القرآن اآرٰ ۔ حروف مقطعات میں سے ہیں۔ حروف مقطعات کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور نہ اس کا عملی زندگی سے تعلق ہے۔ جس بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا معنی نہیں بتلایا اور نہ ہی صحابہ (رض) نے آپ سے استفسار کیا۔ جن بزرگوں نے ان کے معنیٰ کیے ہیں۔ یہ ان کی ذہنی کاوش ہے۔ جس کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ اس لیے آخر میں وہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیں۔ کہ اللہ ہی حروف مقطعات کے معنی جانتا ہے۔ لیکن افسوس ہمارے دور کے ایک مفسر نے ایسا دعویٰ کیا ہے جس سے علم کے نام پر جہالت اور حروف مقطعات کے بہانے شرک پھیلانے کا دروازہ کھولا ہے چناچہ لکھتے ہیں : کہ یہ حروف خود بول کر اپنا مفہوم اولیاء کرام سے بیان کردیتے ہیں جیسے یہ حروف اس ذات پاک سے گویا ہوتے تھے جس کی ہتھیلی میں کنکریوں نے اللہ کی تسبیح بیان کی تھی۔ معاذاللہ۔ (ضیاء القرآن، جلد ٢، ص : ٢٧٥) بہرحال یہ حروف ایسے ہیں جن کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ لوگوں نے تعجب کیا کہ ہم نے انہیں میں ایک آدمی پر قرآن مجید نازل کیا ہے۔ جو انھیں کفرو شرک اور برے اعمال کے انجام سے خبر دار کرتا ہے۔ اور مسرت و شادمانی کا پیغام دیتا ہے جو اس پر ایمان لائے ان کے لیے ان کے رب کے پاس عزت و عظمت کا مقام ہے۔ کفار کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے۔ (یہاں قدم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی جمع اقدام ہوتی ہے۔ جس کا مفہوم آگے بڑھنا ہے۔ یہاں قَدَمَ صِدْقٍ کے الفاظ لائے گئے ہیں یعنی یہ ترقی اور مرتبہ ان کو صدق نیت اور حق قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوگا، یہی نبوت کی دعوت کا خلاصہ ہے۔ ) * پہلی اقوام سے بھی جب کتاب الٰہی کا جواب نہ بن پایا تو انہوں نے اپنے انبیاء ( علیہ السلام) کو جادو گر قرار دیا۔ * کتاب الٰہی کی تاثیر سے متاثر ہونے کی وجہ سے کفار اسے جادو قرار دیتے ہیں۔ * سنجیدہ لوگوں کو جادو گروں سے نفرت ہوتی ہے۔ لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے کفار انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر ہونے کا الزام دیتی تھے۔ * جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی کفار ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نبی کی بات ویسے ہی آدمی کو متاثر کرتی ہے ورنہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ * جادو گر شعبدہ باز ہوتے ہیں۔ کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزہ کو جادو اور شعبدہ قرار دیتے تھے۔ حالانکہ : * وحی اللہ تعالیٰ کا کلام ہوتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بھی اس جیسا کلام نہیں کرسکتا۔ * جادو کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ جب کہ وحی دائمی اور اس پر ایمان لانے کے بعد آدمی مرنا قبول کرلیتا ہے اس سے انکار نہیں کرتا۔ * جادوگر روحانی اور جسمانی طور پر گندہ ہوتا ہے۔ پیغمبر پاکباز اور صاف ستھرا ہوتا ہے۔ * جادوگر پیٹ کے دھندے کے لیے کرتب دکھاتا ہے۔ نبی ساری عمر کسی سے ایک دمڑی کا روا دار نہیں ہوتا۔ * جادو ڈرامہ ہے۔ قرآن مجید ابدی حقیقت ہے۔ * جادوگر جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ کا رسول کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ * جادو سے دین ودنیا کا نقصان ہوتا ہے۔ نبی کی اتباع سے دین و دنیا کی بھلائی اور عزت حاصل ہوتی ہے۔ جادو کی اقسام، معنی اور حقیقت : مشہور مفسر امام رازی نے جادو کو آٹھ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جادوگروں نے اپنے فن کے لیے کون کون سے طریقے ایجاد کر رکھے تھے۔ جادو کوئی مستقل اور مستند علم نہیں کہ جس کو کرنے کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کیا گیا ہو کیونکہ جادو تصنّع بازی کا نام ہے اس لیے ہر دور میں اس کی کرشمہ سازی اور اثر انگیزی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے تاہم جدید وقدیم جادو کا خلاصہ درج ذیل ہے : ١۔ کفر یہ ‘ شرکیہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعے جادو کرنا۔ ٢۔ برے لوگوں ‘ خبیث جنّات اور شیاطین کے ذریعے کسی پر اثر انداز ہونا۔ ٣۔ علم نجوم کے ذریعے غیب کی خبریں دینا اور دوسرے کو متاثر کرنا۔ ٤۔ توجہ ‘ مسمریزم کی مخصوص حرکات، (ہپناٹیزم) کے ذریعیحواس خمسہ کو قابو کرنا۔ مسائل ١۔ قرآن مجید کی آیات پُر حکمت ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید ایمان داروں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے۔ ٣۔ کفار انبیاء کی بشریت پر اعتراض کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰلوگوں کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لیے انسانوں میں سے ہی نبی بناتا رہا ہے۔ ٥۔ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔ ٦۔ کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہتے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار کے الزامات : ١۔ کفار نبی کریم کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ (یونس : ٣) ٢۔ کفار آپ کو کاہن اور مجنون کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا کہ آپ کاہن اور مجنون نہیں ہیں۔ (الطور : ٢٩) ٣۔ کفار آپ کو شاعر کہتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٤۔ کفار آپ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن مجید خود بنا لیتے ہیں۔ (النحل : ١٠١) ٥۔ کفار نبی اکرم کو جادوگر اور کذاب کہتے تھے۔ (ص : ٤) ٦۔ کفار نے انبیاء کو جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٧۔ ظالموں نے کہا تم جادو کیے گئے شخص کی پیروی کرتے ہو۔ (الفرقان : ٨)
درس نمبر 95 ایک نظر میں جس طرح ہم نے اس سورة کے دیباچے میں کہا ہے یہ پوری سورة ایک ٹکڑا ہے۔ اس کو مختلف اسباق میں تقسیم کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح پارہ ہفتم میں سورة انعام اور جس کے بارے میں یہی رائے ہم نے دی کہ ہر سورة کا اپنا مزاج اور اپنی شخصیت اور اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس سورت کا بھی معاملہ ہے۔ اس سبق میں ان متعدد امور کا ذکر کیا گیا ہے جو حکیمانہ امور ہیں اور کتاب کی صفت حکمت کی تشریح کے طور پر ان امور کا ذکر کیا ہے۔ مثلا رسول اللہ کی طرف نزول وحی اور یہ کہ وحی ایک انسان پر کیوں اتاری ہے ؟ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ تخلیق کائنات اور زمین و آسمان کے فزیکلل نظام میں کس قدر گہری حکمت ہے کہ اس میں سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نورانیت عطا کی گئی اور پھر چاند کے لیے منازل طے کی گئیں تاکہ لوگ ماہ و سال کا حساب رکھ سکیں۔ پھر رات اور دن کا اختلاف اور اس کی حکمتیں ۔ درس نمبر 95 تشریح آیات 1 تا 25: الۗرٰ سورة البقرہ کے شروع میں (حروف مقطعات کی) بحث گزر چکی ہے (یہ بھی دوسرے حروف مقطعات کی طرح ہے) ۔ تلک یہ۔ سورت یا قرآن کی آیات کی طرف اس لفظ سے اشارہ ہے۔ بعض نے کہا : ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر اس سورت اس پہلے کردیا گیا۔ اٰیٰت الکتب الحکیم۔ پر حکمت قرآن کی آیات ہیں۔ الحکیم ‘ الکتاب کی صفت ہے : پر حکمت ‘ یا حکیم کا کلام ‘ یا محکم غیر منسوخ۔ مؤخر الذکر مطلب اس وقت ہوگا جب آیات سے مراد صرف اس سورت کی آیات ہیں (اس سورت میں کوئی آیت منسوخ نہیں لیکن پورا قرآن مراد ہو تو حکیم بمعنی غیر منسوخ ...... نہیں کہا جاسکتا (قرآن میں تو بعض آیات کے احکام منسوخ بھی ہیں) یا حکیم بمعنی محکم سے یہ مراد ہے کہ اس میں کوئی آیت غلط نہیں اور کلام میں کہیں اختلاف نہیں۔ حسن نے کہا : آیات کتاب میں حکم دیا گیا ہے : انصاف اور بھلائی کرنے کا ‘ قرابتداروں کو دینے کا ‘ بےحیائی ‘ برے کام اور ظلم و زیادتی سے باز رہنے کا ‘ فرمانبرداروں کیلئے جنت اور نافرمانوں کیلئے دوزخ کا۔ ابن جریر نے بطریق ضحاک ‘ حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے جب محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو نبی بنا کر بھیجا تو عرب نے اس کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا : اللہ کسی انسان کو پیغمبر بنا کر بھیجے ‘ اس کی شان اس سے بہت بڑی ہے (وہ انسانوں کا محتاج نہیں) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی : ١ :۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ (جسے حروف مقطعات ) سے مراد ہیں سورتوں کو کھولنے والے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے یہ بھی ہیں ۔ ٢ :۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں وابن النجار (رح) نے اپنی تاریخ میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں (ساری مخلوق کو ) ۔ ٣ :۔ ابن منذر (رح) رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ دیکھ رہا ہوں ۔ ٤ :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ دیکھ رہا ہوں ۔ ٥ :۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ اور حمٓ اور نٓ “ یہ سب اسم مقطع ہیں (یعنی یہ آیت ایک اسم ہے جو الگ الگ حروس میں لھ گیا اور وہ اسم الرحمن ہے۔ ٦ :ـ۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ ” الرحیم “ اور نٓ میں لفظ رحمن کے حروف ہیں جدا جدا کئے ہوئے ۔ ٧ :۔ ابوالشیخ (رح) نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ اس میں الف اور لام اور راء یہ لفظ رحمن میں سے ہیں ۔ واما قولہ : تلک ایت الکتب الحکیم (١) ٨ :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے انس بن مالک (رض) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ” تلک “ سے مراد وہ ہے ھذ۔ ٩ :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ (رض) سے روایت کیا کہ (آیت) تلک ایت الکتب “ سے مراد ہے وہ کتابیں جو قرآن مجید سے پہلے گزر گئیں ۔
توحید و رسالت اور معاد کا اثبات یہ سورة یونس کی ابتدائی آیات ہیں۔ اس کی ابتدا ا ل ر سے ہے۔ جو حروف مقطعات میں سے ہے یہ بحث سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ اس کے بعد فرمایا (تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ) (یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں) مفسرین کرام نے حکیم کے دو معنی لکھے ہیں اول ذو حکمۃ یعنی حکمت والی کتاب دوم بمعنی محکم ‘ پھر محکم کے دو معنی ہیں اول بمعنی مضبوط کہ اس کے الفاظ اور کلمات اور طریقہ بیان اور اسلوب کلام نہایت ہی درجہ پختہ ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ غیر منسوخ ہے۔ جن مفسرین نے یہ معنی لئے ہیں ان کی بات کی بنیاد یہ ہے کہ سورة یونس میں کوئی آیت منسوخ نہیں لیکن چونکہ صفت مضاف الیہ یعنی الکتاب کی ہے اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے جو ان سورتوں پر بھی مشتمل ہے جن میں آیات منسوخ الحکم بھی موجود ہیں اس لئے یہاں یہ معنی لینا مناسب نہیں۔ صاحب معالم التنزیل (ص ٣٤٢ ج ٢) نے لکھا ہے کہ حکیم حاکم کے معنی میں ہے یعنی یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو فیصلہ دینے والی ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کے ایک تعجب کا تذکرہ فرمایا اور بطور استفہام انکاری یوں فرمایا (اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا) (اآایۃ) کیا لوگوں کے لئے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے ایک آدمی کی طرف وحی بھیجی جو انہیں میں سے ہے ؟ یہاں الناس سے کفار عرب اور خاص کر اہل مکہ مراد ہیں انہوں نے اول تو اس بات پر تعجب کیا کہ آدمی کو رسول بنایا گیا اور دوسرے انہیں اس پر تعجب ہوا کہ ابو طالب کے یتیم کو رسول بنا دیا گیا ‘ ان کے تعجب کی استفہام انکاری کی صورت میں تردید فرمائی کہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ انسانوں کی طرف انہیں کی جنس میں سے کسی انسان کو مبعوث فرمانا عقل اور سمجھ کے بالکل موافق ہے تاکہ اپنے جنس کے فرد اس سے مانوس ہوں اس سے قولی اور عملی طور پر احکام سیکھیں اور عمل کریں اس بارے میں مزید توضیح کے لئے سورة انعام کے پہلے رکوع کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ اور دوسرا جو تعجب تھا وہ بھی بےوقوفی پر مبنی تھا ‘ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ کوئی بڑا مالدار رئیس اور چودھری نبی ہونا چاہئے تھا۔ چونکہ اہل دنیا کو دنیا والوں ہی میں برائی نظر آتی ہے اور دنیا والوں ہی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے ایسی جاہلانہ بات کی۔ مال و دولت کو اللہ کا محبوب بندہ ہونے میں کوئی بھی دخل نہیں ‘ اور خصوصاً نبوت جو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور خاص عطیہ ہے اس میں یہ دیکھنا کہ جسے نبوت ملی ہے اس کے پاس دنیاوی مال ومتاع ہے یا نہیں سراپا حماقت اور جہالت ہے۔ نبی میں اخلاق عالیہ کا ہونا ضروری ہے جن کی دعوت الی الحق کے لئے ضرورت ہے ‘ اہل دنیا اخلاق عالیہ سے خالی اور عاری ہوتے ہیں ان کو کیسے نبوت دی جائے ‘ پھر جس کو اللہ نے نواز دیا اس سے کون آگے بڑھنے والا ہے۔ اللہ نے جس کو چاہا نبوت و رسالت کے مرتبہ سے سرفراز فرما دیا اس میں کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہی ابو طالب کا یتیم جس کی نبوت و رسالت پر عرب کے جاہل معترض ہو رہے تھے اللہ نے اسے اتنی بلندی دی کہ جس کے سامنے فرشتوں کی بلندی بھی نیچے رہ گئی۔ اس یتیم ابو طالب کی دعوت پورے عالم میں پھیلی ‘ اس کی امت کے قبضہ میں بڑے بڑے ممالک آئے عرب اور عجم نے اس کا دین قبول کیا ‘ قیصر وکسریٰ کے خزانے امت کے قدموں میں حاضر ہوگئے پرانی تمام آسمان کی کتابوں کو اس کتاب نے منسوخ کردیا جو ابو طالب کے یتیم پر نازل ہوئی اور تمام ادیان منسوخ ہوگئے۔ یتیمی کہ ناکردہ قرآن درست کتب خانہ چند ملت بشست
2:“ الٓم ” یہ حروف مقطعات میں سے ہے اس کی صحیح مراد صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ 3:“ تِلْکَ الخ ” یہ تمہید مع ترغیب ہے اس سورت میں مسئلہ توحید پر زیادہ تر دلائل عقلیہ ذکر کیے گئے ہیں۔ اس لیے ابتداء سورت میں بطو رتمہید “ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ” سے اس طرف اشارہ فرمایا۔ قرآن مجید کی جن سورتوں کی ابتداء میں کتاب کی صفت حکیم آئی ہے ان سورتوں میں زیادہ زور دلائل عقلیہ کے بیان پر دیا گیا ہے اور جن کی ابتداء کتاب کی صفت مبین وارد ہوئی ہے۔ ان سورتوں میں زیادہ تر دلائل نقلیہ مذکور ہیں۔ سورة لقمان کے شروع میں فرمایا “ الٓم تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ” سورة لقمان میں اگرچہ ایک دلیل نقلی بھی مذکور ہے مگر زیادہ زور دلائل عقلیہ پر دیا گیا ہے۔ اسی لیے کتاب کی صفت حکیم لائی گئی ہے۔ سورة زخرف کی ابتداء میں فرمایا “ حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ ” یعنی کتاب کی صفت مبین فرمائی کیونکہ اس سورت میں زیادہ تر نقلی دلائل مذکور ہیں۔ سورة شعراء کے شروع میں بھی “ الکتاب ” کی صفت “ مبین ” وارد ہوئی ہے کیونکہ اس میں دلائل نقلیہ ہی مذکور ہیں صرف رکوع 1 میں دلیل عقلی کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں ترغیب کا پہلو یہ ہے کہ یہ آیتیں ایسی کتاب کی ہیں جو ہر چیز کی حقیقت ٹھیک ٹھیک بیان کرتی ہے اور جس کی تمام باتیں حکمت پر مبنی ہیں اس لیے انہیں توجہ سے سنو اور ان پر عمل کرو۔
سورة یونس (علیہ السلام) مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ہے اس میں ایک سو نو آیتیں ہیں اور گیارہ رکوع ہیں۔ 1 الٓرٰ قف یہ ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو حکمت و دانش کی باتوں سے لبریز اور پر ہے۔ یعنی قرآن مجید کی آیتیں ہیں۔ حکیم سے مراد ہے حکمت والی یا محکم یا و مضبوط یا حاکم یعنی حکم دینے والی کتاب یا محکوم یعنی جس میں احکام دیئے گئے ہیں۔