Surat Younus

Surah: 10

Verse: 12

سورة يونس

وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲﴾

And when affliction touches man, he calls upon Us, whether lying on his side or sitting or standing; but when We remove from him his affliction, he continues [in disobedience] as if he had never called upon Us to [remove] an affliction that touched him. Thus is made pleasing to the transgressors that which they have been doing

اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے لیٹے بھی بیٹھے بھی کھڑے بھی ۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لئے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا ان حد سے گزرنے والوں کے اعمال کو ان کے لئے اسی طرح خوش نما بنا دیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Man remembers Allah at Times of Adversity and forgets Him at Times of Prosperity Allah says; وَإِذَا مَسَّ الاِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَأيِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ ... And when harm touches man, he invokes Us, lying on his side, or sitting or standing. But when We have removed his harm from him, Allah tells us about man and how he becomes annoyed and worried when he is touched with distress. وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَأءٍ عَرِيضٍ but when evil touches him, then he has recourse to long supplications. (41:51) `Long supplications' also means many supplications. When man suffers adversity he becomes worried and anxious. So he supplicates more. He prays to Allah to lift and remove the adversity. He prays while standing, sitting or laying down. When Allah removes his adversity and lifts his distress, he turns away and becomes arrogant. He goes on as if nothing were wrong with him before. ... مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ ... He passes on as if he had never invoked Us for a harm that touched him! Allah then criticized and condemned those who have these qualities or act this way, so He said: ... كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ Thus it is made fair seeming to the wasteful that which they used to do. But those on whom Allah has bestowed good guidance and support are an exception. إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ Except those who have patience believe and do righteous good deeds. (11:11) The Prophet said: عَجَبًا لاَِمْرِ الْمُوْمِنِ لاَ يَقْضِي اللهُ لَهُ قَضَاءً إِلاَّ كَانَ خَيْرًا لَهُ وَلَيْسَ ذَلِكَ لاَِحَدٍ إِلاَّ لِلْمُوْمِن إِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ فَصَبَرَ كَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ فَشَكَرَ كَانَ خَيْرًا لَهُ How wonderful is the case of a believer; there is good for him in everything and this is not the case with anyone except a believer. If prosperity attends him, he expresses gratitude to Allah, and that is good for him. And if adversity befalls him, he endures it patiently and that is also good for him.

مومن ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں ۔ اسی آیت جیسی ( وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَاۗءٍ عَرِيْضٍ 51؀ ) 41- فصلت:51 ) ہے یعنی جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے ۔ ہر وقت اٹھتے بیٹھے لیٹتے اللہ سے اپنی تکلیف کے دور ہو نے کی التجائیں کرتا ہے ۔ لیکن جہاں دعا قبول ہوئی تکلیف دور ہوئی اور ایسا ہو گیا جیسے کہ نہ اسے کبھی تکلیف پہنچی تھی نہ اس نے کبھی دعا کی تھی ۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں اور وہ انہیں اپنے ایسے ہی گناہ اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔ ہاں ایماندار ، نیک اعمال ، ہدایت و رشد والے ایسے نہیں ہوتے ۔ حدیث شریف میں ہے مومن کی حالت پر تعجب ہے ۔ اس کے لیے ہر الٰہی فیصلہ اچھا ہی ہوتا ہے ۔ اسے تکلیف پہنچی اس نے صبر و استقامت اختیار کی اور اسے نیکیاں ملیں ۔ اسے راحت پہنچی ، اس نے شکر کیا ، اس پر بھی نیکیاں ملیں ، یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یہ انسان کی اس حالت کا تذکرہ ہے جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے۔ بلکہ بہت سے اللہ کے ماننے والے بھی اس کوتاہی کا عام ارتکاب کرتے ہیں کہ مصیبت کے وقت تو خوب اللہ اللہ ہو رہا ہے، دعائیں کی جا رہی ہیں توبہ استغفار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ مصیبت کا وہ کڑا وقت نکال دیتا ہے تو پھر بارگاہ الٰہی میں دعا و گڑگڑانے سے غافل ہوجاتے ہیں اور اللہ نے ان کی دعائیں قبول کرکے جس امتحان اور مصیبت سے نجات دی، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق انہیں نصیب نہیں ہوتی۔ 12۔ 2 بطور آزمائش اور مہلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، وسوسوں کے ذریعے سے شیطان کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور انسان اس نفس کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، جو انسان کی برائی پر امادہ کرتا ہے، تاہم اس کا شکار ہوتے وہی لوگ ہیں جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ یہاں معنی یہ ہوئے کہ ان کے لیے دعا سے اعراض، شکر الہی سے غفلت اور شہوات و خواہشات کے ساتھ اشتغال کو مزین کردیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] شرکیہ کام خوشحالی میں ہی بھلے لگتے ہیں :۔ انسان کی ایک عادت تو یہ ہے کہ وہ دوسرے کے حق میں یا اپنے لیے کوئی بددعا کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی یہ بددعا جلد از جلد قبول ہو جس کا لازمی نتیجہ سب لوگوں کی تباہی پر منتج ہوتا ہے اور اس کی دوسری عادت یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ کو سچے دل سے پکارنے لگتا ہے اور اللہ سے کئی طرح کے وعدے کرتا ہے لیکن جب اللہ وہ مصیبت دور کردیتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے نہ اسے اللہ یاد رہتا ہے اور نہ اس سے کیے ہوئے وعدے یاد رہتے ہیں پھر اسے اپنے خود ساختہ حاجت روا اور مشکل کشا یاد آنے لگتے ہیں جیسا کہ قریش مکہ نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔ جب آپ کی دعا سے قحط دور ہوگیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں، بداعمالیاں، اپنے معبودوں سے لگاؤ اور دین برحق کے خلاف پہلی سی سرگرمیاں پھر شروع ہوگئیں اور مصیبت کے وقت جو دل اللہ کی طرف رجوع کرنے لگے تھے پھر اپنی سابقہ روش اور غفلتوں میں ڈوب گئے اور انہی کاموں میں انہیں لطف آنے لگا اور اچھے معلوم ہونے لگے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ ۔۔ : یہاں ” الانسان “ سے مراد اکثر انسان ہیں، جن میں کفار و مشرکین بھی شامل ہیں، کیونکہ انھی کا ذکر پہلے اور بعد میں چل رہا ہے اور وہ بھی مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں، پھر مقصد پورا ہوجانے کے بعد سرے سے اسے بھول جاتے ہیں، بعض مومنوں کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی انسان اس قدر عاجز و ناتواں ہے کہ جوں ہی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹتے، بیٹھتے اور کھڑے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، لیکن اس کی بےوفائی کا یہ عالم ہے کہ جوں ہی تکلیف دور ہوتی ہے اسی پہلے غرور میں بدمست ہوجاتا ہے اور اپنی مصیبت اور تکلیف سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔ انسان کی اس عادت کا کئی آیات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے حم السجدہ (٥١) ، زمر ( ٤٩) اور ہود (١٠، ١١) ۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں انھی لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جن کا دعا کا طریقہ یہ ہے، البتہ وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور اپنی توفیق خاص سے نوازا ہے وہ ان میں شامل نہیں، کیونکہ وہ سختی اور نرمی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو پکارتے اور اسے یاد رکھتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ ، إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ ، إِنْ أَصَابَتْہٗ سَرَّاءُ شَکَرََ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ ، وَ إِنْ أَصَابَتْہٗ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ ) [ مسلم، الزہد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩، عن صہیب (رض) ] ” مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر کام ہی خیر ہے اور یہ چیز (کامل) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو شکر کرتا ہے، پس وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، سو وہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔ “ ” مُسْرِفِیْنَ “ (حد سے بڑھنے والوں) کو یہ نعمت حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس آیت میں مذکور لوگوں کی طرح ان کے لیے ان کے اعمال بد ہی خوش نما بنا دیے گئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ ان کے لیے ان کے اعمال کس نے خوش نما بنائے ہیں، آیت میں اس کا ذکر نہیں، کیونکہ وہ کئی چیزیں ہوسکتی ہیں : 1 شیطان، فرمایا : (وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ اَعْمَالَھُم) [ النمل : ٢٤ ] ” اور شیطان نے ان کے لیے ان کے عمل خوش نما بنا دیے۔ “ 2 نفس، فرمایا : (ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۗءِ ) [ یوسف : ٥٣ ] ” بیشک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے۔ “ ہمارے لیے اس میں سبق یہ ہے کہ ہمیں مصیبت دور ہونے پر بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دعا میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یَّسْتَجِیْبَ اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَ الشَّدَاءِدِ وَالْکُرَبِ فَلْیُکْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ ) [ ترمذی، کتاب الدعوات، باب أن دعوۃ المسلم مستجابۃ : ٣٣٨٢، و حسنہ الألباني ] ” جسے پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مصیبتوں میں اس کی دعا قبول فرمائے تو وہ خوش حالی میں کثرت سے دعا کیا کرے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

An eloquent approach has been made in the second verse (12) to convince those who denied that Allah was One (Tauhid) and that there was a life to come (&Akhirah). It was said: When conditions are normal, people would find time to engage in debating the nature and existence of God and the Hereafter. They would feel free to ascribe all sorts of partners and associates to His pristine divinity and look forward to them in the hope that they would respond at their hour of need. But, as soon as some major distress overtakes them, even these very peo¬ple, disappointed by the entire range of their false gods they pinned their hopes on, do nothing but call Allah for help, not simply once but repeatedly, lying, sitting, standing. They have no choice. They must in¬voke Him for help. However, along with this attitude, certainly terri¬ble is their ingratitude. When Allah Ta` ala removes their distress, they forget all about Him becoming so disconnected and indifferent to Him as if they had never called Him and never sought His help in their hour of need. This tells us that those who associate anyone or anything else with Allah Ta` ala in His exclusive domain as the Dispenser of all that is needed by His creation do themselves get to experience the demolition of this belief of theirs. But, because of their hostility and obstinacy, they keep glued to their false notion.

دوسری آیت میں منکرین توحید و آخرت کو ایک دوسرے بلیغ انداز سے قائل کیا گیا ہے وہ یہ کہ لوگ عام حالات راحت و اطمینان میں خدا و آخرت کے خلاف حجت بازی کرتے اور غیروں کو خدا تعالیٰ کا شریک قرار دیتے اور ان سے حاجت روائی کی امیدیں باندھے رکھتے ہیں، لیکن جب کوئی بڑی مصیبت آپڑتی ہے اس وقت یہ لوگ خود بھی اللہ تعالیٰ کے سوا اپنی ساری امید گاہوں سے مایوس ہو کر صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں، اور لیٹے، بیٹھے، کھڑے غرض ہر حال میں اسی کو پکارنے پر مجبور ہوتے ہیں، مگر اس کے ساتھ احسان فراموشی کا یہ عالم ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کی مصیبت دور کردیتے ہیں تو خدا تعالیٰ سے ایسے آزاد و بےفکر ہوجاتے ہیں کہ گویا کبھی اس کو پکارا ہی نہ تھا اور اس سے کوئی حاجت مانگی ہی نہ تھی، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حاجت روائی میں کسی دو سرے کو شریک کرنے والے خود بھی اپنے اس عقیدہ کا بطلان مشاہدہ کرلیتے ہیں، مگر پھر عناد و ضد کی وجہ سے اسی باطل عقیدہ پر جمے رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا۝ ٠ ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّہٗ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٢ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں جنب أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال، ( ج ن ب ) الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیہ کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ قائِمٌ وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] . وبناء قَيُّومٍ : ( ق و م ) قيام أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور جب کو یعنی ہشام بن مغیرہ مخزومی کو کوئی تکلیف یا بیماری پہنچتی ہے تو بستر پر بھی ہمیں پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اس سے اس کی وہ تکلیف دور کردیتے ہیں تو پھر دعا کر چھوڑ کر اپنی پہلی حالت پر آجاتا ہے، گویا جو تکلیف اس کو پہنچتی تھی اس کے ہٹانے کے لیے کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا، ان مشرکین کو ان کے اعمال شرکیہ اسی طرح اچھے معلوم ہوتے ہیں کہ سختی اور تکلیف میں ہمیں پکارتے ہیں اور فراخی و خوشحالی میں ہمیں بھول جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآءِمًا ج) ” اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے پہلو کے بل (لیٹے ہوئے) یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے ۔ “ (فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ط) ” پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ ایسے چل دیتا ہے جیسے اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا کوئی تکلیف پہنچنے پر۔ “ (کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ” ایسے ہی مزین کردیا گیا ہے ان حد سے بڑھنے والوں کے لیے ان کے اعمال کو۔ “ ان کے اندر اتنی ڈھٹائی پیدا ہوگئی ہے کہ ذرا تکلیف آجائے تو گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں گے ‘ ہر حال میں ہمیں پکاریں گے اور گریہ وزاری میں راتیں گزار دیں گے۔ لیکن جب وہ تکلیف رفع ہوجائے گی تو ایسے بھول جائیں گے گویا ہمیں جانتے ہی نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ ١٤۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان لوگوں کی یہ عادت بتائی تھی کہ جس قدر ان کو دنیا میں تندرستی اور فارغ بالی دی جاتی ہے اسی قدر ان کی نافرمانی اور سرکشی بڑھتی جاتی ہے اس آیت میں دوسری عادت ان لوگوں کی فرمائی کہ تنگی کے وقت یہ سب لوگ سرکشی بھول کر اٹھتے بیٹھتے اللہ کو پکارنے لگتے ہیں اور جب اللہ ان کی وہ تنگی رفع کردیتا ہے تو پھر بالکل خدا سے بیگانے بن جاتے ہیں۔ صحیح مسلم میں صہیب رومی (رض) کی روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کی علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ تنگی کے وقت وہ صبر کرتے ہیں اور راحت کے وقت اللہ کا شکر بجالاتے ہیں۔ ١ ؎ اور اس سے بڑھ کر ایک مقام ہے جو خاص لوگوں کو میسر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تنگی کے وقت ظاہر میں صبر کرنا اور باطن میں اس تنگی کو اللہ کا حکم سمجھ کر اس تنگی سے دل پر میل نہ آئے اس کا اجر بھی بہت ہی بڑا ہے۔ اس خاص گروہ کے خاص مقام کا ذکر ابو درداء (رض) کی روایت سے مستدرک حاکم میں ہے اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ٢ ؎ آخر کو فرمایا پہلے لوگ اس سرکشی اور ناشکری کے وبال میں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئے اور حال کے لوگ ان پچھلے لوگوں کی قائم مقامی کے طور پر زمین میں آباد ہوئے جن کا ہر ایک کام اللہ کی نظر میں ہے کہ جیسا کوئی کرے گا ویسا ہی بدلہ پاے گا۔ صحیح بخاری و مسلم میں عمرو بن عوف (رض) کی روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کے فقر و فاقہ کی حالت کا کچھ خوف نہیں ہے بلکہ خوف ہے تو یہ ہے کہ پچھلے لوگوں کی طرح ان میں مال و متاع کی کثرت ہوجاوے گی جس کی شکر گزاری ان سے نہ ہوسکے گی تو اس وقت پچھلے لوگوں کی طرح ان پر بھی آفت آجاوے گی ٣ ؎ یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کے مالدار ہوجانے کے بعد جب تک ان کے کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق رہے بادشاہت حکومت سب کچھ ان کے قبضہ میں رہا جب وہ بات جاتی رہی ہر طرح کی ذلت اور خواری ان کے پلے پڑی۔ ١ ؎ مشکوۃ ص ٤٥٢ باب التوکل والصبر ٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٢٦٤ ج ٢ باب الترغیب نے الصبر الخ۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص۔ ٩٥٠ ج ٢ باب ما یحذر من زہرۃ الدنیا والتنافس فہای۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:12) الضر۔ تکلیف، بلا، سختی۔ ایذا۔ اسم ہے۔ یہ بدحالی خواہ اپنے نفس (اندورون) میں ہو بسبب علم و فضل اور عفت کی کمی ہونے کے۔ یا اپنے بدن میں کسی عضو کے نہ ہونے کے باعث یا کسی نقص کی بناء پر۔ خواہ حالت ظاہری میں بوجہ مال و جاہ کی قلت کے۔ لجنبہ۔ جنب پہلو۔ یعنی اپنے پہلو کے بل۔ کشفنا ماضی جمع متکلم۔ ہم نے دور کردیا۔ ہم نے ٹال دیا۔ (آیۃ ہذا) کھولنا اور پردہ ہٹانا کے معنی میں جیسے لقد کنت فی غفلۃ من ھذا فکشفنا عنک غطاء ک (50:22) یہ وہ دن ہے کہ اس سے تو غافل ہو رہا تھا اب ہم نے تجھ پر سے پردہ ہٹا دیا۔ مسرفین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ مجرور۔ اسراف مصدر۔ حد اعتدال سے آگے بڑھ جانے والے ۔ بےجا و بےہودہ صرف کرنے والے۔ حدّ حلال سے حرام کی طرف بڑھنے والے۔ زین للمسرفین۔ (1) یہ تزئین اللہ کی جانب سے بھی ہوسکتی ہے۔ (2) شیطان کی جانب سے بھی اور (3) انسان کی اپنے نفس امارہ کی طرف سے بھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6۔ اس آیت میں انسان کے انتہائی عجز اور ضعف کی طرف اشارہ ہے جس سے اوپر کی آیت کے مضمون کی تاکید مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے تو انسان فوراً ہلاک ہوجائیں۔ (کبیر) ۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اس قدر عاجز اور ناتواں ہے کہ جونہی کوئی تکلیف پہنچتی ہے لیٹے بیٹھے ہرحال میں اللہ کو پکارتا ہے لیکن اس کے بےوفائی کا یہ عالم ہے کہ جونہی تکلیف دور ہوتی ہے اسی غرور میں بدمست ہوجاتا ہے اور اپنی مصیبت سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔ حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ سکھ اور چین کی گھڑی میں اللہ کو یاد کرو وہ سختی اور تکلیف کی گھڑی میں تمہیں یاد رکھے گا۔ (فتح القدیر) ۔ 7۔ یعنی شیطان نے ان کے برے کاموں کو ان کی نظر میں بھلا کر دکھایا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اپنی اس روش سے باز آجائیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اوپر توحید کا ذکر ہوا ہے یہاں شرک کا باطل ہونا ایک خاص طور پر بیان فرماتے ہیں وہ یہ کہ مصیبت میں خود مشرکین ہی خدا کے سوا سب کو چھوڑ بیٹھتے ہیں پس شرک واقع میں جس طرح باطل ہے اسی طرح اس عقیدہ والوں کے طرف عمل سے بھی وہ لچر ثابت ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

اسراف کا معنی ہے : زیادتی کرنا، حد سے تجاوز کرنا، فضول خرچی کرنا۔ اسراف میں یہ جرم بھی شامل ہوتا ہے کہ کسی فرد، خاندان یا قوم کے لیے گناہ فیشن کا درجہ اختیار کر جائے اگر اسے روکا جائے تو وہ اس میں اپنی توہین اور گناہ کو چھوڑنے میں دقیانوسی ہونے کا طعنہ محسوس کرتا ہے۔ (إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوْا إِخْوَان الشَّیَاطِینِ وَکَان الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوْرًا)[ بنی اسرائیل : ٢٧] ” بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نافرمان تھا۔ “ فضول خرچی کی ممانعت : (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَتَصَدَّقُوْا وَالْبَسُوْا مَا لَمْ یُخَالِطْ إِسْرَافٌ وَلَا مَخِیْلَۃٌ )[ رواہ ابن ماجہ : باب البس ماشئت ] ” حضرت عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو جب تک اس میں فضول خرچی اور فخر نہ آئے۔ “ (وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا )[ الفرقان : ٦٧] ” نیک لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ “ جلد بازی شیطان کی حرکت : (حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُہَیْمِنِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الأَنَاۃُ مِنَ اللَّہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی التانی ] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ رحم و کرم فرمانے میں جلدی کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا منکر اپنے گناہوں میں پریشان رہتا ہے۔ ٤۔ دنیا دار انسان مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے۔ ٥۔ دنیا پرست اور مشرک مصیبت ٹل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ ٦۔ گناہ کرنے والوں کے لیے ان کے گناہ خوبصورت بنا دیے جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انسان جلد باز اور احسان فراموش ہے : ١۔ انسان جلد باز ہے۔ (بنی اسرائیل : ١١) ٢۔ انسان فطرتاً جلد باز ہے۔ (الانبیاء : ٣٧) ٣۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات : ٦) ٣۔ لوگ عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ (الحج : ٤٧) ٤۔ کیا وہ ہمارے عذاب کے معاملے میں جلدی کرتے ہیں۔ (الشعرا : ٢٠٤) ٥۔ میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا سو جلدی نہ کرو۔ (الانبیاء : ٣٧) ٦۔ اللہ کا حکم آنے والا ہے جلدی نہ کرو۔ (النحل : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا مس الانسان الضر اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ الضر سے مراد ہے سختی ‘ مصیبت۔ دعانا لجنبہ او قاعدًا او قائمًا تو وہ (نجات و خلاص کیلئے) ہم کو پکارتا ہے پہلو کے بل (یعنی لیٹ کر) یا بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر۔ یعنی مصیبت دور ہونے کی ہر حالت میں فوراً ہم سے دعا کرتا ہے لیٹے لیٹے ‘ بیٹھے بیٹھے ‘ کھڑے کھڑے۔ فلما کشفنا عنہ ضرہ مر پھر جب ہم اس کی تکلیف ہٹا دیتے ہیں ‘ کھول دیتے ہیں تو وہ اپنے سابق طریقے پر قائم رہتا ہے ‘ کفر کرتا رہتا ہے ‘ ناشکری کرتا ہے۔ کان لم یدعنا معلوم ہوتا ہے کہ (مصیبت اور دکھ کی حالت میں) اس نے ہم سے دعا ہی نہیں کی تھی ‘ ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ الی ضر مسہ اس مصیبت کو دور کرنے کیلئے جو اس کو پہنچی تھی۔ کذلک زین للمسرفین ما کانوا یعملون۔ ان حد سے گذرنے والوں کو ان کے اعمال اسی طرح مستحسن معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی خواہشات نفس میں انہماک اور ذکر و عبادت سے اعراض کو ان کی نظر میں محبوب بنا دیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد انسان کی ایک اور بےراہی بیان فرمائی جو اس کی طبیعت بنی ہوئی ہے۔ ارشاد فرمایا (وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآءِمًا) اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں لیٹے ہوئے ‘ بیٹھے ہوئے اور کھڑے ہوئے پکارتا ہے۔ (فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّکَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّمَّسَّہٗ ) پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہے کہ گویا اس نے تکلیف پہنچ جانے پر ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ یہ مضمون قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی وارد ہوا ہے۔ سورة زمر میں فرمایا (وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّدَعَا رَبَّہٗ مُنِیْبًا اِلَیْہِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَہٗ نِعْمَۃً مِّنْہُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدْعُوْآ اِلَیْہِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلّٰہِ اَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ ) (اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو اپنے رب کو پکارنے لگتا ہے اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پھر جب وہ اسے اپنے پاس سے نعمت عطا فرما دیتا ہے تو اس سے پہلے جس کے لئے پکار رہا تھا اسے بھول جاتا ہے اور اللہ کے لئے شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کی راہ سے دوسروں کو گمراہ کرے) پھر انسان کا یہ بھی مزاج ہے کہ حدود سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے گناہ کے کام کرتا ہے اور گناہ کے کاموں کو اچھا بھی سمجھتا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا (کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (اسی طرح حد سے بڑھ جانے والوں کے لئے وہ کام مزین کر دئیے گئے جو وہ کرتے ہیں) ۔ ١ ؂ قال البغوی فی معالم التنزیل (ص ٣٤٥ ج ٢) معناہ لو یعجل اللّٰہ الناس اجابۃ دعاءھم فی الشر والمکروہ استعجالھم بالخیر ای کما یحبون استعجالھم بالخیر لقضی الیھم اجلھم ای لاھلک من دعا علیہ واماتہ ‘ وفی روح المعانی (ص ٧٨ ج ١١) والاصل علی ما قال ابوالبقاء تعجیلا مثل تعجیلھم ‘ فحذف تعجیلا وصفتہ المضافۃ واقیم المضاف الیہ مقاھما۔ اہ۔ (علامہ بغوی معالم میں لکھتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ شر اور تکلیف دہ معاملہ میں بھی ان کی دعاء اسی طرح قبول کرتا جیسا کہ یہ بھلائی میں جلدی ملنے کو پسند کرتے ہیں تو ان کی میعاد پوری ہوچکی ہوتی یعنی جس کے خلاف یہ دعا کرتے اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کردیتا اور موت دے دیتا۔ اور روح المعانی میں ہے اور ابو البقا کے قول کے مطابق اصل میں یہ عبارت تھی تعجیلاً مثلَ تَعْجِیْلِھِمْ پھر تعجیلاً اور اس کی صف جو کہ مضاف ہے اسے حذف کردیا گیا اور مضاف الیہ کو اس جگہ رکھا گیا) فائدہ : آیت شریفہ کے مضمون سے دو باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ شر کی دعا نہیں مانگنی چاہئے ‘ انسان شر کی بھی دعا کرتا ہے اور خیر کی بھی دعا کرتا ہے۔ اور دونوں کی قبولیت کے لئے جلدی مچاتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق دعائیں قبول فرماتا ہے ‘ شر کی دعا جلد قبولیت نہیں پاتی ‘ اور خیر کی دعاء عموماً جلدی قبول فرما لیتا ہے مؤمن بندوں کو چاہئے کہ شرعی نقصان مرض و تکلیف کی دعا نہ کریں۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جانوں کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے اور اپنے اموال کے لئے بد دعا نہ کیا کرو ایسا نہ ہو کہ یہ بد دعا قبولیت کی گھڑی میں کر بیٹھو اور تمہاری یہ بد دعا قبول ہوجائے۔ (رواہ مسلم) دعا ہمیشہ خیر کی کرے اور جلدی نہ مچائے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کی دعاء قبول ہوتی ہے بشرطیکہ گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے جب تک کہ جلدی نہ مچائے ‘ عرض کیا گیا یا رسول اللہ جلدی مچانا کیا ہے ؟ فرمایا جلدی مچانایہ ہے کہ یوں کہنے لگے کہ میں نے تو دعا کی پھر دعا کی مجھے تو قبول ہوتی نظر نہیں آتی پھر دعا سے تنگ دل ہوجائے اور دعا کرنا چھوڑ دے (رواہ مسلم ص ٣٥٢ ج ٢) مطلب یہ ہے کہ دعاء خیر میں برابر لگا رہے تنگ دل ہو کر دعا نہ چھوڑے۔ آیت شریفہ سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ دکھ ‘ تکلیف میں مبتلا ہو یا کوئی مصیبت آئی ہوئی ہو یا آرام و راحت اور خیر و خوبی سے مالا مال ہو ہر حال میں دعا کرتے رہنا چاہئے ‘ یہ جو بندوں کا طریقہ ہے کہ مصیبت کے وقت بڑی بڑی دعائیں کرتے ہیں وظیفے پڑھتے ہیں، تسبیحیں گھس دیتے ہیں اور پھر جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو دعاؤں کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور بالکل ہی بھول جاتے ہیں گویا کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگا ہی نہ تھا ‘ مصیبت آئی تو اللہ کے سامنے گڑ گڑائے اور جب اللہ تعالیٰ نے مصیبت دور فرما دی تو اب سارا بھروسہ اسباب پر کرلیا اور ساری خیر و خوبی کو اپنی ہنر مندی اور سمجھداری کی طرف منسوب کردیا یہ سب آداب عبودیت کے خلاف ہے سورة زمر میں فرمایا (فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰہُ نِعْمَۃً مِّنَّا قَالَ اِنَّمَا اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ بَلْ ھِیَ فِتْنَۃٌ وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ ) (پھر جس وقت آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھ کو میری تدبیر سے ملی ہے بلکہ وہ ایک آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ سمجھتے نہیں) ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جسے اس بات کی خوشی ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں میں اس کی دعا قبول فرمائے اسے چاہئے کہ آسائش کے زمانے میں زیادہ دعا کیا کرے۔ (رواہ الترمذی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20: یہ شکوی ہے۔ انسان کیا احسان فراموش ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے واضح نشان دیکھ کر اور اس کی بےحساب نعمتیں ملاحظہ کر کے پھر بھی عقل وفکر سے کام نہیں لیتا اور اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے۔ حالانکہ جب کبھی اس پر کوئی بہت بڑی مصیبت آجاتی ہے تو اپنے تمام خود ساختہ معبودوں کو بھول کر ہر حالت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتا ہے۔ مشرکین عرب اپنی معمولی حاجات ومشکلات کے لیے تو اپنے معبودانِ باطلہ کو پکارتے تھے مگر جب کسی شدید ترین مصیبت میں مبتلا ہوجاتے تو سب کو چھوڑ چھاڑ کر صرف رب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جل جلالہ کو پکارتے اور اس کی دہائی دیتے حضرت شیخ (رح) فرماتے ہیں وہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنتے رہتے تھے کہ اگر مسئلہ توحید نہیں مانو گے تو اللہ تمہیں المناک عذاب سے ہلاک کردے گا اس لیے جب وہ دریاؤں اور سمندروں میں کشتیوں میں سفر کرتے اور تند و تیز ہواؤں سے خوف ناک موجیں کشتیوں کو ڈانواں ڈول کردیتیں تو فوراً پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات یاد آجاتی اور وہ سمجھنے لگتے کہ شاید جس عذاب سے پیغمبر ڈراتا تھا، وہ اب آپہنچا ہے اس لیے خالصۃً اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے۔ جیسا کہ سورة یونس ہی میں ہے۔ “ جَاءَتْھَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَاءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْا انَّھُمْ اُحِیْطَ بِھِمْ دَعَوُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ الخ ” (رکوع 3) اور سورة انعام رکوع 4 مٰن ارشاد ہے “ قُلْ اَرَاَیْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَاتَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ ” اور سورة انعام ہی میں ہے۔ “ قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً ۔ لَئِنْ اَنْجٰنٰا مِنْ ھٰذِهٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ ” (رکوع 8) ۔ مشرکین کا عقیدہ تھا کہ سارے عالم کا نظام تدبیر امور عظام اور حوادثِ شدیدہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں “ و عقیدہ اثباتِ خدائی تعالیٰ وآن کہ خدا خالق آسمان و زمین است و مدبر حوادثِ عظام و قادر بر ارسال رسل و مجازاۃ عباد بر اعمال ایشاں و مقدر حوادث عظام است و قادر قبل از وقوع آن درمیانِ ایشاں (مشرکین) ثابت بود ” (الفوز الکبیر باب اول فصل اول) ۔ 21: لیکن جب ہم نے اس سے مصیبت دور کردی تو وہ پھر سے اپنی پہلی راہ شرک پر گامزن ہوگیا اور اپنی تکلیف و مصیبت کو اس طرح بھول گیا کہ گویا اسے کوئی تکلیف آئی ہی نہ تھی جس کے لیے اس نے خدا کو پکارا تھا۔ “ اي مضی واستمر علی ماکان علیه قبل ونسی حالة الجهد والبلاء ” (روح ج 11 ص 80) “ والمعنی انه استمر علی حالته الاولی قبل ان یمسه الضر ونسی ماکان و فیه من الجهد والبلاء والضیق والفقر ” (خازن ج 3 ص 145) ۔ 22:“ الْمُسْرِفِیْنَ ” یعنی مشرکین وہ جو مشرکانہ اعمال وافعال بجا لاتے ہیں۔ شیطان ان کے دلوں میں ان کی اچھائی کا تصور بٹھا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت اور پکار سے اعراض کرنے مصیبت دور ہوجانے کے بعد پھر سے اپنے معبودان باطلہ کی پکار کو وہ بہت اچھا کام خیال کرتے ہیں۔ “ (مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) من الاعراض عن الذکر والدعاء والانھماک فی الشھوات ” (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 اور جب انسان کو کوئی تکلیف اور ضرر پہنچ جاتا ہے تو وہ لیٹے بھی اور بیٹھے بھی اور کھڑے بھی غرض ! ہر حال میں ہم کو پکارتا ہے پھر جب ہم انسان سے اس کی تکلیف اور ضرر کو دور اور زائل کردیتے ہیں تو پھر اپنی پہلی حالت پر آجاتا ہے اور ایسا چلا جاتا ہے جیسے اس نے کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہم کو پکارا ہی نہیں تھا اسی طرح حد سے بڑھ جانے والے لوگوں کی نظر میں ان کے وہ اعمال جو وہ کررہے ہیں خوشنما اور مستحسن کردیئے جاتے ہیں۔ یعنی انسانوں میں سے وہ انسان جو کفر و انکار کی روش اختیار کرچکے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ مصیبت کے وقت اپن معبودان باطلہ کو بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہر حال میں پکارتے ہیں پھر جب وہ بلا اللہ تعالیٰ ٹلا دیتا ہے اور اس بلا کو دور کردیتا ہے تو پھر اپنی پہلی حالت پر لوٹ آتے ہیں اور شرک کرنے لگتے ہیں اور ایسے ہوجاتے ہیں کہ گویا خدا کو کبھی اپنی مصیبت کو ہٹانے کے لئے پکارا ہی نہ تھا یعنی خدا سے بالکل بےتعلق ہوجاتے ہیں اور اس قسم کی حرکاتِ قبیحہ کو اچھا سمجھتے ہیں یعنی ایسی حالت پر پہنچ چکے ہیں کہ برائی کو بھلائی جانتے ہیں۔.