Surat Younus

Surah: 10

Verse: 51

سورة يونس

اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ ؕ آٰلۡئٰنَ وَ قَدۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ ﴿۵۱﴾

Then is it that when it has [actually] occurred you will believe in it? Now? And you were [once] for it impatient

کیا پھر جب وہ آہی پڑے گا اس پر ایمان لاؤ گے ۔ ہاں اب مانا!حالانکہ تم اس کی جلدی مچایا کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ امَنْتُم بِهِ الانَ وَقَدْ كُنتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ Say: "Tell me, if His torment should come to you by night or by day, which portion thereof would the criminals hasten on Is it then that when it has actually befallen, you will believe in it What! Now (you believe) And you used (aforetime) to hasten it on!" When the punishment befalls them, they will say: رَبَّنَأ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا "Our Lord! We have now seen and heard." (32:12) Allah also said: فَلَمَّا رَأَوْاْ بَأْسَنَا قَالُواْ ءَامَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَـفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَـنُهُمْ لَمَّا رَأَوْاْ بَأْسَنَا سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِى قَدْ خَلَتْ فِى عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَـفِرُونَ So when they saw Our punishment, they said: "We believe in Allah alone and reject (all) that we used to associate with Him as (His) partners. Then their faith could not avail them when they saw Our punishment. (Like) this has been the way of Allah in dealing with His servants. And there the disbelievers lost utterly (when Our torment covered them)." (40:84-85)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 لیکن عذاب آنے کے بعد ماننے کا کیا فائدہ ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] یعنی ان کا عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ اس لیے ہے کہ انھیں ہرگز اس کا یقین نہیں ہے اور ان کا یہ تقاضا محض جھٹلانے اور مذاق اڑانے کی نیت سے تھا اور انھیں یقین اسی وقت آئے گا جب فی الواقع ان پر عذاب آپڑے گا لیکن اس وقت یقین آنا یا اللہ کی آیات پر ایمان لانا بےسود ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ۔۔ : یعنی کیا جوں ہی وہ عذاب آگیا تو فوراً ایمان لے آؤ گے ؟ ہاں، بیشک اس وقت ایمان لے آؤ گے مگر عذاب آنے پر ایمان کب قبول ہوگا۔ دیکھیے سورة مومن (٨٤، ٨٥) ، یونس (٩٠، ٩١) اور نساء (١٨) اس لیے تمہارا پہلے ایمان لانے کے بجائے پہلے عذاب کی جلدی مچانا بےکار ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

It was said in verse أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنتُم بِهِ ۚ آلْآنَ. It means: ` Would you believe when Divine punishment actually descends down upon you - whether at the time of death, or even before it? But, at that time, the response to your believing will be: آلْآنَ (&al&an: now?) meaning: Is it now that you have come to believe while the time of believing has already passed? This is similar to what the Pharaoh said while drowning: آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَ‌ائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٩٠﴾ (|"I believe that there is no god except the One in whom the Children of Isra&il believe - 10:90). In answer, it was said: آلْآنَ (&al&an: now?) and this believing by him was not accepted. In Hadith, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has said, ` Allah Ta` ala keeps accepting the repentance of His servant until he is seized by the agony of death.& It means that believing and repenting at the time of the agony of death is not credible in the sight of Allah. Similarly, in the mortal world, Taubah (repentance) could be accepted if done before the actual falling of the Divine punishment. Once the punishment strikes, Taubah is not accepted. The event related to the people of Sayyidna Yunus going to appear towards the end of the Surah in which their Taubah was accepted falls under this very rule. They had seen the punishment coming from a distance. Moved earnestly, weeping and wailing, they made their Taubah in all sincerity. Therefore, the pun¬ishment was withdrawn. Had it struck them, their Taubah would have remained unaccepted.

(آیت) اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ۭ اٰۗلْــٰٔنَ : یعنی کیا تم ایمان اس وقت لاؤ گے جب تم پر عذاب واقع ہوجائے گا خواہ موت کے وقت یا اس سے پہلے ہی، مگر اس وقت تمہارے ایمان کے جواب میں یہ کہا جائے گا اٰۗلْــٰٔنَ کیا اب ایمان لائے ہو، جب کہ ایمان کا وقت گزر چکا، جیسے غرق ہونے کے وقت فرعون نے جب کہا (آیت) اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ، جواب میں کہا جائے گا اٰۗلْــٰٔنَ ، اور اس کا یہ ایمان قبول نہیں کیا گیا، کیونکہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہی رہتا ہے جب تک کہ وہ غرغرہ موت میں گرفتار نہ ہوجائے یعنی غرغرہ موت کے وقت کا ایمان اور توبہ اللہ کے نزدیک معتبر نہیں، اسی طرح دنیا میں وقوع عذاب سے پہلے پہلے توبہ قبول ہوسکتی ہے، جب عذاب آپڑے پھر توبہ قبول نہیں ہوتی، آخر سورت میں قوم یونس (علیہ السلام) کا جو واقعہ آرہا ہے کہ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، وہ اسی ضابطے کے ما تحت ہے کہ انہوں نے عذاب کو دور سے آتا ہوا دیکھ کر سچے دل سے الحاح وزاری کے ساتھ توبہ کرلی اس لئے عذاب ہٹا لیا گیا، اگر عذاب ان پر واقع ہوجاتا پھر توبہ قبول نہ ہوتی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖ۝ ٠ ۭ اٰۗلْــٰٔنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۝ ٥١ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) وقع الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] ، ( و ق ع ) الوقوع کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔ إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) کہ اب تو جھٹلا رہے ہو اور جس وقت تم پر وہ عذاب آئے گا، تب تصدیق کرو گے، اس پر بھی وہ ہاں کہیں تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ نزول عذاب کے وقت تم سے کہا جائے گا ہاں اب عذاب کے خوف سے ایمان لاتے ہو حالانکہ پہلے سے تم بطور مذاق اور تکذیب کے اس کی جلدی مچایا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖط ا آ لْءٰنَ وَقَدْکُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ) عذاب جب واقعتا ظاہر ہوجائے گا تو اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:51) اثم اذا ما۔ الف استفہام کے لئے۔ ثم پھر اذا ما۔ یعنی کب۔ تب۔ بہ۔ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ بھی ہوسکتا ہے اور عذاب بھی۔ پھر کیا تم اس (عذاب) کے واقع ہونے پر ہی ایمان لاؤ گے۔ پھر کیا جب آہی جائے گا تو تم ایمان لاؤ گے۔ (اصل میں منکرین اسلام کا عذاب پر ایمان ہی نہ تھا تب ہی تو وہ کہتے تھے : ویقولون متیٰ ھذا الوعد ان کنتم صدقین (آیۃ 48) اور اسی لئے وہ اس کی جلدی مچا رہے ہیں) الئن۔ ہر وہ لمحہ جو ماضی اور مستقبل کے مابین فرض کیا جاوے اسے الئن کہتے ہیں جیسے الئن افعل کذا میں اب کرتا ہوں الئن کا لفظ ہمیشہ الف لام تعریف کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ان اصل میں ادان تھا۔ ہمزہ کو حذف کرکے واؤ کو لاف سے بدلا اس کے ساتھ الف لام تعریف کا شامل کرلیا تو الئن ہوگیا۔ ظرف زمان ہے مبنی برفتح۔ بمعنی اب۔ الئن۔ ا الان ہے۔ پہلا الف استفہام کے لئے ہے تقدیر کلام یوں ہے ویقال لہم الئن تؤمنون ای حین وقع العذاب۔ اور ان سے کہا جائے گا کیا تم اب ایمان لاتے ہو۔ جب عذاب وقوع پذیر ہوچکا۔ وقد کنتم بہ تستعجلون ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب عذاب کے لئے ہے واو حالیہ ہے حالانکہ تم اس کی جلدی مچا رہے تھے (اس کے جلدی نازل ہونے کے لئے بیتاب تھے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی عذاب آنے پر ایمان کب قبول ہوگا اس واسطے بھی تو عبث ہے۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اثم اذا ما وقع امنتم بہ کیا پھر جب وہ مطلوبہ عذاب آجائے گا تو (پشیمان ہو گے اور) عذاب پر یا عذاب کی خبردینے والے پر ایمان لاؤ گے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب تم پر عذاب آجائے گا تو کیا اس وقت بھی عذاب کی جلدی مچاؤ گے ‘ پھر اس وقت عذاب کو یا عذاب کی خبر دینے والے کو مانو گے جبکہ ایمان سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ آلن (آخرت کا عذاب دینے کے بعد یا موت کے گھنگھرو بولنے کے وقت جب تم ایمان لاؤ گے تو اس وقت تم سے کہا جائے گا) کیا اب (تم ایمان لائے ‘ ایسے وقت میں تو ایمان بےسود ہے) ۔ وقد کنتم بہ تستعجلون۔ حالانکہ (تکذیب و استہزاء کے طور پر) تم عذاب کے جلد آجانے کے خواستگار تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖ ) کیا جب عذاب واقع ہوجائے گا اس وقت ایمان لاؤ گے ؟ (اس وقت ایمان لانا بےفائدہ ہوگا اور اس وقت تصدیق نافع نہ ہوگی) (اآلْءٰنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ) جب عذاب آجائے گا تو سوال ہوگا کیا اب تصدیق کرتے ہو حالانکہ تم (بقصد تکذیب) اس کی جلدی مچایا کرتے تھے۔ اس وقت کا ایمان لانا اور تصدیق کرنا فائدہ مند نہ ہوگا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69: یہاں تقدیم وتاخیر ہے اصل میں یوں تھا۔ “ ءَ اِذَا مَا وَقَعَ ثُمَّ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ” اور “ ثُمَّ ” استبعاد کے لیے ہے یعنی تم عذاب کو اس طرح جلدی مانگتے ہو گویا کہ جب عذاب آجائے گا تو پھر تم ایمان لے آؤ گے یہ بات تو پہلے سے بھی زیادہ تعجب انگیز اور بعید از عقل ہے۔ “ ءَاِذَا مَا وَقَعَ العذاب و حل بکم حقیقة اٰمنتم به وجیء بثم دلالة علی زیادة الاستبعاد ” (روح ج 11 ص 124) ۔ 70: اس سے پہلے “ یقال ” مقدر ہے اور اس کے بعد “ اٰمنتم ” یعنی جب عذاب آگیا اور منکرین عذاب دیکھ کر ایمان لے آئے تو ان سے کہا جائے گا کہ اب عذاب دیکھ کر ایمان لاتے ہو اور ایسے ایمان سے نفع کی امید رکھتے ہو حالانکہ تم اس عذاب کو بطور استہزاء و تمسخر جلدی مانگتے تھے یہ توبیخ و تہدید کے طور پر کہا جائے گا۔ “ اٰلْئٰنَ تؤمنون ترجون الانتفاع بالایمان مع انکم کنتم قبل ذلک به تستعجلون علی سبیل السخریة والاستھزاء ” (کبیر ج 17 ص 109) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

51 تو کیا پھر اس وقت جس وقت وہ عذاب نازل ہوگا اور تم پر آپڑے گا تو کیا اس وقت اس پر ایمان لائو گے اس وقت کہاجائے گا اب اس کی تصدیق کرتے ہو اور اس عذاب پر ایمان لاتے ہو حالانکہ تم ہی اس عذاب کی جلدی کیا کرتے تھے یعنی جو وقت عذاب کی تصدیق کا ہے اور اس وقت تصدیق نافع بھی ہے تو ایمان نہیں لاتے جس وقت عذاب آجائے گا اس وقت ایمان لانا مفید اور نافع نہ ہوگا تو تم ایمان لائو گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عذاب آئے پر ایمان لانا کب قبول ہوگا اس واسطے پوچھو تو بھی عبث