Surat Younus

Surah: 10

Verse: 37

سورة يونس

وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۟۳۷﴾

And it was not [possible] for this Qur'an to be produced by other than Allah , but [it is] a confirmation of what was before it and a detailed explanation of the [former] Scripture, about which there is no doubt, from the Lord of the worlds.

اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ ( کی وحی ) کے بغیر ( اپنے ہی سے ) گھڑ لیا گیا ہو ۔ بلکہ یہ تو ( ان کتابوں کی ) تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے قبل نازل ہو چکی ہیں اور کتاب ( احکام ضروریہ ) کی تفصیل بیان کرنے والا ہے اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is the True, Inimitable Word of Allah and It is a Miracle The Qur'an has a miraculous nature that cannot be imitated. No one can produce anything similar to the Qur'an, nor ten Surahs or even one Surah like it. The eloquence, clarity, precision and grace of the Qur'an cannot be but from Allah. The great and abundant principles and meanings within the Qur'an -- which are of great benefit in this world and for the Hereafter -- cannot be but from Allah. There is nothing like His High Self and Attributes or like His sayings and actions. Therefore His Words are not like the words of His creatures. This is why Allah said: وَمَا كَانَ هَـذَا الْقُرْانُ أَن يُفْتَرَى مِن دُونِ اللّهِ ... And this Qur'an is not such as could ever be produced by other than Allah. meaning, a book like this cannot be but from Allah. This is not similar to the speech uttered by humans. ... وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ... but it is a confirmation of (the revelation) which was before it, Such as previous revelations and Books. The Qur'an confirms these books and is a witness to them. It shows the changes, perversions and corruption that have taken place within these Books. Then Allah said, ... وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لاَ رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ and a full explanation of the Book -- wherein there is no doubt -- from the Lord of all that exists. That is, fully and truly explaining and detailing the rules and the lawful and the unlawful. With this complete and more than sufficient explanation, the Qur'an leaves no doubt that it is from Allah, the Lord of all that exists. Allah says,

اعجاز قرآن حکیم قرآن کریم کے اعجاز کا اور قرآن کریم کے کلام اللہ ہو نے کا بیان ہو رہا ہے کہ کوئی اس کا بدل اور مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس جیسا قرآن بلکہ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ یہ بے مثل قرآن بے مثل اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس کی فصاحت و بلاغت ، اس کی وجاہت و حلاوت ، اس کے معنوں کی بلندی ، اس کے مضامین کی عمدگی بالکل بے نظیر چیز ہے ۔ اور یہی دلیل ہے اس کی کہ یہ قرآن اس اللہ کی طرف سے ہے جس کی ذات بے مثل صفتیں بے مثل ، جس کے اقوال بے مثل ، جس کے افعال بے مثل ، جس کا کلام اس چیز سے عالی اور بلند کہ مخلوق کا کلام اس کے مشابہ ہو سکے ۔ یہ کلام تو رب العالمین کا ہی کلام ہے ، نہ کوئی اور اسے بنا سکے ، نہ یہ کسی اور کا بنایا ہوا ۔ یہ تو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ، ان پر نگہبانی کرتا ہے ، ان کا اظہار کرتا ہے ، ان میں جو تحریف تبدیل تاویل ہوئی ہے اسے بے حجاب کرتا ہے ، حلال و حرام جائز و ناجائز غرض کل امور شرع کا شافی اور پورا بیان فرماتا ہے ۔ پس اس کے کلام اللہ ہو نے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں اگلی خبریں ہیں اس میں آنے والی پیش گوئیاں ہیں اور آنے والی خبریں ہیں ۔ سب جھگڑوں کے فیصلے ہیں سب احکام کے حکم ہیں ۔ اگر تمہیں اس کے کلام اللہ ہو نے میں شک ہے ۔ تو اسے گھڑا ہوا سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے کہہ لیا ہے تو جاؤ تم سب مل کر ایک ہی سورۃ اس جیسی بنا لاؤ اور کل انسان اور جنوں سے مدد بھی لے لو ۔ یہ تیسرا مقام ہے جہاں کفار کو مقابلے پر بلا کر عاجز کیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہوں تو اس کے مقابلے میں اسی جیسا کلام پیش کریں ۔ لیکن یہ ہے ناممکن یہ خبر بھی ساتھ ہی دے دی تھی کہ انسان و جنات سب جمع ہو جائیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں لیکن اس قرآن جیسا بنا کر پیش نہیں کر سکتے ۔ اس پورے قرآن کے مقابلہ سے جب وہ عاجز و لاچار ثابت ہو چکے تو ان سے مطالبہ ہوا کہ اس جیسی صرف دس سورتیں ہی بنا کر لاؤ ۔ سورہ ہود کے شروع کی ( قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 13؀ ) 11-ھود:13 ) میں یہ فرمان ہے ۔ جب یہ بھی ان سے نہ ہو سکا تو اور آسانی کر دی گئی اور سورہ بقرہ میں جو مدنی ہے فرمایا کہ اچھا ایک ہی سورت اس جیسی بنا کر پیش کرو ۔ ۔ وہاں بھی ساتھ ہی فرمایا کہ نہ یہ تمہارے بس کی بات ہے نہ ساری مخلوق کے بس کی بات ۔ پس اس الہامی کتاب کو جھٹلا کر عذاب الٰہی مول نہ لو ۔ اس وقت کلام کی فصاحت و بلاغت پر پورا زور تھا ۔ عرب اپنے مقابلے میں سارے جہاں کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے تھے ۔ اپنی زبان پر بڑا گھمنڈ تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ قرآن اتارا کہ سب سے پہلے انہیں شاعروں اور زبان دانوں اور عالموں کی گردنیں اس کے سامنے خم ہوئیں جیسے سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس معجزے نے کہ مردوں کو بحکم الٰہی جِلا دینا ۔ مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بحکم رب شفا دے دینا ، دنیا کے سب سے پہلے معالجوں اور اطباء کو اللہ کی راہ پر لا کھڑا کر دیا ۔ کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ کام دوا کا نہیں اللہ کا ہے ۔ جادو گروں نے سانپ کو جو حضرت موسیٰ کی لکڑی تھی دیکھتے ہی آپ کی نبوت کا یقین کر لیا اور عاجز و درماندہ ہوگئے ۔ اسی طرح اس قرآن نے فصیح و بلیغ لوگوں کی زبانیں بند کردیں ۔ ان کے دلوں میں یقین آگیا کہ بیشک یہ کلام انسان کا کلام نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نبیوں کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ ان کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لائے ۔ میرا ایسا معجزہ قرآن ہے پس مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت ان کے بہت ہی زیادہ ہوں گے ۔ یہ ( کافر ) لوگ بغیر سوچے سمجھے ، بغیر علم حاصل کئے اسے جھٹلانے لگے ۔ اب تک تو اس کے مصداق اور حقیقت تک بھی یہ نہیں پہنچے ۔ اپنی جہالت و سفاہت کی وجہ سے اس کی ہدایت اس کے علم سے محروم رہ گئے اور چلانا شروع کر دیا کہ ہم اسے نہیں مانتے ۔ ان سے پہلے کی امتوں نے بھی اللہ کے کلام کو اسی طرح جھٹلا دیا تھا جس بنا پر وہ ہلاک کر دیئے گئے ۔ تو آپ نے دیکھ لیا کہ ان کا کیسا برا انجام ہوا ۔ کسی طرح ان کے پرخچے اڑے؟ ہمارے رسولوں کو ستانے ان کے نہ ماننے کا کبھی انجام اچھا نہیں ہوا ۔ تمہیں ڈرنا چاہیے کہیں انہیں آفتوں کا نشانہ تم بھی نہ بنو ۔ تیری امید کے بھی بعض لوگ تو اس پر ایمان لائے تجھے رسول برحق مانا ہے ۔ تیری باتوں سے نفع اٹھا رہے ہیں ۔ اور بعض اور ضلالت کے مستحق اس کے سامنے ہیں ۔ وہ عادل ہے ظالم نہیں ۔ ہر ایک کو اس کا حصہ دیتا ہے ۔ وہ برکت اور بلندی والا پاک اور انتہائی حسن والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن گھڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل فرمائیں تھیں۔ 37۔ 2 یعنی حلال و حرام اور جائز ناجائز کی تفصیل بیان کرنے والا۔ 37۔ 3 اس کی تعلیمات میں، اس کے بیان کردہ قصص و واقعات میں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں۔ 37۔ 4 یہ سب باتیں واضح کرتی ہیں کہ یہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے، جو ماضی اور مستقبل کو جاننے والا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] قرآن کے معجزہ ہونے کے مختلف پہلو :۔ قرآن صرف اس لحاظ سے ہی معجزہ نہیں کہ اس میں فصاحت و بلاغت بےمثل ہے روانی اور سلاست ہے زبان میں شیرینی ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی بےمثل ہے کہ اس میں پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے جو جامع اور ہمہ گیر ہدایات دی گئی ہیں وہ اللہ کے سوا کوئی دے ہی نہیں سکتا اور اس لحاظ سے بھی بےمثل ہے کہ اس کی آیات میں جتنا بھی غور کیا جائے، نئے سے نئے مفہوم و معانی سامنے آتے چلے جاتے ہیں نیز اس لحاظ سے بھی کہ اس میں پیش کردہ دلائل انتہائی سادہ اور عام فہم ہیں جن سے سب لوگ فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ اور یہ صفات صرف اللہ کے کلام میں ہی پائی جاسکتی ہیں جس طرح کوئی انسان اللہ کے بنائے ہوئے چاند سورج جیسا چاند سورج، اس کی بنائی ہوئی زمین جیسی زمین اور آسمان جیسا آسمان نہیں بنا سکتا۔ اسی طرح کوئی انسان اللہ کے کلام جیسا کلام بھی پیش نہیں کرسکتا۔ [٥٣] اس جملہ میں قرآن کی دو مزید صفات بیان فرمائیں ایک یہ کہ یہ پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق و توثیق کرتا ہے یعنی جو اصول دین (یعنی الکتاب یا کتاب کی اصل ہیں) ان الہامی کتابوں میں مذکور ہوئے وہی اس میں بھی مذکور ہیں یہ کوئی نئے اصول پیش نہیں کر رہا اور دوسری یہ کہ جو کچھ اصول دین سابقہ کتابوں میں مذکور ہوئے ہیں ان کو مختلف پیرایوں میں اور دلائل وبراہین کے ساتھ ان کی تشریح و توضیح بھی کرتا ہے اور یہی اوصاف قرآن کے مُنَزِّلْ مِنَ اللّٰہِ ہونے کے ثبوت ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں موجود عیسائی مشنریوں کے مبلغین کی طرف سے یہ اعتراض بڑی شد ومد سے اٹھایا گیا ہے کہ اگر قرآن سابقہ الہامی کتابوں کی تعلیم ہی پیش کرتا ہے اور ان سابقہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتا ہے تو پھر قرآن کے نازل ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ پھر && عدم ضرورت قرآن && پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئیں اور لوگوں میں تقسیم کی گئیں اس اعتراض کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ انجیل بھی کوئی مستقل الہامی کتاب نہیں بلکہ تورات ہی کی توضیح و تشریح پیش کرتی ہے تو پھر آخر اس کی کیا ضرورت تھی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے مبعوث ہونے کا کیا فائدہ تھا اب اس سے آگے چلئے۔ تورات کے نزول سے پہلے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہونے سے پہلے سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء پر جو وحی نازل ہوتی رہی اس کے بھی کلیات دین وہی تھے جو تورات میں مذکور ہیں تو پھر آخر تورات کی بھی کیا ضرورت تھی ؟ اور اس اعتراض کا حقیقی جواب یہ ہے کہ سابقہ تمام الہامی کتب میں کسی کتاب کا بھی اصل متن محفوظ نہیں رہا جس زبان میں وہ نازل ہوئی تھیں ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے انبیاء متعلقہ کے بعد ان کے علماء پر ڈالی تھی۔ خود ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی تھی۔ جیسا کہ درج ذیل آیت سے واضح ہے : ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀) 5 ۔ المآئدہ :44) && ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اللہ کے فرمانبردار انبیاء اور یہود کے مشائخ اور علماء یہود کے درمیان اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے اس لیے کہ اللہ کی کتاب کی حفاظت ان کے ذمہ ڈالی گئی تھی کہ وہ اس کے نگہبان تھے && گویا تورات سے متعلق مشائخ اور علمائے یہود پر دو طرح کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی ایک تو اس کتاب اللہ کی حفاظت کریں دوسرے اس کے احکام پر عمل کرکے اور اسی کے مطابق فیصلے کرکے اس کی عملی حفاظت کا بھی اہتمام کریں اور یہود کے کتاب کی حفاظت کرنے کا یہ حال ہے کہ انہیں تورات لکھی لکھائی مل گئی جو دو دفعہ ضائع ہوئی پھر سینکڑوں سال بعد لکھی گئی اس میں تحریف بھی کی گئی اور علماء کے اقوال اور الحاقی مضامین شامل کیے گئے اور نوبت بایں جارسید کہ خود علمائے یہود کو یہ معلوم کرنا دشوار ہوگیا تھا کہ وہ کتاب کے الہامی اور الحاقی حصے کو الگ الگ کرکے پیش کرسکیں اور عملی حفاظت کا حال اس سے بھی برا تھا انہوں نے کئی حرام چیزوں کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیا تھا وہ غیر یہود کے اموال کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے ہضم کر جانا درست اور جائز سمجھتے تھے۔ سود کو حلال بنا لیا تھا غلط فتوے دے کر پیسے بٹورتے تھے۔ شرفا کے لئے حدود اللہ کو ساقط کردیتے تھے اور تورات کی بہت سی آیات کو چھپا جاتے اور لوگوں تک نہیں پہنچاتے تھے۔ اندریں صورت حال ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک نئے جلیل القدر نبی کو مبعوث کرکے اور کتاب انجیل نازل کرکے لوگوں کو صحیح الہامی تعلیم سے روشناس کرائیں چناچہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہی فریضہ سر انجام دیا تھا۔ اب انجیل کا حال سنیے۔ انجیل سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں لکھی ہی نہیں گئی بعد میں سب کام روایت پر چلایا گیا اس کے ابتدائی راوی چار ہیں پھر انہوں نے خود قلم بند نہیں کی بلکہ بعد میں آنے والے شاگردوں نے کی جن میں نہ اسناد کا ذکر ہے اور نہ ہی روایت و درایت کا کوئی معیار ملحوظ رکھا گیا ہے پھر یہ جو کچھ بھی تھا وہ بھی اصل زبان میں محفوظ نہیں رہا بلکہ ان چار انجیلوں کے صرف تراجم ہی ملتے ہیں جن میں بیشمار اختلافات پائے جاتے ہیں اور ان میں تحریف بھی ثابت شدہ امر ہے۔ اندریں حالات ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک اور جلیل القدر نبی بھیج کر حقیقی تعلیم سے لوگوں کو متنبہ کریں اور یہ ضرورت قرآن کو نازل کرکے اور رسول اللہ کو مبعوث کرنے سے پوری کی گئی۔ جو ان تمام امور و عقائد میں دو ٹوک فیصلہ دیتی ہے جن میں اہل کتاب میں اختلاف واقع ہوئے تھے اور وہ کئی فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ قرآن کے بعد کسی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں :۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اختلافات تو آج کل مسلمانوں میں بھی عام ہیں پھر کیا آج بھی کسی نئے نبی یا نئی الہامی کتاب کی ضرورت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے بعد کسی نئی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں رہی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے اور مسلم تو درکنار اغیار بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ قرآن جس طرح نازل ہوا تھا آج بھی بعینہ اسی اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور اللہ کی حفاظت کا حال یہ ہے کہ اگر دنیا بھر کے معاندین قرآن کو صفحہ ہستی سے ناپید کرنے یا اس میں ردوبدل کرنے کی کوشش کریں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہر دور میں اس قرآن کریم کے کروڑوں حافظ موجود رہے ہیں۔ پھر قلمی حفاظت کے لاتعداد ذرائع سے بھی ابتداء سے لے کر آج تک حفاظت ہوتی رہی ہے۔ اور تا قیامت ہوتی رہے گی۔ اور اس کی عملی حفاظت کا بھی انتظام اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے مسلمانوں میں اگرچہ بیشمار اختلاف اور فرقے ہیں تاہم یہ سب کے سب گمراہ نہیں بلکہ فرمان رسول کے مطابق ان میں تا قیامت ایک فرقہ ایسا موجود ہے اور موجود رہے گا جو حق پر قائم رہے گا اور یہ فرقہ وہ ہے جو صرف کتاب و سنت پر انحصار کرتا ہے۔ نہ اس میں کوئی کمی گوارا کرتا ہے اور نہ اضافہ۔ وہ اپنے دین میں کوئی بدعی عقیدہ یا عمل کو برداشت نہیں کرتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جس طرح قرآن کے الفاظ کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اسی طرح اس کے مطالب و معانی اور تشریح و تعبیر کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے ورنہ محض الفاظ کی حفاظت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ قرآن کی تشریح و توضیح اور صحیح تفسیر ہمیں احادیث یا سنت رسول میں ملتی ہے اس سنت کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کیسے فرمائی یہ ایک الگ مضمون ہے جسے ہم نے اس کے مناسب مقامات پر درج کردیا ہے۔ ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن و سنت کی حفاظت اور ایک فرقہ حقہ کی موجودگی میں نہ کسی نئے نبی کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ کسی نئی الہامی کتاب کی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی توحید ثابت کرنے اور شرک کی تردید کرنے کے بعد قرآن مجید کی حقانیت کا بیان فرمایا کہ یہ ہرگز ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور اپنے پاس سے بنا لائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ایسے شخص پر نازل فرمایا جو نہ لکھنا جانتا تھا نہ پڑھنا، تصنیف تو بہت دور کی بات ہے۔ تم بھی اہل زبان ہو، بڑے بڑے شاعر و ادیب اور فصاحت و بلاغت رکھنے والے مصنف ہو، اگر یقین نہ ہو کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور تمہیں اصرار ہو کہ یہ انسانی کلام ہے تو تم تمام جن و انس ایک دوسرے کی مدد کرکے اس جیسی کتاب تصنیف کرکے دکھا دو ۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٨٨) پھر یہ نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ نے دس سورتوں کا چیلنج کیا۔ دیکھیے سورة ہود (١٣) جب یہ بھی نہ کرسکے تو یہاں سورة یونس مکی میں اس کی مثل ایک سورت لانے کا چیلنج کیا، پھر مدینہ میں یہی چیلنج سورة بقرہ (٢٣) میں دوبارہ دوہرایا۔ قارئین یہ سب مقامات ملاحظہ فرما لیں، آج تک کوئی مشرک کافر سورة الکوثر کے برابر تین آیتوں کی سورت بھی نہیں لاسکا، جسے کسی اہل زبان یا صاحب عقل نے تسلیم کیا ہو۔ ” وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ “ اللہ تعالیٰ نے قرآن کا وصف بیان فرمایا کہ یہ پہلی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور رب العالمین کی طرف سے انسان کے لیے تمام ضروری عقائد و اعمال کی تفصیل پر مشتمل کتاب ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور یہ قرآن افتراء کیا ہوا نہیں ہے کہ غیر اللہ سے صادر ہوا ہو بلکہ یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے قبل ( نازل) ہوچکی ہیں اور احکام ضروریہ ( الہٰیہ) کی تفصیل بیان کرنے والا ہے ( اور) اس میں کوئی بات شک (و شبہ) کی نہیں ( اور وہ) رب العالمین کی طرف سے ( نازل ہوا) ہے کیا ( باوجود اس کے افتراء نہ ہونے کے) یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ( نعوذ باللہ) آپ نے اس کو افتراء کرلیا ہے، آپ ( ان سے) کہہ دیجئے کہ ( اچھا) تو پھر تم ( بھی تو عربی ہو اور اعلی درجہ کے فصیح بلیغ بھی ہو) اس کی مثل ایک ہی سورت ( بنا) لاؤ اور ( اکیلے نہیں) جن جن غیر اللہ کو بلا سکو ان کو ( مدد کے لئے) بلا لو اگر تم سچے ہو ( کہ نعوذ باللہ میں نے تصنیف کرلیا ہے تو تم بھی تصنیف کر لاؤ مگر مشکل تو یہ ہے کہ اس قسم کے دلائل سے فائدہ اسی کو ہوتا ہے جو سمجھنا بھی چاہے سو انہوں نے تو کبھی سمجھنا ہی نہ چاہا) بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس ( کے صحیح غلط ہونے) کو اپنے احاطہ علم میں نہیں لائے ( اور اس کی حالت سمجھنے کا ارادہ نہیں کیا تو ایسوں سے کیا سمجھنے کی امید ہو سکتی ہے) اور ( ان کی اس بےفکری اور بےپرواہی کی وجہ یہ ہے کہ) ہنوز ان کو اس (قرآن کی تکذیب) کا خیر نتیجہ نہیں ملا ( یعنی عذاب نہیں آیا ورنہ سارا نشہ ہرن ہوجاتا اور آنکھیں کھل جاتیں اور حق و باطل متمیز ہوجاتا لیکن آخر کبھی تو وہ نتیجہ پیش آنے والا ہے ہی، گو اس وقت ایمان نافع نہ ہو، چنانچہ) جو ( کافر) لوگ ان سے پہلے ہوئے ہیں اسی طرح ( جیسے بےتحقیق یہ جھٹلا رہے ہیں) انہوں نے بھی ( حق کو) جھٹلایا تھا، سو دیکھ لیجئے ان ظالموں کا انجام کیسا ( برا) ہوا، ( اسی طرح ان کا ہوگا) اور (ہم جو ان کا انجام بد بتلا رہے ہیں سو سب مراد نہیں کیونکہ) ان میں سے بعضے ایسے ہیں جو اس ( قرآن) پر ایمان لے آویں گے اور بعض ایسے ہیں کہ اس پر ایمان نہ لاویں گے اور آپ کا رب ( ان) مفسدوں کو خوب جانتا ہے ( جو ایمان نہ لاویں گے پس خاص ان کو وقت موعود پر سزا دے گا ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٣٧ ۣ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ تصدیق ، ويستعمل التَّصْدِيقُ في كلّ ما فيه تحقیق، يقال : صدقني فعله وکتابه . قال تعالی: وَلَمَّا جاءَهُمْ كِتابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِما مَعَهُمْ [ البقرة/ 89] ، نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْهِ [ آل عمران/ 3] التصدیق کا لفظ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس میں کسی چیز کی تحقیق پائی جائے محاورہ ہے ۔ صدقنی فعلہ وکتابہ اس نے اپنے عمل یا کتاب سے میری تصدیق کردی ۔ قرآن میں ہے : وَلَمَّا جاءَهُمْ كِتابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِما مَعَهُمْ [ البقرة/ 89] اور جب خدا کے ہاں سے ان کے پاس کتاب آئی جوان کی ( آسمانی ) کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے ۔ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْهِ [ آل عمران/ 3] اس نے ( اے محمد ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) اور یہ قرآن کریم جس کی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے تلاوت فرماتے ہیں افتراء کیا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ تو توریت، انجیل، زبور اور تمام آسمانی کتب کی توحید اور صفات رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تصدیق کرنے والا ہے اور نیز قرآن حکیم حلال و حرام اور اوامراونواہی کی تفصیل بیان کرنے والا ہے، اس میں کوئی بات بھی شک وشبہ کی نہیں ہے اور وہ تمام جہانوں کے آقا ومالک کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (وَمَا کَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) یہ قرآن کسی انسان کے ہاتھوں تصنیف کی جانے والی کتاب نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45.The statement that it is 'a confirmation of the revelation made before it' underscores that the Qur'an lays no claim of introducing anything novel, of coming forth with any innovation at variance with the fundamental teachings already communicated to man through the Prophets (peace be on them). The Qur'anic claim merely consists of confirming and authenticating those teachings. Had the Qur'an been the product of the imagination of the founder of an altogether new religion, the outcome of a creative brain, it would have borne traces of novelty in order to emphasize its distinctiveness. The second part of the statement, namely that the Qur'an is a 'detailed exposition of the Book' is equally significant. What this means is that the Qur'an elaborates those fundamental teachings which constitute the core and essence of all the scriptures (al-Kitab); that is, those teachings which have been sufficiently elucidated in the Qur'an so that they might be grasped by people and penetrate their hearts; and additionally, it has been shown how those teachings could be applied to practical life.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :45 جو کچھ پہلے آچکا تپا اس کی تصدیق ہے“ ، یعنی ابتدا سے جو اصولی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کی معرفت انسان کو بھیجی جاتی رہی ہیں یہ قرآن ان سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ انہی کی تصدیق و توثیق کر رہا ہے ۔ اگر یہ کسی نئے مذہب کے بانی کی ذہنی اپج کا نتیجہ ہوتا تو اس میں ضرور یہ کوشش پائی جاتی کہ پرانی صداقتوں کے ساتھ کچھ اپنا نرالا رنگ بھی ملا کر اپنی شان امتیاز نمایاں کی جائے ۔ ” الکتاب کی تفصیل ہے“ ، یعنی ان اصولی تعلیمات کو جو تمام کتب آسمانی کا لبّ لباب ( الکتاب ) ہیں ، اس میں پھیلا کر دلائل و شواہد کے ساتھ ، تلقین و تفہیم کے ساتھ ، تشریح و توضیح کے ساتھ ، اور عملی حالات پر انطباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: اس فقرے میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ قرآن کریم کا ماخذ کوئی انسانی دماغ نہیں، بلکہ وہ لوح محفوظ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے تشریعی اور تکوینی احکام ازل سے لکھے ہوئے ہیں۔ ان احکام میں سے جن کی انسانوں کو ضرورت ہے، یہ قرآن ان کی تفصیل بیان فرما تا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ ٣٩۔ اوپر کی آیتوں میں ثبوت توحید کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں ثبوت رسالت کے لئے قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی دلیلیں بیان کی گئی ہیں اور فرمایا کہ یہ قرآن بشر کا بنایا ہوا نہیں ہے تم سمجھتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے جی سے بنایا ہوگا لیکن تم یہ نہیں دیکھتے کہ پہلے انبیا اور رسولوں کے قصے اور وہی باتیں جو پہلی قوموں کو بتلائی گئیں تھیں اس میں بھی ہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ کسی عالم کی صحبت میں بیٹھے اور نہ کسی سے لکھنا پڑھنا سیکھا نہ کسی نے ان کو پہلی امتوں کے قصے بتائے پھر کیوں کر وہ گزری ہوئی باتیں اور ایسی صاف ستھری زبان میں بیان کرتے یہ قرآن تو توریت و انجیل کل آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور جو جو باتیں ان میں ردو بدل کردی گئی ہیں ان کو بیان کرتا ہے کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے خدا نے اپنے رسول پر اس کو اتارا ہے اور اگر تم اس کو کسی اور کا بنایا ہوا سمجھتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بنایا ہے تو وہ بھی بشر ہیں تم بھی بشر ہو چلو تم بھی ایسا کلام کہہ کر لاؤ اگر سارا نہیں تو دس سورتیں ہی سہی۔ جانے دو دس بھی نہیں ایک ہی سورت ایسی کہہ ڈالو اگر ایک بھی ممکن نہ ہو تو ایک پورا جملہ ہی اس کے مانند بنا لاؤ آخر تم بھی تو عربی دان ہو فصاحت و بلاغت کا تمہیں بھی تو دعویٰ ہے اگر اکیلے نہ ہوسکے تو لو عام اجازت ہے کہ اس کام میں چاہے جس سے مدد لو سارے جہاں کی مخلوق اکٹھی ہوجاؤ اپنے معبودوں کو بھی شریک کرلو جن پر تم کو بہت بھروسہ ہے۔ مگر مشرک اس کو بھی سن کر دم بخود ہوگئے اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا بےٹھکانے انکار ہی کرتے رہے پھر فرمایا کہ قرآن میں جس عذاب کا وعدہ ایسے لوگوں کے حق میں ہے اس عذاب کا حال ان کی سمجھ سے باہر ہے کیوں کہ ابھی وہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں آیا عذاب سے پہلے اسی طرح پہلی امتوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا اور آخر اپنی سزا کو پہنچے پھر فرمایا ان میں بعضے ایسے بھی ہیں کہ ایمان لائے ہیں قرآن کو مانتے ہیں رسولوں کی پیروی کرتے ہیں اور بعضے ایمان نہیں لاتے کفر کی حالت میں ہی مرجاتے ہیں خدا ان مفسدوں کے حال سے خوب واقف ہے۔ وقت مقررہ پر ایسے لوگ اپنی شرارتوں کی پوری سزا پاویں گے۔ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور معجزوں کے علاوہ مجھ کو قرآن ہی ایک ایسا معجزہ دیا گیا ہے جس کے اثر سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے اہل ایمان لوگوں کی تعداد اور امتوں سے بڑھ کر ہوگی۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دین کی لڑائی کا حکم ہجرت کے بعد نازل ہوا اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے صدہا منکر قرآن اس قرآن کے اثر سے راہ راست پر آگئے اور اس ضعف اسلام کے زمانہ میں قرآن کا اثر اب بھی وہی باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا اور قیامت کے دن اس حدیث کی پیشین گوئی کا ظہور سب کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گا غرض خاتم الانبیاء کی نبوت کے ثبوت کے لئے یہ قرآن ایسا ہی پورا معجزہ ہے جس کا ذکر آیتوں اور اس حدیث میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:37) ما کان ھذا القرآن ان یفتری من دون اللہ۔ اسکی تقدیر یوں ہے ما کان ھذا القران لان یفتری من دون اللہ۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے وما کان المؤمنون لیتفروا کافۃ (9:122) ایسا نہیں ہوسکتا کہ مومن نکل کھڑے ہوں سارے کے سارے اس آیت کا مطلب ہوگا کہ یہ قرآن ایسا نہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور بنا سکے۔ افتراء بمعنی اختلاق۔ گھڑنا۔ یعنی کسی اور کا خود ساختہ ہو۔ کان فعل ناقص۔ ھذا اسم کان۔ القرآن تعریف اسم۔ ان بفتری خبر اول کان من دون اللہ خبر ثانی۔ ولکن تصدیق الذی بین یدیہ۔ تصدیق۔ کا نصب دودرجہ سے ہوسکتا ہے :۔ (1) کہ اس سے قبل کان مقدر ہے اور یہ اس کی خبر ہے ۔ یا (2) اس سے قبل فعل انزلہ محذوف ہے اور یہ فعل محذوف کی علت ہے۔ یدیہ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع القران ہے۔ تفصیل الکتب۔ تفصیل کا نصب بھی مثل تصدیق کے ہے۔ الکتب سے مراد وہ اصولی تعلیمات۔ حقائق و شرائع جو تمام کتب آسمانی کا لب لباب ہیں۔ لاریب فیہ۔ یعنی اس کے من رب العلمین ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ تین ید یہ۔۔ توراۃ و انجیل اور جملہ کتب الہیہ شامل ہیں یعنی ان کو چاہیے کہ ظن وتخمین کی پیروی چھوڑ کر اسی کتاب کی اتباع کریں۔ جو دلائل و برامین پر مشتمل ہے اور عقائد وا اعمال میں سے ہر چیز کو نہایت توضیح اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس کا تعلق آیت ” انت بقران غیر ھذا او بدلہ “ سے ہے یعنی قرآن پاک ایسا معجزہ کامل ہے کہ میں کیا کوئی بھی اس کی نظیر اپنی طرف سے تصنیف کرکے پیش نہیں کرسکتا۔ واللہ اعلم (روح المعانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن (آیت نمبر 37 تا 40) یفتریٰ (گھڑا گیا، بنایا گیا) تصدیق (سچ بتانے والا) بین یدہ (اپنے ہاتھوں کے سامنے) تفصیل (تفصیل، وضاحت) قاتوا (پھر تم آئو (لے آئو) ادعوا (تم بلائو، تم پکارو) استطعتم (تمہاری طاقت ہو، ہمت ہو) لم یحیطوا (احاطہ نہیں کرتے، گھیر نہیں سکے) تاویل (انجام ، نتیجہ) عافیۃ (انجام) اعلم (زیادہ جاننے والا ) تشریح : آیت نمبر 37 تا 40 کفار اور مشرکین مکہ قرآن جیسی عظیم کتاب اور بلند تر مضامین کے سامنے جب بےبس ہوگئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ مکہ مکرمہ کے لوگ قرآن کریم کی عظمت کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں اس وقت انہوں نے لوگوں کو متنفر کرنے کے لئے قرآن سے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کردیں اور کہنا شروع کیا کہ یہ قرآن (نعوذ باللہ) نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود گھڑ لیا ہے اور گزشتہ قوموں کی زندگی کو سن کر اپنے الفاظ میں ڈھال لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کفار و مشرکین کی ان باتوں کا نہایت سادہ الفاظ میں یہ جواب دیا ہے کہ قرآن کریم یہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے جو اس نے اپنے بندوں کی اصلاح و ترقفی کے لئے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دلیل کے طور پر فرمایا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ان کے سامنے ہے جس میں انہوں نے کسی سے ایک لفظ تک نہیں پڑھا۔ پھر اچانک آپ کی زبان مبارک پر ایسا کلام آگیا جو اتنا بےمثال ہے کہ اگر تمام دنیا کے انسان اور جنات مل کر بھی اس قرآن جیسا لانے کی کوشش کریں گے تو وہ عاجز ہوجائیں گے۔ فرمایا کہ اگر کسی کو شوق ہو تو وہ اور دنیا بھر سے تمام لوگ مل کر قرآن جیسا نہیں بلکہ قرآن کی ایک سورت جیسی ہی بنا کرلے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو قرآن کریم میں متعدد جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ ساری دنیا ملکر بھی قرآن کریم کی ایک سورت بنا کر نہیں لاسکتی۔ یہ بات چیلنج کے طور پر ان عربوں کے درمیان فرمائی جا رہی ہے جن کو اپنی زبان پر اس قدر ناز تھا کہ اپنے علاوہ ساری دنیا کو گونگا اور بےزبان کہتے تھے یہ ان شاعروں سے کہا اج رہا ہے جو ایک مجلس میں بےساختہ دو دو سوا ور تین تین سو اشعار کہتے چلے جاتے تھے۔ وہی شاعر اور ادیب اور زبان پر ناز کرنے والے اس قرآن کے سب سے بڑے دشمن تھے لیکن تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس زمانہ میں اور بعد کے زمانے میں ہزاروں کوششوں کے باوجود قرآن کریم کے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ اصل بامرری کی جڑ یہ ہے کہ اس کلام الٰہی کی عظمت کا اعتراف کرنے کے باوجود وہ اس کو اس لئے جھٹلاتے ہیں کہ یہ کلام الٰہی ان کے ذہنوں میں ٹھیک سے بیٹھ نہ سکا اور اس کے نتائج تک نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ اس کا انکار کر بیٹھے۔ اگر وہ تعصبات کی عینک اتار کر اس قرآن کریم کی سچائی کو دیکھتے تو کبھی اس کا انکار نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ اصل بیماری کی جڑ یہ ہے کہ اس کلام الٰہی کی عظمت کا اعتراف کرنے کے باوجود اس کو اس لئے جھٹلاتے ہیں کہ یہ کالم الٰہی ان کے ذہنوں میں ٹھیک سے بیٹھ نہ سکا اور اس کے نتائج تک نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ اس کا انکار کر بیٹھے۔ اگر وہ تعصبات کی عینک اتار کر اس قرآن کریم کی سچائی کو دیکھتے تو کبھی اس کا انکار نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کوئی ایسی نئی بات نہیں جو آپ کے ساتھ کی گئی ہو بلکہ آپ سے پہلے جتنے بھی نبی اور رسول آئے ہیں ان کو اور کلام الٰہی کو اسی طرح جھٹلایا گیا ہے اور پھر جن لوگوں نے اس سچائی کو جھٹلایا ان ظالموں کا انجام بڑا ہی بھیانک اور عبرت ناک ہوا ہے۔ ان ظالموں کے بلند وبالا شہروں اور عمارتوں کے کھنڈرات آج بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اگر وہ کلام الٰہی کا انکار نہ کرتے تو وہ جنت کی ابدی راحتوں اور دنیا کی عزت و عظمت سے ہمکنار ہوتے ۔ اس جگہ قرآن کریم میں یہ پیشین گوئی فرمائی جا رہی ہے کہ آج جو لوگ اس قرآن کو جھٹلا رہے ہیں بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ وہی اس قرآن کو مان کر اہل ایمان کی صفوں میں شامل ہوجائیں گے لیکن جو بدقسمت ہیں جن کا کام ہی فساد کرنا ہے وہ اس نعمت سے محروم رہیں گے اللہ ایسے لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح مشرکوں کے پاس باطل عقیدہ کی ٹھوس دلیل نہیں صرف سنی سنائی باتوں اور وہم و گمان پر بنیاد ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کا انکار اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام کہ قرآن مجید اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ اس کی بنیاد بھی وہم و گمان اور الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ کفار مکہ اور منکرین اسلام کی ابتدا سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح قرآن کو من گھڑت اور جھوٹا ثابت کیا جائے۔ تاکہ اسلام کی بنیاد منہدم ہو کر رہ جائے، کبھی کہتے کہ یہ نبی کسی عجمی سے سیکھ کر ہمیں بتلاتا ہے۔ کبھی یہ الزام دیتے کہ اپنی طرف سے بنا لیتا ہے۔ اس طرح ان کی سرتوڑ کوشش تھی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے۔ ان کا خیال تھا اور ہے کہ قرآن کے غلط ثابت ہونے سے نبوت کا قصہ خود بخود پاک ہوجائے گا۔ جس طرح منکرین حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کو بےسند اور غلط ثابت کرنے کے لیے مختلف بہانے اور افسانے تراشتے ہیں۔ تاکہ شریعت کے زیادہ حصہ سے جان چھوٹ جائے بظاہر مسلمان بھی رہیں اور اپنی مرضی بھی چلتی رہے۔ قرآن مجید کو منجانب اللہ ثابت کرنے کے لیے یہاں تین ثبوت دیے گئے ہیں۔ ١۔ قرآن مجید توراۃ اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے۔ اگر تمہارے پاس اصلی تورات اور انجیل ہے تو قرآن مجید کے دلائل اور حوالہ جات کا تورات اور انجیل کے ساتھ مقابلہ کرو۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا جو کچھ توراۃ اور انجیل میں ہے وہی قرآن مجید میں ہے۔ اسی طرح قرآن نہ انوکھی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی غلط بیانی کی گئی ہے۔ جب قرآن میں تمہاری کتابوں کی تصدیق پائی جاتی ہے تو اس کی مخالفت اور تکذیب کرنے کا کیا معنی ؟ ٢۔ قرآن مجید نے مستقبل کے حوالے سے جو پیش گوئیاں کی ہیں اگر ان میں کوئی ایک بھی جھوٹی ثابت ہوئی ہے تو ثبوت پیش کرو۔ ٣۔ اگر پھر بھی تمہیں قرآن کے من جانب اللہ ہونے کا یقین نہیں آرہا ہے تو جاؤ تم اس جیسی جونسی چاہو، ایک سورة بنا لاؤ اس میں تمہیں یہ بھی رعایت دی جاتی ہے کہ زندہ اور مردہ شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور سخن وروں، جنوں، شیطانوں غرضیکہ جس جس سے مدد لے سکتے ہولے لو اور اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ سورۃ البقرۃ آیت ٤ ٢ میں سمجھایا گیا ہے۔ کہ تم کبھی ایسا نہیں کرسکو گے لہٰذا جہنم کی آگ سے بچو جس میں پتھر اور خدا کی باغی اور قرآن کے منکروں کو جھونکا جائے گا۔ مسائل ١۔ جن وانس مل کر بھی قرآن مجید کی ایک سورة جیسی سورة نہیں لاسکتے۔ ٢۔ قرآن کریم پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے احکام تفصیلی ہیں۔ ٤۔ قرآن کریم لا ریب کتاب ہے۔ ٥۔ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن کے چیلنج : ١۔ اے جن وانس ! تم سب مل کر اس قرآن جیسا قرآن لے آؤ۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٢۔ سارے مل کر دس سورتیں بنالاؤ۔ (ہود : ١٣) ٣۔ ایک سورة اس کی مثل لے آؤ۔ (یونس : ٣٨) ٤۔ جن و انس مل کر قیامت تک ایک سورة بھی اس جیسی نہیں بناسکتے۔ (البقرۃ : ٢٣۔ ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما کان ھذا القرآن ان یفترٰی من دون اللہ اور یہ قرآن ایسا نہیں کہ اللہ کی طرف سے نازل ہوئے بغیر ازخود اس کو بنا لیا جائے اور ان کی طرف اس کی نسبت کردی جائے۔ ولکن تصدیق الذی بین یدیہ بلکہ یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں۔ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ سے مراد یا رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی ذات مبارک ہے ‘ یا گزشتہ کتب الٰہیہ (ترجمہ میں یہی بیان کیا ہے) یا قیامت ‘ یا بعثت نبوی جس کی خبر سابق کتابوں میں دے دی گئی تھی۔ و تفصیل الکتب لاریب فیہ من رب العٰلمین۔ اور احکام ضروریہ (الٰہیہ) کی تفصیل بیان کرنے والا ہے ‘ اس میں کوئی بات شک (و شبہ) کی نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔ تفصیل الکتاب (احکام ضروریہ کی تفصیل) یعنی لوح محفوظ میں اللہ کے احکام ‘ فرائض اور حلال و حرام کی تشریح ہے۔ اس کا بیان یہ قرآن ہے۔ لاَ رَیْبَ فِیْہِ یعنی اس میں کوئی بات شک کے قابل نہیں کیونکہ یہ گزشتہ آسمانی کتابوں کے بالکل موافق ہے۔ سابق آیت میں دماغی تک بندیوں کے اتباع کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس آیت میں واجب الاتباع کتاب کا ذکر ہے اور تنبیہ ہے کہ اس قرآن کا اتباع کیا جائے۔ اس کا اتباع لازم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن حکیم کی حقانیت پر واضح دلیل ‘ اور اس جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج توحید کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب کتاب اللہ کی حقانیت بیان فرمائی جس کے ذیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی مزید تصدیق ہوگئی۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے اول تو ان کی تردید فرمائی کہ یہ ایسی کتاب نہیں ہے کہ جو غیر اللہ کی طرف سے ہو یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے جو اس سے پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور جو احکام اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بھیجے ہیں اس میں ان کی بھی تفصیل ہے۔ پھر ان لوگوں کو چیلنج کیا اور فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیں کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن اپنے پاس سے بنا لیا ہے تو تم اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ اور اللہ کے سوا ساری مخلوق میں سے اس مقصد کے لئے جس جس سے مدد لے سکتے ہو ان سب سے مدد لے لو۔ سورة بقرہ کی آیت (رکوع ٣) (وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا) کی تفسیر کے ذیل میں اس کی تشریح کی جا چکی ہے۔ (انوار البیان ج ١) سورة ھود (رکوع ٢) میں فرمایا ہے کہ تم اس جیسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ ‘ پہلے قرآن کے مقابلہ میں دس سورتیں بنا کر لانے کا چیلنج کیا گیا پھر ایک سورت تک بات آگئی ‘ آج تک کوئی بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی سورت بھی بنا کر نہیں لاسکا ‘ اور نہ کبھی لاسکیں گے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا (قُلْ لَّءِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَّأْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْآنِ لاَ یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا) (آپ فرما دیجئے کہ اگر سارے انسان اور سارے جنات اس بات کیلئے جمع ہوجائیں کہ قرآن جیسا بنا کرلے آئیں تو نہیں لاسکیں گے اگرچہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہوجائیں) ۔ جب قرآن کی سچائی ثابت ہوگئی تو قرآن لانے والا یعنی سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی بھی ثابت ہوگئی اس کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں نے ایسی چیز کو جھٹلایا جو ان کے احاطہ علمی میں نہیں ہے۔ قرآن کو سمجھتے نہیں اور نہ سمجھنے کا ارادہ کرتے ہیں غور کرتے تو اس کی حقیقت اور حقانیت سمجھ میں آجاتی اب جبکہ جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں تو اس جھٹلانے کا نتیجہ دیکھ لیں گے۔ یعنی ان کی اس تکذیب کا برا انجام سامنے آئے گا۔ دنیا میں ذلیل اور ہلاک ہوں گے اور کفر پر مرنے کی وجہ سے آخرت میں دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے ‘ ان سے پہلے تکذیب کرنے والوں پر عذاب آچکا ہے۔ دیکھ لیجئے ان کا انجام کیا ہوا ؟ پھر فرمایا ان میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور کچھ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ آپ اپنا کام کئے جائیں۔ بہت سے لوگ وہ ہیں جنہیں ایمان لانا نہیں ہے آپ کو دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں۔ جو ایمان نہ لائے گا اس کی سزا بھگت لے گا۔ اللہ تعالیٰ مفسدین کو خوب جانتا ہے۔ وہ ان کے کفر کی سزا دے دے گا۔ مزید فرمایا کہ یہ لوگ جو تکذیب پر مصر ہیں حجت قائم ہونے پر بھی حق کو نہیں مانتے اور آپ کی تصدیق نہیں کرتے تو آپ ان سے فرمادیجئے کہ میرا عمل میرے لئے ہے تمہارا عمل تمہارے لئے ہے۔ تم میرے عمل سے بری ہو میں تمہارے عمل سے بری ہوں مجھے میرے عمل کا ثواب ملے گا تم اپنی بد عملی کی سزا بھگتو گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52: یہ شکوے کے لیے تمہید ہے۔ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے کسی غیر کا افتراء نہیں۔ “ تَصْدِیْقَ الَّذِيْ بَیْنَ یَدَیْهِ ” یہ قرآن کے افتراء نہ ہونے کی پہلی وجہ ہے یعنی یہ قرآن تو کتب سابقہ کے مضامین کی تصڈیق کرتا ہے۔ “ وَ تَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ ” یہ دوسری وجہ ہے۔ یہ قرآن شرائع اسلام اور فرائض و احکام کی تفصیل کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ “ تبیین ما کتب فرض من الاحکام والشرائع من قوله کتاب اللہ علیکم ” (مدارک ج 2 ص 125) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اس کو خدا کے سوا کوئی اور بنا کر اور گھڑ کر لاسکے لیکن یہ تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں اور اپنے سے پہلے کلام کو سچا بتانے والا اور احکام شرعیہ ضروریہ کی تفصیل بیان کرنے والا ہے اس قرآن میں شک کی گنجائش نہیں اور یہ اس کی طرف سے نازل ہوا ہے جو تمام عالموں کا پروردگار ہے یعنی یہ قرآن کریم ایسا نہیں کہ اس کو کوئی بناس کے اور غیر خدا سے صادر ہو اس کی فصاحت و بلاغت اور اس کا اعجاز اس بات کا متقضی ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کا بنایا ہوا نہیں ہے اپنے سے اگلے کلام کی تصدیق کرنیوالا ہے یعنی پہلی کتابوں کو سچا بتاتا ہے یا جو اس قرآن کریم کے اوصاف کتب سابقہ میں مذکور ہیں ان کے موافق ہے جن سے ان کتب سابقہ کی تصدیق ہوتی ہے اور جو باتیں تم پر لکھی گئی ہیں اور فرض کی گئی ہیں یعنی احکام شرعیہ ضروریہ ان کی تفصیل بیان کرتا ہے اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔