Man changes when He receives Mercy after Times of Distress
Allah tells;
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاء مَسَّتْهُمْ
...
And when We let mankind taste mercy after some adversity has afflicted them,
Allah tells us that when He makes men feel His mercy after being afflicted with distress,
...
إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي ايَاتِنَا
...
behold! They take to plotting against Our Ayat.
The coming of mercy after distress is like the coming of ease after hardship, fertility after aridity, and rain after drought.
Mujahid said that;
man's attitude indicates a mockery and belying of blessings.
The meaning here is similar to Allah's statement:
وَإِذَا مَسَّ الاِنسَـنَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَأيِمًا
And when harm touches man, he invokes Us, lying on his side, or sitting or standing. (10:12)
Al-Bukhari recorded that;
Allah's Messenger led the Subh (Dawn) prayer after it had rained during the night, then he said:
هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمُ اللَّيْلَةَ
Do you know what your Lord has said last night?
They replied, "Allah and His Messenger know better."
He said:
قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُوْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ
فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَاكَ مُوْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَاكَ كَافِرٌ بِي مُوْمِنٌ بِالْكَوْكَب
Allah said; "This morning, some of My servants have become believers and some disbelievers in Me.
He who said: `We have had this rainfall due to the grace and mercy of Allah' is a believer in Me and a disbeliever in the stars. And he who said `we have had this rainfall due to the rising of such and such star' is a disbeliever in Me and a believer in the stars.
The Ayah:
...
قُلِ اللّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا
...
Say: "Allah is more swift in planning!"
means that Allah is more capable of gradually seizing them with punishment, while granting them concession of a delay until the criminals think that they would not be punished. But in reality they are in periods of respite, then they will be taken suddenly.
...
إنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
Certainly, Our messengers (angels) record all of that which you plot.
The noble writers (meaning the angels who write the deeds) will write everything that they do and keep count of their deeds. Then they will present it before the All-Knowing of the seen and unseen worlds. The Lord will then reward them for the significant deeds and even the seemingly insignificant that may be as tiny as a spot on a date pit.
Allah further states:
احسان فراموش انسان
انسان کی ناشکری کا بیان ہو رہا ہے کہ اسے سختی کے بعد کی آسانی ، خشک سالی کے بعد کی ترسالی ، قحط کے بعد کی بارش اور بھی ناشکرا کر دیتی ہے یہ ہماری آیتوں سے مذاق اڑانے لگتا ہے ۔ کیا تو اس وقت ہماری طرف ان کا جھکنا اور کیا اس وقت ان کا اکڑنا ۔ رات کو بارش ہوئی ، صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر پوچھا جانتے بھی ہو رات کو باری تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے؟ صحابہ نے کہا ہمیں کیا خبر؟ آپ نے فرمایا اللہ کا ارشاد ہوا ہے کہ صبح کو میرے بہت سے بندے ایماندار ہو جائیں گے اور بہت سے کافر ۔ کچھ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے اور ستاروں کی ایسی تاثیروں کے منکر ہو جائیں گے اور کچھ کہیں گے کہ فلاں فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش برسائی گئی وہ مجھ سے کافر ہو جائیں گے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ جیسے یہ چالبازی ان کی طرف سے ہے ۔ میں بھی اس کے جواب سے غافل نہیں انہیں ڈھیل دیتا ہوں ۔ یہ اسے غفلت سمجھتے ہیں پھر جب پکڑ آجاتی ہے تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں ۔ میں غافل نہیں ۔ میں نے تو اپنے امین فرشتے چھوڑ رکھے ہیں جو ان کے کرتوت برابر لکھتے جا رہے ہیں ۔ پھر میرے سامنے پیش کریں گے میں خود دانا بینا ہوں لیکن تاہم وہ سب تحریر میرے سامنے ہوگی ۔ جس میں ان کے چھوٹے بڑے بڑے بھلے سب اعمال ہوں گے ۔ اسی اللہ کی حفاظت میں تمہارے خشکی اور تری کے سفر ہوتے ہیں ۔ تم کشتیوں میں سوار ہو ، موافق ہوائیں چل رہی ہیں ۔ کشتیاں تیر کی طرح منزل مقصود کو جا رہی ہیں تم خوشیاں منا رہے ہو کہ یکایک باد مخالف چلی اور چاروں طرف سے پہاڑوں کی طرح موجیں اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ سمندر میں تلاطم شروع ہو گیا ۔ کشتی تنکے کی طرح جھکولے کھانے لگی اور تمہارے کلیجے الٹنے لگے ۔ ہر طرف سے موت نظر آنے لگی ، اس وقت سارے بنے بنائے معبود اپنی جگہ دھرے رہ گئے اور نہایت خشوع وخضوع سے صرف مجھ سے دعائیں مانگیں جانے لگیں وعدے کئے جانے لگے کہ اب کے اس مصیبت سے نجات مل جانے کے بعد شکر گزاری میں باقی عمر گزار دیں گے ، توحید میں لگے رہیں گے کسی کو اللہ کا شریک نہیں بنائیں گے ، آج سے خالص توبہ ہے ۔ لیکن ادھر نجات ملی ، کنارے پر اترے ، خشکی میں چلے پھرے کہ اس مصیبت کے وقت کو اس خالص دعا کو پھر اقرار شکر و توحید کو یکسر بھول گئے اور ایسے ہوگئے گویا ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا ۔ ہم سے کبھی معاملہ ہی نہ پڑا تھا ۔ ناحق اکڑفوں کرنے لگے ، مستی میں آگئے ۔ لوگو ! تمہاری اس سرکشی کا وبال تم پر ہی ہے ۔ تم اس سے دوسروں کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ گناہ جس پر یہاں بھی اللہ کی پکڑ نازل ہو اور آخر میں بھی بدترین عذاب ہو فساد و سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ تم اس دنیائے فانی کے تھوڑے سے برائے نام فائدے کو چاہے اٹھالو لیکن آخر انجام تو میری طرف ہی ہے ۔ میرے سامنے آؤ گے میرے قبضے میں ہوگے ۔ اس وقت ہم خود تمہیں تمہاری بد اعمالیوں پر متنبہ کریں گے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیں گے لہذا اچھائی پاکر ہمارا شکر کرو اور برائی دیکھ کر اپنے سوا کسی اور کو ملامت اور الزام نہ دو ۔