Surat Younus

Surah: 10

Verse: 22

سورة يونس

ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا کُنۡتُمۡ فِی الۡفُلۡکِ ۚ وَ جَرَیۡنَ بِہِمۡ بِرِیۡحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوۡا بِہَا جَآءَتۡہَا رِیۡحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡ ۙ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ ۚ لَئِنۡ اَنۡجَیۡتَنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۲۲﴾

It is He who enables you to travel on land and sea until, when you are in ships and they sail with them by a good wind and they rejoice therein, there comes a storm wind and the waves come upon them from everywhere and they assume that they are surrounded, supplicating Allah , sincere to Him in religion, "If You should save us from this, we will surely be among the thankful."

وہ اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ( برے ) آگھرے ( اس وقت ) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ... He it is Who enables you to travel through land and sea... which means that He preserves you and maintains you with His care and watching. ... حَتَّى إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُواْ بِهَا ... Till when you are in the ships, and they sail with them with a favorable wind, and they are glad therein... meaning smoothly and calmly; ... جَاءتْهَا ... then comes (these ships), ... رِيحٌ عَاصِفٌ ... a stormy wind, ... وَجَاءهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ ... and the waves come to them from all sides, ... وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ... and they think that they are encircled therein, meaning that are going to be destroyed. ... دَعَوُاْ اللّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ... Then they invoke Allah, making their faith pure for Him (alone), meaning that in this situation they would not invoke an idol or statue besides Allah. They would single Him out alone for their supplications and prayers. This is similar to Allah's statement: وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِى الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَ إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّـكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الاِنْسَـنُ كَفُورًا And when harm touches you upon the sea, those that you call upon vanish from you except Him (Allah alone). But when He brings you safe to land, you turn away (from Him). And man is ever ungrateful. (17:67) And in this Surah, He says: ... دَعَوُاْ اللّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَيِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـذِهِ ... They invoke Allah, making their faith pure for Him (saying): "If You (Allah) deliver us from this (situation)." ... لَنَكُونَنِّ مِنَ الشَّاكِرِينَ "We shall truly, be of the grateful." This means that we will not ascribe others as partners with You. We will later worship You alone as we are praying to You here and now. Allah states;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یسیرکم وہ تمہیں چلاتا یا چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے ' خشکی میں ' یعنی اس نے تمہیں قدم عطا کئے جن سے تم چلتے ہو، سواریاں مہیا کیں، جن پر سوار ہو کر دور دراز کے سفر کرتے ہو ' اور سمندر میں ' یعنی اللہ نے تمہیں کشتیاں اور جہاز بنانے کی عقل اور سمجھ دی، تم نے وہ بنائیں اور ان کے ذریعے سے سمندر کا سفر کرتے ہو۔ 22۔ 2 جس طرح دشمن کسی قوم یا شہر کا احاطہ یعنی محاصرہ کرلیتا ہے اور وہ دشمن کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ جب سخت ہواؤں کے تھپیڑوں اور تلاطم خیز موجوں میں گھر جاتے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آتی ہے۔ 22۔ 3 یعنی پھر وہ دعا میں غیر اللہ کی ملاوٹ نہیں کرتے جس طرح عام حالات میں کرتے ہیں۔ عام حالات میں تو کہتے ہیں کہ یہ بزرگ بھی اللہ کے بندے ہیں، انہیں بھی اللہ نے اختیارات سے نواز رکھا ہے اور انہی کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ لیکن جب اس طرح شدائد میں گھر جاتے ہیں تو یہ سارے شیطانی فلسفے بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ یاد رہ جاتا ہے اور پھر صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ انسان کی فطرت میں اللہ واحد کی طرف رجوع کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے۔ انسان ماحول سے متاثر ہو کر اس جذبے یا فطرت کو دبا دیتا ہے لیکن مصیبت میں یہ جذبہ ابھر آتا ہے اور یہ فطرت عود کر آتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ توحید، فطرت انسانی کی آواز اور اصل چیز ہے، جس سے انسان کو انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے انحراف فطرت سے انحراف جو سراسر گمراہی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مشرکین، جب اس طرح مصائب میں گھر جاتے تو وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کے بجائے، صرف ایک اللہ کو پکارتے تھے چناچہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رض) کے بارے میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح کیا تو یہ وہاں سے فرار ہوگئے۔ باہر کسی جگہ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے، تو کشتی طوفانی ہواؤں کی زد میں آگئی۔ جس پر ملاح نے کشتی میں سوار لوگوں سے کہا کہ آج اللہ واحد سے دعا کرو، تمہیں اس طوفان سے اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ حضرت عکرمہ (رض) کہتے ہیں، میں نے سوچا اگر سمندر میں نجات دینے والا صرف ایک اللہ ہے تو خشکی میں بھی یقینا نجات دینے والا وہی ہے۔ اور یہی بات محمد کہتے ہیں۔ چناچہ انہوں فیصلہ کرلیا اگر یہاں سے میں زندہ بچ کر نکل گیا تو مکہ واپس جا کر اسلام قبول کرلوں گا۔ چناچہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے، لیکن افسوس ! امت محمدیہ کے عوام اس طرح شرک میں پھنسے ہوئے ہیں کہ شدائد و آلام میں بھی وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے فوت شدہ بزرگوں کو ہی مشکل کشا سمجھتے اور انہی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] جب موت سامنے کھڑی نظر آئے تو صرف اللہ کو پکارنا :۔ اس آیت میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے جو یہ ہے کہ جب انسان پر کوئی ایسا مشکل وقت آپڑتا ہے جب تمام اسباب اور سہارے منقطع ہوتے نظر آنے لگتے ہیں تو اس وقت اس کی نظر اسباب سے اٹھ کر ایک اللہ پر آلگتی ہے اور وہ خالصتاً اللہ کو پکارنے لگتا ہے پھر جب وہ سختی کا وقت گزر جاتا ہے تو پھر انسان اللہ کو بھول جاتا ہے اور اس کی نظر پھر اسباب کی طرف جمنے لگتی ہے۔ وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں پھر اللہ تعالیٰ ویسی ہی تکلیف اور سختی کا ایک اور سبب نہ کھڑا کردے کیونکہ اسباب کی باگ ڈور بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ عکرمہ بن ابی جہل کا اسلام لانا :۔ مشرکین مکہ کی بھی ایسی ہی عادت تھی جس کا اس آیت میں ذکر آیا ہے چناچہ فتح مکہ کے بعد ابو جہل کا بیٹا عکرمہ (جو ابھی تک مسلمان نہ ہوا تھا) مکہ سے بھاگ کھڑا ہوا تاکہ کہیں قیدی نہ بنالیا جائے۔ جدہ سے بحری سفر اختیار کیا راستہ میں کشتی کو طوفانی ہواؤں نے گھیر لیا حتیٰ کہ مسافروں کو اپنی موت سامنے نظر آنے لگی اس وقت ناخدا نے مسافروں سے کہا کہ اب صرف ایک اللہ کو پکارو یہاں تمہارے دوسرے معبود کچھ کام نہ دیں گے یہ بات سن کر عکرمہ کے ذہن میں یک دم ایک انقلاب سا آگیا وہ سوچنے لگا یہ تو وہی اللہ ہے جس کی طرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاتے ہیں اگر سمندر میں اس کے بغیر نجات نہیں مل سکتی تو خشکی میں بھی وہی کام آسکتا ہے۔ پھر اللہ سے عہد کیا کہ اگر تو نے اس مصیبت سے نجات دی تو فوراً واپس جاکر اسلام قبول کرلوں گا چناچہ انہوں نے اپنا یہ عہد پورا کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مگر آج کا نام نہاد مسلمان شرک میں مشرکین مکہ سے دو چار ہاتھ آگے نکل گیا ہے وہ کم از کم مصیبت کے وقت تو صرف اللہ کو پکارتے تھے مگر یہ لوگ اس وقت بھی اپنے مشکل کشاؤں کو پکارتے ہیں اور شرک سے باز نہیں آتے شیطان نے ان پر ایسا تسلط جما رکھا ہے کہ مرتے وقت بھی اللہ کو پکارنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ایسے عقائد کی بنیاد دراصل تصور شیخ کا عقیدہ ہے صوفیاء نے سلوک کی منازل طے کرانے کے تین درجے مقرر کر رکھے ہیں۔۔ (١) فنا فی الشیخ، (٢) فنا فی الرسول، (٣) فنافی اللہ، فنا فی الشیخ کے درجے کی ابتداء تصور شیخ سے کرائی جاتی ہے۔ تصور شیخ سے مراد صرف پیر کی && غیر مشروط اطاعت && ہی نہیں ہوتی بلکہ اسے یہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کا پیر ہر وقت اس کے حالات سے باخبر رہتا ہے اور بوقت ضرورت اس کی مدد کو پہنچ جاتا ہے اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لیے اسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت پیر کی شکل کو اپنے ذہن میں رکھے یہی واہمہ اور مشق بسا اوقات ایک حقیقت بن کر سامنے آنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو مسلمانوں کو صرف رسول اللہ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا تھا لیکن صوفیاء کی اس قسم کی تعلیم مرید اور پیر کو عبد اور معبود کے مقام پر لاکھڑا کرتی ہے جس کا کسی نبی کو بھی حق نہ تھا۔ صوفیاء نے پیری کے فن کو خاص تکنیک دے کر عوام پر اس طرح مسلط کردیا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک اللہ کے ہاں رسائی پا ہی نہیں سکتا جب تک باقاعدہ کسی سلسلہ طریقت میں داخل نہ ہو۔ پہلے تصور شیخ کی مشق کرے حتیٰ کہ فنا فی الشیخ ہوجائے یعنی اسے اپنی ذات کے لیے حاضر وناظر، افعال و کردار اور گفتار کو دیکھنے اور سننے والا سمجھنے لگے تب جاکر یہ منزل ختم ہوتی ہے اور عملاً ہوتا یہ ہے کہ مرید بےچارے تمام عمر فنا فی الشیخ کی منزل میں ہی غوطے کھاتے کھاتے ختم ہوجاتے ہیں یہ گویا اللہ اور اس کے رسول سے بیگانہ کرنے اور اپنا غلام بنانے کا کارگر اور کامیاب حربہ ہے چناچہ مولانا اشرف علی تھانوی کا درج ذیل اقتباس اس حقیقت پر پوری طرح روشنی ڈالتا ہے۔ تصور فی الشیخ کا گمراہ کن عقیدہ :۔ && ان (صوفیاء) کے طریق میں بعض ایسی چیزیں جو نصوص میں وارد نہیں، شرط طریق ہیں اور شرط بھی اعظم واہم۔ چناچہ تصور شیخ باوجودیکہ کسی نص میں وارد نہیں اور پھر خطرناک بھی ہے اور بعض کو اس میں غلو بھی ہوگیا ہے اور اسی خطرہ و غلو کے سبب مولانا شہید اس کو منع فرماتے تھے مگر باوجود ان باتوں کے اکابر نقشبندیہ اس کو مقصود فرماتے ہیں چناچہ انوار العارفین && ذکر تصور شیخ && میں کنز الہدایہ بحوالہ مکتوبات مجدد صاحب کا ارشاد نقل ہے کہ && ذکر تنہا بےرابطہ و بےفنا فی الشیخ موصل نیست۔ ذکر ہرچند از اسباب وصول است لیکن غالباً مشروط برابطہ محبت و فنا فی الشیخ است && (تجدید تصوف و سلوک ص ٤٤٣) ۔ (ترجمہ) فنا فی الشیخ ہونے کے بغیر تنہا ذکر سے اللہ تک رسائی نہیں ہوسکتی اگرچہ ذکر بھی رسائی کا ایک سبب ہے لیکن اس کی غالب شرط (پیر سے) محبت کا تعلق اور اس میں فنا ہونا ہے۔ اقتباس بالا سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ تصور شیخ کے عقیدہ کا قرآن و سنت میں کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ٢۔ یہ عقیدہ انتہائی خطرناک اور گمراہ کن ہے۔ ٣۔ ان دونوں باتوں کے باوجود صوفیاء اور خصوصاً نقشبندیوں نے اللہ تک رسائی کی سب سے بڑی اور اہم شرط قرار دیا ہے : چناچہ مولانا روم اسی فلسفہ تصور ثلاثہ کی اہمیت یوں بیان فرما رہے ہیں : پیر کامل صورت ظل الٰہ یعنی دید پیر دید کبریا برکہ پیر و ذات اور ایک نہ دید نے مرید نے مرید نے مرید (ترجمہ) && پیر کامل اللہ کے سایہ کی صورت ہوتا ہے یعنی پیر کو دیکھنا حقیقتاً اللہ ہی کو دیکھنا ہے جس نے پیر اور اللہ کی ذات کو ایک نہ دیکھا وہ ہرگز مرید نہیں ہے، مرید نہیں ہے، مرید نہیں ہے && اسی عقیدہ کا یہ اثر ہے کہ معین الدین اجمیری نے فرمایا کہ && اگر روز قیامت اللہ تعالیٰ کا جمال میرے پیر کی صورت میں ہوگا تو دیکھوں گا ورنہ اس کی طرف منہ بھی نہ کروں گا۔ && (ریاض السالکین، ص ٢٣١) اور بابا فرید گنج شکر نے فرمایا &&: اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے پیر کی صورت کے سوا کسی دوسری صورت میں اپنا جمال یا کمال دکھائے گا تو میں اس کی طرف آنکھ بھی نہ کھولوں گا && (اقتباس الانوار، ص ٢٩٠، مطبوعہ مجتبائی دہلی بحوالہ ایضاً ) اور شیخ محمد صادق نے فرمایا : && اللہ کا دیدار بھی اگر پیر دستگیر کی صورت میں ہوا تو دیکھوں گا ورنہ اسے بالکل نہ چاہوں گا && (ریاض السالکین، ص ٢٣١) دیکھا آپ نے تصور شیخ کا یہ فارمولا کیسے شاندار نتائج پیدا کرکے مرید کو بس شیخ ہی کی جھولی میں ڈال دیتا ہے یہ عقیدہ جہاں ایک طرف پیر کو خدائی تقدس عطا کرتا ہے تو دوسری طرف مرید کو اندھی عقیدت میں مبتلا کردیتا ہے اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لیے جس طرح کے افسانے تراشے جاتے ہیں ان کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے راوی امام اہل سنت احمد رضا خاں مجدد مائۃً حاضر ہیں اور غالباً && حدیقہ ندیہ && کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ جنید بغدادی اور تصور شیخ :۔ && ایک مرتبہ سیدی جنید بغدادی دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی طرح چلنا شروع کردیا بعد میں ایک شخص آیا اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا عرض کیا میں کیسے آؤں ؟ فرمایا یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا جب بیچ دریا میں پہنچا تو شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں ؟ اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا پکارا یا حضرت ! میں چلا۔ فرمایا وہی کہہ && یاجنید یا جنید && جب کہا دریا سے پار ہوا۔ عرض کیا حضرت یہ کیا بات تھی ؟ آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاؤں ؟ فرمایا : اے نادان ! ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے۔ اللہ اکبر && (ملفوظات مجدد مائۃً حاضر اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی) اب دیکھئے اس واقعہ کے محض ایک افسانہ ہونے کی نقلی دلیل تو یہ ہے کہ آپ اسے غالباً && حدیقہ ندیہ && کے حوالہ سے پیش فرما رہے ہیں۔ یعنی محض عقائد کا سہارا لے کر ان تمام اصول اسناد کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ جو علمائے اسلام کی نظر میں علم و حکمت کی روح سمجھے جاتے رہے ہیں اور عقلی دلیل یہ ہے کہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اگر آج تمام مشائخ اور پیران کرام مل کر بھی ایسا کرشمہ دکھا دیں ان میں سے کوئی ایک دریا پر زمین کی طرف چل کر دکھا دے اور اس کا مرید اللہ کہنے سے غوطہ کھانے لگے تو میں اور میرا کنبہ سب اس کے مرید ہوجائیں گے اور اس افسانہ تراش نے کمال یہ دکھایا ہے کہ اس ایک واقعہ سے قرآن کی بیشمار آیات کا رد پیش فرما دیا ہے۔ مثلاً : ١۔ ہم ہر نماز میں اور اس کی ہر رکعت میں (اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) پڑھتے ہیں یعنی صرف تجھ اکیلے سے استعانت چاہتے ہیں لیکن یہ واقعہ اللہ کو نظر انداز کرکے پیر سے استعانت کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ 60؀ ) 40 ۔ غافر :60) لیکن یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ مشکل وقت میں اللہ کو پکارنے سے سخت نقصان ہوتا ہے اس کی بجائے اپنے پیر کو بلایا جائے تو بہت ہی فائدہ ہوسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : (وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ١٨٦۔ ) 2 ۔ البقرة :186) لیکن یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ قریب پیر ہے اللہ تو بہت دور ہے لہذا اگر اللہ تعالیٰ تک رسائی چاہتے ہو تو اپنے پیر کا ذکر کرو۔ اس واقعہ نے شرک کی بہت سی راہیں کھول دی ہیں اور ندا، لغیر اللہ، استمداد، توسل، استعانت اور تصور شیخ جیسے اہم مسائل کو انتہائی ضروری قرار دیا ہے وہاں افسانہ تراش کا کمال یہ ہے کہ ایسا لاجواب افسانہ گھڑا کہ مرید بےچارے کو تسلیم کرنا پڑا کہ میرا اللہ کو پکارنا واقعی ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ اب غالباً آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ مشرکین مکہ جب سمندر میں گھر جاتے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی تھی تو اس وقت صرف اکیلے اللہ کو کیوں پکارنے لگتے تھے اور ہمارے دور کے مشرک اس وقت بھی اپنے پیر کو کیوں پکارتے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۔۔ : اس آیت میں بھی پہلے مشرکین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے۔ آگے چل کر ان کا ذکر غائب کے ساتھ کیا کہ وہ کشتیاں انھیں لے کر چل پڑتی ہیں۔ مخاطب کو غائب کے الفاظ سے ذکر کرنا التفات کہلاتا ہے۔ یہ التفات بھی ناراضگی کے اظہار کے لیے ہے کہ یہ لوگ اپنی بدعہدی کی وجہ سے خطاب کے قابل نہیں، اس لیے ان کا غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا کہ جب وہ کشتیاں موافق اور طیب ہوا کے ساتھ ان کی خواہش کے مطابق چل رہی ہوتی ہیں تو اچانک تند و تیز آندھی آجاتی ہے اور انھیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ گھیرے میں آ چکے ہیں، اب اگر اللہ تعالیٰ نہ بچائے تو بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ : تو یہ مشرک لوگ (جو خطاب کے قابل ہی نہیں ہیں) اپنی پوری عبادت اور اطاعت ایک اللہ کے لیے خالص کر کے صرف اسی کو پکارتے ہیں اور اپنے تمام معبودوں اور بتوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ وزاری کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ : یہ تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب کا حال بیان فرمایا ہے، مگر ہمارے زمانے کے بعض نام کے مسلمانوں کا حال ان سے بھی بدتر ہے، ان پر جب کوئی بڑی مصیبت آتی ہے، مثلاً دریا میں ڈوبنے یا آگ میں جلنے لگتے ہیں تو بھی شرک سے توبہ نہیں کرتے اور وہی ” یا خواجہ خضر “ ” یا علی مدد “ کا نعرہ لگاتے ہیں، مرتے اور ڈوبتے وقت بھی اللہ کو نہیں پکارتے۔ [ لاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھُوَالَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ۝ ٠ ۚ وَجَرَيْنَ بِہِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا جَاۗءَتْہَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِہِمْ۝ ٠ ۙ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝ ٠ۥۚ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ۝ ٢٢ سار السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ. والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، والتَّسْيِيرُ ضربان : أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] . والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، والسِّيرَةُ : الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا . ( س ی ر ) السیر ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ جری ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے عصف العَصْفُ والعَصِيفَةُ : الذي يُعْصَفُ من الزّرعِ ، ويقال لحطام النّبت المتکسّر : عَصْفٌ. قال تعالی: وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] ، ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ، وعَاصِفَةٌ ومُعْصِفَةٌ: تَكْسِرُ الشیءَ فتجعله كَعَصْفٍ ، وعَصَفَتْ بهم الرّيحُ تشبيها بذلک . ( ع ص ف ) العصف واعصیفتہ کھیتی کے پتے جو کاٹ لئے جاتے ہیں نیز خشک نباتات جو ٹوٹ کر چور چور ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] اور اناج چھلکے کے اندر ہوتا ہے ۔ ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] جیسے کھا یا ہوا بھس ہو ۔ ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ریح عاصف وعاصفتہ ومعصفتہ تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنادے اور مجازا عصفت بھم الریح کے معنی ہیں وہ ہلاک اور برباد ہوگئے ۔ موج المَوْج في البحر : ما يعلو من غوارب الماء . قال تعالی: فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود/ 42] ، يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور/ 40] ومَاجَ كذا يَمُوجُ ، وتَمَوَّجَ تَمَوُّجاً : اضطرب اضطرابَ الموج . قال تعالی: وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ( م و ج ) الموج سمندر سے پانی کی جو لہر مغرب کی طرف سے اٹھتی ہے اسے موج کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ ۔ فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود/ 42] مہروں میں چلنے لگی ( لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ ( تھے) يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور/ 40] جس پر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر آرہی ہے ماج کذا یموج وتموج تموجا موج کی طرح سضطرب ہونا۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس ( روز ) ہم ان کو چھوڑ دیں گے ۔ کہ روئے زمین پر پھیل کر ) ایک دوسرے میں گھس جائیں ۔ «مَكَانُ»( استکان) قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) ہمارے فرشتے، جو کچھ جھوٹ کہہ رہے ہو اور جو خداوند کی نافرمانیاں کررہے ہو، سب کچھ لکھ رہے ہیں یعنی جس وقت تم خشکی میں سواری پر سفر کرتے ہو اور دریا میں کشتیوں میں سفر کرتے ہو، وہ تمہاری حفاظت کرتا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو، اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور کشتی چلانے والے موافق ہوا سے خوش ہوتے ہیں اس حالت میں اچانک ایک جھونکا ان کشتیوں پر سخت ترین باد مخالف کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان لوگوں پر موجیں اٹھی چلی آتی ہیں، اس وقت انھیں اس بات کا قطعی یقین اور علم ہوجاتا ہے کہ سب ہلاک ہوجائیں گے، تب سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں کہ اگر آپ ہمیں اس مصبیت اور اس سخت ہوا سے بچالیں تو ہم ضرور فرمانبردار اور مومن بن جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (ہُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط) ” وہی ہے جو تمہیں سیر کراتا ہے خشکی اور سمندر میں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے مختلف قوانین طبعی کے تحت مختلف چیزوں کو سواریوں کے طور پر انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔ (حَتّٰیٓ اِذَا کُنْتُمْ فِی الْْفُلْکِج وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا) ” یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو ‘ اور وہ چل رہی ہوتی ہیں انہیں (سواروں کو) لے کر خوشگوار (موافق) ہوا کے ساتھ اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں “ (جَآءَ تْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَآءَ ہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اُحِیْطَ بِہِمْلا) ” کہ اچانک تیز ہوا کا جھکڑ چل پڑتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف بڑھنے لگتی ہیں اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ ان (لہروں) میں گھیر لیے گئے ہیں “ ہر طرف سے پہاڑ جیسی لہروں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب وہ لہروں میں گھر گئے ہیں اور ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ (دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَج لَءِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ ) ” (اس وقت ) وہ پکارتے ہیں اللہ کو ‘ اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے کہ ( اے اللہ ! ) اگرُ تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم لازماً ہوجائیں گے بہت شکر کرنے والوں میں سے ۔ “ ایسے مشکل وقت میں انہیں صرف اللہ ہی یاد آتا ہے ‘ کسی دیوی یا دیوتا کا خیال نہیں آتا۔ اس سلسلے میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کے بارے میں بہت اہم واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد وہ حجاز سے فرار ہو کر حبشہ جانے کے لیے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ کشتی میں سوار تھے کہ کشتی اچانک طوفان میں گھر گئی۔ کشتی میں تمام لوگ مشرکین تھے ‘ لیکن اس مصیبت کی گھڑی میں کسی کو بھی لات ‘ منات ‘ عزیٰ اور ہبل یاد نہ آئے اور انہوں نے مدد کے لیے پکارا تو اللہ کو پکارا۔ اسی لمحے عکرمہ کو اس حقیقت کے انکشاف نے چونکا دیا کہ یہی تو وہ پیغام ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں دے رہے ہیں۔ چناچہ وہ واپس لوٹ آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ اس کے بعد یہی عکرمہ (رض) اسلام کے زبردست مجاہد ثابت ہوئے ‘ اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے دور خلافت میں منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کے خلاف جہاد میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ دراصل اللہ کی معرفت انسان کی فطرت کے اندر سمو دی گئی ہے۔ بعض اوقات باطل خیالات و نظریات کا ملمع اس معرفت کی قبولیت میں آڑے آجاتا ہے ‘ لیکن جب یہ ملمع اترنے کا کوئی سبب پیدا ہوتا ہے تو اندر سے انسانی فطرت اپنی اصلی حالت میں نمایاں ہوجاتی ہے جو حق کو پہچاننے میں لمحہ بھر کو دیر نہیں کرتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31. This particular 'sign' which testifies to the truth of belief in the One True God is innate in human nature and hence can be witnessed by all. However, as long as the means of self-indulgence are plentiful, man tends to forget God and exults in his worldly enjoyment. But as soon as the means which have led him to his worldly efflorescence are gone, even the most die-hard polytheists and atheists begin to appreciate this innate sign testifying that there indeed is a God Who has His firm grip over the universe, and that it is the One True God alone Who is all-powerful and Who holds sway over all that exists. (For details see Towards Understanding the Qur'an, vol. II, al-An 'am 6, n. 29, pp. 231-3-Ed.)

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :31 یہ توحید کے برحق ہونے کی نشانی ہر انسان کے نفس میں موجود ہے ۔ جب تک اسباب سازگار رہتے ہیں ، انسان خدا کو بھولا اور دنیا کی زندگی پر پھولا رہتا ہے ۔ جہاں اسباب نے ساتھ چھوڑا اور وہ سب سہارے جن کے بل پر وہ جی رہا تھا ٹوٹ گئے ، پھر کٹے سے کٹے مشرک اور سخت سے سخت دہریے کے قلب سے بھی یہ شہادت ابلنی شروع ہو جاتی ہے کہ اس سارے عالم اسباب پر کوئی خدا کار فرما ہے اور وہ ایک ہی خدائے غالب و توانا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو الانعام ، حاشیہ نمبر ۲۹ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:22) یسیرکم۔ مضارع واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تم کو سیر کراتا ہے۔ تم کو لئے پھرتا ہے۔ تسیر (تفعیل) مصدر۔ الفلک۔ کشتی۔ جہاز۔ یہ لفظ مؤنث ۔ مزکر ۔ واحد ۔ جمع سب کے لئے آتا ہے ۔ یہاں جمع کے لئے آیا ہے۔ جرین۔ ماضی جمع مؤنث غائب۔ جری یجری (ضرب) جری سے۔ وہ چلیں ۔ وہ جاری ہوئیں۔ وہ رواں ہوئیں۔ بھم۔ ان کو لے کر۔ بریح میں ب سببیہ ہے۔ ریح طیبہ کی وجہ سے۔ یعنی موافق ہوا کی وجہ سے۔ ریح عاصف کی ضد ہے۔ فرحوا بھا۔ وہ اس موافق ہوا کی وجہ سے شادان وفرحاں ہیں۔ ریح عاصف۔ باد تند ۔ آندھی۔ عاصف عصف یعصف (ضرب) سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ عصفت الریح۔ ہوا تیز چلی۔ عصف الرجل آدمی تیز دوڑا۔ احیط بہم۔ ان کو گھیر لیا گیا ہے۔ احیط۔ احاط یحیط سے ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ مخلصین لہ الدین۔ خالصۃ۔ اسی کی اطاعت کرتے ہوئے۔ اطاعت و عبادت میں خالصۃ اسی کے بن کر۔ بلاشرکت غیرے اسی کی اطاعت میں ہوکر۔ یہاں پہلے مخاطب کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ پھر وجرین بھم سے لے کر اگلی آیت تک غیب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ خطاب سے غیبت کی طرف انتقال اظہار ناراضگی اور بعد کے لئے ہے۔ انجیتنا۔ تو ہمیں بچالے۔ تو ہمیں نجات بخشے۔ تو ہمیں چھٹکارا دلادے انجی ینجی انجاء (افعال) رہائی دلانا۔ بجات دلانا من ھذہ ای من ھذہ الاحوال۔ من ھذہ الریح العاصف۔ ان مصائب وشدائد سے۔ اس باد تند (طوفان) سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7۔ اور اپنے تمام بتوں اور معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ وزاری کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) ۔ 8۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب کا حال بیان فرمایا مگر ہمارے زمانے کے بعض نام کے مسلمانوں کا حال اس سے بھی بدتر ہے ان پر جب کوئی بڑی مصیبت آتی ہے مثلاً دریا میں ڈوبنے یا آگ میں جلنے لگتے ہیں تو بھی شرک سے توبہ نہیں کرتے اور وہی ” یا خواجہ خضر “ یا علی مدد کا نعرہ لگاتے ہیں بلکہ مرتے اور ڈوبتے وقت بھی اللہ کو نہیں پکارتے۔ لاحول ولا قوہ الا باللہ۔ (ازوحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی جن آلات و اسباب سے تم چلتے پھرتے ہو وہ سب اللہ ہی کے دیے ہوئے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور کافر کی فطرت خبیثہ کا ذکر۔ اس سے پہلی آیات میں مسئلہ شفاعت کے حوالے توحید بیان کی گئی۔ درمیان میں کفار کے عذاب کا مطالبہ کرنے پر انہیں ہلکی سی سرزنش کی گئی۔ اب پھر توحید کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ مضمون کا ربط قائم کرنے اور سابقہ دلائل کے استحضار کے لیے ( ھُوَالَّذِیْ ) کے الفاظ استعمال فرمائے۔ اس اللہ کی ذات اور صفات ماننے کی دعوت دی جارہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے۔ ذراغور کرو اور سوچو ! کہ کتنے تمہارے جیسے انسان ہیں جن کی ٹانگیں ہیں مگر کسی بیماری کی وجہ سے چل نہیں سکتے، وجود ہیں مگر حرکت نہیں کرسکتے، روح ہے مگر زندگی سے بےزار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ملّاح اور کشتی موجود ہے۔ مگر بھنور میں پھنس چکی ہے۔ ملاح چپو پر چپو چلا رہا ہے لیکن کشتی بھنور سے نکلنے کی بجائے پھنستی چلی جارہی ہے۔ ملّاح مسافروں سے دعا کے لیے کہتا ہے۔ ان کو اپنی موت کا یقین ہوچلا ہے۔ جس وجہ سے شرک کے پردے ہٹ گئے اور دل نے شہادت دی کہ صرف اور صرف ایک رب کو پکارو۔ ہر مسافردل کی اتھاہ گہرائیوں، اور نہایت درماندگی کے ساتھ پکارنے لگا۔ اے زمین و آسمانوں کے مالک تیرا نہ کوئی ساجھی ہے اور نہ کوئی معاون۔ بس تو ہماری فریاد کو مستجاب کرکے ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ آسمان سے آواز آتی ہے۔ جس میں نہ طعنہ ہے اور نہ کوئی جھڑک۔ (اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِطءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِطقَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ )[ النمل : ٦٢] ” کون ہے جو لا چار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔ “ یہاں اسی صورت حال کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اے لوگو جب تم کشتی پر سوار ہوتے ہو، ٹھنڈی اور موافق ہوائیں چلتی ہیں جو کشتی کے تیز چلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ تو تم خوش ہوتے ہو۔ یہاں روح پر ور منظر کا نقشہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ اپنی بےپایاں رحمت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد یک دم ہوا کا دباؤ بڑھا جس نے بھونچال کی شکل اختیار کرلی خوشگوار فضاء کی جگہ بھنور نے لی اور مسافروں کو جان کے لالے پڑگئے ہر کوئی موت کو اپنے سامنے دیکھنے لگا۔ کشتی کے ملاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ ساحل تک پہنچنے کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ تمام مسافر ادھر ادھر کے سہاروں اور باطل معبودوں کو چھوڑ کر اخلاص کے ساتھ صرف ایک اللہ کو پکارنے لگے ہر کسی نے دل ہی دل میں عہد باندھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے بچا لیا تو اس کے شکر گزار بندے بن کر زندگی بھر اسی کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھیں گے۔ یہاں اخلاص سے پہلی مراد عقیدہ توحید کی طرف رجوع ہے جوں ہی کشتی کنارے لگی۔ مشرک اللہ سے کیے ہوئے عہد کو بھول گئے اب کوئی خواجہ خضر کو نجات دہندہ سمجھ رہا ہے اور کسی نے پیر عبدالقادر جیلانی کو دستگیر بنالیا ہے۔ ایسی پکار اللہ تعالیٰ کے ساتھ بغاوت اور اس کی پرلے درجے کی ناشکری ہے۔ جس کی واضح مثال ١٩٦٥ ء میں ہندوستان کے ساتھ جنگ میں دیکھی اور سنی گئی۔ سترہ دن کی جنگ میں پاکستان کے مردوزن صرف اور صرف اللہ سے مدد طلب کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہندوستان پر کامیابی اور برتری عنایت فرمائی۔ جوں ہی جنگ ختم ہوئی تو ایک مکتب فکر کے علماء اور عوام نے کہانیاں بنانا شروع کردیں کہ فلاں محاذ پر فلاں بزرگ نے ہندوستان کے بم دپوچ کر شہر کو بچا لیا۔ ١٩٧١ ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔ نوے ہزار فوج کئی جرنیلوں سمیت ہندوستان کی غلام بنی۔ شکر گڑھ کا علاقہ ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔ اس وقت کسی پیر، فقیر نے کیوں مدد نہ کی ؟ عراق پر امریکہ نے مسلسل بمباری کی۔ جس میں پیر عبدالقادر شاہ جیلانی (رض) کے مزار کا ایک حصہ منہدم ہوا۔ نجف میں حضرت علی (رض) کے مرقد کا ایک حصہ بمباری کا نشانہ بنا۔ پوراعراق کئی سال سے اتحادی فوجوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ نہ پیر جیلانی دفاع کرپائے اور نہ حضرت علی (رض) کسی کو بچا سکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی مدد نہیں کرسکتا۔ کاش شرک کرنے والے بھائی اس حقیقت کو سمجھ جائیں۔ جس کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور خدائی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لوگو ! اس بغاوت کا تمہیں ہی نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ یاد رکھو یہ دنیا کی زندگی معمولی اور قلیل ہے بالآخر تم نے ہمارے پاس حاضر ہونا ہے ہم تمہیں بتائیں گے کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ : مفسرین نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ نقل کیا ہے۔ جب مکہ فتح ہوا تو عکرمہ یہ سوچ کر بھاگ نکلا کہ مجھے کسی صورت بھی معافی نہیں مل سکتی۔ جدہ کی بندرگاہ پر پہنچا اور بیڑے میں سوار ہوا۔ لیکن اللہ کی قدرت کہ جوں ہی بیڑے نے ساحل چھوڑا تو وہ اتنے شدید بھنور میں پھنسا کہ ملاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب نجات کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ مصیبت کی گھڑی میں ملاح نے مسافروں سے کہا کہ جب کبھی بیڑے کو ایسے طوفان کا واسطہ پڑتا ہے تو کسی اور کی بجائے صرف ایک اللہ کو پکارا جاتا ہے۔ اس لیے صرف ایک اللہ کے حضور فریادیں کرو اس کے سوا کوئی بیڑا پار لگانے والا نہیں۔ یہ بات حضرت عکرمہ (رض) کے دل پر اثر کرگئی اور اس نے سوچا کہ یہی تو ہمیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دیتا ہے لہٰذا اگر یہاں سے بچ نکلا تو میں حلقہ اسلام میں داخل ہوجاؤں گا چناچہ حضرت عکرمہ (رض) حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور باقی زندگی اسلام اور رسول محترم کے ساتھ اخلاص کے ساتھ گزاری اور جنت کے وارث بنے۔ تفصیل کے لیے کسی مستند سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِےْمَا ےَرْوِیْ عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اَنَّہُ قَالَ ےَا عِبَادِیْ اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہُ بَےْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا ےَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ ضَآلٌّ اِلَّا مَنْ ھَدَےْتُہُ ۔۔ ےَا عِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَّا زَادَ ذَالِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَےْءًا ےَا عِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَّا نَقَصَ ذَالِکَ مِنْ مُّلْکِیْ شَےْءًا)[ رواہ مسلم : باب تحریم الظلم ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔ میرے بندو ! میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کیا اور تمہارے درمیان بھی ظلم ناجائز قرار دیا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ میرے بندو ! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔۔ میرے بندو ! تمہارے تمام اگلے پچھلے ‘ جنّ وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو ! تمہارے اگلے پچھلے جنّ وانس سب سے بدترین فاسق وفاجر انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتے۔ “ مسائل ١۔ اللہ ہی خشکی اور تری میں نجات دینے والا ہے۔ ٢۔ مصیبت کے وقت مشرکین بھی اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں۔ ٣۔ مشکل دور ہوتے ہی مشرک اللہ کو بھول جاتے تھے۔ ٤۔ کسی شخص کی سرکشی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ٧۔ دنیاکا سازو سامان چند روزہ ہے ٨۔ ہر ایک نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ٩۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے اعمال سے آگاہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کو ہر حال میں اخلاص کے ساتھ پکارنا چاہیے : ١۔ مشرک جب کسی مشکل میں گھر جاتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ ( یونس : ٢٢) ٢۔ لوگو اللہ کی خالص عبادت کرو۔ (الزمر : ٣) ٣۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کیخالص عبادت کروں۔ (الزمر : ١١) ٤۔ جب مشرکین کشتی پر سوار ہوتے ہیں خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٥۔ مومنو ! اللہ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن : ١٤) ٦۔ اللہ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھو الذی یسیرکم فی البر والبحر اللہ وہی ہے جو خشکی اور سمندر میں تم کو چلاتا ہے۔ یعنی تم کو سفر پر آمادہ کرتا اور چلنے کی طاقت دیتا ہے۔ حتی اذا کنتم فی الفلک یہاں تک کہ جب تم کشتیوں (اور جہازوں) میں ہوتے ہو۔ فُلک کا استعمال ایک کیلئے بھی ہوتا ہے اور ایک سے زیادہ کیلئے بھی (گویا یہ لفظ واحد بھی ہے اور جمع بھی) اس آیت میں جمع کا معنی مراد ہے کیونکہ آئندہ فقرہ میں جمع کی ضمیر اس لفظ کی طرف راجع کی گئی ہے۔ وجرین بھم اور کشتیاں (یا جہاز) اپنی سواریوں کو لے کر چلتے ہیں۔ کنتم میں خطاب ہے اور بھم میں ضمیر غائب ہے۔ عبارت کی یہ رنگینی کلام میں زور پیدا کرنے کیلئے اختیار کی گئی۔ ھِمْ کا لفظ بتا رہا ہے کہ یہ تذکرہ مخاطبین کا نہیں ‘ دوسرے لوگوں کا ہے جن کی حالت تعجب انگیز ہے۔ بریح طیبۃ نرم رفتار منزل تک پہنچانے والی ہوا کے ساتھ۔ وفرحوا بھا اور خوش رفتار ہوا کی وجہ سے وہ خوش ہوتے ہیں۔ جآء ھا ریح عاصف تو (کشتیوں پر) آجاتی ہے آندھی ‘ یعنی سخت طوفان۔ وجآء ھم الموج من کل مکان اور ہر جگہ (یا ہر طرف) سے ان پر (طوفانی) موجیں آجاتی ہیں۔ وظنوا انھم احیط بھم اور ان کا غالب گمان ہوجاتا ہے کہ ہر طرف سے وہ موجوں اور تباہیوں سے گھر گئے ‘ بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ مستقبل میں ہلاک ہوجانے کے قرائن ہوتے ہیں اور قرائن سے غالب گمان ہی ہو سکتا ہے ‘ یقین نہیں پیدا ہوتا ‘ اسلئے ظنوا فرمایا۔ دعوا اللہ مخلصین لہ الدین اس وقت سب خالص اعتقاد کے ساتھ اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔ یعنی خلوص دل کے ساتھ اللہ سے دعا کرتے ہیں ‘ سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں پکارتے۔ عرب کے مشرک بھی سخت مصیبت پڑنے پر اللہ ہی کو پکارتے تھے۔ لئن انجیتنا من ھذہ لنکونن من الشکرین۔ اگر تو ہم کو اس طوفان سے بچا لے گا تو ہم شکر کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر تو ہم کو الخ۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو الخ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد اللہ جل شانہ ‘ نے اپنے بہت بڑے انعام کا تذکرہ فرمایا (ھُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَّرِ وَالْبَحْرِ ) (الایۃ) (اللہ تعالیٰ تمہیں خشکی میں اور سمندر میں چلاتا ہے) خشکی میں تو پاؤں سے اور جانوروں پر اور دوسری سواریوں پر سوار ہو کر چلتے پھرتے ہیں۔ دور دراز کا سفر کر کے اپنی حاجت کی چیزیں فراہم کرتے ہیں اور سمندر کا سفر چھوٹی بڑی کشتیوں میں کرتے ہیں یہ کشتیاں بھی انسان کی حاجت پوری کرنے کا ذریعہ ہیں اس کنارہ سے اس کنارہ اس شہر سے دوسرے شہر ‘ اور اس براعظم سے دوسرے براعظم تک پانی کے جہاز آتے جاتے ہیں اور انسان کی ضروریات فراہم کرتے ہیں۔ زمانہ نزول قرآن میں باد بانی کشتیاں ہوتی تھیں۔ ہوا موافق ہوئی تو کشتیاں چلنے لگیں۔ ہوا بند ہوگئی تو کھڑی ہوگئیں (فَیَظْلَلْنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَھْرِہٖ ) ہوا موافق ہے اور نرم ہے خوشگوار ہے تو خوش ہو رہے ہیں اور اگر تیز ہوا چلنے لگی اور ہر طرف سے موجیں اٹھ اٹھ کر آنے لگیں تو میاں ڈرنے لگے اور یقین کرلیا کہ اب تو گھیرے میں آگئے اس وقت سوچتے ہیں کہ جان کیسے بچے ؟ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر نظر نہیں جاتی جو اس مصیبت سے بچائے اور بھنور کو ہٹائے ‘ لہٰذا اللہ کے حضور میں خالص اعتقاد کے ساتھ دعا کرنے لگتے ہیں کہ اے اللہ اگر آپ نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ضرور ضرور آپ کے شکر گزار بندوں میں ہوں گے۔ جب اللہ تعالیٰ مصیبت سے بچا دیتا ہے تو پھر وہی اللہ کی زمین میں بغاوت ‘ شرارت اور سرکشی کرنے لگتے ہیں جس کا انہیں کوئی حق نہیں۔ اول تو خالق ومالک کی بغاوت ہی ناحق ہے پھر اوپر سے وعدہ کر کے بھول بھلیاں کردینا اور شکر کے بجائے کفر ان نعمت میں لگ جانا اور توحید کی بجائے شرک کو اپنا لینا یہ سب بغاوت در بغاوت ہے اور کفر ہی کفر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38: یہ توحید پر چوتھی عقلی دلیل ہے۔ “ جَرَیْنَ بِھِمْ ” یہاں خطاب سے غیبت کی طرف التفات ہے۔ یعنی پہلے مشرکین کو ضمیر خطاب سے مخاطب فرمایا اس کے بعد ضمیر خطاب کی ضمیر غائب استعمال فرمائی۔ جب مشرکین سمندروں اور دریاؤں میں سفر کرتے اور ہوا کا رخ موافق ہوتا تو بہت خوش ہوتے لیکن اگر ان کی کشتیاں طوفانِ باد و باراں میں گھر جاتیں تو نہایت خلوص سے اللہ تعالیٰ کو پکارانا شروع کردیتے اور معبودان باطلہ کو بھول جاتے اور ساتھ ہی یہ بھی عہد کرتے کہ اے اللہ ! اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دیدی تو ہم تیرا شکر ادا کریں گے اور صرف تیری ہی عبادت کریں گے اور ہر کام میں تجھے ہی پکارا کریں گے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ ان کی کشتیاں صحیح سلامت کنارے لگا دیتا تو وہ پھر شرک کرنے لگتے۔ “ دَعَوُوا اللّٰه مُخْلِصِیْنَ اي دعوہ وحدہ وترکوا ماکانو یعبدون ” (قرطبی ج 8 ص 325) ۔ مشرکین حضرت پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنتے تھے کہ اگر مسئلہ توحید نہ مانو گے تو اللہ کا عذاب آئیگا جو تمہیں نیست و نابود کردے گا۔ جب وہ دریاؤ کی غضبناک موجوں میں گھر جاتے تو انہیں خیال آتا شاید جس عذاب سے پیغمبر ڈراتا تھا وہ عذاب آگیا اس لیے خالصۃً اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22 وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جو تمک و خشکی اور دریا میں چلاتا ہے اور لئے لئے پھرتا ہے یہاں تک کہ جب کبھی تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعہ لیکر چلتی ہیں اور وہ لوگ اس ہوا سے اور کشتیوں کے چلنے سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ یک بیک ان کشتیوں پر مخالف ہوا کا ایک تیز جھکڑ آجاتا ہے اور ہر طرف سے ان لوگوں پر موجیں اٹھنے لگتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے گھر چکے ہیں تو اس وقت خاصل اعتقاد اور عبادت اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اے خدا اگر تو ہم کو اس آفت سے بچا لے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے ۔ یعنی مصیبت کے وقت معبودان باطلہ کو بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ہو کر اسکو پکارنے لگتے ہیں اور یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اسی اعتقاد خالص پر قائم رہیں گے جو اس وقت ہے اور آئندہ کبھی شرک نہیں کریں گے۔