Surat Younus

Surah: 10

Verse: 21

سورة يونس

وَ اِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَۃً مِّنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُمۡ اِذَا لَہُمۡ مَّکۡرٌ فِیۡۤ اٰیَاتِنَا ؕ قُلِ اللّٰہُ اَسۡرَعُ مَکۡرًا ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَکۡتُبُوۡنَ مَا تَمۡکُرُوۡنَ ﴿۲۱﴾

And when We give the people a taste of mercy after adversity has touched them, at once they conspire against Our verses. Say, " Allah is swifter in strategy." Indeed, Our messengers record that which you conspire

اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Man changes when He receives Mercy after Times of Distress Allah tells; وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاء مَسَّتْهُمْ ... And when We let mankind taste mercy after some adversity has afflicted them, Allah tells us that when He makes men feel His mercy after being afflicted with distress, ... إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي ايَاتِنَا ... behold! They take to plotting against Our Ayat. The coming of mercy after distress is like the coming of ease after hardship, fertility after aridity, and rain after drought. Mujahid said that; man's attitude indicates a mockery and belying of blessings. The meaning here is similar to Allah's statement: وَإِذَا مَسَّ الاِنسَـنَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَأيِمًا And when harm touches man, he invokes Us, lying on his side, or sitting or standing. (10:12) Al-Bukhari recorded that; Allah's Messenger led the Subh (Dawn) prayer after it had rained during the night, then he said: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمُ اللَّيْلَةَ Do you know what your Lord has said last night? They replied, "Allah and His Messenger know better." He said: قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُوْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَاكَ مُوْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَاكَ كَافِرٌ بِي مُوْمِنٌ بِالْكَوْكَب Allah said; "This morning, some of My servants have become believers and some disbelievers in Me. He who said: `We have had this rainfall due to the grace and mercy of Allah' is a believer in Me and a disbeliever in the stars. And he who said `we have had this rainfall due to the rising of such and such star' is a disbeliever in Me and a believer in the stars. The Ayah: ... قُلِ اللّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ... Say: "Allah is more swift in planning!" means that Allah is more capable of gradually seizing them with punishment, while granting them concession of a delay until the criminals think that they would not be punished. But in reality they are in periods of respite, then they will be taken suddenly. ... إنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ Certainly, Our messengers (angels) record all of that which you plot. The noble writers (meaning the angels who write the deeds) will write everything that they do and keep count of their deeds. Then they will present it before the All-Knowing of the seen and unseen worlds. The Lord will then reward them for the significant deeds and even the seemingly insignificant that may be as tiny as a spot on a date pit. Allah further states:

احسان فراموش انسان انسان کی ناشکری کا بیان ہو رہا ہے کہ اسے سختی کے بعد کی آسانی ، خشک سالی کے بعد کی ترسالی ، قحط کے بعد کی بارش اور بھی ناشکرا کر دیتی ہے یہ ہماری آیتوں سے مذاق اڑانے لگتا ہے ۔ کیا تو اس وقت ہماری طرف ان کا جھکنا اور کیا اس وقت ان کا اکڑنا ۔ رات کو بارش ہوئی ، صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر پوچھا جانتے بھی ہو رات کو باری تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے؟ صحابہ نے کہا ہمیں کیا خبر؟ آپ نے فرمایا اللہ کا ارشاد ہوا ہے کہ صبح کو میرے بہت سے بندے ایماندار ہو جائیں گے اور بہت سے کافر ۔ کچھ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے اور ستاروں کی ایسی تاثیروں کے منکر ہو جائیں گے اور کچھ کہیں گے کہ فلاں فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش برسائی گئی وہ مجھ سے کافر ہو جائیں گے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ جیسے یہ چالبازی ان کی طرف سے ہے ۔ میں بھی اس کے جواب سے غافل نہیں انہیں ڈھیل دیتا ہوں ۔ یہ اسے غفلت سمجھتے ہیں پھر جب پکڑ آجاتی ہے تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں ۔ میں غافل نہیں ۔ میں نے تو اپنے امین فرشتے چھوڑ رکھے ہیں جو ان کے کرتوت برابر لکھتے جا رہے ہیں ۔ پھر میرے سامنے پیش کریں گے میں خود دانا بینا ہوں لیکن تاہم وہ سب تحریر میرے سامنے ہوگی ۔ جس میں ان کے چھوٹے بڑے بڑے بھلے سب اعمال ہوں گے ۔ اسی اللہ کی حفاظت میں تمہارے خشکی اور تری کے سفر ہوتے ہیں ۔ تم کشتیوں میں سوار ہو ، موافق ہوائیں چل رہی ہیں ۔ کشتیاں تیر کی طرح منزل مقصود کو جا رہی ہیں تم خوشیاں منا رہے ہو کہ یکایک باد مخالف چلی اور چاروں طرف سے پہاڑوں کی طرح موجیں اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ سمندر میں تلاطم شروع ہو گیا ۔ کشتی تنکے کی طرح جھکولے کھانے لگی اور تمہارے کلیجے الٹنے لگے ۔ ہر طرف سے موت نظر آنے لگی ، اس وقت سارے بنے بنائے معبود اپنی جگہ دھرے رہ گئے اور نہایت خشوع وخضوع سے صرف مجھ سے دعائیں مانگیں جانے لگیں وعدے کئے جانے لگے کہ اب کے اس مصیبت سے نجات مل جانے کے بعد شکر گزاری میں باقی عمر گزار دیں گے ، توحید میں لگے رہیں گے کسی کو اللہ کا شریک نہیں بنائیں گے ، آج سے خالص توبہ ہے ۔ لیکن ادھر نجات ملی ، کنارے پر اترے ، خشکی میں چلے پھرے کہ اس مصیبت کے وقت کو اس خالص دعا کو پھر اقرار شکر و توحید کو یکسر بھول گئے اور ایسے ہوگئے گویا ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا ۔ ہم سے کبھی معاملہ ہی نہ پڑا تھا ۔ ناحق اکڑفوں کرنے لگے ، مستی میں آگئے ۔ لوگو ! تمہاری اس سرکشی کا وبال تم پر ہی ہے ۔ تم اس سے دوسروں کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ گناہ جس پر یہاں بھی اللہ کی پکڑ نازل ہو اور آخر میں بھی بدترین عذاب ہو فساد و سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ تم اس دنیائے فانی کے تھوڑے سے برائے نام فائدے کو چاہے اٹھالو لیکن آخر انجام تو میری طرف ہی ہے ۔ میرے سامنے آؤ گے میرے قبضے میں ہوگے ۔ اس وقت ہم خود تمہیں تمہاری بد اعمالیوں پر متنبہ کریں گے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیں گے لہذا اچھائی پاکر ہمارا شکر کرو اور برائی دیکھ کر اپنے سوا کسی اور کو ملامت اور الزام نہ دو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 مصیبت کے بعد نعمت کا مطلب ہے۔ تنگی، قحط سالی اور آلام و مصائب کے بعد، رزق کی فروانی، اسباب معیشت کی ارزانی وغیرہ۔ 21۔ 2 اس کا مطلب ہے کہ ہماری ان نعمتوں کی قدر اور ان پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یعنی ان کی وہ بری تدبیر ہے جو اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں۔ 21۔ 3 یعنی اللہ کی تدبیر ان سے کہیں زیادہ تیز ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کا مواخذہ کرنے پر قادر ہے، وہ جب چاہے ان کی گرفت کرسکتا ہے، فوراً بھی اور اس کی حکمت تاخیر کا تقاضا کرنے والی ہو تو بعد میں بھی۔ مکر، عربی زبان میں خفیہ تدبیر اور حکمت عملی کو کہتے ہیں، جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ یہاں اللہ کی عقوبت اور گرفت مکر سے تعبیر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] اس آیت میں اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا اسی سورة کی آیت نمبر ١١ میں ذکر آیا ہے۔ یہ قحط مکہ پر مسلسل سات سال تک مسلط رہا پھر آپ کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی اب سوال یہ ہے کہ اس قحط میں اور اس کے دور ہونے میں تمہارے لیے کوئی نشانی نہیں کہ تم اب کسی اور معجزہ کا مطالبہ کرنے لگے ہو اس قحط کے دوران تم نے دیکھ لیا کہ باوجود تمہاری فریادوں کے تمہارے معبود تمہاری اس مصیبت کو تم سے دور نہ کرسکے پھر جب اللہ نے تمہاری مصیبت دور کردی تو پھر تم اپنے وعدوں سے فرار کی راہ سوچنے لگے اور ایسے مکر اور بہانے بنانے شروع کردیے جس سے انہیں اپنے قدیم شرک پر جمے رہنے کے لیے تائید حاصل ہو اور توحید کے اقرار سے بچ سکو جو کچھ بھی چالیں تم چل رہے ہو اس کا وبال تمہیں پر پڑے گا اور تمہاری ان سب چالوں کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا : یعنی جب ہم لوگوں کو بیماری کے بعد شفا، قحط کے بعد خوش حالی، جنگ کے بعد امن یا انھیں پہنچنے والی کسی بھی تکلیف کے بعد اپنی کسی رحمت کی لذت چکھاتے ہیں تو ہمارے شکر گزار ہو کر ہماری توحید اور ہمارے رسول کی رسالت ماننے کے بجائے اسے جھٹلانے اور اس کا مذاق اڑانے کی کوئی نہ کوئی چال اختیار کرتے ہیں۔ ” مکر “ کا معنی خفیہ تدبیر ہے، جو شر کے لیے ہو، یہ لفظ کبھی خیر کے لیے بھی استعمال ہوجاتا ہے، یا مقابلے میں بول لیا جاتا ہے۔ کفار کی اس عادت کی مثال فرعون کا پے در پے معجزے دیکھ کر انھیں جادو کہہ کر ایمان لانے سے انکار ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٣٠ تا ١٣٦) انسان کی اس عادت کا تذکرہ سورة زمر (٨) ، ہود (١٠) اور اعراف (٩٥) میں بھی کیا گیا ہے۔ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا : اللہ کی چال سے مراد وہ سزا ہے جو وہ مشرکین کو ان کی مکاریوں اور چال بازیوں پر دیتا ہے اور وہ ہے اس کا انھیں ان کی باغیانہ روش پر چھوٹ دینا اور انھیں اپنے رزق اور نعمتوں سے نوازتے رہنا، تاکہ وہ جی بھر کر اپنا نامۂ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ : یعنی جب تمہارا نامۂ اعمال خوب سیاہ ہوجائے گا تو اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤ گے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر اللہ پر رہتی ہے، جب کام بن گیا تو لگا اسباب پر نگاہ رکھنے۔ سو ڈرتا نہیں کہ اللہ پھر کوئی سبب کھڑا کر دے اسی تکلیف کا، سب اسباب اس کے ہاتھ میں (ہر وقت) تیار ہیں، ایک اسی کی صورت آگے اور فرمائی۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: مَک (رح) ر (makr) used in verse 21: قُلِ اللَّـهُ أَسْرَ‌عُ مَكْرً‌ا (Say, |"Allah is more swift in making plans|" ) means secret plan or move that could be good or bad. Wherever this word has become a part of the local lan¬guage, care should be taken that it is not rendered as ` deception&. For instance, in Urdu, the original language of this Commentary, it means just this. It is obvious that Allah Ta` ala is free from it. (1) (1) The English language has no such problems as the open sense of makr can be transmitted through ` plan& or ` move& (Translator)

خلاصہ تفسیر حل لغت : عَاصِفٌ سخت تیز ہوا، حَصِيْدًا کٹی ہوئی کھیتی، كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ یہ غنی بالمکان سے مشتق ہے جس کے معنٰی کسی جگہ قیام کرنے کے ہیں۔ اور جب ہم لوگوں کو بعد اس کے کہ ان پر کوئی مصیبت پڑچکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں شرارت کرنے لگتے ہیں ( یعنی ان سے اعراض کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تکذیب و استہزا سے پیش آتے ہیں اور براہ اعتراض وعناد دوسرے معجزات کی فرمائشیں کرتے ہیں اور مصیبت گزشتہ سے عبرت نہیں پکڑتے پس معلوم ہوا کہ ان کے اعتراض کا اصل سبب اللہ کی نازل کردہ آیات و معجزات سے اعراض ہے اور یہ اعراض دنیا کی نعمتوں میں مست ہوجانے سے پیدا ہوا ہے، آگے وعید ہے کہ) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس شرارت کی سزا بہت جلد دے گا، بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب شرارتوں کو لکھ رہے ہیں ( پس علاوہ علم الہٰی میں محفوظ ہونے کے دفتر میں بھی محفوظ ہیں) وہ ( اللہ) ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں لئے لئے پھرتا ہے ( یعنی جن آلات و اسباب سے تم چلتے پھرتے ہو وہ سب اللہ ہی کے دیئے ہیں) یہاں تک کہ ( بعض اوقات) جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو، اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعہ سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان ( کی رفتار) سے خوش ہوتے ہیں ( اسی حالت میں دفعةً ) ان پر ایک جھونکا ( مخالف) ہوا کا آیا ہے اور ہر طرف سے ان ( لوگوں) پر موجیں اٹھی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ( بری طرح) گھر گئے، ( اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں ( کہ اے اللہ) اگر آپ ہم کو اس (مصیبت) سے بچا لیں تو ہم ضرور حق شناس ( یعنی موحد) بن جاویں ( یعنی اس وقت جیسا اعتقاد توحید کا ہوگیا ہے اس پر قائم رہیں) پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو ( اس مہلکہ سے) بچا لیتا ہے تو فوراً ہی وہ زمین ( کے مختلف خطوں) میں ناحق کی سرکشی کرنے لگتے ہیں ( یعنی وہی شرک و معصیت) اے لوگو ( سن لو) یہ تمہاری سرکشی تمہارے لئے وبال ( جان) ہونے والی ہے ( بس) دنیوی زندگی میں ( چندے اس سے) فائدہ اٹھا رہے ہو پھر ہمارے پاس تم کو آنا ہے پھر ہم سب تمہارا کیا ہوا تم کو جتلا دیں گے ( اور اس کی سزا دیں گے) بس دنیوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس ( پانی) سے زمین کے نباتات جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں خوب گنجان ہو کر نکلے یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب آزمائش ہوگئی ( یعنی سبزہ سے خوشنما معلوم ہونے لگی) اور اس ( زمین) کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس ( کے نباتات پھلوں) پر بالکل قابض ہوچکے تو ( ایسی حالت میں) دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حادثہ آپڑا ( جیسے پالا یا خشکی یا اور کچھ) سو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا کہ گویا کل (یہاں) وہ موجود ہی نہ تھی (پس اسی نباتات کے مثل دنیوی زندگی ہے) ہم اس طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ( سمجھانے کے) لئے جو سوچتے ہیں۔ معارف و مسائل (آیت) قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا، عربی لغت کے اعتبار سے لفظ مکر خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں جو اچھی بھی ہو سکتی ہے بری بھی، اور زبان کے محاورہ سے دھوکہ نہ کھائیں کہ لفظ مکر اردو میں دھوکہ فریب کے لئے استعمال ہوتا ہے جس سے حق تعالیٰ بری ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَآ اَذَقْــنَا النَّاسَ رَحْمَۃً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا۝ ٠ ۭ قُلِ اللہُ اَسْرَعُ مَكْرًا۝ ٠ ۭ اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ۝ ٢١ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی مكر المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ( م ک ر ) المکر ک ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے : سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١) اور جب ہم ان کفار کو کسی مصیبت کے بعد کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو فورا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تکذیب کرنے لگتے ہیں، آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس شرارت کی سخت ترین سزا دے گا، چناچہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو ہلاک کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً مِّنْم بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُمْ اِذَا لَہُمْ مَّکْرٌ فِیْٓ اٰیَاتِنَا ط) ” اور جب ہم لوگوں کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو ان پر آگئی تھی تو فوراً ہی وہ ہماری آیات کے بارے میں سازشیں کرنے لگتے ہیں۔ “ پہلی امتوں میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اہل مکہ پر بھی چھوٹی چھوٹی تکالیف آتی رہی ہیں جیسے روایات میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد مکہ میں شدید نوعیت کا قحط پڑگیا تھا۔ ایسے حالات میں مشرکین مکہ کچھ نرم پڑجاتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر بیٹھتے بھی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں بھی سنتے تھے۔ مگر جونہی تکلیف رفع ہوجاتی تو وہ پھر سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں شروع کردیتے۔ (قُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًاط اِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُوْنَ مَا تَمْکُرُوْنَ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ اللہ اپنی تدبیروں میں کہیں زیادہ تیز ہے۔ یقیناً ہمارے فرشتے لکھ رہے ہیں جو کچھ بھی سازشیں تم لوگ کر رہے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29. This again alludes to the famine which was referred to earlier in verses 11-12 of the present surah. The unbelievers are virtually being told that it did not behove them to ask for any miraculous sign. For, not long ago they had suffered from a famine during which they had abjured faith in those very deities whom they had earlier considered their intercessors with God. They had seen with their own eyes how their cherished deities had failed them. They had clearly seen the extent of the supernatural powers of those very deities at whose altars they made offerings and sacrifices in the firm belief that their prayers would be answered and their wishes realized. They had seen - and that too in the recent past-that, one of those deities had any power; that all power in fact lay with God alone. It was because of this experience that they had begun to address all their prayers to God alone. Was all this not enough of a sign to convince the unbelievers about the truth of the teachings of the Prophet Muhammad (peace be on him)? And yet, despite clear signs, the unbelievers waxed arrogant. No sooner was the famine over and they were blessed with outpourings of rain which put an end to their misery than they reverted to their unbelief. They also sought to offer a wide variety of fanciful explanations about why the famine had hit them and why they were subsequently delivered from it. They resorted to all this in order that they might rationalize their adherence to polytheistic beliefs and practices and evade believing in the One True God. Quite obviously what good can any miraculous sign be to those who had corrupted their conscience so thoroughly? 30. It needs to he clearly understood as to what is meant by attributing 'scheming' to God in the present verse. It simply means that if the unbelievers refuse to accept the truth and to alter their conduct accordingly. God will still grant them the respite to go about their rebellious ways. God will also lavish upon them the means of subsistence and other bounties as long as they live. All this will keep them in a state of intoxication. However, whatever thev do during their state of intoxication will be imperceptibly recorded by the angels of God. All this will go on till the very last moments of their lives and then they will be seized by death and will be asked to render an account of their deeds.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :29 یہ پھر اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آیات ۱۱ – ۱۲ میں گزر چکا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم نشانی آخر کس منہ سے مانگتے ہو ۔ ابھی جو قحط تم پر گزرا ہے اس میں تم اپنے ان معبودوں سے مایوس ہو گئے تھے جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی ٹھیرا رکھا تھا اور جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے ۔ اور فلاں درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آتی ہے ۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خداؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے ۔ اسی وجہ سے تو آخرکار تم اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے ۔ کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آجاتا جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم کو دے رہے ہیں؟ مگر اس نشانی کو دیکھ کر تم نے کیا کیا ؟ جونہی کہ قحط دور ہوا اور باران رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کر دیا ، تم نے اس بلا کے آنے اور پھر اس کے دور ہونے کے متعلق ہزار قسم کی توجیہیں اور تاویلیں ( چالبازیاں ) کرنی شروع کر دیں تاکہ توحید کے ماننے سے بچ سکو اور اپنے شرک پر جمے رہ سکو ۔ اب جن لوگوں نے اپنے ضمیر کو اس درجہ خراب کر لیا ہو انہیں آخر کونسی نشانی دکھائی جائے اور اس کے دکھانے سے حاصل کیا ہے؟ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :30 اللہ کی چال سے مراد یہ ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا ، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشہ زندگانی یونہی تمہیں مست کیے رکھے گا ، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے ، حتی کہ اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے کرتوتوں کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: جب تک مصیبت کا سامنا تھا، اس وقت تک تو بس اللہ ہی یاد آتا تھا، لیکن جب اس کی رحمت سے مصیبت دور ہوجاتی ہے اور اچھا وقت آتا ہے تو اس کی اطاعت سے منہ موڑنے کے لیے حیلے بہانے شروع ہوجاتے ہیں، جس کی مثال آگے آیت نمبر 22 میں آ رہی ہے۔ 11: اللہ تعالیٰ کے لیے چال کا لفظ ایک طنز کے طور پر ہے اور اس سے مراد ان کی چالبازیوں کی سزا دینا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ ٢٣۔ انسان پر جب کوئی سختی ہوتی ہے اور کوئی تدبیریں نہیں آتی تو خدا کو پکارنے لگتا ہے پھر جب اس سے نجات پالیتا ہے تو اسے خیال بھی نہیں رہتا کہ مجھ پر کوئی سختی گزری تھی صحیح بخاری و مسلم میں زید بن خالد جہنی (رض) سے روایت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور روز رات کو مینہ برسا۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روز صبح کی نماز کے بعد لوگوں سے کہا کہ تم جانتے ہو آج رات کو خدا نے کیا کہا لوگ کہنے لگے خدا اور خدا کا رسول جانتا ہے ہم لوگوں کو کیا خبر۔ فرمایا یہ کہا کہ صبح کو جب میرے بندے اٹھیں گے تو اکثر مومن ہوں گے اور بہتیرے کافر۔ کیوں کہ رات کو جو بارش ہوئی ہے جو اس کو یوں کہے گا کہ خدا نے اپنے فضل سے مینہ برسایا ہے وہ تو مومن ہوگا اور جو یہ کہے گا کہ ستاروں کی گردش کے اثر سے یہ مینہ برسا ہے وہ کافر ہوگا۔ اس حدیث میں ایمان سے مقصود شکر گزاری اور کفر سے مراد ناشکری ہے پھر فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے حیلے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ اللہ کی تدبیر کے سامنے تمہارے مکرو حیلہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ کے فرشتے ذرہ ذرہ ان کے اعمال لکھ رہے ہیں جب تک ڈھیل ہی ہے جب پکڑے گا تو اک ذرا بھی مہلت نہ دے گا مجرم یہ گمان کر رہے ہیں کہ خدا اب عذاب نہ کرے گا یہ اسی کی شان ہے کہ تم کو خشکی میں اور دریا میں چلاتا پھراتا ہے تمہاری کشتیاں موافق ہوا پا کر منزل کی طرف جلدی جلدی جاتی دکھائی دیتی ہیں اور تم خوش ہونے لگتے ہو پھر یک بیک ایسی تیز ہوا چلتی ہے اور دریا میں جوش آنے لگتا ہے کہ کشتی ڈگ مگانے لگتی ہے پھر تو تمہاری جانوں پر آن بنتی ہے خیال کرتے ہو کہ اب پھنس گئے اس وقت خالص خدا ہی کو یاد کرتے ہو کسی بت سے مدد نہیں چاہتے جب خدا بیڑا پار لگا دیتا ہے اور خشکی پر صحیح و سلامت آجاتے ہو تو پھر وہی شرک جو تمہارے اعمال تمہیں بتلائے جائیں گے اس لئے انسان کو چاہیے کہ جب کوئی بہتری ہو تو خدا کا شکر کرے صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب رومی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ راحت کے وقت شکر اور تکلیف کے وقت صبر کرنا ایمان کی نشانی ہے۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ پورے ایماندار نہیں ہیں ان کی حالت تو یہ ہے کہ وہ سختی کے وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں اور راحت کے وقت بالکل اس کو بھول جاتے ہیں اور جو لوگ پکے ایماندار ہیں وہ راحت میں شکر گزاری سے اور تکلیف کے وقت صبر کے اجر کی امید سے غرض کسی حال میں اللہ کو نہیں بھولتے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:21) اذقنا۔ ماضی جمع متکلم۔ اذاقۃ۔ مصدر۔ (افعال) ذوق (اجوف وادی) اذاق یذیق اذاقۃ چکھانا۔ ماضٰ بمعنی مجارع۔ ہم چکھاتے ہیں۔ اذقنا الناس رحمۃ۔ لوگوں کو رحمت سے نوازتے ہیں۔ مستھم۔ ماضی واحد مؤنث غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ان کو پہنچی۔ ان کو لاحق ہوئی۔ مس یمس (نصر) چھونا۔ پہنچنا۔ مس المرض او الکبر فلانا۔ فلاں کو بیماری یا پڑھاپا لاحق ہوا۔ مکر۔ المکر کے معنی حیلہ سے کسی شخص کو اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں۔ اگر اس چال سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو یہ محمود ہے ورنہ مذموم۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو ہمیشہ اول الذکر معنی میں آتا ہے جیسے قرآن میں آیا ہے واللہ خیر الماکرین (3:54) اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ اذا لہم مکر فی ایتنا۔ تو فوراً ہماری آیات میں مکرو فریب کرنے لگ پڑتے ہیں یعنی ان کی الٹ تاویلیں کرنی شروع کردیتے ہیں۔ (یعنی بجائے اس کے کہ تکلیف سے خلاصی اور نعمت و رحمت کی نوازش کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کریں وہ حیلہ بہانہ سے اسے یا تو اپنے بتوں کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں یا ستاروں کی گردش پر اسے محمول گردانتے ہیں) اسرع مکرا۔ ای اسرع مکرا منکم۔ وہ اپنی چال چلنے میں تم سے بہت تیز ہے۔ یعنی جب وہ تمہاری چالوں پر سزا دینے کو آجائے تو وہ تم سے بہت تیز تر ہے۔ رسلنا۔ ہمارے رسول۔ ہمارے فرستادہ۔ یعنی فرشتے۔ کراماً کاتبین۔ ماتمکرون۔ جو فریب تم کر رہے ہو۔ جو چالین تم چل رہے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4۔ انہیں جھٹلاتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (ابن کثیر) ۔ 5۔ اللہ کی چال سے مراد ہو سزا ہے جو وہ مشرکین کو ان کی مکاریوں اور چالبازیوں پر دیتا ہے اور وہ ہے اس کا انہیں ان کا باغیانہ روش پر چھوٹ دینا اور انہیں اپنے رزق اور نعمتوں سے نوازتے رہنا تاکہ وہ جی بھر کر اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ 6۔ یعنی جب تمہارا نامہ اعمال خوب سیاہ ہوجائے گا تو اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے دھر لئے جائو گے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر اللہ پر رہتی ہے جب کام بن گیا تو لگا اسباب پر نگاہ رکھنے۔ سو ڈرتا نہیں کہ اللہ پھر ایک اسباب کھڑا کردے۔ اسی تکلیف کا اس کے ہاتھ میں سب اسباب تیار ہیں۔ ایک اسی کی صورت آگے اور فرمائی۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢١ تا ٣٠ اسرار و معارف کفر اور نافرمانی سے دل تباہ ہو کر ان کی سوچ الٹ جاتی ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو سفر حیات میں جب کبھی تنگی اور تکلیف سے آرام ملتا ہے مشکلات کے بعد جب کسی میدان سے گزرنے کے لمحے آتے ہیں جو سراسر رحمت الٰہی کا مظہرہوتا ہے تو بجائے شکر کرنے کے الٹا اللہ کے دین اور اس کے احکام کو ناکام بنانے کے حیلے سوچنے لگتے ہیں ۔ ان نادانوں کو بتادیجئے کہ تم آخرمخلوق ہو عاجز ہو جس طرح تمہاری ذات محدود ہے ۔ صفات بھی محدود ہیں ۔ سوچ اور فکر تک مخلوق ہے۔ بھلاجس خلاق عالم نے تمام جہانوں کی تدبیر فرمادی ۔ اس کی تدبیر کو تم کیا ردکرسکوگے کہ تم توچندے دنیا میں ہو نہ تھے نہ رہوگے اور اس کی قدرت کاملہ تو ہمیشہ سے تدبیرجہاں کرچکی ہے ہاں ! ایک یہ نتیجہ ہے اور صرف اتناہی اثر ہے کہ جو کچھ تم حیلے حوالے کرتے ہو ، اعمال کے لکھنے والے فرشتے انھیں لکھتے رہتے ہیں اور روز محشروہ خود تمہارے لئے ہی مصیبت کا سبب بنیں گے۔ تمھیں اگر کوئی بھی نقش حیات اس کا پتہ نہیں دے سکتا حالا ن کہ ہر ذرہ اور ہر تنکا اس کی عظمت پہ گواہ ہے توآو ! تمہیں اس سے واقف کرادیں کسی ایسے لمحے کو یاد کرو جب آرام و آسائش میں اچانک موت کا دہشتناک سناٹا تمہارے گرد چھائے اور اس سے بچنے کا کوئی ظاہری سبب نظرنہ آرہا ہو تو تمہیں کسی ایسی ہستی کا خیال آتا ہے جو تمہارے حال سے واقف بھی ہے اور جو بچانے پہ قادر بھی ۔ یقینا تم دل سے کہہ اٹھتے ہو کہ آج بچالے تو زندگی بھر شکر گزار رہیں گے۔ مثلا جیسے تم اپنے کاروباری سفروں میں سمندروں میں سفر کرتے ہو اور موافق ہوا میں مزے لے رہے ہوتے ہو کہ اچانک ہوارخ پھیرلیتی ہے اور اس میں تیزی آنے لگتی ہے حتی کہ سمندر بپھر کرتہہ وبالا ہونے لگتا ہے اور پہاڑوں جیسی موجیں کشتیوں اور جہازوں کو تنکوں کی طرح اٹھا اٹھا کرپٹکنے لگتی ہیں اور تمہیں کسی طرف کوئی ا مید کی کرن نظر نہیں آتی تو تم ایک غائبانہ طاقت کو بےاختیار پکار اٹھتے ہو تمہارے اندر سے آوازآتی ہے کہ اے میرے مالک ! مجھے بچالے ۔ وہی مالک ہی تو اللہ ہے کہ تم کہہ رہے ہوتے ہو آج اس مصیبت سے بچالے کہ یہاں تو قبر بھی نہ بنے گی اور اہل و عیال سے دورمال و دولت سمیت غرق ہوجائیں گے ۔ اگر یہاں سے بچالے تو ہمیشہ تیرا شکر ادا کرتے رہیں گے مگر جب طوفان تھم جاتے ہیں اور اللہ کی قدرت کاملہ تمہیں سلامتی سے کنارے لگا دیتی ہے ۔ گھر اور بچوں میں پہنچتے ہو تو پھر وہ بات بھول کر اللہ کی زمین پر ظلم اور فساد مچاتے ہو ۔ ایمان سے اتکار اور اتباع شریعت سے محرومی کا ہر قدم فسادفی الا رض ہے خواہ وہ کسی صورت میں ہو۔ لیکن اے اولاد آدم علیہ اسلام اچھی طرح جان لو تمہاری کسی برائی سے نہ اللہ کی ذات کا کوئی نقصان ہوتا ہے نہ اس کے نظام میں کوئی رکاوٹ پڑتی ہے بلکہ تمہارے گناہ اور تمہاری نافرمانی کے نتیجے میں خود تم پر ہی تباہی آتی ہے ۔ یہ چندروزہ حیات بھی مختلف مشکلات سے متاثر ہوکردشوار تر ہوجاتی ہے اور یہ تو ہے ہی بہت تھوڑی سی ۔ پھر تم سب کو اللہ ہی کی بارگاہ میں پلٹنا ہے ، لوٹ کر وہیں حاضر ہونا ہے اور وہاں تمہاری ہر چھوٹی بڑی خطا تمہارے سامنے رکھ دی جائے گی کہ یہ تمہارا وہ عمل ہے جو تم نے وارعمل میں کیا ۔ اب یہاں دار جزا ہے لہٰذا اس کا نتیجہ بھگتو۔ دنیا کی زندگی کا نقشہ تو تمہارے روبرو ہے ۔ دیکھتے ہو جب باریش برستی ہیں بہارآتی ہے تو زمین ایک گلستاں بن جاتی ہے اور طرح طرح کے سبزے چارے پھول اور پھل روئے زمین کو ایک وسیع دسترخوان بنا دیتے ہیں اور انسان حیوان سب عیش کرتے ہیں طرح طرح کی نعمتیں کھاتے ہیں اور بیچارے یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اب تو موج ہی موج ہے بڑے عیش بن گئے کہ اچانک اللہ کی تقدیر اس پہ جاری ہوتی ہے اور اکثر اوقات فصلیں پکنے سے پہلے درخت پھل لانے سے بیشتر اور سبزہ عمر طبعی کو پانے سے قبل بھی طوفانوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ کسی شب ظلمتوں میں یا کسی دن کے اداس لمحوں میں جب طوفان تھمتا ہے تو ہر چیز تباہ ہوچکی ہوتی ہے ، جیسے کل یہاں کچھ بھی تو نہ تھا یا جیسے کبھی یہ زمین آبادہی نہ تھی۔ انسانی کردار میں تبدیلیاں یہ زندگی کی مثال انسانی کردار کی عکاس بھی ہے کہ اگر دل میں نقص پیدا ہوجائے یعنی اس کا خلوص مجروح ہوجائے تو بڑے سے بڑاصوفی اور صاحب حال بھی یوں تباہ ہو سکتا ہے جیسے اس نے کبھی ایمان بھی قبول نہ کیا ہو۔ لہٰذا بلندی منازل پہ تفاخر کی بجائے تشکر لازم ہے ۔ جن لوگوں کو غور وفکر کی عارت ہو ، جو ہر انسان کو ہونی چاہیئے تو ان کے لئے تو بات بہت واضح انداز میں بیان کردی جاتی ہے ۔ ہاں ! جو بدنصیب فکر فرداہی سے غافل ہوں انھیں کیا فائدہ ہوگا ؟ اللہ کریم نے انسان کو پسند کا اختیار دے کر چھوڑ نہیں دیا حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو بھی بالکل درست ہوتا کہ وہ اپنی پسند سے اپنا راستہ بنالیتا اور دنیا میں انقلابات سے سبق حاصل کرکے تخلیقات سے اس کی عظمت کو بھانپ کر اطاعت کا راستہ اختیار کرتا اور اللہ کے عذاب میں گرفتار ہونے سے خود کو بچاتا ۔ اس کے باوجود وہ اتنا کریم ہے کہ انسانوں کو سلامتی کے گھر کی طرف یعنی جنت کی طرف جہاں ہر طرح کی سلامتی ہے بےحدوحساب نعمتیں ہیں ہمیشہ ہے انبیاء مبعوث فرما کر اپنی کتب نازل فرما کر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے ساری انسانیت کو دعوت عام کردی ۔ اپنی کتاب کو ہمیشہ کے لئے دنیا میں محفوظ رکھنے کا ذمہ لے لیا اور ہمیشہ ایسے لوگ بھی رکھے گا جو محض اللہ کی خاطر اللہ ہی کی طرف دعوت دیتے رہیں گے اور جسے چاہے اسے اس راہ پرچلنے کی توفیق بھی عطا کردیتا ہے اور یہ اللہ کریم کی پسند انسان کے قلبی فیصلے پہ ہوتی ہے جیسا کہ اس نے خود فرمادیا ہے یھدی الیہ ینیب ۔ کہ خلوص دل سے جو ہدایت طلب کرے جس کے اندریہ فیصلہ ہوجائے کہ مجھے اپنے مالک کو پانا ہے تو ان کی پوری پوری رہنمائی بھی فرماتا ہے اور راستے پر چلاتا بھی ہے ۔ یادرکھو نیکی کا بدلہ ہر حال میں تمہارے اعمال سے کئی گنابڑھا کردے گا اور پھر اسے بدلہ اور اجری شمار فرما کر اپنی طرف سے اس پر زیادہ دے گا جس کا تم اندازہ نہیں کرسکتے کہ تمہارے عمل کے بدلے کو بڑھا کر کئی گناکر اعداد و شمار کی گرفت سے بہت بالا ہے اور ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوں گے کوئی غم کا سایہ ہوگا نہ پر یشانی کا اثر ۔ ایسے ہی لوگ جنت کے باسی ہیں جو وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ تو بدکاروں سے بھی کرم کا سلوک کرتا ہے کہ نافرمانوں کو اتنی ہی سزادے گا جس قدران کی نافرمانی پہ بنتی ہوگی لیکن یہ یادرکھو نافرمانی کس کی ہے اس لئے چھوٹا گناہ بھی اس نسبت سے بہت بڑا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی تو ہے لہٰذاذلت ورسوائی کا اثر کہ کافروں کے چہرے سیاہ کردے گا اور پتہ چل جائے گا کہ اللہ کے سوا اس مصیبت میں کوئی کام نہ آسکے گا نہ کوئی اس عذاب سے بچاسکے گا ۔ ان کا حال یہ ہوجائے گا جیسے انسانی چہرہ تاریک رات کے پردوں سے ڈھانپ دیا گیا ہو یہ روسیاہ دوزخ میں رہیں گے اور ہمیشہ رہیں گے۔ روز محشرتو مشرکین بھی جمع کئے جائیں گے اور ان کے بت بھی اور ارشاد ہوگا اپنی جگہ پر رہو کہ عرصہ محشر میں دنیا کے رشتے تو ختم ہوچکے ہوں گے۔ یقاتو صرف اس ناطے کو ہوگی جو اللہ کے نام پر بنے گا لہٰذا اب نہ تم پجاری رہے نہ یہ تمہارے دیوتا اپنی اپنی جگہ جو ابدہی کے کے لئے رک جاؤگے توبت بھی چلا اٹھیں گے کہ نادانو ! ہمیں تمہاری پوجا اور عبادت سے کیا غرض ؟ ہم تو محض پتھر تھے ہمیں تو یہ شعور بھی نہ تھا کہ دعوت دنیا تو کجاجو تم ہماری پوجا کرتے تھے اس کا پتہ تو چلتا کوئی رنج و راحت کا اثرہوتا مگر کچھ بھی تو نہ تھا ہمارا اللہ خود گواہ ہے کہ ہمیں تمہاری اس حرکت کی خبرتک نہ تھی مالک جانتا ہے جس ہمیں عقل وشعورہی سے بیگانہ رکھا۔ بتوں کے پاس یہ عذرتوہوگا اس کے باوجود دوزخ میں جلنے کا حکم ہوگا کہ مشرکین پر آگ جلانے کا ایندھن بنیں گے ۔ اللہ کے حکم کے خلاف اپنی بات منوانا مگر جو انسان اللہ کے حکم کے خلاف اپنی بات منواتے اور اپنی اطاعت کر واتے ہوں ۔ حکمران ہوں یا سیاستدان پیر ہوں یامولوی اساتذہ ہوں یا والدین کسی کے پاس کوئی معقول عذر بھی نہ ہوگا لہٰذا سب کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کی اطاعت پہ چلائیں اور اللہ کی طرف دعوت بھی دیں اور رہنمائی بھی کریں ۔ کہ اس میدان میں ہر کوئی اپنے اعمال کو پالے گا اور ان کی اصلیت سے باخبر ہوجائے گا۔ جو لوگ یہاں کفر اور برائی کو بڑالذیذسمجھ رہے ہیں یا اسے بہت مفید سمجھتے ہیں ، وہاں اچھی طرح جان سکیں گے کہ ان کی حقیقت کیا تھی ۔ کہ اللہ کی گرفت سے تو کوئی بھاگ نہیں سکے گا۔ سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہوگا اور تمام وہ آسرے وہ امیدیں جو اس کی ذات اور احکام کے برخلاف انسانوں نے اپنارکھے ہوں گے ختم ہوجائیں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 21 تا 23 اذقنا (ہم نے چکھا دیا) ضرآء (ضرر، نقصان، تکلیفیں، مصیبتیں) مست (پہنچی) مکر (شرارت، مکر و فریب) اسرع (بہت جلد) یکتبون (وہ لکھتے ہیں) تمکرون (تم مکر و فریب کرتے ہو، تم شرارتیں کرتے ہو) یسیر (وہ چلاتا ہے) البر (خشکی، زمین) البحر (تری، سمندر) جرین (وہ چلتی ہیں) ریح طیب (پاک ہوا یعنی موافق ہوا) فرحوا (انہوں نے فرحت اور خوشی محسوس کی) عاصف (طوفانی ہوا ، طوفان) احیط (گھیر لیا گیا) مخلصین (خالص کرنے والے) الدین (انصاف، اعتقاد) انجیتنا (تو نے ہمیں نجات دے دی) یبغون (وہ بغاوت و نافرمانی کرتے ہیں) بغیر الحق (ناحق، جس کا ان کو حق حاصل نہ تھا متاع (سامان ، زندگی کا لطف و کرم ) نئبئکم (ہم تمہیں مطلع کریں گے۔ ) تشریح :- آیت نمبر 21 تا 23 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ ہر کام میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ایسے لوگ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہیں وہ جتنا شکر ادا کرتے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی نعمتوں میں اور اجر آخرت میں اتنا ہی اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا گیا کہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ اگر اس کے بندے اس کا شکر ادا کرتے رہیں اور ایمان پر قائم رہے ہیں کہ وہ ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ انسان کے ناشکرے پن کی عادت سب سے بری عادت ہے اور اللہ کو سخت ناپسندید ہے۔ جب کوئی شخص مشکلات میں گھر جاتا ہے۔ کسی طوفان یا بھنور میں پھنس جاتا ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اگر کوئی شخص کسی سخت بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کو صحت کے آثار نظر نہیں آتے تو وہ اللہ کو پکارتا ہے، فریاد کرتا ہے۔ دوسروں سے دعائیں کراتا ہے اور جیسے ہی وہ مشکلات پریشانیوں بیماریوں سے طوفان کی بلاخیز یوں سے نکل آتا ہے تو اللہ کو بھول کر وہ ان اسباب کا ذکر کرنے لگتا ہے جن سے اس کو مصیبتوں سے نجات ملی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بری عادت کو نہ صرف ناپسند فرمایا ہے بلکہ شرک تک فرما دیا اور اس کو کفران نعمت قرار دیا ہے۔ ان آیات کے پس منظر میں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ میں اور آس پاس کے علاقوں میں زبردست قحط پڑگیا تھا اور کئی سال سے بارش بھی نہیں ہوئی تھی۔ جب حالات اس درجہ تک پہنچ گئے کہ وہ مردار تک کھانے پر مجبور ہوگئے تب انہوں نے اپنے جھوٹے معبودوں اور بتوں کو چھوڑ کر اللہ سے فریاد کرنی شروع کردی۔ ایک وفد کو مدینہ منورہ بھیجا گیا جس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد کی درخواست کی اور یہ بھی کہا کہ بارش کے لئے دعا کیجیے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے نہ صرف ان کی ہر طرح کی مدد کی بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارش کی دعا بھی فرمائی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا کو قبول کرلیا۔ بارش ہوگئی اور قحط کے اثرات جاتے رہے تو پھر انہوں نے اپنے بتوں پر چڑھا دے چڑھانے شروع کردیئے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنا شروع کردیا۔ ان آیات کو اس پس منظر میں دیکھا جائے یا آیت کے مفہوم کو عام رکھا گیا ہے یہ بات اپنی جگہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان پر جب مشکلات آتی ہیں تو اس کے دل سے ایک ہی آواز نکلتی ہے کہ اے اللہ میری اس مشکل کو آسان فرما دے۔ اور اللہ اس کی مشکلات / آسان بھی فرما دیتا ہے لیکن پھر وہ بھول جاتا ہے کہ ان کی ان مشکلات کو حل کرنے والی کونسی ذات تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شکر ادا کرتے رہنے ، ذکر و فکر کرنے پر مہارت و بندگی تو فیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی اس سے اعراض کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تکذیب و استہزاء سے پیش آتے ہیں اور براہ عناد و اعتراض دوسرے معجزات کی فرمائشیں کرتے ہیں اور مصیبت گذشتہ سے عبرت نہیں پکڑتے پس علت اعتراض ہے اور اس کی علت تنعم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے انہیں آگاہ کیا کہ جس خبط میں تم مبتلا ہو وہ عذاب ہی تو ہے۔ اہل مکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرنے کی بجائے یہ مطالبہ کرتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر آسمان سے عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا۔ اس کا اشارتًا جواب دیا گیا ہے کہ جس قحط سالی میں تم مبتلا ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر عذاب نہیں تو کیا ہے ؟ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اہل مکہ کی ایذارسانیوں اور ان کے بار بار مطالبہ کی وجہ سے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ بددعا کی کہ اے رب ذوالجلال ان پر ایسا قحط نازل فرما جس طرح تو نے یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں قوم مصر پر نازل کیا تھا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آپ نے بددعا مکہ میں رہتے ہوئے کی تھی یا مدینہ جاکر۔ حالات و واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ پر یہ عذاب اس وقت مسلط ہوا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ اہل مکہ پر عذاب مسلط ہوا تو وہ اس قدر تنگ ہوئے کہ بڑے بڑے مالدار گھرانے بھی مردار کھانے اور سوکھا چمڑا چبانے پر مجبور ہوئے۔ بالآخر بےبس ہو کر ابو سفیان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ لوگوں کے ساتھ مہربانی اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ آپ اپنے رب کے حضور ہمارے لیے بارش کی دعا کریں۔ تب آپ نے اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے جس کے نتیجہ میں مکہ اور اس کے گردونواح میں موسلا دھار بارش ہوئی۔ اور پورا علاقہ سرسبز و شاداب ہوا۔ بدحالی خوشحالی میں تبدیل ہوگئی۔ مگر جوں ہی مکہ والوں کے حالات بدلے تو انہوں نے مزید سازشیں شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونے کے بجائے کہنے لگے کہ ہمارے معبود کچھ مدت کے لیے ہم پر ناراض ہوئے تھے اب انہوں نے راضی ہو کر ہماری بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کردیا ہے۔ اس پر انہیں انتباہ کیا جارہا ہے کہ تم جو کچھ کہتے اور کرتے ہو انہیں ہمارے ملائکہ ریکارڈ کر رہے ہیں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے مکرو فریب کا جواب دے گا۔ جب مکر کا لفظ لوگوں کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی مکرو فریب اور سازش و شرارت ہوا کرتا ہے۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی منصوبہ یا عذاب ہوتا ہے۔ یہاں مکر سے مراد اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے۔ جس کی دنیا میں کئی شکلیں ہوا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ اور مامون فرمائے۔ آمین (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ کَانَ مِنْ دُعَآءِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِےَتِکَ وَفُجَآءَ ۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِےْعِ سَخَطِکَ )[ رواہ مسلم : باب أَکْثَرُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ الْفُقَرَاءُ وَأَکْثَرُ أَہْلِ النَّار النِّسَاءُ وَبَیَانُ الْفِتْنَۃِ بالنِّسَاءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا ہوا کرتی تھی۔ بارالٰہا ! میں تیری نعمتوں کے زوال ‘ تیری عافیت کے پھرجانے ‘ تیرے اچانک عذاب اور تیری ہر طرح کی ناراضگی سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی رحمت سے ہمکنار ہونے کے بعد اکثر انسان کفر و شرک کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بہتر تدبیر نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہونے والے ملائکہ ہر چیز لکھ رہے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر شخص کا اعمال نامہ اللہ کے ہاں درج ہے : ١۔ بیشک تمہاری چال بازیوں کو ہمارے قاصد لکھ رہے ہیں۔ (یونس : ٢١) ٢۔ ہم ان کی جزا لکھ لیں گے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (الاعراف : ١٥٦) ٣۔ ہم لکھ لیتے ہیں جو لوگ بولتے ہیں۔ (آل عمران : ١٨١) ٤۔ ہم ان کی کہی ہوئی بات لکھ لیں گے اور ان کے عذاب کو بڑھا دیا جائے گا۔ (مریم : ٧٩) ٥۔ ہمارے قاصد ان کے اعمال لکھ رہے ہیں۔ (الزخرف : ٨٠) ٦۔ کسی کی کوشش رائیگاں نہیں جائے گی بیشک ہم اس کو لکھ لیں گے۔ (الانبیاء : ٩٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا اذقنا الناس رحمۃ من بعد ضراء مستھم جب لوگوں کو کوئی دکھ پہنچتا ہے اور پھر ہم ان کو رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں۔ رحمت سے مراد ہے سرسبزی ‘ ارزانی ‘ فراخ دستی ‘ صحت۔ اور ضَّراء سے مراد ہے خشک سالی ‘ بدحالی ‘ افلاس اور بیماری۔ اذا لھم مکر فی ایٰتنا تو فوراً ہماری آیتوں کے بارے میں شرارت کرنے لگتے ہیں۔ مجاہد نے کہا : مکر سے مراد ہے تکذیب و استہزاء۔ میں کہا ہوں : مکر کا معنی ہے پوشیدہ طور پر کسی کو برائی پہنچانے کا ارادہ کرنا۔ آیات کی تکذیب بظاہر رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی تکذیب اور آپ کو برائی پہنچانے کے ارادہ کا مظاہرہ تھا ‘ اللہ کی تکذیب نہ تھی لیکن آیات اللہ حقیقت میں اللہ کا کلام تھا ‘ اسلئے درپردہ تکذیب اور ارادۂ شر کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہوتا ہے ‘ اور یہی مکر کی حقیقت ہے۔ مقاتل بن حبان نے کہا : (ا اللہ ان کو رزق دیتا تھا ‘ بارش برساتا تھا اور) وہ اللہ کے رازق ہونے کے قائل نہ تھے بلکہ کہتے تھے : نچھتر کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔ تکذیب آیات کی ان کی طرف سے یہ حیلہ سازی تھی ‘ اسی کو مکر کہا گیا ہے۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ ایک بار اہل مکہ قحط میں مبتلا ہوئے ‘ پھر اللہ نے ان پر رحم کیا اور قحط کو دور کردیا۔ قحط دور ہوتے ہی وہ ناشکری اور استہزاء بآیات اللہ کرنے لگے۔ اللہ کی نعمت کے شکرگذار نہ ہوئے۔ بخاری کی روایت میں آیا ہے کہ کافروں کی بےرخی اور روگردانی دیکھ کر رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے بددعا کی اور فرمایا : اے اللہ ! یوسف (علیہ السلام) کے سات سالوں کی طرح ان کو ہفت سالہ قحط میں مبتلا کر کے میری مدد فرما۔ بددعا کے نتیجہ میں اہل مکہ پر قحط مسلط ہوگیا کہ ہر چیز (یعنی کھیتی ‘ سبزی ‘ پھل وغیرہ) تباہ ہوگئی ‘ کھالیں اور مردار جانور تک کھانے کی نوبت آگئی۔ ابو سفیان نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تمہاری قوم والے ہلاک ہوگئے۔ تم اللہ کی اطاعت اور صلۃ الرحم (قرابتداروں سے حسن سلوک) کا ہم کو حکم دیتے ہو۔ اللہ سے ان کیلئے دعا کر دو کہ اللہ ان کی مصیبت کو دور کر دے۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے دعا فرما دی۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ قحط میں مبتلا ہونے کے بعد مشرکوں نے کہا تھا : اے ہمارے رب ! ہم سے اس عذاب کو دور کر دے ‘ ہم ایمان لے آئیں گے۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو (ا اللہ کی طرف سے) اطلاع دی گئی کہ اگر یہ مصیبت دور کردی گئی تو یہ لوگ پھر اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹ جائیں گے (کفر کرنے لگیں گے) ۔ غرض رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے دعا کردی اور اللہ نے مصیبت دور کردی ‘ مگر وہ پھر (شرک و تکذیب کی طرف) لوٹ گئے۔ اس کی سزا اللہ نے ان کو بدر کے دن دی (کہ سرداران شرک کو تباہ کردیا) ۔ قل اللہ اسرع مکرًا آپ کہہ دیجئے کہ خفیہ تدبیر کرنے میں اللہ تم سے تیز ہے۔ اس کی خفییہ تدبیر یا تو ڈھیل ہے۔ حضرت علی کا ارشاد ہے : اللہ جس کی دنیا فراخ کر دے اور وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے تو اس کی عقل فریب خوردہ ہے۔ میں کہتا ہوں : حضرت کی مراد یہ ہے کہ وسعت دنیا حاصل ہونے کے بعد جو شخص (ا اللہ کی ڈھیل کو نہ سمجھے اور) شکر ادا نہ کرے وہ فریب خوردہ ہے۔ یا مکر سے مراد ہے مگر کی سزا ___ یعنی لوگ تو خفیہ تدبیریں بعد کو کرتے ہیں ‘ اللہ ان کی سازشوں سے پہلے ہی ان کی سزا کی خفیہ تدبیر یا (خفیہ) ڈھیل دینے کو تجویز کرچکا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے سرعت مکر کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ حق کو دفع کرنے کی جو تدبیریں کافر کرتے ہیں ‘ ان سے زیادہ سرعت کے ساتھ اللہ ان کو ہلاک کردینے کی تدبیر کردیتا ہے۔ اللہ کا عذاب ان پر بہت جلد آجاتا ہے۔ اللہ چونکہ قدرت رکھتا ہے ‘ اسلئے وہ جو کچھ چاہتا ہے وہ ضرور آ کر رہتا ہے اور کافر دفع حق کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان رسلنا یکتبون ما تمکرون۔ جو مکاریاں تم کرتے ہو ہمارے پیامبر (یعنی اعمال کی نگرانی رکھنے والے فرشتے) اس کو لکھ لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ تمہاری خفیہ تدبیریں نگرانی رکھنے والے ملائکہ سے بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتیں ہیں ‘ اللہ سے کس طرح چھپی رہ سکتی ہیں جو سارے جہان کا خالق ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صاحب روح المعانی (ص ٩٣ ج ١١) لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ پر سات سال تک قحط بھیج دیا تھا ‘ قریب تھا کہ اس کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں ‘ انہیں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ خوشحالی کے لئے دعا فرمائیں اگر یہ قحط کی مصیبت دور ہوجائے اور ہمیں خوشحالی مل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ آپ نے دعا کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اور اہل مکہ پر رحم فرمایا تو ایمان لانے کی بجائے وہی پرانا ڈھنگ اختیار کرلیا اور اللہ کی آیات میں طعن کرنے لگے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہی معاندانہ سلوک کرنے لگے جو پہلے کرتے تھے اور ایسی شرارتیں اور حیلہ بازیاں کرنے لگے جن کو انہوں نے قرآن پر ایمان نہ لانے کا بہانہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری آیات کے بارے میں مکر کرنے لگتے ہیں۔ یعنی آیات کو نہ ماننے کے بہانے تراش لیتے ہیں اور طعن وتشنیع سے پیش آتے ہیں قُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًا آپ فرما دیجئے کہ مکر کی سزا اللہ تعالیٰ جلد ہی دینے والا ہے ‘ جب شرارت و بغاوت پر اتر آئیں تو اطمینان سے نہ بیٹھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد ہی اس کا بدلہ مل جائے گا۔ (اِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُوْنَ مَا تَمْکُرُوْنَ ) (بےشک ہمارے فرشتے لکھ لیتے ہیں جو تم حیلہ سازیاں کرتے ہو) اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتے ہوئے تمہاری حرکتیں اور شرارتیں اور حیلہ سازیاں دفتروں میں بھی محفوظ ہیں ‘ آیت کریمہ کا سبب نزول خواہ وہی ہو جو صاحب روح نے لکھا ہے لیکن قرآن کریم میں انسانوں کا ایک عام طریقہ کار بیان فرما دیا کہ جب انسان کو دکھ تکلیف کے بعد کوئی نعمت مل جاتی ہے تو وہ اللہ کی آیات کو جھٹلانے لگتا ہے اور حیلہ سازی اور کٹ حجتی پر اتر آتا ہے وہ یہ نہیں سمجھتا کہ پھر بھی مجھے تکلیف پہنچ سکتی ہے ‘ بعض مرتبہ دنیا ہی میں مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور موت بھی تو جلدی ہی آنی ہے ہر کافر کا موت کے وقت سے ہی عذاب شروع ہوجاتا ہے پھر آخرت میں پیشی ہوگی ‘ اعمال نامے سامنے آئیں گے جن میں فرشتوں نے ان لوگوں کی کجروی اور حیلہ سازی کو لکھ لیا تھا ‘ یہ اعمال نامے ان پر حجت ہوں گے اور دوزخ میں دائمی آگ میں جلنے کی سزا پائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37: یہ زجر ہے انسان کی ناشکری اور احسان فراموشی کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ تکلیف و مصیبت دور کر کے اسے راحت و خوشحالی سے ہمکنار کردیتا ہے تو وہ شکر بجالانے کے بجائے اللہ کی آیتوں میں حیل و حجت کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو اللہ کا کلام ہی نہیں “ اي مکروا بایاتنا بدفعھا وانکارھا ” (مدارک ج 2 ص 121) ۔ “ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَکْرًا ” یعنی اللہ تعالیٰ ان کے جحود و انکار پر ان کو بہت جلد عذاب دے سکتا ہے۔ مشرکین نے اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں اس کی آیات کے انکار کی تدبیر سوچی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی سزا دینے کی ایک نہایت ہی لطیف تدبیر نکالی کہ کراماً کاتبین کو ان کے تمام بر بھلے اعمال کی ڈائری لکھنے پر مامور فرما دیا اور اس کے مطابق انہیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ اور اس طرح وہ سر محشر ذلیل ورسوا ہوں گے۔ “ ان رسل اللہ یکتبون مکرھم ویحفظونه و تعرض علیھم ما فی بواطنھم الخبیثة یوم القیمة ویکون ذلک سببا للفضیحة التامة والخزي والنکال نعوذ بالله تعالیٰ منه ” (کبیر ج 4 ص 824) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21 اور جب ہم لوگوں پر کسی مصیبت اور تکلیف پہونچنے کے بعدان لوگوں کو اپنی کسی نعمت اور مہربانی کا مزہ چکھاتے ہیں تو اسی وقت وہ ہماری آیتوں کے بارے میں شرارت اور حیلہ سازی کرنے لگتے ہیں آپ فرما دیجئے اللہ تعالیٰ اس شرارت اور مکروفریب کی سزا دینے میں بہت جلدی کرنے والا ہے بلاشبہ ہمارے فرشتے تمہاری سب شرارتیں اور مکاریاں لکھتے رہتے ہیں یعنی جب کوئی تکلیف انسان کو پہونچتی ہے اور اس کے بعداللہ تعالیٰ دکھ دور کرکے کسی نعمت سے سرفراز کردیتا ہے تو انسان پھر وہی کرنے لگتا ہے جو پہلے کرتا تھا ان ہی شرارتوں میں اور آیات قدرت کے انکار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر اللہ پر رہتی ہے جب کام بن گیا تو لگا اسباب پر رکھنے۔ سو ڈرتا نہیں کہ اللہ پھر ایک سبب کھڑا کردے اسی تکلیف کا اسی کے ہاتھ میں سب اسباب تیار ہیں ایک اسی کی صورت آگے فرمائی۔ خلاصہ یہ کہ دکھ درد دور ہوجائے اور سکھ آجانے سے یہ نہ سمجھو کہ دکھ اور تکلیف دوبارہ نہیں آسکتی۔