Surat Younus

Surah: 10

Verse: 13

سورة يونس

وَ لَقَدۡ اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا ۙ وَ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ مَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡقَوۡمَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۳﴾

And We had already destroyed generations before you when they wronged, and their messengers had come to them with clear proofs, but they were not to believe. Thus do We recompense the criminal people

اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کر دیا جب کہ انہوں نے ظلم کیا حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر بھی دلائل لے کر آئے اور وہ ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے؟ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Admonition held in the Destruction of the Previous Generations Allah tells; وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُواْ وَجَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُواْ لِيُوْمِنُواْ كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَيِفَ فِي الاَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ سابقہ اقوام پر تکذیب رسول کی وجہ سے عذاب آئے تہس نہس ہوگئے ۔ اب تم ان کے قائم مقام ہو اور تمہارے پاس بھی افضل الرسل آچکے ہیں ۔ اللہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے اعمال کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی ، مزے کی ، سبز رنگ والی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ دنیا سے ہوشیار رہو ۔ اور عورتوں سے ہوشیار رہو ۔ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی آیا تھا ۔ ( مسلم ) حضرت عوف بن مالک نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک رسی لٹکائی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے مکمل تھام لیا ، پھر لٹکائی گئی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح اسے مضبوطی سے تھام لیا ۔ پھر منبر کے ارد گرد لوگوں نے ناپنا شروع کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تین ذراع بڑھ گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خواب سن کر فرمایا بس ہٹاؤ بھی ۔ ہمیں خوابوں کیا حاجت؟ پھر اپنی خلافت کے زمانے میں عمر فاروق نے کہا عوف تمہارا خواب کیا تھا ؟ حضرت عوف نے کہا جانے دیجئے ۔ جب آپ کو اس کی ضرورت ہی نہیں ۔ آپ نے جب مجھے ڈانٹ دیا پھر اب کیوں پوچھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس وقت تو تم خلیفۃالرسول کو ان کی موت کی خبر دے رہے تھے ۔ اب بیان کرو انہوں نے بیان کیا ۔ تو آپ نے فرمایا لوگوں کا منبر کی طرف تین ذراع پانا یہ تھا کہ ایک تو خلیفہ برحق تھا ۔ دوسرے خلیفہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بالکل بےپرواہ تھا ۔ تیسرا خلیفہ شہید ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا کہ ہم تمہارے اعمال دیکھیں ۔ اے عمر کی ماں کے لڑکے تو خلیفہ بنا ہوا ہے ۔ خوب دیکھ بھال لے کہ کیا کیا عمل کر رہا ہے؟ آپ کا فرمان کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا سے مراد ان چیزوں میں ہے جو اللہ چاہے ۔ شہید ہو نے سے مراد یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وقت مسلمان آپ کی مطیع و فرمانبردار تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یہ کفار کو تنبیہ ہے کہ گزشتہ امتوں کی طرح تم بھی ہلاکت سے دو چار ہوسکتے ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] قرن کے معنی ایک عہد کے لوگ ہیں اور یہاں قرون سے ایسی اقوام مراد ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں عروج حاصل کیا تھا اوراقوام عالم میں نامور شمار ہوئی تھیں اور ہلاک کرنے سے یہی مراد نہیں کہ ان پر کوئی ارضی و سماوی عذاب وغیرہ بھیج کر ان کی نسل تک کو تباہ کر ڈالا تھا بلکہ ہلاکت کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جتنا اس قوم نے عروج حاصل کیا تھا اتنا ہی وہ زوال پذیر ہوجائے حتیٰ کہ اتنی کہ قعرمذلت میں گرے اقوام عالم میں وہ شمار کے قابل بھی نہ رہے یعنی ان کے گناہوں کی پاداش میں بتدریج اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ [٢٠] ظلم کا مفہوم :۔ ظلم کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ اس کا اطلاق ہر گناہ اور زیادتی کے کام پر ہوسکتا ہے چناچہ سب سے بڑے گناہ شرک کو ظلم عظیم کہا گیا ہے اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جب کوئی قوم سر نکالتی یا عروج حاصل کرتی ہے تو یہی وقت اس کے ظلم و زیادتی کا ہوتا ہے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھ کر ان پر ہر جائز و ناجائز طریقے سے تسلط جمانا اپنا حق سمجھتی ہے اور اللہ کی یاد سے غافل ہو کر ہر گناہ کے کام کی مرتکب ہوتی ہے ایسے ہی اوقات میں اللہ تعالیٰ ان کے پاس اپنے رسول بھیجتا ہے مگر جو لوگ اپنی عیش و عشرت میں مست اور گناہوں کے کاموں میں مستغرق ہوں وہ بھلا رسولوں کی بات کیسے مانیں گے چناچہ عموماً ایسی مجرم ضمیر قوموں نے رسولوں کا انکار ہی کیا اس طرح جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت پوری ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے اپنا طرز زندگی نہ بدلا تو اللہ نے ان کے جرائم کی پاداش میں انہیں ہلاک کر ڈالا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ۔۔ : قرن سے مراد ایک عہد کے لوگ ہیں، یہاں مراد ایسی اقوام ہیں جنھوں نے اپنے اپنے دور میں عروج حاصل کیا، پھر ظلم کی وجہ سے ملیا میٹ کردی گئیں، یا عروج سے زوال میں جاگریں۔ یہ دونوں صورتیں ہی ہلاکت ہیں۔ اوپر بتایا کہ ان کی بددعا اور طلب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نہ اترنے میں سراسر اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے، پھر ان کا حال یہ ہے کہ تکلیف نازل ہونے پر آہ وزاری کرنے لگتے ہیں، اب انھیں ڈرایا جا رہا ہے کہ تمہاری بداعمالیوں کے باوجود اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹل جائے تو تمہیں بےفکر نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ایک نہ ایک دن ان بداعمالیوں کی سزا تو مل کر ہی رہے گی۔ تمہیں چاہیے کہ پہلی مجرم قوموں کے حالات پر غور کرو کہ آخر ان کا انجام کیا ہوا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The subject of verse 12 has been emphasized from a different angle in verse 13. It has been said: Let no one miscalculate that punishment cannot come in this world just because Allah Ta` ala gives respite to those who deny and disbelieve. The history of past peoples shows that different kinds of punishments have visited them because of their con¬tumacy and disobedience right here in this world. It is a different matter that Allah Ta` ala has promised that no mass punishment will come upon the Muslim ummah in consideration of the honor of Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the foremost among prophets. But, it is in the face of this very merciful indulgence of Almighty Allah that people have become audacious enough to come forward and invite, even demand, Divine punishment. On the contrary, it is necessary to remember that indifference to Divine punishment is not proper under any condition even for them (Muslims). The reason is that the promise of not sending mass punishment upon the Muslim ummah, or the world as a whole, certainly stands there, but the coming of such punishment on particular individuals and nations is possible even now.

تیسری آیت میں اسی دوسری آیت کے مضمون کی مزید توضیح اور تاکید اس طرح کی گئی ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے ڈھیل دینے سے یہ نہ سمجھے کہ دنیا میں عذاب آہی نہیں سکتا، پچھلی قوموں کی تاریخ اور ان کی سرکشی و نافرمانی کی سزا میں مختلف قسم کے عذاب اسی دنیا میں آچکے ہیں، اس امت میں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اکرام کی وجہ سے یہ وعدہ فرما لیا ہے کہ عذاب عام نہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ کے اسی لطف و کرم نے ان لوگوں کو ایسا بےباک کردیا ہے کہ وہ بڑی جرأت سے عذاب الہٰی کو دعوت دینے اور اس کا مطالبہ کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ عذاب الہٰی سے بےفکری ان کے لئے بھی کسی حال میں روا نہیں، کیونکہ پوری امت اور پوری دنیا پر عذاب عام نہ بھیجنے کا وعدہ ضرور ہے مگر خاص خاص افراد اور قوموں پر عذاب آجانا اب بھی ممکن ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا۝ ٠ ۙ وَجَاۗءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ١٣ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا، جب کہ انہوں نے کفر وشرک اختیار کیا، حالانکہ کہ ان کے پیغمبر بھی انکے پاس اوامرو انواہی اور دلائل لے کر آئے تھے اور وہ ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے جب کہ میثاق میں اس چیز کو جھٹلاچکے تھے، ہم مشرکوں کو اس طرح ہلاک کردیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16. In Arabic, the word qarn, which occurs in the above verse, usually denotes 'the people of a given age'. However, the word in its several usages in the Qur'an, connotes a 'nation' which, wielded in its heyday, whether fully or partially, the reins of world leadership. When it is said that a certain nation was 'destroyed' this does not necessarily mean its total annihilation. When any such nation suffers the loss of its ascendancy and leadership, when its culture and civilization become extinct, when its identity is effaced, in fact, when such a nation disintegrates and its component pans become assimilated into other nations, then it is fair to say that it has suffered destruction. 17. The expression zulm (wrong-doing, injustice) in the above verse has not been used in the limited sense in which it is generally used. Instead, here the word embraces the whole range of sins which consists of man exceeding the limits of service and obedience to God. (For further explanation see Towards Understanding the Qur'an, vol. I, al-Baqarah, 2, n. 49, p. 64 - Ed.)

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :16 اصل میں لفظ ”قرن“ استعمال ہوا ہے جس سے مراد عام طور پر تو عربی زبان میں ایک ”عہد کے لوگ“ ہوتے ہیں ، لیکن قرآن مجید میں جس انداز سے مختلف مواقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ”قرن“ سے مراد وہ قوم ہے جو اپنے دور میں برسر عروج اور کلی یا جزئی طور پر امامت عالم پر سرفراز رہی ہو ۔ ایسی قوم کی ہلاکت لازما یہی معنی نہیں رکھتی کہ اس کی نسل کو بالکل غارت ہی کر دیا جائے ۔ بلکہ اس کا مقام عروج و امارت سے گرا دیا جانا ، اس کی تہذیب و تمدن کا تباہ ہو جانا ، اس کے تشخص کا مٹ جانا اور اس کے اجزاء کا پارہ پارہ ہو کر دوسری قوموں میں گم ہو جانا ، یہ بھی ہلاکت ہی کی ایک صورت ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :17 یہ لفظ ظلم ان محدود معنوں میں نہیں ہے جو عام طور پر اس سے مراد لیے جاتے ہیں ، بلکہ یہ ان تمام گناہوں پر حاوی ہے جو انسان بندگی کی حد سے گزر کر کرتا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ٤۹ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:13) القرون۔ قرن کی جمع۔ وہ قومیں جن سے ہر ایک کا زمانہ دوسری سے جدا ہو۔ قومیں۔ امتیں۔ (10:13) لما۔ جب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 13 تا 14 اھلکنا (ہم نے ہلاک کیا) القرون (قومیں، نسلیں) نجزی (ہم بدلہ دیتے ہیں) خلتف (قائم مقام، نئاب، خلیفہ) لننطر (تاکہ ہم دیکھیں) تشریح :- آیت نمبر 13 تا 14 قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پوری وضاحت سے ارشاد فرمیا ہے کہ نافرمانیوں، گناہوں اور ظلم و بغاوت پر جری ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں کی فوراً ہی گرفت نہیں کرتا بلکہ وہ حلیم و کریم ہے وہ اپنے بندوں کو ایک خاص مدت تک مہلت عمل اور ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے تاکہ وہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر اپنے لئے بہتر اور مناسب راستہ کا انتخاب کرسکیں ۔ لیکن اگر پھر بھی وہ اپنی روش زندگیک و تبدیل نہیں کرتے تب ان پر اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے اور ساری قوتوں اور طاقتوں کے باوجود تباہ و برباد کر رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ شان کریمی ہے کہ وہ غفلت اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایسے پاکیزہ نفس انسانوں یعنی اپنے رسولوں اور نبیوں کو بھیجتا رہا ہے جنہوں نے ان کو گناہوں کی دلدل سے نکالنے اور برے انجام سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کیں۔ تمام پیغمبروں کے بعد اللہ تعالیٰ نے فخر کائنات نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری رسول اور آخری نبی بنا کر بھیجا جنہوں نے بہت تھوڑی مدت میں ایسے لاکھوں جاں نثاروں کی پاکیزہ جماعت تیار فرمائی جو قیامت تک زندگی کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اب چونکہ نبوت و رسالت کا دروازہ قیامت تک کے لئے بند ہوچکا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسے انتظامات فرما دیئے ہیں کہ قرآن و سنت اور اس کی تعلیمات قیامت تک محفوظ رہیں گی اب حاملین قرآن و سنت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی طرح ساری دنیا میں ان سچائیوں کو پھیلان کے ذمہ دار بنا دیئے گئے ہیں۔ چونکہ قرآن کریم کے مخاطب اول مکہ مکرمہ کے لوگ ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ مکہ والوں سے ارشاد فرما رہے ہیں کہ اے مکہ کے لوگو ! تم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو کہ تم سے پہلے بہت سی وہ قومیں گذر چکی ہیں جن کی بستیوں پر سے تم گذرتے ہو۔ ان کے کھنڈرات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہر طرح کی قوت و طاقت رکھنے کے باوجود جب انہوں نے نافرمانیوں اور بدکاریوں کے طریقے اختیار کئے اور اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کی نافرمانی کی تو پھر ان پر وہ عذاب مسلط کئے گئے جن سے انہیں بچانے والا کوئی نہ تھا۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اے مکہ والو ! اگر تم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت سے وابستگی اختیار کرلی تو تمہاری نجات کا سامان ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ان کی نافرمانی کی گئی تو قیامت تک تم اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائو گے۔ ان آیات میں جہاں مکہ والوں سے خطاب ہے وہیں قیامت تک آنے والے اہل ایمان کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ تاریخ کے اس آئینہ میں تم اچھی طرح دیکھ لو کہ جن قوموں نے ظلم ، بغاوت اور نافرمانیوں کے راستے کا انتخبا کیا وہ دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹا دی گئیں۔ اب تم گزشتہ قوموں کے بعد ان کی جگہ پر موجود ہو دیکھا یہ جائے گا کہ تم اللہ کے سامنے اپنے حسن عمل یا فرماں برداری کا انداز اختیار کر کے اپنا نامہ اعمال کس طرح مرتب کرتے ہو ؟ اگر تم نے بھی وہی روش اختیار کی جس کی وجہ سے پچھلی قومیں تباہ و برباد کردی گئیں تو پھر اللہ کی سنت یعنی اس کا متعین اور اٹل قانون یہ ہے کہ جہاں وہ حسن عمل کرنے والوں کی چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بےانتہا اجر وثواب عطا فرماتا ہے وہیں جب وہ نافرمانیوں پر گرفت کرتا ہے تو اس سے بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حد سے گزر جانے والوں اور جرائم کا وطیرہ اختیار کرنے والوں کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ جن لوگوں نے گناہوں کو فیشن اور جرائم کو وطیرہ بنا لیا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے گزر جائیں تو اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کی ضرور گرفت کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں ظالموں اور مجرموں کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے جب حد عبور کرنے سے دنیا کا نظام درہم برہم ہونا شروع ہوجاتا ہے تب اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو تباہی کے گھاٹ اتار دیا۔ حالانکہ ان کے پاس رسول بھیجے گئے جنہوں نے روشن اور ٹھوس دلائل کے ساتھ انہیں راہ راست پر لانے کی بےپناہ کوششیں فرمائیں۔ جب وہ کسی طرح بھی ہدایت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں تہس نہس کردیا۔ ظلم سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفرو شرک کرنا اور لوگوں پر مظالم ڈھانا ہے۔ قرن کی جمع قرون ہے جس کے اہل علم نے تین معنی کیے ہیں۔ (١) ایک نسل۔ (٢) سو سال۔ (٣) کسی قوم کے اقتدار کا مخصوص دور۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی دوسری نسل یا کسی اور قوم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنایا۔ تاکہ وہ انہیں بھی آزمائے اور دیکھے کہ وہ کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں مخاطب کی ضمیر لاکرہر دور کے انسانوں کو متنبہ کیا ہے کہ تم آزمائش گاہ میں ہو اور تمہارا رب تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا ہوش سے کام لو اور نیک بن کر رہو۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم نے کس طرح اس کی جگہ سنبھالی حالانکہ ظالموں کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کہ ان کے جورو استبداد سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے گی۔ لیکن جب اللہ کا فیصلہ صادر ہوا تو وہ اس طرح نَسْیًا مَنْسِیًِا ہوئے کہ کوئی ان کی مدد کرنے اور ان کو یاد کرنے والا نہ تھا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَھُوَ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَعِیّتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْءُوْلَۃٌ عَنْھُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہٖ وَھُوَ مَسْءُوْلٌ عَنْہُ اَ لَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ) [ رواہ البخاری : باب الْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِی بَیْتِ زَوْجِہَا ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خبردار ! تم سب ذمہ دار ہو۔ تم سب سے تمہارے ماتحت لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لوگوں کا امیر ذمہ دار ہے ‘ اس سے عوام کے بارے میں سوال ہوگا۔ گھر کا فرد اعلیٰ اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہ ہے ‘ اس سے اس کے گھر والوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے ‘ اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے ‘ اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا۔ خبردار ! تم میں سے ہر ایک شخص نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ما تحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ نے لوگوں کی ظلم کی وجہ سے ان کو ہلاک کیا۔ ٣۔ کچھ لوگ واضح دلائل دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول مبعوث کرنے سے پہلے اس کو عذاب نہیں دیتا۔ ٥۔ ظالم قوم کی جگہ اللہ دوسری قوم لے آتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تفسیر بالقرآن خلافت اور اس کی ذمہ داریاں : ١۔ پھر ہم نے زمین میں ان کے بعد تمہیں خلافت دی تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ (یونس : ١٤) ٢۔ اگر اللہ چاہتا تو تمہیں لے جاتا اور تمہارے بعد کسی اور کو خلیفہ بنا دیتا۔ (الانعام : ١٣٣) ٣۔ میرا رب تمہارے سوا کسی اور کو خلافت دے دے تو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ہود : ٥٧) ٤۔ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ (الاعراف : ١٢٩) ٥۔ اللہ نے مومنین اور عمل صالح کرنے والوں کے ساتھ خلافت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (النور : ٥٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد اھلکنا القرون من قبلکم اور (اے اہل مکہ ! ) تم سے سابق قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں۔ لما ظلموا جب انہوں نے (کفر و بداعمالی کر کے) خود اپنے اوپر ظلم کیا۔ وجاء تھم رسلھم بالبینت اور ان کے پیغمبر کھلی ہوئی واضح دلیلیں ان کے پاس لا چکے (مگر انہوں نے کسی دلیل کو نہیں مانا) گویا حجت تمام ہوگئی اور ہلاکت کا ان کو استحقاق ہوگیا۔ اسی مضمون کو دوسری آیت میں بیان کیا ہے ‘ فرمایا ہے : وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ۔ وما کانوا لیؤمنوا اور وہ (ظالم قومیں) ایسی تھیں ہی نہیں کہ ایمان لاتیں۔ یعنی ان میں ایمان لانے کی فطری صلاحیت ہی نہ تھی۔ اللہ کے اسم مضل (گمراہ کرنے والا) کا پرتو ان کا مبدء تعین تھا ‘ اسلئے اللہ نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے ازلی علم میں وہ مؤمن نہ تھے ‘ اللہ (تخلیق سے پہلے ہی) جانتا تھا کہ وہ کافر مریں گے۔ کذلک نجزی القوم المجرمین۔ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ یعنی پیغمبروں کی تکذیب کرنے والوں اور کفر پر جمے رہنے والوں کی سزا ان کو ہلاک کردینا ہے جبکہ یہ امر یقین ہوجائے کہ ان کو مہلت دینے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا ‘ پس ایسی ہی سزا ہم ہر مجرم کو یا تم کو دیں گے۔ جرم کا تقاضا ہی یہ ہے ‘ جرم ہلاکت کا مستحق بنا دیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ) (الآیتین) یعنی ہم نے تم سے پہلے بہت سی جماعتوں کو ہلاک کیا۔ جبکہ انہوں نے ظلم کیا اور ان لوگوں کے پاس ان کے رسول کھلے ہوئے دلائل لے کر آئے۔ وہ ایمان لانے والے نہ تھے لہٰذا وہ ایمان نہ لائے (جب وہ ایمان نہ لائے تو انہیں ہلاک فرما دیا) ہم مجرمین کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اس آیت میں منکرین کو تنبیہ ہے کہ ہمارے ڈھیل دینے سے یہ نہ سمجھ لو کہ عذاب نہ آئے گا گزشتہ اقوام کی تاریخ اور ان کی سرکشی اور نافرمانی اور پھر ان پر عذاب آنے کے واقعات سے عبرت حاصل کرلو۔ عذاب الٰہی سے بےفکر ہوجانا بہت بڑی ناسمجھی ہے مختلف ممالک میں وقفہ وقہو سے عذاب آتا رہتا ہے پھر بھی آنکھ نہیں کھولتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23: تخویف دنیوی “ تخوف بذلک کفار مکة ” (خازن) ۔ جو لوگ ایمان نہیں لاتے۔ توحید کا انکار کرتے اور رسالت و قیامت کی تکذیب کرتے ہیں وہ دنیا کی زندگی اور یہاں کی عیش و طرب پر مطمئن نہ ہوں اور یہ خیال نہ کریں کہ ان کا کچھ بگڑ نہیں سکتا۔ ان سے پہلے قوم نوح اور عاد وثمود وغیرہ کا حشر ان کو اچھی طرح معلوم ہے ان کے پاس اللہ کے پیغمبر توحید کا پیغام لے کر آئے اور واضح اور روشن دلائل سے مسئلہ توحید کو بیان کیا مگر انہوں نے اس کا انکار کیا اور ماننے پر تیار نہ ہوئے تو ہم نے ان کو شدید ترین عذابوں سے نیست و نابود کردیا۔ “ لَمَّا ظَلَمُوْا ” یعنی جب انہوں نے اللہ کی توحید کا انکار کر کے اور اس کے پیغمبروں کو جھٹلا کر شرک کرنا شروع کردیا۔ “ لَمَّا ظَلَمُوْا یعنی لما اشرکوا ” (خازن و مدارک ج 3 ص 119) اي کفروا وا شرکوا ” (قرطبی ج 8 ص 317) ۔ “ کَذٰ لِکَ نَجْزِيْ الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ ” مجرموں سے ایسا سلوک کرنا ہماری سنت جاریہ ہے لہٰذا اگر مشرکین مکہ نے بھی عاد وثمود کی طرح تکذیب کی اور شرک وکفر پر اڑے رہے تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا “ یعنی کما اھلکنا الامم الخالیة لما کذبوا رسلھم کذلک نھلککم ایھا المشرکون بتکذیبکم محمدًا صلی اللہ علیه وسلم ” (خازن ج 3 ص 146) ۔ 24: اقوام گذشتہ کے بعد اب تمہاری باری ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس اپنا آخری پیغمبر پیغامِ توحید دے کر بھیجا ہے تاکہ تمہاری بھی آزمائش ہوجائے کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ تمہارے ساتھ بھی حسب سابق معاملہ ہوگا۔ ماننے والے جزائے خیر کے مستحق ہوں گے اور منکرین عذاب شدید کے سزا وار۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 اور یقیناً ہم تم سے پہلے بہت سی قوموں اور گروہوں کو جب انہوں نے ظالمانہ اور مشرکانہ رویہ اختیار کیا ہلاک کرچکے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل بھی لے کر آئے لیکن وہ لوگ ایسے نہ تھے جو مان کردیتے۔ ہم مجرموں اور گناہ گاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ یعنی اپنے ظالمانہ رویہ پر ایسے مغرور تھے کہ رسولوں کی باتوں پر ایمان ہی نہیں لائے اور دلائل کی پروا نہ کی بالآخر ان کو ہلاک کرڈالا۔