Surat Younus

Surah: 10

Verse: 84

سورة يونس

وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰقَوۡمِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ فَعَلَیۡہِ تَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّسۡلِمِیۡنَ ﴿۸۴﴾

And Moses said, "O my people, if you have believed in Allah , then rely upon Him, if you should be Muslims."

اور موسیٰ ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa encouraged His People to put Their Trust in Allah Allah tells: وَقَالَ مُوسَى يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ امَنتُم بِاللّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ And Musa said: "O my people! If you have believed in Allah, then put your trust in Him if you are Muslims. Allah is sufficient for those who put their trust in Him. أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ Is not Allah sufficient for His servant! (39:36) وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ And whosoever puts his trust in Allah, then He will suffice him. (65:3) Allah combines worship and reliance in many places. He said: فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ So worship Him and put your trust in Him. (11:123) قُلْ هُوَ الرَّحْمَـنُ ءَامَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا Say: "He is the Most Gracious (Allah), in Him we believe, and in Him we put our trust...(67:29) and, رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلً (He alone is) the Lord of the east and the west; none has the right to be worshipped but He. So take Him (alone) as a protector. (73:9) And Allah commanded the believers to say many times in their Salah: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ You (Alone) we worship, and You (Alone) we ask for help (for each and everything). (1:5) The Children of Israel complied with this command and:

اللہ پر مکمل بھروسہ ایمان کی روح حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل سے فرماتے ہیں کہ اگر تم مومن مسلمان ہو تو اللہ پر بھروسہ رکھو جو اس پر بھروسہ کرے وہ اسے کافی ہے عبادت و توکل دونوں ہم پلہ چیزیں ہیں ۔ فرمان رب ہے ( فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ١٢٣؀ۧ ) 11-ھود:123 ) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ رکھ ۔ ایک اور آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ کہہ دے کہ رب رحمن پر ہم ایمان لائے اور اسی کی ذات پاک پر ہم نے توکل کیا ۔ فرماتا ہے مشرق و مغرب کا رب جو عبادت کے لائق معبود ہے ، جس کے سوا پرستش کے لائق اور کوئی نہیں ۔ تو اسی کو اپنا وکیل و کارساز بنا لے ۔ تمام ایمانداروں کو جو سورت پانچوں نمازوں میں تلاوت کرنے کا حکم ہوا اس میں بھی ان کی زبانی اقرار کرایا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔ بنو اسرائیل نے اپنے نبی علیہ السلام کا یہ حکم سن کر اطاعت کی اور جواباً عرض کیا کہ ہمارا بھروسہ اپنے رب پر ہی ہے ۔ پروردگار تو ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا کہ وہ ہم پر غالب رہ کر یہ سمجھنے لگیں کہ اگر یہ حق پر ہوتے اور ہم باطل پر ہوتے تو ہم ان پر غالب کیسے رہ سکتے یہ مطلب بھی اس دعا کا بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ہم پر ان کے ہاتھوں عذاب مسلط نہ کرانا ، نہ اپنے پاس سے کوئی عذاب ہم پر نازل فرما کہ یہ لوگ کہنے لگیں کہ اگر بنی اسرائیل حق پر ہوتے تو ہماری سزائیں کیوں بھگتتے یا اللہ کے عذاب ان پر کیوں اترتے؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ ہم پر غالب رہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ کہیں ہمارے سچے دین سے ہمیں ہٹانے کے لیے کوششیں کریں ۔ اور اے پروردگار ان کافروں سے جنہوں نے حق سے انکار کر دیا ہے حق کو چھپایا لیا تو ہمیں نجات دے ، ہم تجھ پر ایمان لائے ہیں اور ہمارا بھروسہ صرف تیری ذات پر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 بنی اسرائیل، فرعون کی طرف سے جس ذلت اور رسوائی کا شکار تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی، اس لئے وہ سخت پریشان تھے، بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے انہوں نے یہ تک کہہ دیا، اے موسٰی، جس طرح تیرے آنے سے پہلے ہم فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے تکلیفوں میں مبتلا تھے، تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں کہا تھا کہ امید ہے کہ میرا رب جلدی تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ تم صرف ایک اللہ سے مدد چاہو اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو (ملاحظہ ہو سورت الا عراف آیات 128، 129) (قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا باللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ 128؁ قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ 129؀ ) یہاں بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں تلقین کی کہ اگر تم اللہ کے سچے فرمانبردار ہو تو اسی پر توکل کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور سچا نبی ثابت ہونے پر بھی فرعون کے ظلم میں کمی نہ آئی، بلکہ وہ اور بڑھ گیا۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے شکوہ کیا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی اور آپ کے آنے پر بھی ہمیں ایذا ہی دی گئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں صبر اور توکل کی تلقین فرمائی۔ دیکھیے سورة اعراف (١٢٨، ١٢٩) زیر تفسیر آیت میں اللہ پر توکل کو ایمان اور اسلام کا لازمی نتیجہ قرار دیا گیا، جیسا کہ دوسری آیات میں ایمان اور توکل یا عبادت اور توکل کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة ہود (١٢٣) ، ملک (٢٩) اور فاتحہ (٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ فَعَلَيْہِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ۝ ٨٤ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ اسی پر بھروسہ کرو جب کہ تم مومن ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81. Such an address could, obviously, not be directed to a community of unbelievers. The Prophet Moses' statement makes it absolutely clear that the Israelites of those days were believers. Accordingly, Moses; (peace be on him) exhorted them not to be unnerved by Pharaoh's might, that they put their trust in God's power if indeed they were true believers as they claimed,

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :81 ظاہر ہے کہ یہ الفاظ کسی کافر قوم کو خطاب کر کے نہیں کہے جا سکتے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد صاف بتا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم اس وقت مسلمان تھی ، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو یہ تلقین فرما رہے تھے کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو ، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے ، تو فرعون کی طاقت سے خوف نہ کھاؤ بلکہ اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٤۔ ٨٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے جو ایمان لا چکے تھے یہ کہا کہ جب تم ایمان لاچکے اور مسلمان ہوگئے تو اب خدا ہی پر بھروسہ کرو اور فرعون اور اس کے گروہ کا کوئی خوف نہ کرو ان لوگوں نے کہا کہ ہاں ہم نے خدا پر بھروسہ کرلیا اور پھر خدا سے دعا کی اے خدا ہم کو اس ظالم قوم کے فتنہ سے بچائیو اور ان کو ہم پر فتحیاب نہ کیجیو نہیں تو فرعون اور اس کی ساری قوم یہی کہیں گے کہ ہم ہی حق پر ہیں اور ایسی باتیں دل میں سوچ کر اور زبان سے کہہ کر یہ لوگ فتنہ میں پڑیں گے۔ مجاہد (رض) کا یہی قول ہے کہ ان لوگوں نے یہی دعا کی تھی کہ یا اللہ تو ان کو ہم پر غلبہ نہ دے اور اپنی رحمت سے اس ظالم قوم کے ظلم سے بچا کیوں کہ ہم تجھ پر ایمان لاچکے ہیں اور تجھی پر بھروسہ کئے ہوئے بیٹھے ہیں۔ جس طرح حکم برداری کے لئے توکل ضرور ہے اسی طرح توکل کے لئے صبر لازم ہے کیونکہ بےصبر آدمی حکم برداری کی تکلیفوں پر قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ان تکلیفوں کے اجر کا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر رکھ سکتا ہے اسی واسطے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایمان واسلام کے ساتھ صبر و توکل دونوں کا ذکر فرمایا اور یہی تربیت قرآن شریف کی ہے چناچہ اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ایمان اور اسلام کی تفسیر میں صحیح مسلم کی حضرت عمر (رض) کی حدیث مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اس کے فرشتوں رسولوں اور آسمانی کتابوں کے موجود ہونے کا دل میں یقین رکھنا اس کو ایمان کہتے ہیں اس دلی یقین کو ظاہر کرنے کے لئے زبان سے ان باتوں کا اقرار کرنا اور ہاتھ پیروں سے نماز روزہ حج زکوٰۃ ان ارکان اسلام کو بجا لانا اس کو اسلام کہتے ہیں۔ ١ ؎ نماز کے بجا لانے میں مثلاً جاڑے کے موسم کا وضو روزہ میں مثلاً بھوک پیاس یہ تکلیف کی چیزیں ہیں ان تکلیفوں پر صبر کرنا اور اس صبر کے اجر کا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر رکھنا یہی صبر و توکل ہے جس کا ذکر اسلام کے ذکر کے ساتھ آتا ہے اور اسی سبب سے صحیح روایتوں میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبر کو نصف ایمان فرمایا ہے۔ ٢ ؎ ایمان و اسلام کی آیتوں اور حدیثوں میں قیامت کے یقین کا اس لئے ذکر آتا ہے کہ آدمی کو قیامت کے دن کی سزا و جزا کا جب تک پورا یقین نہ ہو تو وہ عقبیٰ کی جزا کی امید پر کوئی نیک کام کرسکتا ہے نہ اس دن کی سزا کے خوف سے برے کام کو چھوڑ سکتا ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٢٧ ج ١ کتاب الایمان ومشکوۃ ص ١١ کتاب الایمان۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٦٣ ج ٢ باب الترغیب نے الصبر الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:84) یقوم۔ اے میری قوم۔ یہاں قوم سے مراد وہ نوجوان ہیں جو آیۃ ماقبل میں بالفاظ ذریۃ من قومہ مذکور ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ اس آیت میں اللہ پر توکل کو ایمان اور اسلام کا لازمی نتیجہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ دوسری آیات میں ایمان اور توکل یا عبادت اور توکل کو ایک ساتھ بیان فرمایا ہے۔ (دیکھئے ہود آیت 32 سورة ملک آیت 92 اور سورة فاتحہ آیت 4) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ توکل کے لیے یہ لازم ہے کہ خلق پر نظر رہے طمعا یا خوفا پس یہ منافی دعاء کے نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقال موسیٰ یقوم کنتم امنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین۔ اور موسیٰ نے (جب مؤمنوں کو خوف زدہ دیکھا تو) کہا : اے میری قوم ! اگر تم اللہ پر ایمان لے آئے ہو تو اسی پر اعتماد اور بھروسہ کرو (فرعون اور اس کے آدمیوں سے مت ڈرو) اگر (ا اللہ کے فیصلہ کو) مانتے ہو اور مخلص ہو تو اللہ ہی پر توکل کرو۔ اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ کی جزاء محذوف ہے اور اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ کی جزاء فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا ہے۔ ایمان وجوب توکل کا مقتضی ہے ‘ اسلئے تَوَکَّلُوْا کا اٰمَنْتُمْ سے تعلق ہے اور جب تک دلوں میں اخلاص نہ ہو اور اپنی ہستی کو فیصلۂ خداوندی کے سپرد نہ کردیا جائے ‘ اس وقت تک حصول توکل نہیں ہو سکتا۔ توکل نفسانی خواہشات کو احکام الٰہی کے ساتھ مخلوط کرنے کی صورت میں حاصل نہیں ہوتا۔ توکل صوفیہ کے مقامات میں سے ایک مقام ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

100: جب بنی اسرائیل فرعون اور فرعونیوں کے مظالم و شدائد سے تنگ آگئے اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکویٰ کیا کہ آپ کی آمد سے پہلے ہم یکساں طور پر فرعون کی طرف سے مصائب و آلام میں مبتلا ہیں کیا ہم ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے۔ “ اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ” (اعراف رکوع 15) ۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تسلی دی کہ جب تم اللہ پر ایمان لا چکے ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو اور تسلیم و رضا سے کام لو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ تمہارے دشمن کو ہلاک کر کے اس کے تمام مقبوضات کو تمہارے قبضہ میں دیدے گا۔ پھر تمہارا بھی پتہ چل جائے گا کہ تم کسی ڈگر پر چلتے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

84 اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہو تو تم اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھو اور اسی پر توکل کرو بشرطیکہ تم صحیح مطیع اور فرمانبردار ہو یعنی فرعون اور اپنے حکام سے ڈرو نہیں غیر اللہ کا خوف سچے ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوتا۔